مزمل شیخ بسمل
محفلین
آئی جب بلبل چمن پر نغمہ گانے کے لئے
دستِ برگِ گل اٹھے تالی بجانے کے لئے
ابروئے خم دار انکے خوں بہانے کے لئے
اور دزدیدہ نظر ہے دل چرانے کے لئے
آنکھ دی تو دی مجھے آنسو بہانے کے لئے
یا الٰہی دل دیا تو غم اٹھانے کے لئے
اب جمے گا رنگ اب گل پر بہار آجائے گی
آگئی بلبل چمن پر چہچہانے کے لئے
میں سمجھتا ہوں کے یہ بھی اک جفا کرتے ہو تم
غیر سے ملتے ہو میرا دل دکھانے کے لئے
نیم بسمل چھوڑ کر جاتے ہو تم افسوس ہے
سخت جاں کو کم سنی کے دن گنانے کے لئے
ہے پسینہ گل پے اے بلبل تری فریاد سے
کہتے ہیں اہلِ چمن شبنم چھپانے کے لئے
انکے کشتے بن کے بلبل چونچ میں لے لینگے گل
تربتوں پر گل وہ لائیں تو چڑھانے کے لئے
شام ہوتی ہے چلو گھر جاؤ اٹھو رو چکے
قبر پر کیوں آگئے ٹسوے بہانے کے لئے
بار خاموشی کا بسمؔل سے کب اٹھے گا بتوں
ڈھونڈلو مزدور کوئی بوجھ اٹھانے کے لئے