یہ گھڑی کس کی ہے؟
(ایک کمرہ۔ اکرم، اشرف اور صفیہ تینوں بھائی بہن ایک میز کے گرد کرسیوں پر بیٹھے ہیں۔ میز کے اوپر کچھ آم پڑے ہیں۔ اکرم سب سے بڑا بھائی ہے۔ اس لیے وہ آم تقسیم کررہا ہے۔ وہ تین آم اٹھاتا ہے اور اشرف کو دیتا ہے)
اکرم : لو اشرف! اپنا حصہ۔
اشرف : (آم لیتے ہوئے) بہت اچھا، لاؤ!
(اشرف آم لے کر میز کی ایک جانب رکھ دیتا ہے)
اکرم : اور یہ لو صفیہ! تم تین آم
صفیہ : شکریہ۔
(صفیہ اپنے حصے کے آم لے کر اپنے سامنے رکھ لیتی ہے۔ اکرم کے آگے باقی پانچ آم رہ جاتے ہیں)
اشرف : یہ تمہارے پاس پانچ کیوں ہیں؟
صفیہ : ہم دونوں نے تین تین لیے ہیں۔ تمہارے حصے میں پانچ کیوں آگئے؟
اکرم : یہ دو آم زیادہ ملے ہیں اور میری وجہ سے ملے ہیں۔ اس لیے ان کا حق دار میں ہوں۔
صفیہ : وہ کیوں؟ امی نے کہا تھا کہ آم والے سے ایک سیر آم خرید کر آپس میں تقسیم کر لو۔ ہر ایک کو برابر کا حصہ ملنا چاہیے۔ ہم تین تین لیں تو تم پانچ کیوں لو؟
اشرف : صفیہ درست کہہ رہی ہے۔ جب ہم دونوں کو تین تین مل رہے ہیں تو تمہیں بھی اتنے ہی ملنا چاہیے۔
اکرم : اگر نو آم ہوتے تو بے شک میں بھی تین لیتا مگر یہ ہیں گیارہ۔ دو کو تین کس طرح بنا سکتا ہوں؟ اور پھر یہ بات بھی ہے کہ یہ زائد آم دکان دار نے میری وجہ سے دئیے ہیں۔ ان پر میرا حق ہے۔
اشرف : جی نہیں۔ صرف تمہارا حق نہیں۔ میرا حق بھی ہے۔
اکرم : دکان دار نے جب پوچھا تھا کہ آم پورے ہوئے ہیں یا نہیں تو میں نے ہی کہا تھا نا کہ پورے نہیں ہوئے۔ ابھی صرف آدھ سیر ملے ہیں حالاں کہ وہ پورے ایک سیر دے چکا تھا۔ اگر میں کہہ دیتا کہ پورے آم میری جھولی میں آچکے ہیں تو دکان دار آدھ سیر زیادہ کیوں دیتا؟
صفیہ : لیکن امی نے یہ کب کہا تھا کہ اگر دکان دار سے زیادہ آم لے لو تو جو زیادہ ملیں وہ صرف اکرم کو ملیں، دوسروں کو نہ ملیں؟
اکرم : اور امی نے یہ کب کہا تھا کہ جس کی وجہ سے زیادہ آم ملیں وہ زیادہ حصہ نہ لے، یہ دونوں آم میرے ہیں۔
اشرف : جی نہیں۔
صفیہ : بالکل نہیں۔ ہر ایک کو برابر کا حصہ ملنا چاہیے۔
اکرم : ہر ایک کو برابر کا حصہ ملا ہے۔
صفیہ : کہاں برابر کا حصہ ملا ہے؟ تم پانچ کیوں لے رہے ہو؟
اکرم : اگر میں دکان دار سے کہہ دیتا کہ بڑے میاں! ہم نے ایک سیر آم لے لیے تو وہ آدھ سیر زیادہ کیوں دیتا؟ کیوں؟ یہی بات ہے نا؟
صفیہ : یہ بات تو ہے۔
