مہدی نقوی حجاز
محفلین
پہلا معاشقہ
میرا پورا بچپن ایران کے شہر ، قم میں گزرا ہے۔ لہٰذا اس پہلے معاشقے کا تعلق اسی شہر سے ہے اور یہ میری عمر کا وہ حصہ ہے، جسے اور بچے کارٹونز دیکھ کر خوشگوار بناتے ہیں۔
اس باب میں پہلا منظر جو مجھے یاد ہے، وہ مختصر اور مبہم ہے:
دوپہر کا وقت ہے۔ کسی چار دیواری میں اپنے آپ کو دیکھتا ہوں، کمسنی ہے۔ چہرے پر خوف اور دہشت سے ہوائیاں اڑ رہی ہیں۔ دو ہمسن بچے مجھے دونوں بازؤں سے گرفتار کیے کھڑے ہیں۔ ایک بچی کو دیکھتا ہوں، دور سے دوڑتی ہوئی آ رہی ہے اور کچھ تیزی سے بولتی جا رہی ہے۔ شاید وہ انہیں کسی کام سے روکنے کی کوشش کر رہی ہو۔ قریب پہنچتی ہے تو ایک نسبتاً بڑی بچی اسے دھر لیتی ہے۔ وہ اور زیادہ مچلنے لگتی ہے۔ اگلے ہی لمحے وہ دو بچے میری پٹائی لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ بچی دوسری بڑی بچی سے کچھ التجا کر رہی ہے۔
دوسرا منظر بہت واضح ہے اور اس کی ہر لکیر میرے حافظے پر نقش ہے:
ایک درمیانی وسعت کا کمرہ ہے۔ ماحول گرم ہے۔ رات کا پہلا پہر ہے۔ مغرب کے بعد سے اندھیرا چھا چکا ہے۔ کمرے میں پیلی روشنی پھیلی ہوئی ہے، جو کھلے دروازے سے اندر کو آ رہی ہے۔ غالباً اس کا ممبع، دہلیز میں لگا شبتاب چراغ ہے۔ دروازے کے ساتھ ہی ایک کھڑکی ہے لیکن اسے بند رکھا گیا ہے۔ کمرے میں ہیٹر کے علاوہ کوئی قابل بیان چیز نہیں، اور فرش پر ایک ایرانی طرز کا قالین بچھا ہوا ہے۔
اپنے آپ کو دیکھتا ہوں کہ کمرے میں داخل ہوا ہوں، شرارتی بچپنا ہے اور آنکھیں چمک رہی ہیں۔ اندر آتے ہی دوڑتا ہوا ایک دیوار تک پہنچتا ہوں اور اس سے ٹیک لگا کر اپنے گٹھنوں کو گلے لگائے بیٹھ جاتا ہوں اور دروازے کی طرف نظریں جما لیتا ہوں۔کچھ لمحوں میں ایک لڑکی دروازے سے اندر آتی ہے۔ فراک پہنا ہوا ہے اور گھنے بال پسینے میں بھیگے ہوئے ہیں۔ آتے ہی میری طرف دوڑتی ہے اور میرے ساتھ ہی دیوار سے لگ کر بیٹھ جاتی ہے۔میں اب بھی دروازے کی طرف دیکھ رہا تھا، اس کی طرف متوجہ ہوتا ہوں۔ اور چہرہ پلٹتے ہی اس کے جارحانہ سوال کا سامنا ہوتا ہے۔
”دیکھو، تم واقعی مجھ سے شادی کرو گے نا؟!“
میں بظاہر بہت پرسکون ہوں، اس کا نازک ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر اطمینان سے جواب دیتا ہوں۔
”ہاں نا، کروں گا تم سے شادی“
پھر کچھ اور بچے دوڑتے ہوئے کمرے میں آتے ہیں اور منظر دھواں ہو جاتا ہے۔
اگلے منظر میں ایک صحن ہے۔ بیچوں بیچ انجیر کا ایک تناور درخت لگا ہوا ہے۔ شاخوں پر ابھی انجیر نہیں لگے لیکن پتے ہرے ہو گئے ہیں۔ غالباً نوروز کی چھٹیاں ہیں۔ صحن کی ٹائلوں میں لگے ماربل کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑی سورج کی کرنیں پڑنے کی وجہ سے چمک رہے ہیں اور مٹی ہوا کےساتھ رقص کر رہی ہے۔ میں درخت پر کوئی دو میٹر کی اونچائی پر بیٹھا ہوں، ہلکے پھلکے کپڑے پہنے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کسی خوشگوار کیفیت میں ہوں۔ نیچے وہی لڑکی درخت کے گرد گھوم رہی ہہے اور زور زور سے کچھ گا رہی ہے۔ اس کے چہرے سے معصومیت جھانک رہی ہے جس پر اس نے شرارت کا پردہ ڈالا ہوا ہے۔ میں اس دیکھ کر خوش ہو رہا ہوں اور بیچ بیچ میں اس کے ساتھ گانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مجھے بول ٹھیک سے یاد نہیں ہیں۔ پھر اچانک کچھ سوچ کر درخت سے اور اوپر چڑھنے لگتا ہوں اور یہ منظر بھی یہیں دم توڑ دیتا ہے۔
اس کے بعد کئی چہرے اور کئی منظر میری نظروں میں تیزی سے گزر جاتے ہیں۔ لیکن کوی بھی اتنا واضح نہیں ہے جسے میں قلم بند کر سکوں۔ ہاں! یہ منظر اب بھی میری یادداشت کے تہخانے میں چاندے کے فریم میں لٹک رہا ہے۔
