Anyone who has studied science even at the level of matric would know that this is a fake experiment. Electrolysis of water (to use as fuel) is a highly endothermic reaction, and requires a lot of energy, and even in ideal conditions, the bi-product (Hydrogen and oxygen combined) would yield less energy than actually required to produce hydrogen and oxygen in the first place. This SCAM is proving to the world that as a nation we are just more dumb than anyone would have guessed. Very sad indeed.
"Yeh DC current is device k andar aa raha hai. Sahee hai. Aur yeh DC current se gas generate ho rahee hai. Ab rahee baat iss mein first law of thermodynamics ki, tou iss mein jo hum ney electrodes use kiey hain tou woh hain capacitor, sahee hai? aur capacitor ka kaam hota hai charge ko store ker laina. Tou us k ooper applied physics ka aik topic hai resonance, jab hum wo resonance topic apply kertay hain na tou us mein basically hum pulse ko modulate kertay hain, pulse ki width ko modulate kertay hain, pulse ki width jo modulate hoti hai, tou us ki wajah se jo paani hota hai, usey hum capacitor mein as a dielectric medium use kertay hain. Aur paani jab as a dielectric medium use ker rahay hain aur capacitor k cathode aur anode per use ker rahey hain as an electrode tou us mein basically hota yeh hai k jo paani ka jo molecule hota hai hydrogen aur oxygen ka wo apas mein jura huwa hota hai tou jab hum pulse ki width ko barha detay hain, pulse ki width ki rating ko jab barha detay hain tou woh us ko khenchna shru ker deyta hai aur jaisey hee hum us pulse ki intensity ko increase kerdetay hain, tou uss se basically hota yeh hai k us intensity ki wajah se hamein hydrogen ki aur oxygen ki yaani oxyhydrogen ki production bulk quantity mein produce ho jati hai"
میڈیا پر تشہیر سے پہلے ، بہتر ہوتا کہ اسکی گاڑی کی اچھی طرح انسپکشن کرلی جاتی تاکہ فراڈ کا اگر کوئی احتمال ہے تو وہ اسی سٹیج پر پکڑا جاسکے۔ اب اگر کل کلاں اس انسپکشن کے نتیجے میں خدانخواستہ، دال میں کچھ کالا نظر آگیا تو انٹرنیشنل لیول پر پاکستان کی کس قدر سبکی ہوگی، اسکا اندازہ آپ خود ہی کرلیجئے۔
اس کا کیا قصہ ہے وہ بھی شئیر کریں۔محمود بھائی بات فراڈ کی نہیں۔ یہ ایسا ہی معاملہ ہے جیسے وہ پچھلے دنوں ہمیں ایک عدد مائیکروسوفٹ کے ایم ڈی نظر آئے تھے اوکاڑہ سے۔۔۔
زبردست۔۔ویسے اگر یہ صاحب چاہتے، تو اس میں مزید نام بھی لے سکتے تھے، مثال کے طور پر فیوژن۔یہ لوگوں کو بیوقوف بنا رہا ہے۔۔۔ اس کے ساتھی نوجوان انجینئر نے اس عمل کی جو توجیہہ پیش کی ہے وہ کچھ یوں ہے:
حوالہ: https://www.facebook.com/obaiyd/posts/509049062454271?ref=notif¬if_t=feed_comment_reply
ایک طویل عرصہ کے بعد سائنس کی کسی ایجاد کے حوالے سے پاکستان کا ذکر ہو رہا ہے۔ یہ تجربہ کامیاب ہو یا ناکام لیکن یہی بہت ہے کہ اس وقت محفل پر ہم لوگ سائنس کے حوالے سے اپنے تجربات و خیالات سانجھے کر رہے ہیں بجائے نزاعی معاملات پر الجھنے کے ۔ میرے نزدیک تو یہ بھی بڑی مثبت بات ہے
سارے مباحثے میں میں آپ کی بات سب سے وزنی ہے۔یہاں سب لوگ جو ان صاحب پر بار بار فراڈ کا الزام لگا رہے ہیں کیا ان میں سے خود کسی نے اس گاڑی میں بیٹھ کر سفر کر کے دیکھا ہے؟ حامد میر نے پہلے خود آدھا گھنٹا اسمیں سفر کیا اسکے بعد نون لیگ کے ایک سیاست دان کیساتھ اسمیں گھومتا رہا۔ بے شک یہ گاڑی پانی سے نہیں بلکہ چارجڈ بجلی سے چل رہی ہے۔ اور اگر چلتی گاڑی اس استعمال شدہ بجلی کو 100 فیصد واپس بیٹری میں منتقل کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے تو ظاہر سی بات ہے اس "ایجاد" کو کمرشلائز کرنا ناممکن ہے۔ کالج کے زمانہ میں فزکس کے کورس کے دوران خاکسار کو بھی اسی قسم کی کار بنانے کا آئیڈیا آتا رہتا تھا۔ اسوقت میرے اندازے کے مطابق گاڑی کے اوپر پنکھے لگا کر بذریعہ ہوا یا اسکی چھت پر شمسی آئینے لگا کر یہ ضائع شدہ بجلی واپس بیٹری میں منتقل کی جا سکتی ہے۔ مزید یہ کہ گاڑی کے پہیوں کو مقناطیسی تحریض کے ذریعہ بجلی پیدا کرنے والے جنریٹرز میں بھی بدلا جا سکتا ہے۔ الغرض یہ کہ پاکستان جیسے ملک میں اگر کوئی شخص کچھ 'سائنسی' بنا لے تو بجائے اسپر الزام تراشی کرنے کے اسکی ایجاد کو مختلف سائنس دانوں اور عام لوگوں کو ٹیسٹ تو کر نے دیں۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا؟ ایک اور ناکام تجربہ؟ تو کیا؟ انسان اب تک جتنی بھی ترقی کی ہے وہ انہی ناکام تجربات کی بدولت حاصل ہوئی ہے۔ مشہور زمانہ ایڈیسن نے بھی لائٹ بلب ایجاد کرتے وقت کئی سو ناکام تجربات کئے تھے۔
یہ بھی ٹھیک کہا آپ نے۔میں اس بات سے اختلاف کروں گا۔ فراڈ کو سائنس بنا کر پیش کرکے لوگوں کا پاکستانی سائنسدانوں ( جو کہ واقعی میں کچھ کام کر رہے ہیں) پر سے اعتماد اٹھ جائے گا۔
تو اس طرح کی "ایجادات" کو بہتر ہے تحقیق کرنے کے بعد ہی اناونس کیا جائے۔ ویسے ٹی وی چینل والے اگر سائنس اڈوائزر رکھ لیں تو بہت بڑی شرمندگی سے بچ سکتے ہیں۔
یہاں سب لوگ جو ان صاحب پر بار بار فراڈ کا الزام لگا رہے ہیں کیا ان میں سے خود کسی نے اس گاڑی میں بیٹھ کر سفر کر کے دیکھا ہے؟ حامد میر نے پہلے خود آدھا گھنٹا اسمیں سفر کیا اسکے بعد نون لیگ کے ایک سیاست دان کیساتھ اسمیں گھومتا رہا۔ بے شک یہ گاڑی پانی سے نہیں بلکہ چارجڈ بجلی سے چل رہی ہے۔ اور اگر چلتی گاڑی اس استعمال شدہ بجلی کو 100 فیصد واپس بیٹری میں منتقل کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے تو ظاہر سی بات ہے اس "ایجاد" کو کمرشلائز کرنا ناممکن ہے۔ کالج کے زمانہ میں فزکس کے کورس کے دوران خاکسار کو بھی اسی قسم کی کار بنانے کا آئیڈیا آتا رہتا تھا۔ اسوقت میرے اندازے کے مطابق گاڑی کے اوپر پنکھے لگا کر بذریعہ ہوا یا اسکی چھت پر شمسی آئینے لگا کر یہ ضائع شدہ بجلی واپس بیٹری میں منتقل کی جا سکتی ہے۔ مزید یہ کہ گاڑی کے پہیوں کو مقناطیسی تحریض کے ذریعہ بجلی پیدا کرنے والے جنریٹرز میں بھی بدلا جا سکتا ہے۔ الغرض یہ کہ پاکستان جیسے ملک میں اگر کوئی شخص کچھ 'سائنسی' بنا لے تو بجائے اسپر الزام تراشی کرنے کے اسکی ایجاد کو مختلف سائنس دانوں اور عام لوگوں کو ٹیسٹ تو کر نے دیں۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا؟ ایک اور ناکام تجربہ؟ تو کیا؟ انسان اب تک جتنی بھی ترقی کی ہے وہ انہی ناکام تجربات کی بدولت حاصل ہوئی ہے۔ مشہور زمانہ ایڈیسن نے بھی لائٹ بلب ایجاد کرتے وقت کئی سو ناکام تجربات کئے تھے۔