سید ذیشان
محفلین
ایک زمانے میں ایک بادشاہ ہوا کرتا تھا۔ ہمارا تمہارا خدا بادشاہ۔ وہ بادشاہ نہایت ذہین و فطین تھا اور تمام بادشاہوں کی طرح حسن کا دلدادہ تھا۔ لیکن ملک کے تمام حسن کو اپنی جاگیر سمجھتا تھا۔ لہٰذا رعایا کی شادی بیاہ کے سخت خلاف تھا۔ اس نے اسمبلی میں قانون پاس کروایا، جس کو وکیلوں کی طرف سے بھی بھرپور سپورٹ ملی، کہ آج کے بعد اس ملک میں کوئی شادی نہیں ہو گی۔ اسی زمانے کا سب سے بڑا پادری، نام جس کا ولنٹائن تھا، وہ ”دل پھینک“ تخلص کرتا تھا۔ بادشاہ کے پاس جا کر مجرا بجا لایا۔ جس سے بادشاہ کا دل باغ باغ ہو گیا۔ پادری نے فرمایا، ”اے ظل الٰہی، یہ کیا غضب کر دیا۔ ہماری تو روزی پر گویا آپ نے لات ہی مار دی۔“ بادشاہ نے کہا، ”کیسے بھلا؟“ پادری گویا ہوا،”وہ ایسے کہ نکاح کے کاروبار سے تو ہمارا جہاں آباد تھا۔ دو عربی کے بول پڑھوا کر ہمیں کچھ انعام و اکرام مل جاتا تھا“۔ بادشاہ نے کہا، ”بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی۔ انعام و اکرام سے ہم تمہیں نوازتے ہیں۔“ اس پر بادشاہ نے پادری کو انعام و اکرام سے نواز کرخانقاہ کا راستہ دکھایا۔ ”یہاں سے سیدھا جاؤ، دائیں طرف مڑ لو۔ باقی راستہ چوبدار سے معلوم کر لو۔ یا پھر گوگل میپس کو استعمال میں لاؤ۔ یہ موئی ٹیکنالوجی تو اپنی سمجھ سے باہر ہے!“
”جہاں پناہ، ہم کونسا کوئی ہیکر ہیں البتہ چند ایک ڈیٹنگ سائٹس پر رجسٹر کر رکھا ہے۔ ٹیکنالوجی کے اس حد تک استعمال کو ہم مباح گردانتے ہیں“
پادری ولنٹائن خانقاہ جا کر بادشاہ کی دی ہوئی تھیلی کھولتا ہے تو اس میں ڈالر بھرے ہوتے ہیں۔ ولنٹائین اسی وقت غصے سے لال پیلا ہو جاتا ہے۔ ”یہ موا بادشاہ بھی امریکی ایجنٹ ہے۔ ڈالر کی جگہ چمڑے یا طلائی سکوں کی کرنسی استعمال ہونی چاہیے۔ یہ بادشاہ کافر و زندیق ہے“
پادری بھی نہایت شاطر تھا۔ آن ہی آن میں ایک خوبصورت دوشیزہ کا روپ دھار کر بادشاہ سلامت کی خدمت میں حاظر ہوتا (ہوتی؟) ہے۔ بادشاہ اس وقت نظیر اکبر آبادی کا کلام پڑھ رہا ہوتا ہے۔
پری کا سراپا
خُوں ریز کرشمہ، ناز و ستم، غمزوں کی جھُکاوٹ ویسی ہے
مژگاں کی سناں، نظروں کی انی، ابرو کی کھِچاوٹ ویسی ہے
قتّال نگہ اور ڈشٹ غضب، آنکھوں کی لَگاوٹ ویسی ہے
الخ
جب اس پری پیکر دوشیزہ پر نظر پڑتی ہے تو بے اختیار پکار اٹھتا ہے۔ ”اے دوشیزہ، مجھے اپنی 999 ملکاوں کی قسم، تم ہوبہو اس کلام کا جیتا جاگتا نمونہ ہو۔ یہ کہہ کر بادشاہ اس دوشیزہ (پادری ) پر ہزار جان سے عاشق ہو جاتا ہے۔“
عاشق ہوتے ہی اس کا رنگ زرد اور چشم تر ہو جاتے ہیں۔ پھر ایک سرد آہ کھینچ کر شہزادے کو یہ شعر سناتا ہے
؎
عاشقاں را سہ نشانی اے پسر
رنگ زرد و آہِ سرد و چشمِ تر
بادشاہ نے فوراً سے اس سے شادی کی ٹھانی۔ اس پر دوشیزہ نما پادری نے یہ اشعار پڑھے (نوٹ: قوسین میں بند اشعار دل میں ہی پڑھے)
اے ضلِ الہ سر آنکھوں پر فرمان ترا
تو کہہ تو میں تیرے نام کروں جہان اپنا
(دو بول نکاح کے بولنا کل جہان مرا
ہی ہی ہا ہا ہی ہی ہا ہا ہی ہی ہا ہا )