اکرم : تو پھر جو آم زیادہ ہیں، وہ کس کے حصے میں جائیں گے؟ کیا ان کا حق دار میں نہیں ہوں؟
اشرف : بالکل نہیں۔ ہرگز نہیں۔
اکرم : یہ دو تو میں ہرگز نہیں دوں گا۔
اشرف : امی نے جب کہا ہے کہ ہر ایک کو ایک جیسا حصہ ملنا چاہیے تو یہ دو بھی ہم تینوں میں تقسیم ضرور ہوں گے۔
صفیہ : ہوں گے اور ضرور ہوں گے اور اسی وقت ہوں گے۔
(امی دروازے پر آتی ہیں)
امی : اکرم! یہ شور کیوں مچا رہے ہو؟ کیا بات ہے؟
اشرف : آپ نے کہا تھا نا کہ ایک سیر آم خرید لو اور آپس میں برابر تقسیم کر لو۔
امی : ہاں کہا تھا۔
صفیہ : اکرم برابر برابر تقسیم نہیں کررہا۔
امی : کیوں اکرم بیٹا! کیا گنتی ٹھیک نہیں ہو رہی ؟
اکرم : گنتی تو ٹھیک ہے امی!
امی : پھر انصاف نہ کرنے کی وجہ کیا ہے؟
(تینوں ایک لمحے کے لیے خاموش ہوجاتے ہیں)
امی : خاموش کیوں ہوگئے ہو؟ جواب دو۔ کیا پوچھا ہے میں نے اشرف؟
اشرف : امی! وجہ یہ ہے کہ آم ایک سیر نہیں ہیں ڈیڑھ سیر ہوگئے ہیں۔
امی : میں نے کہا تو تھا کہ صرف ایک سیر خریدو پھر ڈیڑھ سیر کیوں لیے؟
صفیہ : آپ یہ اکرم سے پوچھیں۔
اشرف : میں بتاتا ہوں امی! ہوا یہ کہ دکان دار کو ایک سر کا باٹ مل نہیں رہا تھا اس نے کہا میں دو مرتبہ آدھ آدھ سیر تول کر دے دیتا ہوں۔ جب وہ ایک سیر تول چکا تو اسے خیال ہی نہ رہا کہ پورے آم تول چکا ہے۔ گاہک بہت تھے نا امی! بھول گیا۔ اس نے پوچھا "یک سیر آم تول دئیے ہیں یا نہی؟" تو اکرم نے کہا "نہیں۔۔ ابھی صرف آدھ سیر ہوئے ہیں۔"
امی : بہت بری بات ہے اکرم! تم نے جھوٹ کیوں بولا؟ دیانت داری سے کام کیوں نہیں لیا؟
اکرم : امی! بات یہ ہوئی ۔۔۔کہ ۔۔۔امی دراصل۔
امی : اکرم بیٹا! یہ تم نے اچھا نہیں کیا۔ اگر دکان دار بھول گیا تھا تو تمہیں جھوٹ بول کر اس طرح فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے تھا۔ یہ چیز دیانت داری کے خلاف ہے اور ہر انسان کو دیانت دار ہونا چاہیے۔ میں تو سمجھتی تھی کہ میرا اکرم بیٹا بڑا دیانت دار ہے۔ مگر آج۔۔۔۔۔۔۔
اکرم : امی! مجھے افسوس ہے۔ شرمندہ ہوں۔ یہ دو آم ابھی دکان دار کو واپس کرکے آتا ہوں۔
امی : شاباش! اچھے بچے کبھی جھوٹ بول کر پرائی چیز کو اپنی چیز نہیں بناتے۔ جو چیز جائز طور پر ہمیں نہ ملے۔ وہ ہرگز ہماری نہیں ہو سکتی۔ جلدی واپس کرکے آؤ۔
(اکرم دو آم اٹھا کر دروازے سے نکل جاتا ہے)
دیکھو! آم ابھی رہنے دو۔ کھانا کھانے بعد کھانا۔
اشرف : بہت اچھا امی!
