چند سوال

مجیب

محفلین
السلام علیکم !
کے بعد عرض یہ ہے کہ آجکل ہر جگہ غزل اور نظم میں فرق اور ان کو لکھنے کے اصول بھی جگہ جگہ مل جاتے ہیں ۔ مگر میرے سوال گیت کے بارے میں ہے
۱۔گیت نظم کی قسم ہے ؟
۲۔گیت لکھنے میں کن اصول اور پابندیوں کو مد نظر رکھنا ہوتا ہے ؟

شکریہ
 
السلام علیکم !
کے بعد عرض یہ ہے کہ آجکل ہر جگہ غزل اور نظم میں فرق اور ان کو لکھنے کے اصول بھی جگہ جگہ مل جاتے ہیں ۔ مگر میرے سوال گیت کے بارے میں ہے
۱۔گیت نظم کی قسم ہے ؟
۲۔گیت لکھنے میں کن اصول اور پابندیوں کو مد نظر رکھنا ہوتا ہے ؟

شکریہ

۱۔گیت نظم کی قسم ہے ؟
جواب: نہیں۔ گیت موسیقی کی قسم ہے۔

۲۔گیت لکھنے میں کن اصول اور پابندیوں کو مد نظر رکھنا ہوتا ہے ؟
جواب: جیسا کہ اوپر کہا کہ یہ موسیقی کی قسم ہے تو اسی لحاظ سے اس میں موسیقی کو مد نظر رکھ کر فقرے لکھے جاتے ہیں۔ یعنی ایک شعر یا ایک بند کسی وزن میں ہو تو دوسرا کسی دوسرے وزن میں۔ اس میں سروں کے لحاظ سے پابندیاں ہوتی ہیں، نظم کے لحاظ سے نہیں۔

الف عین
محمد یعقوب آسی
 

مجیب

محفلین
آداب !
فراہم کردہ معلومات کے لیے شکر گزار ہوں ۔مگر مزید تفصیلات کے لیے منتظر ہوں
وکی پیڈیا میں گیت کو نظم کی قسم لکھا گیا ہے ملاحظہ فرمائیں http://en.wikipedia.org/wiki/Nazm ۔

ہر شعر ہر بند کا اپنا وزن ہو گا ؟ :eyeroll:
 
سپنے جھڑے پھول سے
میت چبھے شول سے
لٹ گئے سنگھار سبھی
باغ کے ببول سے

اور ہم کھڑے کھڑے بہار دیکھتے رہے
کارواں گزر گیا غبار دیکھتے رہے

نیند بھی کھلی نہ تھی کہ ہائے دھوپ ڈھل گئی
پاؤں جب تلک اٹھے کہ زندگی پھسل گئی
پات پات جھڑ گئے کہ شاخ شاخ جل گئی
چاہ تو نکل سکی نہ پر عمر نکل گئی