اک شرط پر مری سن لے تو اے شہِ شاہاں
ایک عرض جو تو قبول کرے تو میں ہوں ترا
اس پر بادشاہ ہزار جان سے اور فدا ہو گیا (ُکل ایک ملین جان سے فدا ہوگیا۔) کہ محبوب کی خصوصیات میں سے ایک ستائے رکھنا بھی ہے۔
قصہ المختصر، شہزادے کو اپنے والد کے تیور کچھ اچھے نہیں لگتے۔ بغاوت کرتا ہے اور ”غیرت بریگیڈ“ کے نام سے ایک فوج تیار کرتا ہے۔ گھمسان کا رن پڑتا ہے۔ سب ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوتے ہیں، کوئی کسی کا ٹینٹوا دباتا ہے تو کسی کے بال نوچتا ہے۔ آخر میں فتح باطل کی ہی ہوتی ہے۔
شہزادہ اپنے والد کو گرفتار کر کے پوچھتا ہے ”بتا تیرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے“
ایکس-بادشاہ کہتا ہے ”وہی جو ایک بادشاہ دوسرے سے کرتا ہے“
شہزادہ حکم دیتا ہے کہ ایکس-بادشاہ کو قالین میں رول کرکے اس پر ڈنڈے برسائیں جائیں۔
بادشاہ اس وقت کف افسوس ملتا ہے ہے کہ کاش یہ نا کہا ہوتا کہ کہ وہ سلوک کرو جو ایک بادشاہ دوسرے سے کرتا ہے کیونکہ سکندر مقدونی کے سامنے تاتاریوں کی مثال نہیں تھی جنہوں نے خلیفہ معتصم کو اس طرز پر قتل کیا۔
بادشاہ کے آخری کلمات ایک نثری نظم کی صورت میں تھے (زندگی کے آخری چند لمحات میں بحر کے جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتا تھا، یوں نثری نظم ایجاد ہوئی)
حیف ہے تم پر اے غیرت بریگیڈ کے جرنیلِ نا ہنجار
تم سے دو پیار کرنے والے نہ دیکھے گئے
اور اس قدر ظلم کر ڈالا
پادری لاکھ چیخا چلایا کہ میں دوشیزہ نہیں بلکہ ولینٹائن ہوں لیکن نقار خانے میں طوطی کی صدا کہاں سنائی دیتی ہے۔
جبب دونوں کو قتل کر دیا گیا اور شہزادے کو اصل حقیقت کا علم ہوا تو اس کے منہ سے بے اختیار نکلا ”اووپس- مائی بیڈ“
(”مائی ڈیڈ“ یعنی میرے والد کہا تھا لیکن شور و غل کی وجہ سے سب کو ”مائی بیڈ“ سنائی دیا اور اب تک یوں ہی چلا آ رہا ہے)
یہ فروری کی 14 تاریخ تھی۔
اب ہر سال من چلے اس دن کی یاد مناتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
تاریخ الاقوام والملل والملال از ایصال ثواب
تاریخ پادشاہانِ قدیم بہ خامہ ہائے پادشاہانِ فاتح
تاریخِ ویکیپیڈیا شریف
”جہاں پناہ، ہم کونسا کوئی ہیکر ہیں البتہ چند ایک ڈیٹنگ سائٹس پر رجسٹر کر رکھا ہے۔ ٹیکنالوجی کے اس حد تک استعمال کو ہم مباح گردانتے ہیں“
پادری ولنٹائن خانقاہ جا کر بادشاہ کی دی ہوئی تھیلی کھولتا ہے تو اس میں ڈالر بھرے ہوتے ہیں۔ ولنٹائین اسی وقت غصے سے لال پیلا ہو جاتا ہے۔ ”یہ موا بادشاہ بھی امریکی ایجنٹ ہے۔ ڈالر کی جگہ چمڑے یا طلائی سکوں کی کرنسی استعمال ہونی چاہیے۔ یہ بادشاہ کافر و زندیق ہے“
پادری بھی نہایت شاطر تھا۔ آن ہی آن میں ایک خوبصورت دوشیزہ کا روپ دھار کر بادشاہ سلامت کی خدمت میں حاظر ہوتا (ہوتی؟) ہے۔ بادشاہ اس وقت نظیر اکبر آبادی کا کلام پڑھ رہا ہوتا ہے۔
پری کا سراپا
خُوں ریز کرشمہ، ناز و ستم، غمزوں کی جھُکاوٹ ویسی ہے
مژگاں کی سناں، نظروں کی انی، ابرو کی کھِچاوٹ ویسی ہے
