مرزا عظیم احمد چغتائی شبنم رومانی ٭ غزلیں ( 1928-2009)

تمام عمر کی آوارگی پہ بھاری ہے
وہ ایک شب جو تری یاد میں گزاری ہے

سنا رہا ہوں بڑی سادگی سے پیار کے گیت
مگر یہاں تو عبادت بھی کاروباری ہے

نگاہ شوق نے مجھ کو یہ راز سمجھایا
حیا بھی دل کی نزاکت پہ ضرب کاری ہے

مجھے یہ زعم کہ میں حسن کا مصور ہوں
انہیں یہ ناز کہ تصویر تو ہماری ہے

یہ کس نے چھیڑ دیا رخصت بہار کا گیت
ابھی تو رقص نسیم بہار جاری ہے

خفا نہ ہو تو دکھا دیں ہم آئنہ تم کو
ہمیں قبول کہ ساری خطا ہماری ہے

جہاں پناہ محبت جناب شبنمؔ ہیں
زبان شعر میں فرمان شوق جاری ہے
شبنم رومانی
 
یہی سلوک مناسب ہے خوش گمانوں سے
پٹک رہا ہوں میں سر آج کل چٹانوں سے

ہوا کے رحم و کرم پر ہے برگ آوارہ
زمین سے کوئی رشتہ نہ آسمانوں سے

میں اک رقیب کی صورت ہوں درمیاں میں مگر
زمیں کی گود ہری ہے انہی کسانوں سے

وہ دور افق میں اڑانیں ہیں کچھ پرندوں کی
اتر رہے ہیں نئے لفظ آسمانوں سے

ہر اک زبان دریچہ ہے خانۂ جاں کا
سو مجھ کو پیار ہے دنیا کی سب زبانوں سے
شبنم رومانی
 
اب انہیں مجھ سے کچھ حجاب نہیں
اب ان آنکھوں میں کوئی خواب نہیں

میری منزل ہے روشنی لیکن
میری قدرت میں آفتاب نہیں

تجھ کو ترتیب دے رہا ہوں میں
میری غزلوں کا انتخاب نہیں

اب سنا ہے کہ میرے دل کی طرح
ایک صحرا ہے ماہتاب نہیں

شام اتنی کبھی اداس نہ تھی
کیوں تری زلف میں گلاب نہیں

یوں نہ پڑھیے کہیں کہیں سے ہمیں
ہم بھی انسان ہیں کتاب نہیں

کہکشاں سو رہی ہے اے شبنمؔ
حسن آنگن میں محو خواب نہیں
شبنم رومانی
 
خواب دیکھوں کہ رت جگے دیکھوں
وہی گیسو کھلے کھلے دیکھوں

رنگ آہنگ روشنی خوشبو
گھٹتے بڑھتے سے دائرے دیکھوں

کیوں نہ دیکھوں میں روز و شب اپنے
کیوں پہاڑوں کے سلسلے دیکھوں

میں سمیع و بصیر ہوں ایسا
سنوں آنسو تو قہقہے دیکھوں

حال اک لمحۂ گریزاں ہے
مڑ کے دیکھوں کہ سامنے دیکھوں

تجھ کو چھونے بڑھوں تو اپنے ہاتھ
پتھروں میں دبے ہوئے دیکھوں

میرا چہرہ بھی اب نہیں میرا
اب کن آنکھوں سے میں تجھے دیکھوں
شبنم رومانی
 
میرے پیار کا قصہ تو ہر بستی میں مشہور ہے چاند
تو کس دھن میں غلطاں پیچاں کس نشے میں چور ہے چاند

تیری خندہ پیشانی میں کب تک فرق نہ آئے گا
تو صدیوں سے اہل زمیں کی خدمت پر مامور ہے چاند

اہل نظر ہنس ہنس کر تجھ کو ماہ کامل کہتے ہیں!
تیرے دل کا داغ تجھی پر طنز ہے اور بھرپور ہے چاند

تیرے رخ پر زردی چھائی میں اب تک مایوس نہیں
تیری منزل پاس آ پہنچی میری منزل دور ہے چاند

کوئی نہیں ہم راز تمنا کوئی نہیں دم ساز سفر
راہ وفا میں تنہا تنہا چلنے پر مجبور ہے چاند