گیت اشک بن گئے
سپنے ہو دفن گئے
ساتھ کے سبھی دیے
دھواں پہن پہن گئے

اور ہم جھکے جھکے موڑ پر رکے رکے
عمر کے چڑھاؤ کا اتار دیکھتے رہے

مزمل شیخ بسمل کیا اس گیت کے یہ شعر وزن میں ہیں؟؟؟
 
محترمی جناب مجیب اور جناب مزمل شیخ بسمل ۔
شاعری اور موسیقی میں بہت کچھ سانجھا ہے۔ برصغیر کی بات کر لیجئے۔ ماترے (لگھو، گورو) چھندا بندی (اردو میں اس کا ترجمہ ’’عروض‘‘ ہی بنتا ہے)، چھندا بندی میں بھی ہوتے ہیں اور ’’سا رے گا ما پا دھا نی سا‘‘ (راگ، سر، تال، موسیقی، آپ اسے جو بھی کہتے ہیں، مجھے زیادہ پتہ نہیں ہے) اس میں بھی۔
گیت کی کچھ صورتوں کے نام دیکھئے: ماہیا، ٹپا، دوہا، پنج سار، بیت، ڈیوڑھ، بولی، کافی؛ یہ سب گیت ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے اصنافِ شعر میں ہیئت کے اعتبار سے مسدس، مثمن، بیت، کافی، مسبع، قطعہ، گیت؛ وغیرہ ہیں، گیت میں آگے ہیئتی تقسیم ہے۔ جیسے دوسری اصناف اور ہیئات کے انفرادی یا اجتماعی عروضی تقاضے ہیں، ویسے ہی گیت کے عروضی یا چھندا بندی تقاضے ہیں۔
رہی بات موضوعاتی تشخص کی، تو صاحبو! غزل، رزمیہ، حزنیہ، طربیہ، شہرآشوب، قصیدہ، مرثیہ، نعت، حمد، مناجات، داستان؛ اور دیگر صورتیں ہیں۔ زیادہ تر میں ہیئت کی سختی سے پابندی نہیں ہے۔ غزل میں دونوں حوالوں سے تخصیص ہے۔ ہیئتی حوالہ بھی، موضوعاتی بھی، اور ایک اور حوالہ ہے جمالیات جس پر غزل میں سب سے زیادہ توجہ دی جانی چاہئے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ (1) غزل پابند شاعری کی ایک ہیئت ہے۔ (2) غزل اپنے موضوعات کے حوالے سے پہچانی جاتی ہے۔
گیت میں بھی رسماً کچھ خاص خاص موضوعات (رومان اور اس کے متعلقات: محبت، جدائی، وصال، فراق، نیند، خوف، آرزو ۔۔۔ لمبی فہرست ہے) کا تقاضا کیا جاتا ہے، اور زبان کی نرمی اور لوچ گیت سے بہت خاص نسبت رکھتی ہے۔ گیت کی کوئی سی قسم لے لیجئے، اس میں نرمی اور لوچ کا عنصر جتنا نمایاں ہو گا، اسے اتنا ہی زیادہ پسند کیا جائے گا۔ گیت کی ذیلی اصناف کا اجمالی ذکر اوپر ہو چکا، اردو عروض کے مطابق ان سب کا اپنا اپنا ایک عروضی نظام ہے۔ بولی ایک سطر کی ہے، ٹپہ ڈیڑھ کا بھی ہے، دو کا بھی اور تین کا بھی، ماہیا بھی ٹپہ میں آتا ہے، دوہا میں سطروں کی تعداد کا فرق ہے، قافیہ کی پابندی ہے! اور وزن ایک جیسا ہونا چاہئے۔ ایک ’’دوہڑا‘‘ ہے وہ چار مصرعوں کا ہوتا ہے، زمین چاروں کی ایک، مضمون بھی ایک۔ موسیقی والا ان سب صورتوں کو ماتروں میں دیکھتا ہے، اور سر کا جو بھی حساب ہے۔ چھندابندی والا ماترے، لگھو، گورو، چال، وسرام کو دیکھتا ہے اور عروض والا اوزان کو دیکھتا ہے۔

اس ساری بحث سے یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ گیت کے تین پہلو تو ہیں، اور بھی کوئی ہو تو میرے علم میں نہیں۔
(1)۔ اس کا عروضی نظام ہوتا ہے، یا چھند ہوتے ہیں، سو یہ شعر کی صنف ہے، یعنی نظم
(2)۔ اس میں ماترے سر تال ہوتے ہیں، سو یہ موسیقی کی چیز ہے۔
(3)۔ اس میں موضوعات کی ترجیح بھی ہے اور لہجے کی بھی۔ یہ اس کا تیسرا پہلو ہے (نام آپ دے دیجئے)۔

خوش رہئے گا، اور دعاؤں میں یاد رکھئے گا۔

جناب محمد وارث، جناب الف عین، جناب التباس ، جناب محب علوی، جناب محمد بلال اعظم، جناب فرخ منظور، مادام مدیحہ گیلانی، جناب انیس الرحمٰن ۔۔۔۔۔۔۔۔ توجہ فرمائیے گا، اور میری راہنمائی کیجئے گا۔
بہت آداب۔
 
سپنے جھڑے پھول سے​
۔۔۔۔​
۔۔۔۔​
عمر کے چڑھاؤ کا اتار دیکھتے رہے​

جناب انیس الرحمن ۔ یہ جو آپ نے نقل کیا ہے کیا یہ ایک ہی گیت ہے؟
ہوتا یہ ہے کہ گیت چونکہ لوک شاعری میں بھی ہے اور انفرادی طور پر بھی لکھی جاتی ہے، تاہم اس کی ایک بڑی حیثیت اس کا ’’عوامی‘‘ ہونا ہے۔ اب جو عوامی گلوکار ہوتے ہیں وہ مختلف محفلوں میں، مختلف ریکارڈنگ میں اور مختلف مواقع پر ایک سے زیادہ گیتوں بلکہ غزلوں نظموں سے بھی اشعار لے کر ایک ’’اکائی‘‘ کے طور پر گا دیتے ہیں۔ ایک شعر یا بند یا ٹپا ’’ٹیپ‘‘ کا بنا لیا، باقی جو مزاجِ گلوکار میں آئے۔