اپنے آپ کو دیکھتا ہوں۔ عجلت میں زینہ چڑھ رہا ہوں۔ کچھ اوپر آتا ہوں تو سامنے وہی لڑکی کھڑی ہے۔ اس بار نسبتاً بہت بڑی لگ رہی ہے، اور حسین بھی۔ مجھے دھکا دے کر دیوار سے لگا دیتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے یہ دن میرے محاسبے کا دن ہے۔ اُسی جارحانہ لہجے میں سوال کرتی ہے۔
”تمہیں یاد ہے نا، تم نے مجھ سے شادی کرنے کا وعدہ کیا ہے، پکی بات ہے نا؟“
اس بار میرے چہرے پر اطمینان کے بجائے شرم اور جھجک کے اثرات نظر آ رہے ہیں، جھینپتے ہوئے کہتا ہوں۔
”ہاں، ٹھیک ہے، دیکھیں گے۔“
اس کو نیچے سے کوئی آواز دیتا ہے اور میں اپنے آپ کو چھڑا کر تیزی سے زینہ چڑھنے لگتا ہوں۔ اس بار اس لڑکی کی آواز میں بے اعتباری کی لہر تھی۔ وہ شاید کسی چیز سے ناآسودہ تھی۔ شاید میں اس سے بہت دور جانے والا تھا۔
اس کے بعد بھی کئی منظر دھندلائے ہوئے ہیں۔ کوئی باغ ہے، اولے ہیں، آنگن ہے، ریل کی پٹری ہے، حلیم ہے، حوض ہے اور نجانے کیا کیا ایک ہی لمحے میں گزررہا ہے۔لیکن ایک چیز بہت اچھے سے یاد ہے کہ جن دنوں میں اسکول سے پبلک بس میں گھر لوٹتا تھا، ان دنوں ہر روز اس کا سامنا ہوا کرتا تھا۔
معاملہ کچھ یوں تھا کہ جس سڑک سے میں گزرتا تھا اس سڑک پر سے اس کی اسکول بس اسے سوار کر کے گھر لے جایا کرتی تھی۔ جب میں پبلک بس میں اس سڑک سے گزرتا تھا تو وہ مجھے دور سے ہی اپنی اسکول بس سے ٹیک لگائے کھڑی نظر آ جاتی تھی۔ جب اس کے بالکل سامنے سے گزرتا تو ہماری آنکھیں چار ہو جاتیں اور پھر لمحے بھر میں میری بس آگے نکل جاتی اور میں مڑ کر نہیں دیکھتا۔ یہ سلسلہ کوئی سات یا آٹھ مہینے تک جاری رہا ہوگا اور یہ ایران میں میرے آخری دن تھے۔
اس کے بعد مجھے اس عنوان میں بہت کچھ یاد نہیں رہا، مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ جب میں ایران کو خیرباد کہہ کر کراچی آ رہا تھا، تو وہ آخری بار مجھ سے ملنے آئی بھی تھی کہ نہیں، یا اسے خبر بھی ملی تھی کہ نہیں۔ یہ ایک زمانہ میرے ذہن سے بالکل محو ہے۔
کراچی آنے کے کم و بیش چھ برس بعد سنتا ہوں وہ لڑکی بھی کراچی آ گئی ہے۔ شدید تمنا کے باوجود کچھ روحانی اور فکری ترجیحات کی وجہ سے اس سے رابطہ نہیں کرتا ہوں۔
انہیں ایام میں، دیکھتا ہوں کہ زردی مائل سفید شرٹ پر سیاہ ٹائی لگائے کسی شادی ہال کے باہر کھڑا ہوں۔ معلوم ہوتا ہے کسی پرانے دوست کی ہمشیرہ کے نکاح کی تقریب ہے۔ عشائیے کے بعد اپنی بھرپور جوانی میں دوستوں کے ساتھ کھڑا سگریٹ پی رہا ہوں کہ یکایک ایک ادھیڑ عمر کی خاتون بڑی عجلت میں سامنے سے گزرتی ہے اور آگے بڑھتے ہوئی نعرہ بلند کرتی ہے۔
”بہت بڑے ہو گئے ہو!!“
میں اس کی طرف متوجہ ہوکر شوخی سے چِلّاتا ہوں۔
”بہت!“
میرا ساتھی قہقہہ بلند کرتا ہے۔ اس کے تعقب میں ایک لڑکی نمایاں ہوتی ہے، حسین، دلفریب اور دراز قامت۔ یہ وہی لڑکی ہے۔ ہماری آنکھیں چار ہوتی ہیں۔ دونوں پر سکون معلوم ہو رہے ہیں۔ وہ اسی طرح سفید کپڑوں میں چلتی ہوئی آگے بڑھ جاتی ہے، اور میں یہ سوچنے لگتا ہوں کہ بچپن میں کیا گیا محبت کا اندھا سودا خسارے میں نہیں گیا۔ گویا جب میں نے اس سے شادی کرنے کا وعدہ کیا تھا تو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ کمسن فتنہ اپنی نوجوانی میں اتنی خوبصورت نظر آئے گی۔
یہ اس لڑکی سے میری آخری ملاقات تھی۔ سنتا ہوں اب بھی کراچی میں ہے۔ اس تک پہنچنا کوئی دشوار بھی نہیں۔ لیکن کوئی اقدام نہیں کر رہا ہوں، شاید اس لئے کہ کوئی عجلت نہیں۔ جس لڑکی نے مجھ سے بچپن میں "شادی" کرنے کا وعدہ کیا تھا، شاید ہی نہیں یقیناً اب اتنے برس بیت جانے کے بعد اس کی ترجیحات اور ہوں گی۔ لیکن شاید مجھے اس کے معصوم وعدے پر اعتبار ہے۔
(ناول "نابالغ معاشقے" سے اقتباس پیش ہے)
مہدی نقوی حجازؔ