سعدی غالب
محفلین
(میری یہ پوسٹ سب قتیلانِ غالبؔ و طرفدارانِ غالبؔ کے نام
مبارک باد اسدؔ غمخوارِ جانِ دردمند آیا)
علامہ اقبال کی نظم "مرزا غالبؔ" ستمبر 1901 میں "مخزن" میں شائع ہوئی
اگر مرثیہ غالبؔ کو نظر انداز کر دیں تو یہ نظم کسی بڑے شاعر کا پہلا خراج عقیدت ہے، جو غالبؔ کے فکر و فن کونئی معنویت کے ساتھ پیش کرتا ہے۔
فکر ِ انسان پر تری ہستی سے یہ روشن ہوا ٭٭ ہے پر ِ مرغِ تخیل کی رسائی تا کجا
تھا سراپا روح تو، بزمِ سخن پیکر ترا٭٭ زیبِ محفل بھی رہا، محفل سے پنہاں بھی رہا
دید تیری آنکھ کو اس حسن کی منظور ہے
بن کے سوزِ زندگی ہر شے میں جو مستور ہے
محفلِ ہستی تری بربط سے ہے سرمایہ دار ٭٭ جس طرح ندی کے نغموں سے سکوتِ کوہسار
تیری فردوسِ تخیل سے ہے قدرت کی بہار ٭٭ تیری کشتِ فکر سے اگتے ہیں عالم سبزہ زار
زندگی مضمر ہے تیری تحریر میں
تابِ گویائی سے جنبش ہے لبِ تصویر میں
نطق کو سو ناز ہیں تیرے لبِ اعجاز پر ٭٭ محو حیرت ہے ثریا رفعتِ پرواز پر
شاہدِ مضموں تصدق ہے تیرے انداز پر ٭٭ خندہ زن ہے غنچہءِ دلی ، گلِ شیراز پر
آہ!! تو اُجڑی ہوئی دلی میں آرامیدہ ہے
گلشنِ ویمر میں تیرا ہم نوا خوابیدہ ہے
لطفِ گویائی میں تیری ہمسری ممکن نہیں ٭٭ ہو تخیل کا نہ جب تک فکرِ کامل ہم نشیں
ہائے !! اب کیا ہوگئی ہندوستان کی سر زمیں ٭٭ آہ !! اے نظارہ آموز ِ نگاہِ نکتہ بیں
گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے
شمع یہ سودائی ِ دل سوزیِ پروانہ ہے
اے جہاں آباد! اے گہوارہءِ علم و ہنر ٭٭ ہیں سراپا نالہءِ خاموش تیرے بام و در
ذرے ذرے میں تیرے ، خوابیدہ ہیں شمس و قمر ٭٭ یوں تو پوشیدہ ہیں تیری خاک میں لاکھوں گہر
دفن تجھ میں کوئی فخرِ روزگار ایسا بھی ہے؟
تجھ میں پنہاں کوئی موتی آبدار ایسا بھی ہے؟
اس نظم میں 5 بند تھے، بانگِ درا کی ترتیب کے وقت دوسرا بند حذف کر دیا گیا اور نیا بند لکھ کر شامل کیا گیا۔ حذف شدہ بند کے اشعار قابلِ ذکر ہیں کیونکہ اقبالؒ نے دیوانِ غالبؔ کے پہلے شعر کو ٹیپ کا بند قرار دیا تھا
معجز کلک ِ تصور ہے ، یا دیواں ہے یہ٭٭ یا کوئی تفسیر ِ رمزِ فطرتِ انساں ہے یہ
نازشِ موسیٰ کلامی ہائے ہندوستاں ہے یہ ٭٭ نورِ معنیٰ سے دل افروز سخنداناں ہے یہ
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ، ہر پیکرِ تصویر کا
اس نظم میں اقبالؒ نے چار نکتوں پر خاص توجہ دی ہے۔
غالبؔ کےتفکر یا تخیل اور اس کی عظمت پر اظہار و اقرار ملتا ہے ، جیسے فکرِ انساں، مرغ تخیل ، فردوسِ تخیل، کشتِ فکر، رفعتِ پرواز، فکرِ کامل وغیرہ
دوسرا پہلو غالبؔ کی اندرون بینی ہے جو پردہءِ وجود کو چیر کر اسرارِ حیات کا انکشاف کرتی ہے جسے روح، پنہاں ، مستور، مضمر، اعجاز، نورِ معنی، رمزِ فطرت، نگاہِ نکتہ بیں، محو ِ حیرت، ذرے ذرے میں خوابیدہ شمس و قمر، دفن فخرِ روزگار ، کے استعاروں اور کنایوں میں بیان کیا گیا ہے