قوالی میں بھی کم و بیش ایسا ہوتا ہے۔ راولپنڈی سے لاہور کے لئے بس میں بیٹھیں ایک قوالی چکری انٹرچینج سے شروع ہوتی ہے اور کالا شاہ کاکو تک آپ کے ساتھ چلتی ہے۔ وہاں ایک مصرعہ یا شعر ’’ٹیپ کا‘‘ چلتا ہے اور باقی؟ کوئی شعر کسی غزل کے کسی بحر کے، کوئی کسی گیت کے حصے، کوئی کسی فلم سے ۔۔۔ اور اور اور ۔۔۔۔

ان کا اچھا یا برا ہونا یا اچھا یا برا لگنا ایک الگ بحث ہے، ان کو حوالہ نہیں بنایا جا سکتا۔ ہاں ایک ہی نظام، سر، تال، چال، چھند، کی چیز ہو تو اس کو (معتبر یا غیر معتبر سے قطع نظر) حوالہ بنا سکتے ہیں۔

آداب۔
 
جناب انیس الرحمن ۔ یہ جو آپ نے نقل کیا ہے کیا یہ ایک ہی گیت ہے؟
ہوتا یہ ہے کہ گیت چونکہ لوک شاعری میں بھی ہے اور انفرادی طور پر بھی لکھی جاتی ہے، تاہم اس کی ایک بڑی حیثیت اس کا ’’عوامی‘‘ ہونا ہے۔ اب جو عوامی گلوکار ہوتے ہیں وہ مختلف محفلوں میں، مختلف ریکارڈنگ میں اور مختلف مواقع پر ایک سے زیادہ گیتوں بلکہ غزلوں نظموں سے بھی اشعار لے کر ایک ’’اکائی‘‘ کے طور پر گا دیتے ہیں۔ ایک شعر یا بند یا ٹپا ’’ٹیپ‘‘ کا بنا لیا، باقی جو مزاجِ گلوکار میں آئے۔

قوالی میں بھی کم و بیش ایسا ہوتا ہے۔ راولپنڈی سے لاہور کے لئے بس میں بیٹھیں ایک قوالی چکری انٹرچینج سے شروع ہوتی ہے اور کالا شاہ کاکو تک آپ کے ساتھ چلتی ہے۔ وہاں ایک مصرعہ یا شعر ’’ٹیپ کا‘‘ چلتا ہے اور باقی؟ کوئی شعر کسی غزل کے کسی بحر کے، کوئی کسی گیت کے حصے، کوئی کسی فلم سے ۔۔۔ اور اور اور ۔۔۔ ۔

ان کا اچھا یا برا ہونا یا اچھا یا برا لگنا ایک الگ بحث ہے، ان کو حوالہ نہیں بنایا جا سکتا۔ ہاں ایک ہی نظام، سر، تال، چال، چھند، کی چیز ہو تو اس کو (معتبر یا غیر معتبر سے قطع نظر) حوالہ بنا سکتے ہیں۔

آداب۔
جی بالکل ایک ہی گیت کے ہیں۔۔۔
 
آداب !
فراہم کردہ معلومات کے لیے شکر گزار ہوں ۔مگر مزید تفصیلات کے لیے منتظر ہوں
وکی پیڈیا میں گیت کو نظم کی قسم لکھا گیا ہے ملاحظہ فرمائیں http://en.wikipedia.org/wiki/Nazm ۔

ہر شعر ہر بند کا اپنا وزن ہو گا ؟ :eyeroll:

جناب وکی پیڈیا سے جو آپ نے کوٹ کیا اول تو اسے بھول جائیں کیونکہ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اور وجہ آپ بھی جانتے ہیں کہ صرف نام کا نہ آپ کو نہ کسی اور کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ لیجئے ایک وکی پیدیا ہمارے پاس بھی ہے۔ :cool: اب بتائیں کس کو مانینگے؟
چلیں دفعہ کریں۔
در اصل مسئلہ کچھ یوں ہے کہ” گیت“ یا ”گانا“ وغیرہ جو بھی ہے یہ نظم کی صنف نہیں۔ یہ موسیقی کی صنف کہلا سکتی ہے۔ اصل میں گیت میں عروضی نظام کی یا کسی بھی نظام کی پابندی ضروری نہیں ہوتی۔ اس میں الگ الگ بحریں (اور بعض اوقات تو بحر سے ہٹ کر خود ساختہ کوئی بحر بھی) استعمال کر لی جاتی ہے۔ جب تک سر میں ہے سب کچھ جائز رکھا جاتا ہے۔ خود ہمارا قومی ترانہ ہی دیکھ لیں!!!