(امی دروازے میں سے نکل کر جانے لگتی ہیں۔ ان کے جاتے ہی سعید بیٹھتا ہے۔ وہ مسکرا رہا ہے مٹھی میں کوئی چیز بند ہے۔)
صفیہ : سعید بھیا! اس طرح مسکرا کیوں رہے ہو؟
سعید : آج تو اللہ تعالیٰ نے بیٹھے بٹھائے انعام دے دیا ہے۔
اشرف : بیٹھے بٹھائے انعام؟ وہ کیسے؟
سعید : گھر سے نکل کر تمہاری طرف آرہا تھا کہ گلی کی نُکر پر ایک شے مل گئی۔
صفیہ : کون سی شے ملی ہے؟
سعید : میری مٹھی میں ہے۔
صفیہ : ہے کیا آخر ؟ مٹھی کھول کر دکھاؤ۔
سعید : یہ ایک ایسی چیز ہے جو ہر وقت ٹک ٹک کرتی رہتی ہے۔
صفیہ : گھڑی تو نہیں؟
سعید : ہاں گھڑی ہے۔ سڑک پر پڑی تھی۔ میں نے جھٹ اٹھا لی۔ یہ دیکھو!
(سعید، اشرف اور صفیہ کو ایک چھوٹی سی گھڑی دکھاتا ہے۔ اکرم واپس آ جاتا ہے)
اکرم : کیا دکھا رہے ہو سعید؟
صفیہ : سعید کو یہ گھڑی ملی ہے زمین پر گری ہو۔
سعید : مزا آگیا آج تو۔ بڑی قیمتی معلوم ہوتی ہے۔
اکرم : مگر یہ گھڑی تمہاری نہیں ہے۔
سعید : کیوں؟ میری کیوں نہیں؟
(سعید گھڑی میز پر رکھ دیتا ہے)
اکرم : اس لیے تمہاری نہیں کہ تم نے نہ تو اسے خریدا ہے اور نہ تمہارے ابا امی نے یہ تمہیں دی ہے۔ پھر تمہاری کس طرح ہوئی؟
صفیہ : ابھی ابھی ہماری امی نے کہا ہے کہ جو چیز جائز طور پر نہ ملے، وہ ہماری ہرگز نہیں ہوسکتی۔
اکرم : اس لیے سعید! یہ گھڑی تمہاری نہیں ہے۔
(سعید سوچ میں پڑ جاتا ہے)
اکرم : صرف اس کی ہے جس نے اسے خریدا ہے یا جسے کہیں سے تحفے میں ملی ہوگی۔
صفیہ : جس کی گھڑی کھو گئی ہے، وہ بے چارہ کتنا پریشان ہوگا!
اکرم : ہاں! بڑا پریشان ہوگا۔ نہ جانے کہاں کہاں ڈھونڈتا پھرتا ہوگا۔ اس کی چیز اسے واپس مل جانی چاہیے۔
سعید : میں کیا جانوں کس کی ہے۔ مجھے تو زمین پر گری ہوئی ملی ہے۔
اکرم : وہی چھوڑ آؤ جا کر۔
سعید : تو کوئی اور اٹھا کر لے جائے گا، جس طرح میں لے آیا ہوں۔
اشرف : ہاں! گھڑی تو اسے ملنی چاہیے جس کی ہے کسی اور کو نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اسے مل کیسے سکتی ہے؟
صفیہ : مل سکتی ہے اور بڑی آسانی سے مل سکتی ہے۔ دو ترکیبیں ہیں۔
اشرف : کیا؟
صفیہ : ایک ترکیب یہ ہے کہ گھڑی کسی طرح وہاں پہنچ جائے جہاں اس کا مالک ہے۔ یا مالک اس جگہ آجائے جہاں گھڑی ہے۔
اکرم : کیا ترکیب بتائی ہے!
