بحیثیت مسلمان ہمارے کردار کے لیے ہی نہیں بلکہ ہماری گفتار کے لیے بھی نمونہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارک ہے۔
دین کو اشیاء میں محصور نہیں کیا جاتا بلکہ رب تعالی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں خیالات، گفتار اور کردار کو دین کے مطابق کیا جاتا ہے۔ اور جو کام کسی کی محبت میں کیا جائے وہ بوجھ نہیں ہوتا۔پاکیزہ خیالات ہی پاکیزہ گفتار اورپاکیزہ کردار کو جنم دیتے ہیں۔
اپنی گفتگو میں ان نزاکتوں کا خیال رکھنا بے دینی یا زوالِ امت نہیں۔
آپ گفتگو کو کسی اور طرف لے جا رہے ہیں۔
مطلب کی بات صرف اس قدر ہے کہ بنی نوعِ انسان کے اس عظیم محسن کی زندگی سے، جسے دنیا محمدِ عربیﷺ کے نام سے جانتی ہے، آپ اس قسم کے لسانی جہاد کی کوئی مثال پیش کر سکتے ہیں؟
کیا ہم عرب کے بدوؤں سے بھی زیادہ وحشی ہیں؟ کیا ہماری ہیچ مایہ زبان ان کی لغتِ طناز سے بھی زیادہ تیکھی ہے؟ کیا ہمارے شعرا اور ادبا کے ہاں ان کے فصحا و بلغا سے بھی زیادہ مبتذل مضامین ملتے ہیں؟ کیا ہمارے محاورے ان سے بھی زیادہ رکیک ہیں؟ اگر نہیں اور یقیناً نہیں تو کیا رسولِ اکرمﷺ نے لسانِ عرب کی اصلاح کا بیڑا اسی طرح اٹھایا تھا جس طرح آپ لوگ ہلکان ہو رہے ہیں؟
مؤرخینِ اسلام ہنستے ہیں کہ جب طارق اندلس پر حملہ آور ہوا تو مسیحی علما سوئی کی نوک پر بیٹھ پانے والے فرشتے گن رہے تھے۔ مجھے ہنسی آتی ہے کہ فاتحِ اندلس کے فرزندانِ معنوی کے پاس بھی آج لے دے کے مہماتِ لسانیہ رہ گئی ہیں جن سے وہ امتحانِ دست و بازو کر رہے ہیں۔
یاد رکھیے۔ موسیٰؑ اللہ کے رسول تھے۔ ان کی قوم اگر پٹ گئی تو اس لیے نہیں کہ ان کا پیغام نعوذ باللہ غلط تھا بلکہ اس لیے کہ قوم غلط تھی۔ عیسیٰؑ جلیل القدر نبی تھے۔ ان کا پیغام حق تھا۔ ان کی قوم ظالم نکلی۔ محمد مصطفیٰﷺ کا پیغام الوہی تھا۔ ان کی بھی قوم اپنے پیشروؤں کے قدم پر چل نکلی ہے۔ ڈھٹائی کی حد یہ ہے کہ مانتے بھی نہیں کہ ہم پر زوال آ چکا ہے۔ ہم خدا کی اسی پکڑ میں آ چکے ہیں جس کا مذکور ہمارے اکابر اممِ سابقہ کی ذیل میں کیا کرتے تھے۔
قبلہ و کعبہ، آپ کی اردو کفارِ ہند کی اسی طرح مرہون ہے جس طرح صوفیائے عرب و عجم کی۔ یہ زبان جس نے سنسکرت، پنجابی، برج بھاکا وغیرہ جیسی ہندوانہ زبانوں کی کوکھ میں پرورش پائی ہے، اس کے حقوقِ ملکیت آپ نے کب حاصل کیے؟ کیا اردو آئندہ صرف مسلمانوں کی زبان ہوا کرے گی؟ کیا لوگوں کو اسلام کی طرح اردو کے دائرے سے بھی خارج کر دیا جایا کرے گا؟ ہندوستان کی مٹی سے پیدا ہو کر آپ اسی ہندوستان کے ثمرِ شیریں اردو کی رگِ جاں قطع کریں گے اور خدا خوش ہو جائے گا؟
میں اطلاعاً عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اگر ایسا ممکن ہو بھی گیا تو یہ ہرگز کوئی بےنظیر کارنامہ نہیں ہو گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب کوئی قوم وحشت و بربریت کی انتہا کو پہنچتی ہے تو وہ اسی طرح تمدن اور ثقافت سے بیر پال لیتی ہے۔ کتب خانے جلائے جاتے ہیں۔ لسانی بنیادوں پر زندگی اور موت کے فیصلے ہوتے ہیں۔ رہن سہن اور اوڑھنے بچھونے کی رسوم کا اختلاف فرشتوں کے اس قول کی تصدیق کا سبب بنتا ہے کہ آدم زمین پر خون بہائے گا۔ مفتوح کی تاریخ اور تہذیب کو مسخ کر کے اپنی درندگی کا ثبوت دیا جاتا ہے۔ اہلِ نظر کے لیے یہ سب نیا نہیں۔ مگر آرزو رہتی ہے کہ کاش ایسا نہ ہو۔
میں جناب
طالب سحر سے شرمندہ ہوں کہ بغیر کتاب کو پڑھے اس بحث میں کود پڑا ہوں۔ مگر بایں ہمہ میں حضور کو یقین دلاتا ہوں کہ جس شخص کی تحقیقی صلاحیتوں پر اس قسم کا زنگ چڑھا ہو اس کی کتاب میں کبھی پڑھوں گا بھی نہیں۔ استغفراللہ۔ دین انسانوں کے لیے آیا تھا یا زبانوں کے لیے؟ کپڑوں کے لیے؟ ڈاڑھیوں کے لیے؟ معاذ اللہ۔ ایسے علما سے بعید نہیں کہ کل کلاں کھیرے کو شلوار پہنانے کی قرارداد پاس کر دیں کہ یہ بقولِ جوشؔ فحش سبزی ہے۔ جب ذی ہوش دین سے منہ پھیر لیں تو اسلام بیچارے کے پاس اپنے نفاذ کے لیے بے جان چیزوں سے رجوع کرنے کے سوا چارہ ہی کیا رہ جاتا ہے؟
چو کفر از کعبہ بر خیزد، کجا ماند مسلمانی؟