یہ سب موسیقی میں عام چلتا ہے

ہر شعر ہر بند کا اپنا وزن ہو گا ؟

ارے ہاں جناب۔ بلکہ شعر کیا! بعض وقت تو دونوں مصرعے ہی الگ ہوتے ہیں، ایک پرانا گانا یاد آگیا:
جیتا تھا جس کے لئے، (فعلن فعولن فعَل) متقارب اثلم محذوف
اس کے لئے ہی مرتا تھا، (فعلن فعولن فعلن فع) متقارب اثلم مقبوض
اک لڑکی ایسی تھی، (مفعولن مفعولن) ہزج اخرم
جسے میں پیار کرتا تھا، (مفاعیلن مفاعیلن) ہزج سالم

دیکھا آپ نے کونسی صنف ہے یہ :)
در اصل بات یہ ہے کہ جہاں تک میرا ناقص مطالعہ ہے اس کے مطابق مجھے اب تک کسی مستند کتاب میں لفظ گیت کا نہیں ملا۔ کتابوں میں:
1۔ میزان الافکار
2۔ معیار الاشعار
3۔ جوہر العروض
4۔ بہار بلاغت
5۔ چراغ سخن
6۔ آہنگ اور عروض
7۔ آئینۂ بلاغت
8۔ دریائے لطافت (انشا اللہ خان والی)
9۔ حدائق البلاغت
10۔ بحر الفصاحت
11۔ قواعد العروض (قدر بلگرامی والی)
12۔ زرِ کامل عیار (شرح)
13۔ بحر العروض (پنڈت کنہیا لال والی)
ا
یہ سب کی سب مستند ترین کتابیں ہیں۔
مگر ان سب میں کہیں بھی گیت کو اردو، فارسی یا ہندی ”شاعری“ کی صنف قرار نہیں دیا گیا۔
پھر بھی اگر کوئی تردد ہو تو سوال کر سکتے ہیں۔
 
سپنے جھڑے پھول سے
میت چبھے شول سے
لٹ گئے سنگھار سبھی
باغ کے ببول سے

اور ہم کھڑے کھڑے بہار دیکھتے رہے
کارواں گزر گیا غبار دیکھتے رہے

نیند بھی کھلی نہ تھی کہ ہائے دھوپ ڈھل گئی
پاؤں جب تلک اٹھے کہ زندگی پھسل گئی
پات پات جھڑ گئے کہ شاخ شاخ جل گئی
چاہ تو نکل سکی نہ پر عمر نکل گئی

گیت اشک بن گئے
سپنے ہو دفن گئے
ساتھ کے سبھی دیے
دھواں پہن پہن گئے

اور ہم جھکے جھکے موڑ پر رکے رکے
عمر کے چڑھاؤ کا اتار دیکھتے رہے

مزمل شیخ بسمل کیا اس گیت کے یہ شعر وزن میں ہیں؟؟؟

جی جناب۔ یہ وزن میں ہے۔ شروع کے ایک آدھ شعر کا وزن تلفظ کی نا وقفیت کی بنا پر نہیں سمجھ پا رہا ہوں۔ باقی سب کے سب اشعار کا وزن یوں ہے:
”فاعلن مفاعلن مفاعلن مفاعلن“
یہ بحر ہزج کے ارکان پر پہلا رکن ”اشتر“ پھر سارے ”مقبوض“۔ یعنی مصرع شروع ہوگا تو فاعلن سے۔ پھر مفاعلن کی تکرار رہے جب تک مصرع چلے گا۔
 

