بہت شورِیدہ سر تھا میں، بہت محشر بداماں تھا
مِرا دست و گریباں بھی کبھی دست و گریباں تھا
وہ اک پردہ، خرد کے لب پہ جس کا نام داماں تھا
جنُوں کے ہاتھ میں تھا، اور گریباں ہی گریباں تھا
مجھے برہم سمجھ کے، ہجوِ مے کو پی گیا واعظ
وگرنہ آج میرا ہاتھ تھا ، اُس کا گریباں تھا
حفیظ احباب کے اِرشاد کی تعمیل کردی ہے
کہ حکمِ قافیہ پیمائیِ لفظِ گریباں تھا
حفیظ جالندھری