قتّال نگہ اور ڈشٹ غضب، آنکھوں کی لَگاوٹ ویسی ہے
الخ
جب اس پری پیکر دوشیزہ پر نظر پڑتی ہے تو بے اختیار پکار اٹھتا ہے۔ ”اے دوشیزہ، مجھے اپنی 999 ملکاوں کی قسم، تم ہوبہو اس کلام کا جیتا جاگتا نمونہ ہو۔ یہ کہہ کر بادشاہ اس دوشیزہ (پادری ) پر ہزار جان سے عاشق ہو جاتا ہے۔“
عاشق ہوتے ہی اس کا رنگ زرد اور چشم تر ہو جاتے ہیں۔ پھر ایک سرد آہ کھینچ کر شہزادے کو یہ شعر سناتا ہے
؎
عاشقاں را سہ نشانی اے پسر
رنگ زرد و آہِ سرد و چشمِ تر
بادشاہ نے فوراً سے اس سے شادی کی ٹھانی۔ اس پر دوشیزہ نما پادری نے یہ اشعار پڑھے (نوٹ: قوسین میں بند اشعار دل میں ہی پڑھے)
اے ضلِ الہ سر آنکھوں پر فرمان ترا
تو کہہ تو میں تیرے نام کروں جہان اپنا
(دو بول نکاح کے بولنا کل جہان مرا
ہی ہی ہا ہا ہی ہی ہا ہا ہی ہی ہا ہا )
اک شرط پر مری سن لے تو اے شہِ شاہاں
ایک عرض جو تو قبول کرے تو میں ہوں ترا
اس پر بادشاہ ہزار جان سے اور فدا ہو گیا (ُکل ایک ملین جان سے فدا ہوگیا۔) کہ محبوب کی خصوصیات میں سے ایک ستائے رکھنا بھی ہے۔
قصہ المختصر، شہزادے کو اپنے والد کے تیور کچھ اچھے نہیں لگتے۔ بغاوت کرتا ہے اور ”غیرت بریگیڈ“ کے نام سے ایک فوج تیار کرتا ہے۔ گھمسان کا رن پڑتا ہے۔ سب ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوتے ہیں، کوئی کسی کا ٹینٹوا دباتا ہے تو کسی کے بال نوچتا ہے۔ آخر میں فتح باطل کی ہی ہوتی ہے۔
شہزادہ اپنے والد کو گرفتار کر کے پوچھتا ہے ”بتا تیرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے“
ایکس-بادشاہ کہتا ہے ”وہی جو ایک بادشاہ دوسرے سے کرتا ہے“
شہزادہ حکم دیتا ہے کہ ایکس-بادشاہ کو قالین میں رول کرکے اس پر ڈنڈے برسائیں جائیں۔
بادشاہ اس وقت کف افسوس ملتا ہے ہے کہ کاش یہ نا کہا ہوتا کہ کہ وہ سلوک کرو جو ایک بادشاہ دوسرے سے کرتا ہے کیونکہ سکندر مقدونی کے سامنے تاتاریوں کی مثال نہیں تھی جنہوں نے خلیفہ معتصم کو اس طرز پر قتل کیا۔
بادشاہ کے آخری کلمات ایک نثری نظم کی صورت میں تھے (زندگی کے آخری چند لمحات میں بحر کے جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتا تھا، یوں نثری نظم ایجاد ہوئی)
حیف ہے تم پر اے غیرت بریگیڈ کے جرنیلِ نا ہنجار
تم سے دو پیار کرنے والے نہ دیکھے گئے
اور اس قدر ظلم کر ڈالا
پادری لاکھ چیخا چلایا کہ میں دوشیزہ نہیں بلکہ ولینٹائن ہوں لیکن نقار خانے میں طوطی کی صدا کہاں سنائی دیتی ہے۔
جبب دونوں کو قتل کر دیا گیا اور شہزادے کو اصل حقیقت کا علم ہوا تو اس کے منہ سے بے اختیار نکلا ”اووپس- مائی بیڈ“
(”مائی ڈیڈ“ یعنی میرے والد کہا تھا لیکن شور و غل کی وجہ سے سب کو ”مائی بیڈ“ سنائی دیا اور اب تک یوں ہی چلا آ رہا ہے)
یہ فروری کی 14 تاریخ تھی۔
اب ہر سال من چلے اس دن کی یاد مناتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
تاریخ الاقوام والملل والملال از ایصال ثواب
تاریخ پادشاہانِ قدیم بہ خامہ ہائے پادشاہانِ فاتح
تاریخِ ویکیپیڈیا شریف
آخری تدوین: