وہ کھٹے میٹھے دن ۔۔۔۔ پر پُرزے ۔۔از:عابی مکھنوی

ہمارے گاؤں کا نام مقامی زبان ہندکو میں "" مکھناں '' اور اردو میں ""مکھن "" ہے۔ہری پور شہر کے ساتھ متصل زمین کا یہ ٹکڑا اللہ کی صناعی کا عجیب نمونہ ہے۔ہری پور سے براستہ چھپر روڈ موضع مکھن تک بمشکل پندرہ منٹ کی مسافت بنتی ہے۔درمیانی رفتار سے پیدل چلنے والے مخصوص راستے سے تیس منٹ میں گاؤں تک پہنچ جاتے ہیں۔بالائی شہروں ایبٹ آباد اور حویلیاں سے ایک قدرتی ندی جس کا پاٹ اوسطاً تین سے چار سو میٹر چوڑا ہو گا لہراتی بل کھاتی ہری پور کا رخ کرتی ہے۔چھپر روڈ پر سلطان شہید پل کے نیچے سے گزرتی یہ ندی مکھن گاؤں کی جنوبی بغل سے سرکتی تقریباً چار کلو میٹر کی مٹر گشت کے بعد اپنا صاف اور شفاف پانی تربیلہ جھیل کی گود میں اُنڈیل دیتی ہے۔اس ندی کو ہم مقامی زبان میں ""دوڑ "" کہتے ہیں۔اپنے بچپن اور لڑکپن میں ہم نے موسم گرما کی بارشوں کے دوران بارہا ""دوڑ "" کو بپھرے دیکھا۔اُس زمانے میں گھر کے بعد "" دوڑ "" ہی ہمارا گھر ہوا کرتی تھی۔دوڑ میں طغیانی آنے کے وقت کا اندازہ لگانا تقریباً نا ممکن ہو ا کرتا تھا کیونکہ ایبٹ آباد اور اُس کے بالائی علاقوں میں ہونے والی بارشوں سے ہم لا علم ہی رہتے تھے۔بڑے بوڑھے اپنے اندازے کی بنیاد پر ہمیں ہوشیار کر دیتے کہ آج مشرقی اُفق پر اندھیرا چھایا ہوا ہے اس لیے دوڑ کی طرف مت جانا۔دوڑ میں آنے والی طغیانی بسا اوقات ریتی بجری اٹھانے والے ٹریکٹر ٹرالیوں کے لیے بھی خطرہ بن جاتی تھی۔سلطان شہید پل کے پہلو سے ایک "" کٹھا "" جی ہاں کٹھا جسے آپ نالا کہہ سکتے ہیں مکھن اور اس سے ملحقہ گاؤں کے کھیتوں کو سیراب کرنے کے لیے کھودا گیا تھا۔اردو کا نالا بہت بڑا ہوتا ہے ۔یہ نالا جسے ہم مقامی زبان میں "" کٹھا "" کہتے ہیں اوسطاً چار فٹ چوڑا اور چار فٹ گہرا ہے۔گاؤں کی سرحد میں داخل ہوتے ہی یہ کٹھا اسی سائز کے مزید دو کٹھوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔اور پھر ان کٹھوں کے ساتھ ساتھ کھیتوں کی ضرورت کے مطابق نالیوں کا ایک جال سا بنتا چلا جاتا ہے۔دونوں ""کٹھے"" یعنی بڑے نالے گاؤں کےرہائشی علاقے سے اپنی اصل حالت میں گزرتے ہیں اور پہلو کی نالیاں یعنی کٹھیاں حسب ضرورت گھروں کے بیچ سے ہوتی ہوئی گاؤں کے عقبی کھیتوں کو سیراب کرتی ہیں۔اس ساری نقشے بازی کا بنیادی مقصد آپ کا تعارف ""کٹھے"" سے کروانا تھا۔کیونکہ "" کھٹے میٹھے دنوں"" کی اس قسط میں ""کٹھے"" کا بنیادی کردار ہے۔
الف ،بے ،پے اور بنیادی گنتی سیکھے ہمیں مہینوں گزر چکے تھے۔اب ہماری دنیا گھر کے ڈربے سے آگے بڑھ کر کافی وسیع ہو چکی تھی۔ہمارا حلقہ احباب اسکول کے طفیل تقریباً چار عدد گاؤں کے معصوم معززین تک پھیل چکا تھا۔اسکول یاترا کے بعد کھیل کود کی اجازت گھر کے صحن سے نکل کر گھر کی گلی تک پہنچ چکی تھی ۔جسے ہم حسب منشا چوری چھپے گاؤں کی دیگر گلیوں تک پھیلانے لگے تھے۔اسکول کی حد تک ہمارے صرف ایک استاد محترم تھے لیکن دیگر تفریحی و تخریبی علوم کے لیے ہم نے بزرگ ماہرین سےاستفادہ شروع کر دیا تھا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب کار ہم نے صرف اردو کے قاعدے میں "" ک"" سے ""کار "" والے صفحے پر دیکھی تھی۔گاؤں میں شاید صرف ایک موٹر سائیکل تھی جس کے پیچھے ٹولی میں بھاگنا ہمارا محبوب مشغلہ ہوا کرتا تھا۔دلہن کی رخصتی چوکور ڈیزائن کی "" ڈولی "" میں ہوا کرتی تھی۔ڈولی اور جنازے کو ایک ہی طریقے سے اٹھایا جاتا تھا۔اور ہمارے لیے یہ دونوں مواقع خوشی کا سبب ہوا کرتے تھے۔ڈولی اس لیے کے اس پر پانچ ،دس اور پچاس پیسے والے سکے لٹائے جاتے تھے جبکہ جنازے کے بعد ابلے ہوئے چاولوں پر دیسی شکر ڈال کر ہماری خدمت میں پیش کی جاتی تھی۔گاوں کے تمام گھروں کے دروازے ہماری عمر کے معصوموں کے لیے ہمہ وقت کھلے رہا کرتے تھے۔جیسے ہی ہم میں سے کسی ایک کے کان میں کسی لڑکی کی شادی کی خبر پڑتی ہماری زیرِ زمین دنیا میں ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوتا۔کیونکہ ڈولی پر لٹائے جانے والے سکوں کو لوٹنا ہم جیسوں کا مرغوب ترین مشغلہ تھا۔رخصتی کے دن کی پیشین گوئیاںہونے لگتیں۔سکے لوٹنے کا منظر کسی دنگل سے کم نہیں ہوتا تھا۔ اس لیے دوران دنگل تعاون اور عدم تعاون کے معائدے ہونے لگتے۔اس معرکے میں حصہ لینے والوں کی تعداد ہماری یاداشت کے مطابق پچاس سے کم نہیں ہوا کرتی تھی۔خفیہ اتحادی ٹیموں کے دو حصے ہوا کرتے تھے۔ یہ تمام جانباز بظاہر ایک دوسرے سے وفاداری کا مظاہرہ کرتے لیکن حقیقی اتحادیوں کی خبر کسی کو نہیں ہوتی تھی۔ ایک ٹیم میں کم از کم چار اور زیادہ سے زیادہ کی کوئی حد نہ تھی۔ ہر ٹیم کے دو حصے ہوا کرتے تھے ۔ایک دفاعی اور دوسرا حملہ آور۔حملہ آور گروہ کی اولین ذمہ داری سکے لوٹنا اور دفاعی ٹیم کا کام ان کو کور دینے کے ساتھ ساتھ مخالف ٹیم کا دفاعی حصار توڑنا ہوتا تھا۔گاؤں کے کلچر میں یہ ایک مسلمہ قانون تھا کہ سکے لوٹنے کا حق صرف بارہ سال کی عمر تک کے لڑکوں کو ہے۔جہاں کوئی اس سے بڑی عمر کا کھلاڑی کودا اسے سکے لٹانے والوں چاچوں کی طرف سے بے دریغ لاتوں کی سوغات ملتی تھی۔سب سے زیادہ لڑائی پچیس پیسے اور پچاس پیسے کی مالیت کے سکوں پر ہوتی تھی۔حملہ آور ٹیم کا رکن بڑی مالیت کا سکہ دیکھتے ہی اس پر لیٹ جاتا تھا۔مخالف دفاع کو دھکوں اور لاتوں کے استعمال کی مکمل اجازت تھی۔پانچ پیسے اور دس پیسے کے سکوں پر نسبتاً کمزور کھلاڑیوں کا دنگل ہوتا تھا۔اس پورے تماشے میں سب سے کڑا امتحان ڈولی اٹھانے والے چاچوں کا ہوتا تھا۔چار پانچ چاچے ہنگامی مدد کے لیے ان کے ساتھ ساتھ چلتے۔جیسے ہی کسی سکے پر کوئی ہاتھ پڑتا اس کے ساتھ ہی اس ہاتھ پر آٹھ دس جوتوں سمیت اور بغیر جوتوں کی ایڑیاں برستیں۔دنگل میں شریک پہلوانوں میں سے شاذ ہی کسی کے ہاتھ ، گھٹنے اور کپڑے محفوظ رہتے۔اتنی شدید شورش کے باوجود ہ طرف صرف مسرت بھرے قہقہے ہی گونجتے تھے۔
گاؤں کی تقریباً ہر گلی اور راستے کے ساتھ کٹھی یا کٹھا موجود تھا۔وہ گھر بھی ایک کٹھے کے کنارے واقع تھا۔سکوں کے شکاری جوق در جوق اس گھر کی طرف امڈے چلے آ رہے تھے۔ہماری تعداد کے مقابلے میں باراتیوں کی تعداد آدھی بھی نہیں تھی۔عام مقابلوں میں کمر کسی جاتی ہے لیکن اس دن سب نے جوتے کسے ہوئے تھے۔ڈولی اٹھنے میں معمول سے زیادہ تاخیر ہو چکی تھی۔وقفے وقفے سے ہماری طرف سے جاسوسی بھی جاری تھی لیکن ڈولی جوں کی توں صحن میں دھری تھی۔گلی میں موجود چاچوں کا بھی ہم بغور جائزہ لے رہے تھے۔ تا کہ پتہ چلایا جا سکے کہ ریزگاری کی تھیلیاں کس کس کی جیب میں ہیں۔دو تین چاچوں کی نشاندھی ہو چکی تھی جو غیر ارادی طور پر اپنی بغلی جیبیں تھپتھپا رہے تھے۔وقتاً فوقتاً کوئی سکے باز بے تاب ہو کر کسی چاچے سے استفسار بھی کر لیتا کہ جناب سکے لٹانے کا ارادہ بھی ہے یا خواہ مخواہ ہمارا وقت برباد کیا جا رہا ہے۔چاچے گول مول جواب دے کر ہمارے تجسس کی آگ کو مزید بھڑکاتے۔آنکھوں ہی آنکھوں میں خفیہ اتحادی ایک دوسر ے سے تعاون کے وعدوں کی تجدید کر رہے تھے۔گلی کی چوڑائی تقریباً چھ فٹ تھی۔ہمارے حساب سے چاچوں نے سکے یہاں نہیں لٹانے تھے کیونکہ بغل میں بہتا چار فٹ چوڑا اور چار فٹ گہرا کٹھا جہاں بلوائیوں کے لیے خطرہ تھا وہاں ڈولی کی بحفاظت روانگی بھی مسئلہ بن سکتی تھی۔سکے اچھالنے پر ایک مخصوص آواز پیدا ہوتی تھی جسے ہم ""چھڑنگ ""کہتے تھے۔ہمارے حساب سے یہ چھڑنگ گھر سے تقریباً سو میٹر دور چوراہے پر ہونی تھی جہاں سے گاؤں کی تقریباً 12 فٹ چوڑی شاہراہ عام کا آغاز ہوتا تھا۔