صفیہ : اگر گھڑی کے پر ہوتے تو یہ اڑ کر وہاں پہنچ سکتی تھی۔
اکرم : اگر اس کے پر ہوتے تو یہ پرستان میں پہنچ چکی ہوتی اور اس وقت کسی پری کی کلائی پر بندھی ہوتی۔ ارے! تم کیا سوچ رہے ہو سعید!
سعید : میرے دماغ میں ایک اعلیٰ درجے کی ترکیب آئی ہے۔ ہم ڈھنڈورا پٹوا دیتے ہیں کہ جس صاحب کی گھڑی ہو، وہ آکر لے جائیں۔
اکرم : ڈھنڈورچی کو تو پیسے دینے پڑیں گے۔ میں بتاؤں، ایک کاغذ پر لکھ کر گلی کے موڑ پر لگا دیتے ہیں۔
سعید : لکھیں گے کیا؟
اکرم : یہی کہ ہمیں ایک گھڑی ملی ہے۔ جن صاحبکی ہو، وہ یہاں تشریف لا کر لے جائیں۔
صفیہ اور اشرف : (ایک ساتھ) بالکل ٹھیک!
اکرم : سعید! تم لکھو۔ تمہارا خط اچھا ہے۔
سعید : اچھا! میں لکھ دوں گا۔ نیچے پتا کیا لکھوں؟
صفیہ : ہمارے گھر کا پتا لکھو۔
سعید : کاغذ قلم دو۔
صفیہ : دوسرے کمرے میں ہے۔
سعید : اشرف! تم آؤ میرے ساتھ۔ لکھ کر باہر دیوار پر لگا دیتے ہیں۔
اشرف : چلو!
(سعید اور اشرف کمرے سے نکل جاتے ہیں)
صفیہ : یہ ترکیب تو بہت اچھی ہے۔ مگر ایک بات کا خطرہ ہے۔ کوئی بھی شخص آ کر کہہ سکتا ہے کہ گھڑی میری ہے۔ گلی میں لوگ آتے جاتے تو رہتے ہی ہیں جو بھی پڑھے گا گھڑی کا مالک بن جائے گا۔
اکرم : یہ خطرہ تو ہے۔ فرض کیا اشتہار گھڑی کا مالک نہیں پڑھتا، کوئی اور پڑھتا ہے۔ وہ آکر کہہ سکتا ہے کہ یہ گھڑی میری ہے۔
صفیہ : اس صورت میں گھڑی اس کے مالک کو نہیں ملے گی۔
(اکرم گھڑی اٹھا کر دیکھتا ہے)
اکرم : پھر کیا کیا جائے؟
صفیہ : ہم گھڑی کو چھپا کر رکھیں گے جو شخص آئے گا، اس سے پوچھیں گے کہ اگر یہ آپ کی گھڑی ہے تو بتائیے یہ کیسی ہے۔ مثلاََ اس کی زنجیر کیسی ہے؟
اکرم : زنجیر کہاں ہے اس کی؟
صفیہ : ہم سوال تو کرسکتے ہیں نا۔ ایسے سوالوں سے پتا چل جائے گا کہ وہ ٹھیک کہتا ہے یا نہیں۔ جس نے گھڑی کے بارے میں ٹھیک ٹھیک بتا دیا، وہ اسی کی ہوگی۔
اکرم : گھڑی کہاں رکھیں؟
صفیہ : میز کی دراز میں رکھ دو۔
(اکرم میز کی ایک دراز کھولتا ہے۔ گھڑی اس میں رکھ کر دروازہ بند کردیتا ہے۔ اشرف اور سعید آتے ہیں)
صفیہ : اشرف! اشتہار لگا دیا؟
اشرف : ہاں! لگا دیا ہے۔ سامنے بڑی دیوار پر۔ بڑا مزہ آیا۔ جیسے ہی ہم نے اشتہار لگایا، کئی لوگ آگئے اور پڑھنے لگے۔
سعید : (میز پر نظریں ڈالتے ہوئے) گھڑی کہاں گئی؟
اکرم : میز کی دراز میں رکھ دی ہے، جو بھی آئے گا، ہم اس سے پوچھیں گے کہ جناب! گھڑی کیسی ہے؟
سعید : ٹھیک! ٹھیک!
صفیہ : سعید! تم باہر کے دروازے پر ٹھہرو جاکر۔ جو آئے، اسے لے آؤ۔
سعید : میرے ذمے یہ ڈیوٹی ہے۔ اچھا! جاتا ہوں۔ کسی کے آنے کی آواز تو آرہی ہے۔
اشرف : بھاگو نا پھر۔
(سعید جلدی سے نکل جاتا ہے)
صفیہ : دیکھنا میں کیسے کیسے سوال کرتی ہوں۔
اکرم : بہت سوچ سمجھ کر بات کرنا۔
اشرف : کوئی آرہا ہے۔
(ایک بوڑھا آدمی آتا ہے)
بوڑھا : (دروازے پر رک کر) اچھے بچو! میں اندر آجاؤں؟
اشرف : آئیے آئیے! تشریف لائیے بڑے میاں!
بوڑھا : شکریہ شکریہ! عزیز بچو! یہ تم نے بہت اچھا کیا جو ایسی عبارت لکھ کر دیوار پر لگا دی۔ بہت اچھا کیا۔ اچھے بچے ہمیشہ اچھے کام کرتے ہیں۔
اکرم : جی جناب!
بوڑھا : میں تمہارا بڑا شکر گزار ہوں۔ ہائے کیا بتاؤں! صبح سے کتنا پریشان تھا۔ یہ گھڑی خدا جھوٹ نہ بلوائے، تیس دو بتیس اور تین پینتیس 35 برس سے میرے پاس ہے۔
اکرم : پینتیس برس سے؟
بوڑھا : ہاں بیٹا! پورے پینتیس برس سے۔ مجھے اس سے بڑی محبت ہے۔ اور محبت کی وجہ یہ ہے کہ میرے نانا جان نے مجھے دی تھی۔
اشرف : اور نانا جان کو ان کے ابا جان نے دی ہوگی؟
بوڑھا : نہیں بیٹا! میرے نانا جان نے اپنے نانا جان سے لی تھی اور انہوں نے اپنے نانا جان سے لی تھی۔
اکرم : اور انہوں نے اپنے نانا جان سے لی ہوگی۔
صفیہ : (ہنس کر) بڑے میاں! اس وقت تک تو گھڑی ایجاد ہی نہیں ہوئی ہوگی۔
بوڑھا : ارے! کیا کہتی ہو بیٹا! گھڑی تو پتھر کے زمانے میں بھی انسان کے پاس تھی۔
صفیہ : اچھا!
بوڑھا : ہاں!
صفیہ : بڑے میاں! آپ کی گھڑی ٹک ٹک بھی کیا کرتی ہے؟
بوڑھا : کبھی کرتی ہے، کبھی نہیں کرتی۔
صفیہ : ہاں! بے چاری تھک جاتی ہے۔
اشرف : غالباََ یہ دنیا کی سب سے پرانی گھڑی ہے۔
بوڑھا : میرا اپنا بھی یہی خیال ہے۔
صفیہ : تو بڑے میاں! کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ اسے عجائب گھر میں رکھوا دیں؟
بوڑھا : کیا کہا؟ میری گھڑی عجائب گھر میں رکھواؤ گے؟ لا حول ولا۔ میں تمہیں اس کی اجازت نہیں دیتا۔ آج میری پرانی گھڑی کو عجائب گھر میں رکھواؤ گے، کل کوئی کہے گا، بڑے میاں! تم بھی پرانے ہوگئے ہو۔ اب تمہیں عجائب گھر میں رکھوا دینا چاہیے۔
(بچے ہنستے ہیں)
نا بابا! میری گھڑی مجھے دو!
(بوڑھا ہاتھ بڑھاتا ہے)
صفیہ : جناب عرض یہ ہے کہ آپ نے گھڑی کی سب نشانیاں غلط بتائی ہیں۔ ہمیں آپ کی گھڑی نہیں ملی۔ آپ دروازے پر جو لڑکا کھڑا ہے، اسے اپنا پتا بتا دیں، جو فیصلہ ہوگا وہ آپ کو بتا دیا جائے گا۔
بوڑھا : بتا دیا جائے گا؟ کیا مطلب؟
(سعید آتا ہے)
سعید : دو صاحب اور آئے ہیں۔
صفیہ : اچھا بڑے میاں! خدا حافظ!
بوڑھا : بھئی کمال ہے۔ آج کل کے بچے کتنے گستاخ ہوگئے ہیں۔ توبہ توبہ!
(بوڑھا جانے لگتا ہے۔ ایک درمیانی عمر کا آدمی آتا ہے)
اشرف : آئیے جناب!
آدمی : آ رہا ہوں بچو! گھڑی دو۔ پہلے ہی بہت دیر ہوگئی ہے۔
اکرم : کہاں سے دیر ہوگئی ہے؟
آدمی : کیا پوچھتے ہو۔ مجھے گیارہ بجے ایک بہت ضروری کام پر جانا تھا۔ گھڑی گم ہوجانے کی وجہ سے وقت کا اندازہ غلط ہوا۔ لاؤ نا میرا منھ کیا دیکھ رہے ہو؟ جلدی کرو جلدی!
اشرف : مگر جناب! یہ تو بتائیے کہ۔۔۔۔
آدمی : میرے پاس اتنا وقت کہاں ہے کہ کچھ بتاؤں۔ پوچھو! میرے بارے میں کیا پوچھنا چاہتے ہو۔
صفیہ : جناب! آپ کے بارے میں نہیں۔ آپ کی گھڑی کے بارے میں کچھ پوچھنا ہے۔ کیسی ہے آپ کی گھڑی؟
آدمی : کیسی ہے گھڑی؟ ویسی ہی جیسی اسے ہونا چاہیے۔ نہ کم نہ زیادہ۔ وہی اس کے پرزے ہیں۔ اتنا ہی اس کا وزن ہے، جتنا عام گھڑیوں کا ہوتا ہے۔
صفیہ : اور زنجیر بھی ویسی ہی ہے؟
آدمی : کیوں نہیں۔ کیوں نہیں۔ زنجیر بھی ویسی ہی ہے۔
(صفیہ ہنس پڑتی ہے)
صفیہ : معاف کیجئے جناب! ہمیں جو گھڑی ملی ہے، اس کی زنجیر تو ہے ہی نہیں۔
آدمی : ارے! زنجیر کس نے اڑا لی؟ خدا بھلا کرے اس کا۔ اچھا! نئی زنجیر خریدنا پڑے گی۔ میرا وقت بہت قیمتی ہے۔ نکالو۔ نکالو۔ اوہو! کیا کھڑے سوچ رہے ہو؟ میں کہتا ہوں، میری گھڑی لاؤ۔ شاباش شاباش! ہیں یہ کیا؟ یہ کیا تماشا ہے؟ سنتے نہیں ہو، میں کیا کہہ رہا ہوں؟
صفیہ : ہم سن رہے ہیں جناب!
آدمی : تو پھر بات کیا ہے؟ معاملہ کیا ہے؟ کیا قصہ ہے؟ گھڑی کا مالک آیا ہے۔
صفیہ : یہی تو مصیبت ہے جناب!
