۶۔
عجیب بیماریاں
خالہ بلی کو خرگوش پر بڑا غصہ آیا۔ اس نے جھوٹ بول کر بلی کی جان مصیبت میں پھنسا دی تھی۔ چناں چہ وہ موقع کی تاک میں تھی۔
ایک روز جب خرگوش اپنے خیالوں میں مست گاتا گنگناتا چلا جا رہا تھا، اچانک بلی اس پر دھم سے کودی۔
"یہ کون بدتمیز ہے؟" خرگوش جھنجلا کر بولا۔
بلی پیار سے بولی، "یہ میں ہوں تمھاری خالہ پیارے بھانجے!"
خرگوش ادب سے بولا، "اوہو پیاری خالہ، آداب عرض ہے۔۔۔ بلونگڑے کیسے ہیں اور خالو باگڑ بلے کا کیا حال ہے؟"
بلی ہنسی۔ "سب ٹھیک ہیں اور تمھارے انتظار میں بیٹھے ہیں۔"
خرگوش نے گھبرا کر کہا، "اوہو ابھی تو مجھے معاف کیجیئے گا۔ ان سے پھر ملاقات کروں گا کیوں کہ اب تو میں ڈاکٹر کے پاس جا رہا ہوں۔"
بلی نے پوچھا، "خیریت تو ہے؟"
خرگوش برا سا منہ بنا کر بولا، "پیاری خالہ، آج کل بہت برا حال ہو رہا ہے۔ مجھے عجیب عجیب قسم کی بیماریاں ہو گئی ہیں۔"
بلی حیرانی سے بولی، "تمھیں کیا ہوا؟"
خرگوش بولا، "بس پوچھو نہیں۔ آج کل سخت پریشان ہوں۔ یوں سمجھ لو کہ بس مرنے والا ہوں۔"
بلی نے پوچھا،"تمھیں کیا ہوا ہے بتاؤ تو سہی!"
خرگوش نے کہا، " رات کو سوتے وقت آنکھیں خود بخود بند ہو جاتی ہیں۔ جب چلتا ہوں تو ہاتھ پاؤں حرکت کرنے لگتے ہیں۔ جب بولتا ہوں تو زبان ہلتی ہے۔ اور۔ اور۔۔"
بلی بات کاٹ کر بولی، "بس بس میں سمجھ گئی ہوں۔ تمھاری بیماریاں بہت عجیب ہیں، لیکن ان کا علاج بہت آسان ہے۔"
"وہ کیا؟" خرگوش نے پوچھا۔
بلی بولی، "وہ یہ کہ تمھارے گرما گرم پکوڑے بنا کر کھائے جائیں۔"
خرگوش اداسی سے بولا،" کاش میں آپ کے کسی کام آ سکتا، لیکن کیا کروں؟ ادھر چند روز سے میرا دل بھی دھڑکنے لگا ہے، دھما دھم۔۔ دھما دھم۔۔ اور بھیا بندر بھی کہتے تھے۔ خیر چھوڑو، تم مجھے اب کھا ہی ڈالو۔"
"بھیا بندر کیا کہتے تھے؟" بلی نے جلدی سے پوچھا۔
خرگوش نے افسردگی سے جواب دیا، "کچھ نہیں۔ بس اب تم مجھے کھا ہی ڈالو۔"
"کیا کہتے تھے بھیا بندر؟ سچ بتاؤں نا! تمھیں قسم ہے۔" بلی اصرار کرنے لگی۔
خرگوش بولا، "بندر صاحب کہتے تھے کہ میرے گوشت میں زہر پیدا ہو گیا ہے اور جو بھی مجھے کھائے گا۔۔۔" خرگوش کہتے کہتے رک گیا۔
"ہاں ہاں۔" بلی بے صبری سے بولی۔
خرگوش نے کہا،"جو مجھے کھائے گا، اس کی موت واقع ہو جائے گی۔ میں تو کہتا ہوں کہ تم میرے گوشت کے سموسے بنا کر جنگل کے درندوں میں بانٹ دو۔ سب کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اور چھوٹے چھوٹے سب جانور تم کو دعا دیں گے۔"
بلی بولی،"اب تم خواہ کتنی ہی باتیں بناؤ میں تمھیں کھا کر ہی چھوڑوں گی۔"
خرگوش بولا،"اور اللہ کو پیاری ہو کر رہو گی!"