تیسرا نکتہ وہ ثقافتی روح ہے ، جس کی ترجمانی میں کلام ِ غالبؔ وقف ہے، جسے نظر انداز کر کے نہ تو اس تخلیق کو سمجھنا ممکن ہےاور نہ تخلیق کار کو
حیرت ہوتی ہے کہ غالبؔ پر سب سے اچھی کتاب یادگارِ غالبؔ سمجھی جاتی ہے اور سچائی بھی یہی ہے، مگر حالی نے غالبؔ کی فکر کی عظمتِ فکر اور تخیل کی بلند پروازی کا ذکر نہیں کیا، البتہ نادر خیال، نیا خیال، اچھوتا خیال، جیسے الفاظ استعمال کیےہیں۔
لیکن نواب مصطفےٰ خان شیفتہ صاحب اپنے تذکرہ گلشنِ بے خار میں غالبؔ کے تخیل کی بلندیوں کی طرف جو توجہ دلائی تھی ان کے بعد اس کا ذکر اقبالؒ کی اس نظم میں آیا ہے۔ اور پھر صلاح الدین خدا بخش اور ڈاکٹر بجنوری صاحب اس کو عروج پر پہنچایا
یہ اقبالؒ کی انتقادی بصیرت کی شناخت بھی ہے جسے آج کے نظریہ ساز ناقد برتنے پر مجبور ہو رہے
اس نظم میں پیش کیا گیا آخری نکتہ بہت اہم ہے اور دور رس امکانات کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ غالبؔ کو اس سے پہلے فارسی شعرا کا ہم دوش بتایا گیا تھا، مگر اقبالؒ نے گوئٹے کا ہم نوا قرار دے کر غالبؔ کو آفاقی حدود تک لے جانے میں سبقت لی ہے، یعنی حالی اور بجنوری کے درمیان اقبالؒ ایک سنگ میل ہیں،
اس بات پر خندہ زن ، یا متحیر ہونے کی ضرورت نہیں ہے ، میرے خیال کے مطابق اقبالؒ سے بڑھ کر نہ کوئی غالبؔ شناس ہوا ہے اور نہ ہی غالبؔ کی صحیح منزلت سے آگاہ ہو سکا
مبارک باد اسدؔ غمخوارِ جانِ دردمند آیا)
علامہ اقبال کی نظم "مرزا غالبؔ" ستمبر 1901 میں "مخزن" میں شائع ہوئی
اگر مرثیہ غالبؔ کو نظر انداز کر دیں تو یہ نظم کسی بڑے شاعر کا پہلا خراج عقیدت ہے، جو غالبؔ کے فکر و فن کونئی معنویت کے ساتھ پیش کرتا ہے۔
فکر ِ انسان پر تری ہستی سے یہ روشن ہوا ٭٭ ہے پر ِ مرغِ تخیل کی رسائی تا کجا
تھا سراپا روح تو، بزمِ سخن پیکر ترا٭٭ زیبِ محفل بھی رہا، محفل سے پنہاں بھی رہا
دید تیری آنکھ کو اس حسن کی منظور ہے
بن کے سوزِ زندگی ہر شے میں جو مستور ہے
محفلِ ہستی تری بربط سے ہے سرمایہ دار ٭٭ جس طرح ندی کے نغموں سے سکوتِ کوہسار
تیری فردوسِ تخیل سے ہے قدرت کی بہار ٭٭ تیری کشتِ فکر سے اگتے ہیں عالم سبزہ زار
زندگی مضمر ہے تیری تحریر میں
تابِ گویائی سے جنبش ہے لبِ تصویر میں
نطق کو سو ناز ہیں تیرے لبِ اعجاز پر ٭٭ محو حیرت ہے ثریا رفعتِ پرواز پر
شاہدِ مضموں تصدق ہے تیرے انداز پر ٭٭ خندہ زن ہے غنچہءِ دلی ، گلِ شیراز پر
آہ!! تو اُجڑی ہوئی دلی میں آرامیدہ ہے
گلشنِ ویمر میں تیرا ہم نوا خوابیدہ ہے
لطفِ گویائی میں تیری ہمسری ممکن نہیں ٭٭ ہو تخیل کا نہ جب تک فکرِ کامل ہم نشیں
ہائے !! اب کیا ہوگئی ہندوستان کی سر زمیں ٭٭ آہ !! اے نظارہ آموز ِ نگاہِ نکتہ بیں
گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے
شمع یہ سودائی ِ دل سوزیِ پروانہ ہے
اے جہاں آباد! اے گہوارہءِ علم و ہنر ٭٭ ہیں سراپا نالہءِ خاموش تیرے بام و در
ذرے ذرے میں تیرے ، خوابیدہ ہیں شمس و قمر ٭٭ یوں تو پوشیدہ ہیں تیری خاک میں لاکھوں گہر
دفن تجھ میں کوئی فخرِ روزگار ایسا بھی ہے؟
تجھ میں پنہاں کوئی موتی آبدار ایسا بھی ہے؟
اس نظم میں 5 بند تھے، بانگِ درا کی ترتیب کے وقت دوسرا بند حذف کر دیا گیا اور نیا بند لکھ کر شامل کیا گیا۔ حذف شدہ بند کے اشعار قابلِ ذکر ہیں کیونکہ اقبالؒ نے دیوانِ غالبؔ کے پہلے شعر کو ٹیپ کا بند قرار دیا تھا
معجز کلک ِ تصور ہے ، یا دیواں ہے یہ٭٭ یا کوئی تفسیر ِ رمزِ فطرتِ انساں ہے یہ
نازشِ موسیٰ کلامی ہائے ہندوستاں ہے یہ ٭٭ نورِ معنیٰ سے دل افروز سخنداناں ہے یہ
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ، ہر پیکرِ تصویر کا
اس نظم میں اقبالؒ نے چار نکتوں پر خاص توجہ دی ہے۔
غالبؔ کےتفکر یا تخیل اور اس کی عظمت پر اظہار و اقرار ملتا ہے ، جیسے فکرِ انساں، مرغ تخیل ، فردوسِ تخیل، کشتِ فکر، رفعتِ پرواز، فکرِ کامل وغیرہ
دوسرا پہلو غالبؔ کی اندرون بینی ہے جو پردہءِ وجود کو چیر کر اسرارِ حیات کا انکشاف کرتی ہے جسے روح، پنہاں ، مستور، مضمر، اعجاز، نورِ معنی، رمزِ فطرت، نگاہِ نکتہ بیں، محو ِ حیرت، ذرے ذرے میں خوابیدہ شمس و قمر، دفن فخرِ روزگار ، کے استعاروں اور کنایوں میں بیان کیا گیا ہے
تیسرا نکتہ وہ ثقافتی روح ہے ، جس کی ترجمانی میں کلام ِ غالبؔ وقف ہے، جسے نظر انداز کر کے نہ تو اس تخلیق کو سمجھنا ممکن ہےاور نہ تخلیق کار کو
حیرت ہوتی ہے کہ غالبؔ پر سب سے اچھی کتاب یادگارِ غالبؔ سمجھی جاتی ہے اور سچائی بھی یہی ہے، مگر حالی نے غالبؔ کی فکر کی عظمتِ فکر اور تخیل کی بلند پروازی کا ذکر نہیں کیا، البتہ نادر خیال، نیا خیال، اچھوتا خیال، جیسے الفاظ استعمال کیےہیں۔
لیکن نواب مصطفےٰ خان شیفتہ صاحب اپنے تذکرہ گلشنِ بے خار میں غالبؔ کے تخیل کی بلندیوں کی طرف جو توجہ دلائی تھی ان کے بعد اس کا ذکر اقبالؒ کی اس نظم میں آیا ہے۔ اور پھر صلاح الدین خدا بخش اور ڈاکٹر بجنوری صاحب اس کو عروج پر پہنچایا
یہ اقبالؒ کی انتقادی بصیرت کی شناخت بھی ہے جسے آج کے نظریہ ساز ناقد برتنے پر مجبور ہو رہے
اس نظم میں پیش کیا گیا آخری نکتہ بہت اہم ہے اور دور رس امکانات کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ غالبؔ کو اس سے پہلے فارسی شعرا کا ہم دوش بتایا گیا تھا، مگر اقبالؒ نے گوئٹے کا ہم نوا قرار دے کر غالبؔ کو آفاقی حدود تک لے جانے میں سبقت لی ہے، یعنی حالی اور بجنوری کے درمیان اقبالؒ ایک سنگ میل ہیں،
اس بات پر خندہ زن ، یا متحیر ہونے کی ضرورت نہیں ہے ، میرے خیال کے مطابق اقبالؒ سے بڑھ کر نہ کوئی غالبؔ شناس ہوا ہے اور نہ ہی غالبؔ کی صحیح منزلت سے آگاہ ہو سکا