عشق ہے اور کانٹوں کا بستر حسن ہے اور پھولوں کی سیج
تجھ کو کیسے سمجھاؤں یہ دنیا کا دستور ہے چاند

تیری تابش سے روشن ہیں گل بھی اور ویرانے بھی
کیا تو بھی اس ہنستی گاتی دنیا کا مزدور ہے چاند
شبنم رومانی
 
لمحوں کا پتھراؤ ہے مجھ پر صدیوں کی یلغار
میں گھر جلتا چھوڑ آیا ہوں دریا کے اس پار

کس کی روح تعاقب میں ہے سائے کے مانند
آتی ہے نزدیک سے اکثر خوشبو کی جھنکار

تیرے سامنے بیٹھا ہوں آنکھوں میں اشک لیے
میرے تیرے بیچ ہو جیسے شیشے کی دیوار

میرے باہر اتنی ہی مربوط ہے بے ربطی
میرے اندر کی دنیا ہے جتنی پر اسرار

بند آنکھوں میں کانپ رہے ہیں جگنو جگنو خواب
سر پر جھول رہی ہے کیسی نادیدہ تلوار
شبنم رومانی
 
آدھا جیون بیتا آہیں بھرنے میں
آدھی عمر توازن قائم کرنے میں

دنیا تو پتھر ہے پتھر کیا جانے
کتنے آنسو چیخ رہے ہیں جھرنے میں

اک طوفان اور ایک جزیرہ حائل ہے
ڈوبنے اور سمندر پار اترنے میں

اک پل جوڑ رہا ہے دو دنیاؤں کو
اک پل حائل ہے جینے اور مرنے میں

مرنے والا دیکھ رہا تھا سب ناٹک
سب مصروف تھے اپنی جیبیں بھرنے میں
شبنم رومانی
 
سنگ چہرہ نما تو میں بھی ہوں
دیکھیے آئنہ تو میں بھی ہوں

بیعت حسن کی ہے میں نے بھی
صاحب سلسلہ تو میں بھی ہوں

مجھ پہ ہنستا ہے کیوں ستارۂ صبح
رات بھر جاگتا تو میں بھی ہوں

کون پہنچا ہے دشت امکاں تک
ویسے پہنچا ہوا تو میں بھی ہوں

آئینہ ہے سبھی کی کمزوری
تم ہی کیا خود نما تو میں بھی ہوں

میرا دشمن ہے دوسرا ہر شخص
اور وہ دوسرا تو میں بھی ہوں
شبنم رومانی
 
شب چراغ کر مجھ کو اے خدا اندھیرے میں
سانپ بن کے ڈستا ہے راستہ اندھیرے میں

آئینہ اجالا ہے ذات کا حوالہ ہے
پھر بھی کس نے دیکھا ہے آئینہ اندھیرے میں

لیکن اب بھی روشن ہیں خواب میری آنکھوں کے
چاند تو کہیں جا کر سو گیا اندھیرے میں

جب بھی بند کیں آنکھیں کھل گئیں مری آنکھیں
روشنی سے گزرا ہوں بارہا اندھیرے میں

آدمی کی قسمت بھی آگہی کی قسمت بھی
ابتدا اندھیرے سے انتہا اندھیرے میں

اپنے علم پر شبنمؔ ناز کیا کرے کوئی
اک قدم اجالے میں دوسرا اندھیرے میں
شبنم رومانی
 
کون سا رنگ اختیار کریں؟
خود کو چاہیں کہ تجھ سے پیار کریں؟

بھیڑ میں جو بچھڑ گئے ہم سے
شام ڈھلنے کا انتظار کریں

پتھروں سے معاملہ ٹھہرا
سرکشی کیوں نہ اختیار کریں؟

روشنی کا یہی تقاضا ہے
میرے سائے مجھی پہ وار کریں

گم ہے تنہائیوں میں شہر کا شہر
کیسے ان جنگلوں کو پار کریں

جب حقیقت بھی خواب ہو شبنمؔ
کیوں نہ خوابوں کا اعتبار کریں
شبنم رومانی
 
ہر سانس میں ہے صریر خامہ (ردیف .. ن)
ہر سانس میں ہے صریر خامہ
میں خود کو ہر آن لکھ رہا ہوں