آدمی : مصیبت؟ کیا مصیبت ہے؟
صفیہ : گھڑی کا مالک نہیں آیا ہے۔
آدمی : تو میں کیا ہوں؟
صفیہ : آپ ۔۔۔۔ یعنی کہ آپ ہیں۔
آدمی : یعنی کہ میں___ میں ہوں۔
صفیہ : اور گھڑی گھڑی ہے۔
آدمی : کیا مہمل باتیں ہیں؟ گھڑی دو ورنہ میں تھانے میں رپورٹ درج کرا دوں گا۔ سنا تم نے؟ نہیں سنا؟
اشرف : سن لیا ہے۔
آدمی : تو اب نہیں دو گے؟
صفیہ : جی نہیں۔ اس لیے کہ یہ گھڑی آپ کی نہیں ہے۔
آدمی : تو مجھے تھانے جانا پڑے گا۔ ابھی جاتا ہوں۔ اسی وقت اسی گھڑی۔ شریر کہیں کے۔ شرارت کے پتُلے۔
(آدمی تیزی سے نکل جاتا ہے۔ بچے زور سے ہنستے ہیں۔ ایک اور آدمی آتا ہے، ادھیڑ عمر کا۔ دروازے پر آکر رک جاتا ہے)
صفیہ : آئیے جناب۔
(آدمی وہیں کھڑا رہتا ہے)
اشرف : آئیے جی!
(آدمی اب بھی وہیں کھڑا رہتا ہے)
صفیہ : جناب! آپ تشریف کیوں نہیں لاتے؟
(آدمی آہستہ آہستہ آنے لگتا ہے)
آدمی : (غصے سے) کیا بدتمیزی ہے۔ میں دروازے پر کھڑا ہوں اور اندر آنے کے لیے کہتے ہی نہیں۔
صفیہ : جناب! ہم نے تو آپ کو بلایا تھا۔
آدمی : کیا کہا؟
صفیہ : ہم نے کہا تھا آئیے جی!
آدمی : میں ذرا اونچا سنتا ہوں۔
صفیہ : اچھا! تو یہ بات ہے (بلند آواز میں) فرمائیے جناب!
آدمی : میں کچھ فرمانے کے لیے نہیں آیا۔
اشرف : تو ہم کیا خدمت کرسکتے ہیں؟
آدمی : کیا کہہ رہے ہو؟
صفیہ : (بلند آواز) جناب! ہم عرض کرتے ہیں کہ کیا خدمت کرسکتے ہیں؟
آدمی : خدمت یہی کرسکتے ہو کہ میری گھڑی مجھے دے دو۔
صفیہ : بہت اچھا جناب!
آدمی : شابش! شابیش! شابوش!
صفیہ : یہ گھڑی ہے کیسی؟
آدمی : کیا؟
صفیہ : (بلند آواز) یہ بتایئے گھڑی کیسی ہے؟
آدمی : بھئ میرا حافظہ اتنا کمزور ہے کہ یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ رات کھایا کیا تھا۔ اور تم پوچھ رہے ہو کہ بتاؤں گھڑی کیسی ہے؟
صفیہ : (بلند آواز) تو حضور کو یہ کیوں کر یاد آیا کہ آپ کی گھڑی گم ہوگئی ہے؟
آدمی : یہ معاملہ بھولنے والا نہیں ہے۔
اشرف : مگر اب بھول ہی جائیے۔
آدمی کیا بھول جاؤں؟
اشرف : کہ آپ کی گھڑی گم ہوگئی ہے۔
صفیہ : بھولنے کی ضرورت نہیں۔ کیوں کہ گھڑی گم ہوئی ہی نہیں۔
آدمی : اس کا مطلب ہے کہ مجھے تمہارے ابا جان سے ملنا پڑے گا۔ ابھی ملتا ہوں۔
(زمین پر زور زور سے پاؤں مار کر چلا جاتا ہے۔ ایک آدمی اور آجاتا ہے)
صفیہ : آئیے جناب!
