پاکستان ٹریول گائیڈ بکس اور سائٹس

زیک

مسافر
دنیا بھر کے ممالک میں سیاحوں کے لئے گائیڈ بکس ہوتی ہیں اور آج کل تو کافی معلومات ویب سائٹس پر بھی مل جاتی ہیں۔ کیا پاکستان کے بارے میں ایسی کتب اور ویب سائٹس ہیں؟ اور ان میں سے کونسی current اور جامع ہیں؟

خاص طور پر شمالی پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں دلچسپی ہے۔ کاغان، چترال، گلگت وغیرہ۔
 

سعود الحسن

محفلین
زیک پاک وھیل فورم کا یہ تھریڈ شائد آپ کے کچھ کام آسکے، گو کہ یہاں ٹریول گایئڈ نہیں ہیں لیکن ممبرز اپنے سفر اور دوسری معلومات شئیر کرتے ہیں جو اپڈیٹ بھی ہوتی ہیں، اور آپ اپنے کسی ٹور کے لیے ممبرز سے مدد بھی لے سکتے ہیں۔
 

اسد

محفلین
پاکستان کے بارے میں آخری جامع گائیڈ 1980 کی دہائی میں پاکستانی حکومت کے تعاون سے لکھی گئی تھی۔ کتاب اور مصنفہ کا نام مجھے یاد نہیں رہا۔ کافی عرصہ پہلے اس کے اپڈیٹڈ ایڈیشن بھی آئے تھے لیکن اب وہ بھی کارآمد نہیں رہے۔

اس کے علاوہ ایک اور ٹریول گائیڈ بھی ہوا کرتی تھی، غالباً 'لونلی پلینٹ' کی، جو پاکستان کا سفر کرنے والوں کی مدد سے مرتب کی گئی تھی۔ جن جگہوں پر مرتبین خود گئے تھے ان کی تفصیلات درست اور مکمل تھیں لیکن جن جگہوں پر وہ خود نہیں گئے تھے ان جگہوں کی معلومات کچھ زیادہ کارآمد نہیں تھی۔ اب تو لونلی پلینٹ کی سائٹ پر پاکستان کے بارے میں کوئی کتاب موجود نہیں ہے۔

پاکستان میں کوہ پیمائی کے بارے میں (غیر ملکی) کتابیں چھپتی رہتی ہیں لیکن یہ عام سیاحوں کے لئے بیکار ہوتی ہیں۔

انٹرنیٹ پر صرف چند جگہوں کی معلومات دستیاب ہیں۔ زیادہ تر سائٹس کمرشل ہیں اور ٹور آپریٹرز کی ہیں۔ زیادہ تر ٹور آپریٹر صرف دو یا تین جگہوں کا تجربہ رکھے ہیں لیکن سائٹ پر باقی جگہوں کی معلومات کہیں اور سے کاپی کر کے ڈال دیتے ہیں۔ جو افراد اپنی ذاتی سائٹس پر معلومات فراہم کرتے ہیں وہ ان کے ذاتی نقطۂ نظر کے مطابق ہوتی ہیں، مثلاً ایک ہی ٹریک کو تین مختلف افراد معتدل، نیم دشوار اور دشوار قرار دیتے ہیں اور اس کا دورانیہ تین گھنٹے، چار گھنٹے اور پانچ گھنٹے بتاتے ہیں، پڑھنے والے مزید معلومات موجود نہ ہونے کی وجہ سے فیصلہ نہیں کر سکتے۔ ٹریکس کے بارے میں جو زیادہ سے زیادہ جو معلومات دستیاب ہوتی ہیں وہ نقطۂ آغاز کی بلندی، نقطۂ اختتام کی بلندی اور ٹریک کی زیادہ سے زیادہ بلندی ہیں۔ مختلف مقامات کے بارے میں ایک جگہ یہ تفصیلات نہیں ملتیں کہ اس کے آس پاس دیکھنے کے لائق کون سی جگہیں موجود ہیں۔

پچھلے دس سالوں میں عام غیر ملکی ٹورسٹ کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ صرف کوہ پیما باقائدگی سے پاکستان آتے ہیں، باقی زیادہ تر لوگ کسی اور وجہ سے پاکستان آتے ہیں اور کچھ سیاحت بھی کر لیتے ہیں، پاکستانی ادارے انہیں سیاح قرار دے دیتے ہیں۔ کوہ پیماؤں کے لئے ٹور آپریٹزز کی خدمات حاصل کرنا لازمی ہوتا ہے اور انہیں کوہ پیمائی کی کتابوں میں تمام تر ضروری معلومات دستیاب ہو جاتی ہیں۔ اس لئے عام سیاحوں کے لئے کوئی اچھی غیر ملکی کتاب عرصے سے نہیں چھپی۔
 
ایک طریقہ یہ ہے کہ اسلام اباد، بھوربن، لاہور، کراچی کے ہوٹلز کو بیس کیمپ بنائیں اور وہاں پہنچ کر سستے ریسورسز استعمال کریں
ہوٹل کے لیے ایک اور ویب سائیٹ ہے جو اپ کو پتہ ہی ہے
http://www.booking.com/
 

اسد

محفلین
پھر پاکستان کے باہر سے ٹرپ پلاننگ وغیرہ کا کیا بہترین طریقہ ہے؟
عام طور پر تو لوگ پاکستان میں موجود دوستوں اور رشتے داروں کی مدد سے ٹرپ پلان کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ سے جگہوں کے بارے میں معلومات حاصل کر کے انتخاب کرتے ہیں اور پھر لوگوں کی مدد سے ٹرپ پلان کرتے ہیں۔
گلیات (مری، نتھیا گلی وغیرہ) اور کاغان میں جون سے اگست تک سیزن کا بہت زیادہ رش ہوتا ہے، ان جگہوں پر سیزن کے دوران مشکلات ہوتی ہیں اور ہوٹل اور جیپ والے لوٹ مچاتے ہیں۔ ان کے علاوہ تمام جگہوں پر تمام سہولیات بہت مناسب ریٹ پر دستیاب ہوتی ہیں۔ گلگت - بلتستان میں گلگت اور سکردو میں ہوائی اڈے موجود ہیں اور بہتر یہی ہے کہ اسلام آباد سے سکردو ہوائی جہاز پر جائیں اور وہاں جیپ حاصل کر کے سیر کریں۔ واپسی پر بذریعہ سڑک سفر کر سکتے ہیں۔ اسی طرح چترال بھی ہوائی جہاز پر جا سکتے ہیں۔

شمالی علاقوں میں سردیوں میں سڑکیں بند ہونے کا مسئلہ رہتا ہے اور کئی درے جون میں برف ہٹا کر ٹریفک کے لئے کھولے جاتے ہیں۔۔ اگر آپ بتا دیں کہ کس مہینے میں سفر کا ارادہ ہے تو شاید میں کچھ مدد کر سکوں۔ یہ بھی بتا دیں کہ آپ کو کس قسم کی سرگرمیوں میں دلچسپی ہے۔ بعض لوگ ٹور آپریٹرز کے پیکج ٹرپ پر جاتے ہیں لیکن مجھے ذاتی طور پر اپنی دلچسپی کے مطابق ٹرپ پلان کرنا بہتر لگتا ہے۔
 

زیک

مسافر
عام طور پر تو لوگ پاکستان میں موجود دوستوں اور رشتے داروں کی مدد سے ٹرپ پلان کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ سے جگہوں کے بارے میں معلومات حاصل کر کے انتخاب کرتے ہیں اور پھر لوگوں کی مدد سے ٹرپ پلان کرتے ہیں۔
گلیات (مری، نتھیا گلی وغیرہ) اور کاغان میں جون سے اگست تک سیزن کا بہت زیادہ رش ہوتا ہے، ان جگہوں پر سیزن کے دوران مشکلات ہوتی ہیں اور ہوٹل اور جیپ والے لوٹ مچاتے ہیں۔ ان کے علاوہ تمام جگہوں پر تمام سہولیات بہت مناسب ریٹ پر دستیاب ہوتی ہیں۔ گلگت - بلتستان میں گلگت اور سکردو میں ہوائی اڈے موجود ہیں اور بہتر یہی ہے کہ اسلام آباد سے سکردو ہوائی جہاز پر جائیں اور وہاں جیپ حاصل کر کے سیر کریں۔ واپسی پر بذریعہ سڑک سفر کر سکتے ہیں۔ اسی طرح چترال بھی ہوائی جہاز پر جا سکتے ہیں۔

شمالی علاقوں میں سردیوں میں سڑکیں بند ہونے کا مسئلہ رہتا ہے اور کئی درے جون میں برف ہٹا کر ٹریفک کے لئے کھولے جاتے ہیں۔۔ اگر آپ بتا دیں کہ کس مہینے میں سفر کا ارادہ ہے تو شاید میں کچھ مدد کر سکوں۔ یہ بھی بتا دیں کہ آپ کو کس قسم کی سرگرمیوں میں دلچسپی ہے۔ بعض لوگ ٹور آپریٹرز کے پیکج ٹرپ پر جاتے ہیں لیکن مجھے ذاتی طور پر اپنی دلچسپی کے مطابق ٹرپ پلان کرنا بہتر لگتا ہے۔
شکریہ اسد۔

جولائی کا ارادہ ہے۔ میں پیکجڈ ٹرپ پسند نہیں کرتا بلکہ تفصیل سے خود پلان کرتا ہوں۔ سوچ رہا ہوں کہ کاغان یا گلگت ہنزہ کا چکر لگایا جائے۔ اسلام آباد سے کاغان تو میں خود ڈرائیو کر سکتا ہوں۔ شاید کوئی 4 ،5 دن کا ٹرپ۔ ایکٹو ویکیشن پسند کرتا ہوں لہذا ہائکنگ بھی شامل ہو گی۔

اسلام آباد میں کار رینٹل کے میرے تجربات اچھے نہیں ہیں۔ کیا کسی کو اچھی رینٹل کمپنی کا علم ہے؟ میں ڈرائیور لینا پسند نہیں کرتا۔
 

زیک

مسافر
ایک طریقہ یہ ہے کہ اسلام اباد، بھوربن، لاہور، کراچی کے ہوٹلز کو بیس کیمپ بنائیں اور وہاں پہنچ کر سستے ریسورسز استعمال کریں
ہوٹل کے لیے ایک اور ویب سائیٹ ہے جو اپ کو پتہ ہی ہے
http://www.booking.com/
اس میں شمالی پہاڑی پاکستان کے ہوٹل نہ ہونے کے برابر ہیں۔
 

اسد

محفلین
چار یا پانچ دن گلگت ہنزہ کے لئے ناکافی ہیں اس لئے مختصر عرصے کے لئے کاغان ہی مناسب ہے۔

کاغان میں رہنے کے لئے دو جگہیں ہیں، شوگراں اور ناران۔ ویسے تو کاغان گاؤں اور دوسری جگہیں بھی ہیں لیکن یہ دونوں دیگر سہولیات کی وجہ سے بہتر ہیں۔ ناراں میں پی ٹی ڈی سی موٹل موجود ہے۔ http://www.tourism.gov.pk/tariff_motels.htm پر ریزرویشن آفس کے نمبر اور کمروں کے کرائے موجود ہیں۔
شوگراں میں پائن پارک بڑا ہوٹل ہے، اس کے علاوہ لالہ‌زار ہوٹل اور آفاق ہوٹل بھی ہیں۔ پائن پارک کی سائٹ: http://pineparkhotels.com/

شوگراں سے سری اور پائے جیپ پر جا سکتے ہیں۔ پائے سے مکڑا پہاڑ کی چوٹی تک پانچ گھنٹے کے اندر پہنچ سکتے ہیں۔ میں خود چوٹی پر نہیں گیا ہوں اس لئے درست اونچائی یا وقت نہیں بتا سکتا۔ گوگل ارتھ پر یہ چوٹی "Makra" کے نام سے شوگراں، سری اور پائے کے جنوب میں ہے، "Makra Peak" کا نام قریب ہی ایک اور چوٹی پر لکھا ہے لیکن وہ غلط ہے۔ اگر دھوپ نکلی ہو تو آسانی سے چوٹی تک پہنچ سکتے ہیں لیکن یہاں اکثر بادل آ جاتے ہیں اور اس وقت چڑھائی مشکل اور اترنا مزید مشکل ہو جاتا ہے۔ شوگراں سے پورے دن کے لئے جیپ اور گائڈ مل جاتے ہیں۔ جون میں گائڈ کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن برسات میں احتیاط بہتر ہے۔

ناران میں ٹھہر کر جھیل سیف الملوک، لالہ‌‌زار، جھیل لولوسر، بابوسر ٹوپ اور نوری ٹوپ جا سکتے ہیں۔ جھیل سیف الملوک تقریباً آٹھ یا نو کلومیٹر دور ہے اور ہائک کر کے تین گھنٹے میں اس تک پہنچا جا سکتا ہے۔ پہلے ایک مختصر پیدل راستہ بھی موجود تھا لیکن سڑک کی تعمیر اور مرمت کے دوران پھینکے جانے والے ملبے تلے دب گیا تھا۔

جھیل لولوسر، بابوسر ٹوپ کے راستے میں ہے اور جیپ پر ایک دن میں دونوں جگہیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہاں سڑک بن رہی ہے لیکن کار پر یہ سفر کرنا ظلم ہو گا۔

نوری ٹوپ جائیں تو راستے میں رک کر N35 E74 کونفلوئنس پر ہائک کر کے جا سکتے ہیں۔ فاصلہ تو تھوڑا ہے لیکن چڑھائی کافی زیادہ ہے۔

اگلے سال بھی رمضان جولائی میں پڑے گا، میں مشورہ دوں گا کہ کاغان یا تو جولائی کے پہلے ہفتے میں جائیں یا آخری تین چار دنوں میں۔ عید اور اس سے پہلے اور بعد ایک ایک ہفتہ وہاں کا سفر نہ کریں۔ بالاکوٹ ناران روڈ پانچ گھنٹے کے ٹریفک جام میں ناقابلِ برداشت ہو جاتی ہے۔

کاغان کے لئے ڈرائیور کے بغیر رینٹل کار ملنا مشکل ہو گی، لوگ کار کو جیپ ٹریکس پر لے جا کر اس کا برا حال کرتے ہیں۔ اگر آپ شوگراں جائیں تو کار کیوائی میں پارک کریں اور جیپ پر جائیں۔
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
چار یا پانچ دن گلگت ہنزہ کے لئے ناکافی ہیں اس لئے مختصر عرصے کے لئے کاغان ہی مناسب ہے۔

کاغان میں رہنے کے لئے دو جگہیں ہیں، شوگراں اور ناران۔ ویسے تو کاغان گاؤں اور دوسری جگہیں بھی ہیں لیکن یہ دونوں دیگر سہولیات کی وجہ سے بہتر ہیں۔ ناراں میں پی ٹی ڈی سی موٹل موجود ہے۔ http://www.tourism.gov.pk/tariff_motels.htm پر ریزرویشن آفس کے نمبر اور کمروں کے کرائے موجود ہیں۔
شوگراں میں پائن پارک بڑا ہوٹل ہے، اس کے علاوہ لالہ‌زار ہوٹل اور آفاق ہوٹل بھی ہیں۔ پائن پارک کی سائٹ: http://pineparkhotels.com/

شوگراں سے سری اور پائے جیپ پر جا سکتے ہیں۔ پائے سے مکڑا پہاڑ کی چوٹی تک پانچ گھنٹے کے اندر پہنچ سکتے ہیں۔ میں خود چوٹی پر نہیں گیا ہوں اس لئے درست اونچائی یا وقت نہیں بتا سکتا۔ گوگل ارتھ پر یہ چوٹی "Makra" کے نام سے شوگراں، سری اور پائے کے جنوب میں ہے، "Makra Peak" کا نام قریب ہی ایک اور چوٹی پر لکھا ہے لیکن وہ غلط ہے۔ اگر دھوپ نکلی ہو تو آسانی سے چوٹی تک پہنچ سکتے ہیں لیکن یہاں اکثر بادل آ جاتے ہیں اور اس وقت چڑھائی مشکل اور اترنا مزید مشکل ہو جاتا ہے۔ شوگراں سے پورے دن کے لئے جیپ اور گائڈ مل جاتے ہیں۔ جون میں گائڈ کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن برسات میں احتیاط بہتر ہے۔

ناران میں ٹھہر کر جھیل سیف الملوک، لالہ‌‌زار، جھیل لولوسر، بابوسر ٹوپ اور نوری ٹوپ جا سکتے ہیں۔ جھیل سیف الملوک تقریباً آٹھ یا نو کلومیٹر دور ہے اور ہائک کر کے تین گھنٹے میں اس تک پہنچا جا سکتا ہے۔ پہلے ایک مختصر پیدل راستہ بھی موجود تھا لیکن سڑک کی تعمیر اور مرمت کے دوران پھینکے جانے والے ملبے تلے دب گیا تھا۔

جھیل لولوسر، بابوسر ٹوپ کے راستے میں ہے اور جیپ پر ایک دن میں دونوں جگہیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہاں سڑک بن رہی ہے لیکن کار پر یہ سفر کرنا ظلم ہو گا۔

نوری ٹوپ جائیں تو راستے میں رک کر N35 E74 کونفلوئنس پر ہائک کر کے جا سکتے ہیں۔ فاصلہ تو تھوڑا ہے لیکن چڑھائی کافی زیادہ ہے۔

اگلے سال بھی رمضان جولائی میں پڑے گا، میں مشورہ دوں گا کہ کاغان یا تو جولائی کے پہلے ہفتے میں جائیں یا آخری تین چار دنوں میں۔ عید اور اس سے پہلے اور بعد ایک ایک ہفتہ وہاں کا سفر نہ کریں۔ بالاکوٹ ناران روڈ پانچ گھنٹے کے ٹریفک جام میں ناقابلِ برداشت ہو جاتی ہے۔

کاغان کے لئے ڈرائیور کے بغیر رینٹل کار ملنا مشکل ہو گی، لوگ کار کو جیپ ٹریکس پر لے جا کر اس کا برا حال کرتے ہیں۔ اگر آپ شوگراں جائیں تو کار کیوائی میں پارک کریں اور جیپ پر جائیں۔
شکریہ اسد۔

کیا وہاں ٹریلز maintained ہیں اور signage کیسی ہے؟
 

قیصرانی

لائبریرین
پاکستان کے بارے یا تو عمران خان کی Journey Through Pakistan ایک کتاب دیکھی تھی یا پھر لونلی پلینٹ والوں۔ لونلی پلینٹ والوں کا ایڈیشن جو میں نے دیکھا تھا، وہ مشرف دور سے متعلق تھا اور مصنفین خود پاکستان گئے تھے اور بظاہر بہت اچھی لگی کتاب
 
Top