کم ذائقہ آشنا ہیں جس کے
ایک ایسی زبان لکھ رہا ہوں

پتھر ہیں تمام لفظ لیکن
میں پھول سمان لکھ رہا ہوں

روشن ہے یقیں کی روشنائی
یا اپنے گمان لکھ رہا ہوں

ان دست بریدہ موسموں میں
اللہ کی شان لکھ رہا ہوں

دیوار چٹخ رہی ہے مجھ میں
صحرا کو مکان لکھ رہا ہوں

یہ معرفت غزل تو دیکھو
انجان کو جان لکھ رہا ہوں
شبنم رومانی
 
اپنی مجبوری کو ہم دیوار و در کہنے لگے
قید کا ساماں کیا اور اس کو گھر کہنے لگے

درج ہے تاریخ وصل و ہجر اک اک شاخ پر
بات جو ہم تم نہ کہہ پائے شجر کہنے لگے

خوف تنہائی دکھاتا تھا عجب شکلیں سو ہم
اپنے سائے ہی کو اپنا ہم سفر کہنے لگے

بستیوں کو بانٹنے والا جو خط کھینچا گیا
خط کشیدہ لوگ اس کو رہگزر کہنے لگے

اول اول دوستوں پر ناز تھا کیا کیا ہمیں
آخر آخر دشمنوں کو معتبر کہنے لگے

دیکھتے ہیں گھر کے روزن سے جو نیلا آسماں
وہ بھی اپنے آپ کو اہل نظر کہنے لگے
شبنم رومانی
 
ڈھلتا سورج آنکھ کا ریزہ ہو جاتا ہے
جھوٹے خوابوں کا آمیزہ ہو جاتا ہے

اپنے فقروں سے ہشیار کہ فقرہ اکثر
دشمن کے ہاتھوں کا نیزہ ہو جاتا ہے

پہلے شیشہ ٹوٹ کے خنجر بن جاتا تھا
لیکن اب تو ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے

حسن کی سنگت پھول کی رنگت سے مس ہو کر
شبنم کا آنسو آویزہ ہو جاتا ہے
شبنم رومانی
 
کیجیے اور سوالات نہ ذاتی مجھ سے
اتنی شہرت بھی سنبھالی نہیں جاتی مجھ سے

نام اشیا کے بتائے مگر اے حکمت غیب
کاش تو میری حقیقت نہ چھپاتی مجھ سے

دل شکن عہد شکن صبر شکن قدر شکن
پوچھ لے اپنے سب القاب صفاتی مجھ سے

ہار جاتا میں خوشی سے کہ وفا کا تھا سوال
جیت جاتی وہ اگر شرط لگاتی مجھ سے
شبنم رومانی
 
میں نے کس شوق سے اک عمر غزل خوانی کی
کتنی گہری ہیں لکیریں میری پیشانی کی

وقت ہے میرے تعاقب میں چھپا لے مجھ کو
جوئے کم آب قسم تجھ کو ترے پانی کی

یوں گزرتی ہے رگ و پے سے تری یاد کی لہر
جیسے زنجیر چھنک اٹھتی ہے زندانی کی

اجنبی سے نظر آئے ترے چہرے کے نقوش
جب ترے حسن پہ میں نے نظر ثانی کی

مجھ سے کہتا ہے کوئی آپ پریشان نہ ہوں
مری زلفوں کو تو عادت ہے پریشانی کی

زندگی کیا ہے طلسمات کی وادی کا سفر
پھر بھی فرصت نہیں ملتی مجھے حیرانی کی

وہ بھی تھے ذکر بھی تھا رنگ غزل کا شبنمؔ
پھر تو میں نے سر محفل وہ گل افشانی کی
شبنم رومانی
 
ہر آن ایک نیا امتحان سر پر ہے
زمین زیر قدم آسمان سر پر ہے

دہائی دیتی ہیں کیسی ہری بھری فصلیں
کسی غنیم کی صورت لگان سر پر ہے

میں خاندان کے سر پر ہوں بادلوں کی مثال
سو بجلیوں کی طرح خاندان سر پر ہے

قدم جماؤں تو دھنستے ہیں ریگ سرخ میں پاؤں
جو سر اٹھاؤں تو نیلی چٹان سر پر ہے

میں جانتا ہوں ٹلے گا یہ جان ہی لے کر
رہ فرار نہیں میہمان سر پر ہے

اک اور وصل سخن اور اک وصال نگاہ
مفارقت کی گھڑی میری جان! سر پر ہے
شبنم رومانی
 
Top