بلی نے کہا،"تم یہ کیسی باتیں کرتے ہو؟"
خرگوش بولا،"سچ ہی تو کہتا ہوں۔ تم نہ مانو تمھاری مرضی ہے۔"
بلی شش و پنچ میں پڑ گئی۔ وہ خرگوش کو چھوڑنے ہی والی تھی کہ کہیں سے بھیڑیا آ ٹپکا۔ "کیا قصہ ہے؟" اس نے بلی سے پوچھا۔
بلی نے ساری بات سنا دی۔ بھیڑیا بولا،"آپ اسے میرے حوالے کر دیجیئے میں خود نپٹ لوں گا۔" بلی نے خرگوش کو بھیڑیئے کے حوالے کر دیا۔
خرگوش بولا،"بھیا، اس وقت کا خیال کرو جب تمھاری بیوی بیوہ ہو جائے گی اور بچے یتیم خانے میں پلیں گے۔"
بھیڑیا اطمینان سے بولا،" میں تمھیں کھاؤں گا نہیں، بلکہ مار کر زمین میں گاڑ دوں گا۔ اس طرح تمھاری روز روز کی شرارتوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔"
بھیڑیا خرگوش کو کھینچنے لگا۔ خرگوش بھی سمجھ گیا کہ بھیڑیا یوں ماننے والا نہیں ہے۔ اس نے جیب سے ایک ڈبیا نکالی اور بھیڑیئے کو دے کر بولا،"جب تم مجھ کو مار ڈالو تب یہ ڈبیا میری بیگم تک پہنچا دینا۔"
"اس میں کیا ہے؟" بھیڑیئے نے جلدی سے ڈبیا کو کھولا، اس میں سیاہ رنگ کا سفوف دیکھ کر حیران ہوا۔ اس نے پھر پوچھا،"یہ کیا چیز ہے؟"
"جی، یہ میں نہیں بتا سکتا٬" خرگوش اکڑ کر بولا۔
"تم کیسے نہیں بتاؤ گے؟" بھیڑیئے نے خرگوش کو دو تین جھٹکے دیئے۔ بے چارے خرگوش کے دانت بجنے لگے۔ اس نے کانپتے ہوئے کہا،"میری گردن چھوڑو پہلے۔"
بھیڑیئے نے خرگوش کو چھوڑ دیا۔ خرگوش بولا،"یہ سلیمانی سرمہ ہے جو اسے چٹکی بھر آنکھ میں ڈال لیتا ہے، اس کو سارے خزانے نظر آنے لگتے ہیں۔"
بھیڑیا بے اعتباری سے بولا، "جھوٹ۔!"
خرگوش نے اطمینان سے کہا،"جی ہاں بالکل جھوٹ ہے۔ تم اسے اپنی آنکھ میں ہرگز نہ ڈالنا، کیوں کہ میں نہیں چاہتا کہ تم امیر بنو۔ لاؤ یہ ڈبیا مجھے واپس کر دو۔"
بھیڑیئے نے ہاتھ ایک دم پیچھے کر لیا اور بولا،"میں بھی امیر بننا چاہتا ہوں۔ میں ایک چٹکی سرمہ اپنی آنکھ میں ڈال لوں۔"
بھیڑیئے نے ایک چٹکی بھری اور سیاہ سفوس اپنی آنکھوں میں ڈال لیا۔ وہ پسی ہوئی سیاہ مرچیں تھیں۔ بھیڑیا چیخنے چلانے لگا۔ خرگوش بھی اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔
خرگوش دور جا کھڑا ہوا اور خوشی سے چیخ کر بولا،"کیا خزانہ نظر آ گیا ہے بھیا؟"
بھیڑیا زمین پر گر پڑا اور درد سے چیخ کر بولا،"اوہو ہو ہو مر گیا۔ ہائے مر گیا۔"
خرگوش بولا، "کوئی فکر نہ کرنا۔ میں تمھارے گھر جا کر اطلاع دیتا ہوں کہ بھیڑیا مر گیا ہے۔"
خرگوش وہاں سے چلا گیا۔ بھیڑیئے کو دو روز تک اپنی آنکھوں پر پٹی باندھنی پڑی۔