ہمیں اپنے سائز اور اوقات کے حوالے سے کوئی خوش فہمی نہیں تھی۔اس لیے ہم ایک گروپ کے حریف ہونے کے باوجود سب سے بیرونی دائرے میں تیار کھڑے تھے۔ہم نے دل ہی دل میں طے کر رکھا تھا کہ جو سکہ میدان کارزار سے باہر گرا ہم صرف وہی آٹھائیں گے کیونکہ ماضی قریب میں ہم لالچ کا انجام اپنی ناک سے پھوٹنے والی نکسیر کی صورت میں دیکھ چکے تھے۔ابھی ہم اپنے ارادوں کو ٹھونک بجا کر دیکھ ہی رہے تھے کہ اچانک رنگ برنگے کپڑوں میں ملبوس بونوں کی فوج میں بے چینی کے آثار نمودار ہونے لگے۔اکثریت پنجوں کے بل کھڑے ہوکر گھر کے چوڑے دروازے سے اندر جھانک رہی تھی۔ایک چاچا دروازے کا سامنے والا حصہ کلیر کروا رہا تھا۔شکاریوں کا ہجوم راستے کے دائیں بائیں سمٹنے لگا تھا۔دوسرے ہی لمحے سنہری چمکدار کپڑے سے سجی ڈولی ہماری آنکھوں کے سامنے تھی۔چار چاچوں نے ڈولی اپنے کندھوں پر اٹھا رکھی تھی جبکہ اتنی ہی تعداد میں چاچے احتیاطاً ڈولی کے ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ہمارے اعصاب میں ابھی کوئی تناؤ نہیں تھا کیونکہ کھلی جگہ ابھی کافی دور تھی ۔سکے لٹانے والے چاچے شاید اناڑی تھے۔اسی لیے غیر متوقع طور پر ہمارے کانوں میں چھڑنگ کی آواز آئی۔
آگے کی سمت چلتی بدروحوں میں تو جیسے قیامت بپا ہو گئی ۔ابھی پہلی چھڑنگ کی آواز تھمی بھی نہ تھی کہ ایک اور چھڑنگ نے ہمارے مشاق کانوں
کے دروازوں پر دستک دی۔اور پھر ہر چند سیکنڈ کے بعد چھڑنگ پہ چھڑنگ ہونے لگی۔چند لمحوں میں قیامت صغریٰ بپا ہو چکی تھی۔کوئی پلٹنیاں کھا رہا تھا تو کوئی قلابازیاں۔پارٹی تگڑی معلوم ہو رہی تھی کیونکہ چھڑنگ پہ چھڑنگ ہوئے جا رہی تھی۔دنگل عروج پر پہنچ چکا تھا۔جس کو دیکھو بائیں مٹھی میں لوٹے ہوئے سکے بھینچے دائیں ہاتھ سے مزید کی تگ و دو میں لگا تھا۔وحشیانہ دھکوں اور لاتوں کی سوغاتوں کے طفیل آدھی پبلک پہلو میں بہتے کٹھے میں ڈبکیاں لے چکی تھی۔لیکن جذبہ جوں کا توں سلامت تھا۔ہم ابھی تک پانچ پیسے اوردس پیسے کے سکوں پر اکتفا کر رہے تھے وہ بھی جو ہمارے قریب قریب گرتے۔قدرت کو شاید ہماری قناعت کا امتحان لینا مقصود تھا۔کٹھے کے کنارے پر پڑا ایک پچاس پیسے کا سکہ ہمیں دعوت التفات دے رہا تھا۔اسکول میں ہم سیکھ چکے تھے کہ پچاس پیسے کے سکے میں پانچ پیسے کے دس اور دس پیسے کے پانچ سکے ہوتے ہیں۔شیطانی بہکاوے میں آ کر دوسرے ہی لمحے ہم بھی دوڑ کر سکہ اٹھانے پہنچ گئے۔ سینے کے بل لیٹنے کی بجائے ہم نے سکہ پاؤں کے بل بیٹھ کر اٹھانا تہذیب کے زیادہ قریب سمجھا۔ابھی ہم نے سکے کو گرفت میں لیا ہی تھا کہ کسی حاسد کی گھومتی ہوئی لات نے ہماری کمر کو سلامی دی اور ہم سکہ مٹھی میں دبائے بہتے کٹھے کی نذر ہو گئے۔کٹھے میں ڈبکیاں کھاتے ہوئے بھی ہم سے خوشی سنبھالے نہیں سنبھل رہی تھی۔کیونکہ یہ ہمارے سکے بازی کے کیریر کا پہلا بڑا شکار تھا۔خطرے کی بو کو سونگھتے ہوئے ہم نے میدان جنگ میں واپس جانے کی بجائے کٹھے کے دوسرے کنارے پر چڑھ کر بیٹھنے میں ہی عافیت سمجھی.