نیا آدمی : واہ وا! یہاں تو ایک چھوڑ تین بچے جمع ہیں۔ مجھے بچوں سے بڑی محبت ہے۔ اور بچوں کو بھی مجھ سے محبت ہے۔ آپ مجھے جانتے نہیں؟
صفیہ : جی نہیں۔
نیا آدمی : ہیں! مجھے نہیں جانتے؟ کبھی میری آواز سنی نہیں؟ (خاص انداز میں) چنا جور گرم، میں لایا چنا جور گرم،
(تینوں بچے گاتے ہیں)
چنا جور گرم۔ میں لایا مزے دار چنا جور گرم۔
(وہ آدمی بھی اپنی آواز ان کی آواز میں شامل کر دیتا ہے۔ کئی لمحے یہ سلسلہ جاری رہتا ہے)
نیا آدمی : بس بھئی بس! اب میں تمہیں بتاتا ہوں کہ میری گھڑی گری کس طرح؟
صفیہ : گر پڑی تھی؟
نیا آدمی : ہاں بیٹی! ہوا یوں کہ میں تمہاری گلی میں آیا تو ایک کتا میرے پیچھے بھاگا۔ میں بھی بھاگا۔
صفیہ : پھر کیا ہوا؟
نیا آدمی : وہ میرے پیچھے بھاگ رہا تھا اور میں اس کے آگے۔
اشرف : اس کے بعد کیا ہوا؟
نیا آدمی : وہ تیزی سے بھاگنے لگا اور میں بھی تیزی سے بھاگنے لگا۔
اشرف : دونوں بھاگتے رہے؟
نیا آدمی : دونوں بھاگتے رہے۔ وہ جتنی تیزی سے بھاگ رہا تھا، اتنی ہی تیزی سے میں بھی بھاگ رہا تھا۔
صفیہ : اس طرح تو آپ کئی میل دوڑتے چلے گئے ہوں گے۔
نیا آدمی : اور کیا۔ وہاں ایک بڑی سی نالی آئی۔ میں اسے پھلانگنے لگا تو گھڑی وہیں گر پڑی اور میں ایک دوسرے راستے سے لوٹ آیا۔
اشرف : تو یہ ہے آپ کی گھڑی گم ہونے کی داستان!
نیا آدمی : ہاں بیٹا!
صفیہ : مگر آپ کی گھڑی تو میلوں دور ایک نالی کے پاس گری تھی اور یہ تو ہمیں اسی گلی میں ملی ہے۔
نیا آدمی : نہیں۔
(بچے ہنس پڑتے ہیں۔ وہ آدمی جانے لگتا ہے۔ بچے ہنس ہی رہے ہیں کہ امی اندر آتی ہیں)
امی : یہ کیا بدتمیزی ہے؟ ہنس کیوں رہے ہو؟
اشرف : امی! بڑے مزے دار قصہ ہے۔ ابھی آپ کو سنائیں گے۔
امی : قصہ بعد میں سنانا۔ ننھا ضد کرکے بچوں کی بناوٹی گھڑی لے آیا تھا، بارہ پیسے کی کھیلتے کھیلتے کہیں گم کر بیٹھا ہے۔ ذرا گلی میں جا کر ڈھونڈو۔ رو رہا ہے۔
صفیہ : کیا کہا امی؟ وہ گھڑی ننھے کی ہے؟
امی : کہاں ہے؟
صفیہ : (دراز میں سے گھڑی نکال کر) یہ تو نہیں؟
امی : ہاں! یہی تو ہے۔
(سعید بھاگتا ہوا اندر آتا ہے)
سعید : چار آدمی اور آئے ہیں۔
صفیہ : ہیں! چار آدمی اور آئے ہیں؟ (زور زور سے ہنستے ہوئے) امی!
امی : کیا ہے؟
صفیہ : آپ نے چھوٹوں کو تو بتا دیا کہ ایمان داری سے کام لیں۔ مگر بڑوں کو یہ بات کون سمجھائے؟
امی : کیا مطلب؟
(بچے ہنستے ہیں۔ امی انہیں گھور گھور کر دیکھتی ہیں۔ پردہ گرتا ہے)