پھر ایک غزل. ”نیم بسمل چھوڑ کر جاتے ہو تم افسوس ہے“

آئی جب بلبل چمن پر نغمہ گانے کے لئے
دستِ برگِ گل اٹھے تالی بجانے کے لئے
ابروئے خم دار انکے خوں بہانے کے لئے
اور دزدیدہ نظر ہے دل چرانے کے لئے
آنکھ دی تو دی مجھے آنسو بہانے کے لئے
یا الٰہی دل دیا تو غم اٹھانے کے لئے
اب جمے گا رنگ اب گل پر بہار آجائے گی
آگئی بلبل چمن پر چہچہانے کے لئے
میں سمجھتا ہوں کے یہ بھی اک جفا کرتے ہو تم
غیر سے ملتے ہو میرا دل دکھانے کے لئے
نیم بسمل چھوڑ کر جاتے ہو تم افسوس ہے
سخت جاں کو کم سنی کے دن گنانے کے لئے
ہے پسینہ گل پے اے بلبل تری فریاد سے
کہتے ہیں اہلِ چمن شبنم چھپانے کے لئے
انکے کشتے بن کے بلبل چونچ میں لے لینگے گل
تربتوں پر گل وہ لائیں تو چڑھانے کے لئے
شام ہوتی ہے چلو گھر جاؤ اٹھو رو چکے
قبر پر کیوں آگئے ٹسوے بہانے کے لئے
بار خاموشی کا بسمؔل سے کب اٹھے گا بتوں
ڈھونڈلو مزدور کوئی بوجھ اٹھانے کے لئے
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت ہی خوب غزل ہے یہ آپ کی۔۔۔۔! اور آپ سے براہِ راست سنا جائے تو اس کا مزہ دو بالا ہو جاتا ہے۔
 

فہیم

لائبریرین
اگر یہ غزل میں نے باآواز نہ سنی ہوتی تو شاید پڑھنے میں اتنا مزہ نہ آتا۔
لیکن ابھی تو لطف آگیا پڑھنے میں :)
 

ابوشامل

محفلین
واہ! کیا کہنے، ’بچے ہمارے عہد کے‘۔
یہی وہ غزل ہے جو ہم نے فوڈ سینٹر میں سنی تھی، اب ایک مرتبہ پھر پڑھ کر وہاں کا کھانا بھی یاد آ رہا ہے ;)
 
اچھی غزل ہے مزمل صاحب، بہت خوب۔

بہت شکریہ وارث بھائی۔ حسنِ نظر ہے۔ ورنہ میں کہاں اس قابل :)

بہت ہی خوب غزل ہے یہ آپ کی
شکریہ حضور آپ کا احسان یہاں تشریف فرما ہوئے اور ناچیز کی معمولی سی تک بندی کو پڑھا۔ بہت شکریہ۔

واہ! کیا کہنے، ’بچے ہمارے عہد کے‘۔
یہی وہ غزل ہے جو ہم نے فوڈ سینٹر میں سنی تھی، اب ایک مرتبہ پھر پڑھ کر وہاں کا کھانا بھی یاد آ رہا ہے ;)

شکریہ جناب۔ بزرگوں کی رائے پڑھنے کا ایک الگ ہی مزا ہوتا ہے۔ :)
 
Top