محب علوی
مدیر
ایک دفعہ کا ذکر ہے (اللہ کا شکر ہے ایک دفعہ کا ہی ہے) کہ میں ، میرا بھائی اور میرا کزن حسن علوی اکھٹے ہوئے اسلام آباد میں۔ پروگرام بنا کہ کرائے کی گاڑی ہے تو کیوں نہ مری کی سیر ہی کر لی جائے ویسے بھی گاڑی کونسا روز روز ہاتھ آتی ہے اور جب آتی ہے تو پیسے دے کر ۔ اس لیے طے ہوا کہ اس کا بہترین مصرف یہ ہے کہ اس کو زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے اور ایک چکر مری کا لگا کر پیسے وصولے جائیں۔ مجھے تو ڈرائیونگ آتی نہیں تھی ، بھائی کو آتی تھی اور اس کے بعد کچی پکی ڈرائیونگ کزن کو آتی تھی ، اس لیے طے ہوا کہ گاڑی بھائی ہی چلائے گا۔ بھائی کا نام ادب سے لے رہا ہوں گو ہے مجھ سے چھوٹا وہ پڑھ لے تو خوشی سے دو دن بوکھلایا پھرے اور کہے کہ بہت اعلی بھائی صاحب یعنی ہم بھی صاحب عزت ہو گئے اب۔ بھائی صاحب کا نام مشکل ہے اس لیے بھائی ہی کہوں گا ورنہ نام ہی لکھتا۔ خیر قصہ کوتاہ کہ ہم گیارہ کے لگ بھگ گھر سے چلے اور مری کی چڑھائی باآسانی چڑھتے گئے اور بھائی نے بھی مسلسل اپنی ڈرائیونگ کی تعریف جاری رکھی کہ یوں کرتے ہیں ڈرائیونگ اور ہم بھی دل ہی دل میں سراہ رہے تھے مگر زبان سے ہنسی مذاق کر رہے تھے کہ ہاں بھائی مان گئے ڈرائیور تو ایک ہی ہے پورے شہر میں۔ ایک دو گھنٹے ٹھہرنے کے بعد ہم نے واپسی کی راہ لی اور مری سے اسلام آباد کا سفر شروع ہوا جو کہ اترائی کا سفر ہے اور اتنا آسان نہیں کیونکہ اس میں کئی خطرناک موڑ آتے ہیں اور ایک سائیڈ پر کافی گہری کھائیاں ہیں۔ نیچے اترتے ہوئے سپیڈ خود بخود تیز ہو جاتی ہے اور چڑھائی سے بھی کچھ جگہوں پر مشکل ڈرائیونگ ہو جاتی ہے۔ خیر اترائی کا سفر جاری تھا اور ساتھ ہی بھائی کی اپنی ڈرائیونگ پر خود کو خراج تحسین بھی۔ بھائی کی نرگسیت تو اترائی میں بھی چڑھائی ہی چڑھ رہی تھی ، ڈرائیونگ کے رموز و اوقاف پر بنا رکے تبصرے جاری تھے اور ساتھ ساتھ یہ فرمان بھی کہ ڈرائیونگ ایسے کرتے ہیں سیکھتے جاؤ پھر کہاں ایسا مشتاق استاد ملے گا۔ میں اور کزن اب کچھ سنبھل کر بیٹھ گئے تھے کیونکہ گاڑی کی سپیڈ اب ساٹھ سے بڑھ کر ستر ہو گئی تھی اور مری کی اترائی کے لیے کافی سے زیادہ تھی۔ بھائی نے ہمیں ڈرائیونگ کے بارے میں اپنی قابلیت کا ایک اور ثبوت دیتے ہوئے کہا کہ جب سفر لمبا ہو تو چاہیے کہ کسی گاڑی کے پیچھے لگ جائیں اس سے سفر آسانی سے کٹ جاتا ہے اور آپ کو دقت بھی نہیں ہوتی ، یہ کہتے ہوئے اپنی کلٹس پراڈو کے پیچھے لگا دی ۔ پراڈو والے نے بھی ہمیں گھیرنے کے لیے سپیڈ کم رکھی ہوئی تھی اور اپنی اصل رفتار سے کہیں کم پر جا رہا تھا اور بھائی نے بھی اسے راہنما مقرر کر لیا تھا ۔ پراڈو والے نے تھوڑی سپیڈ بڑھائی تو بھائی نے بھی جذبات کی رو میں بہہ کر سپیڈ بڑھائی اور کہا کہ دیکھا مہارت ہو تو گاڑی اتنی سپیڈ سے بھی آسانی سے چلائی جا سکتی ہے اور ایک تیز کٹ لیا جس پر گاڑی تو جو گھومی سو گھومی ہمارے اوسان بھی خطا ہوتے ہوتے رہ گئے۔ اس کے بعد پراڈو والے نے کچھ اور دیدہ دلیری دکھائی شاید وہ ہمارے مسلسل پیچھا کرنے پر ہتک محسوس کر رہا تھا ( کہاں کلٹس اور کہاں پراڈو مگر جا رہی تھیں ساتھ ساتھ ) اور اکھٹے ہی تین گاڑیوں کو اوور ٹیک کر لیا ، بھائی صاحب نے پیچھے نہ رہنے کی قسم کھا رکھی تھی انہوں نے بھی ایک ہی ساتھ تینوں گاڑیوں کو اوور ٹیک کر لیا ، میرا اور کزن کا سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ بھائی سے کہا کہ یار کوئی گاڑی سامنے سے آ جاتی تو کل ہمارے قل ہوتے۔ پھر پراڈو والے نے اور سپیڈ بڑھائی اور بھائی صاحب کا کہنا تھا کہ اور سپیڈ سے بھی گاڑی آسانی سے جا سکتی اور خود بھی سپیڈ بڑھا دی مزید ارشاد فرمایا کہ سو تک بھی آرام سے ڈرائیو ہو سکتی ہے فی الحال صرف اسی پر جا رہا ہوں۔ پھر آیا ایک خطرناک موڑ جسے پراڈو والا تو سپیڈ میں آسانی سے گزار گیا مگر ہماری کلٹس اتنی سپیڈ پر نہ مڑ سکی اور بڑی مشکل سے سنبھالتے سنبھالتے بھی سڑک سے اتر گئی اور ایک چار فٹ کے گڑھے میں سے ہوتی ہوئی اچھلی اور سامنے کے پتھروں کی وجہ سے رک گئی اور ساتھ ہی ہمارے سانس بھی۔ صد شکر کہ پیچھے سے کوئی گاڑی نہیں آرہی تھی اور ہماری گاڑی بھی بے قابو نہیں ہوئی اور نہ دائیں طرف کھائی میں گری معمولی نقصان ہوا اور بمپر ہی ٹوٹا۔ بھائی کو کچھ نہ کہا کہ آگے بھی ڈرائیونگ اس نے ہی کرنی تھی ۔ اس سے کہا کہ اب بالکل آرام سے جانا ہے اور اب جا کر گاڑی کی مرمت بھی کروانی ہے۔ ذہن میں یہ بھی تھا کہ کہیں راستے میں گاڑی خراب نہ ہو جائے اور مرمت کا پریشر بھی تھا مگر خیریت رہی اور گھر پہنچ گئے ۔ صبح مرمت کروا کر گاڑی واپس کروا دی اور آئیندہ تیز ڈرائیونگ سے بھائی کی بھی توبہ کروائی اور خود بھی کی۔