محفوظ ٹھکانے پر پہنچتے ہی ہم نے میدان جنگ کا نظارہ کیا تو وہاں ایک دلخراش منظر ہمارا منتظر تھا۔کوئی بھی ماہر چاچا کبھی بھی ڈولی کے قریب سکے نہیں اچھالتا تھا۔ بلکہ سکے پروجیکٹائل کے اصول پر ڈولی سے آگے قابل برداشت فاصلے تک اچھالے جاتے تھے۔لیکن کسی اناڑی چاچے نے سکے عمودی سمت میں اچھال دیے تھے۔معصوم عوام پچیس اور پچاس پیسے والے سکوں کی موجودگی سے آگاہ ہو چکی تھی اب جنگ ڈولی اٹھانے والوں کے قدموں میں لڑی جا رہی تھی۔ریزرو کے طور پر ساتھ چلنے والے چاچے بھی ڈولی کو سنبھالنے کی پوری کوشش کر رہے تھے۔ڈولی میں مقیم دلہن کے حالات اور کیفیات سے صرف اللہ کی ذات ہی آگاہ تھی لیکن ہمارے قیاس کے مطابق وہ اس وقت یقیناً خوشی سے ہنس رہی ہو گی کیونکہ اس تمام تر افراتفری کے طفیل اس کی شادی یادگار بننے جا رہی تھی۔پچاس کے قریب جنگلی بلوں کے سامنے آٹھ یا دس چاچے زیادہ دیر نہ ٹک سکے۔بائیں سمت والے چاروں چاچے ڈولی سنبھالنے کے چکر میں بہتے کٹھے میں اتر چکے تھے۔اور ڈولی ترچھی حالت میں ہوا میں ہچکولے کھا رہی تھی اس سے پہلے کہ ڈولی دلہن سمیت کٹھے میں گرتی چاچوں کی اضافی نفری نے بلوائیوں پر دھاوا بول دیا۔ترچھی ڈولی اپنی جگہ پر ساکت کھڑی تھی۔چاچوں کی تمام تر کوشش کے باوجود حآلات اس وقت قابو میں آئے جب زمین چھوٹی بڑی مالیت کے تمام سکوں سے پاک ہو چکی تھی۔سکے لوٹنے کے بعد کا مرحلہ لوٹ کے مال کی گنتی اور تقسیم کا ہوتا تھا۔چند لمحوں پہلے کے دشمن گہرے دوست بن جاتےتھے۔ایک دوسرے کے ہاتھوں ، گھٹنوں اور کپڑوں کا احوال لیا جاتا۔قمیصوں کے ٹوٹے ہوئے بٹنوں کی جگہ کیکر کے کانٹے پھنسا لیے جاتے تا کہ اماؤں کے جان لیوا سوالات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔چھلنی ہاتھوں اور گھٹنوں کو کھیل کود کے دوران پیش آنے والے حاثات سے نتھی کیا جاتا۔زیادہ مال لوٹنے والوں کی چال ہی بدل جاتی۔پھر اتحادی ٹیمیں گاؤں کی ہٹی (دوکان) سے اجتماعی شاپنگ کرتیں۔اگلے چند دن لوٹی گئی بلیک منی کو حاتم طائی کی طرح خرچ کیا جاتا۔
ہمارے حصے میں اس دن پچاس پیسے کے سکے کو ملا کر شاید کل ڈیڑھ روپیہ آیا تھا۔ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ہم نے دل ہی دل میں طے کر لیا تھا کہ ہم تمام پیسے اسکول کے باہر بیٹھے بابا جی سے ابلے ہوئے نمک مرچ والے چنے کھانے میں خرچ کریں گے۔بابا جی کی عمر غالباً اس وقت 80 سال تھی اور وہ گھر سے باہر کی دنیا میں ہمارے پہلے مخلص دوست تھے۔اللہ نے مہلت دی تو آئندہ کسی مضمون میں بابا جی کا مکمل تعارف کروائیں گے۔
 
Top