الف عین

لائبریرین
گیت کو بطور صنف شاعری حال کے سالوں میں شامل سمجھا گیا ہے اس لئے مستند عروضی کتابوں میں کوئی ھوالہ نہیں ملے گا۔ مروجہ گیت شاعری اور موسیقی دونوں کا حصہ مانے جا سکتے ہیں، یعنی یہ ایسی نظم ہے جسے گایا جا سکے۔ اس میں ضروری ایک ٹیپ کا حصہ مانا جاتا ہے جو ہر بار دہرایا جاتا ہے، اس کو مکھڑا بھی کہتے ہیں، اور ایک انترا ہوتا ہے، جو نظم کے بند کا قائم مقام ہے۔ یہ دونوں اصطلاحات بھی موسیقی کی ہیں۔
مضمون کے اعتبار سے گیت کی زبان ہندوستانی ہوتی ہے، فارسی اور عربی الفاظ سے پرہیز اور ہندی الفاظ کی زیادتی۔
گوپال داس نیرج کا یہ گیت جو مثال کے طور پر انیس نے پیش کیا ہے، ویسے نیرج نے کبھی اپنی اردو شاعری کے طور پر پیش نہیں کیا، اردو مشاعروں میں تو وہ غزلیں ہی سناتے ہیں، یہ ہندی گیت ہے۔
اردو گیتوں میں جو مشاعروں میں بھی بہت مشہور ہے، اور مجھے یاد آ رہا ہے، وہ زبیر رضوی کا ‘میرا ہندوستان ہے‘
یہ ہے میرا ہندوسران
میرے سپنوں کا جہان
اس سے پیار مجھ کو
اور انتروں میں فعلن فعلن کی تکرار سات بارہے۔ ابھی ایک ہی مصرع یاد آ رہا ہے
تاج اجنتا جیسے سندر تصویروں کے البم
جسے زبیر اپنی ہی بنائی ہوئی دھن میں گاتے ہیں مشاعروں میں۔
 

مجیب

محفلین
السلام علیکم !
یوں تو زیادہ تر الفاظ میں کرلپ سے دیکھ لیتا ہوں کہ وہ مذکر ہے یا موئنث مگر آج کل ایک بات پریشان کر رہی ہے تو سوچا کیوں نا محفل میں علم دانوں سے پوچھ لیا جائے ۔

کچھ دن پہلے حلقہ احباب میں ایک بات چھڑی کہ لفظ نقاب مذکر ہے یا موئنث تو میں نے کرلپ سے استفادہ حاصل کیا اور مجھے یہ نتیجہ ملا ۔ میں نے انہیں بتا دیا تو انہیں نے سوال کیا پھر امیر منائی صاحب نے یسے تانیث استعمال کیوں کیا ؟ سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ
پھر اسی طرح بات چلتی رہی اور انہوں نے اور بھی مثالیں پیش کی ۔ پھر کہیں سے میرے ہاتھ فیرروز الغات لگی اور اس میں ڈھونڈا تو نقاب کو مذکر اور موئنث دونوں پایا تو یہ باات ادھر ہی ایک حد تک ختم ہو گئی۔ لیکن ساتھ میں یہی سوال قلم پر کیا گیا تو کرلپ میں تو نا ملا مگر فیروز الغات میں قلم کو مذکر بتایا گیا ۔ تو پھر کچھ مثال قلم کے موئنث ہونے کی دکھائی گئیں۔

ہے قلم میری ابرِ گوہر بار​
ظُلم ہے گر نہ دو سُخن کی داد​
غالب نے قلم مذکر و مونث دونوں طرح لکھا ہے۔ (حامد علی خان)
( بحوالہ دیوان غالب اردو ویب ایڈیشن)

اب سوال یہ ہے کہ مذکر کو موئنث اور موئنث کو مذکر استعمال کرنے کا حق کس صورت میں ہوتا ہے ؟ ہوتا بھی ہے کہ نہیں ؟

الف عین محمد یعقوب آسی مزمل شیخ بسمل محمد بلال اعظم محمد اسامہ سَرسَری شمشاد
 
اس سلسلے میں بہتر یہی ہوتا ہے کہ کسی بھی استاد کا ایک شعر دلیل میں اپنے پاس رکھ کر اسے استعمال کرلیں. اس میں کوئی پریشانی والی بات ہی نہیں ہے. لکھنؤ کے شعرا میں تو خاص یہ چیز پائی جاتی ہے کہ مؤنث کو بھی مزکر کر دیتے ہیں.
 
عربی لغت میں یہ مذکر ہے۔ ۔۔۔ النِقاب ۔۔ مؤنث ہوتا تو ’’النِقابۃ‘‘ ہوتا۔ جیسے اسمِ فاعل: نَقّاب (کاموں میں گھُسنے والا، کاموں کو بہت دریافت کرنے والا) کی مؤنث ’’نَقّابۃ‘‘ ہے (کاموں میں گھُسنے والی، کاموں کو بہت دریافت کرنے والی)۔

یہ بات بھی درست ہے کہ زبان بدلنے سے بسا اوقات تذکیر و تانیث اور معانی میں بھی فرق آ جاتا ہے۔
اِذا وَقَعَتِ الواقِعہ (قرآنِ کریم: سورۃ الواقعہ) ’’جب ہونی ہو رہے گی‘‘۔ اس کا فعل بھی وقعت (مؤنث واحد) آیا ہے۔
اردو میں ’’فلاں واقعہ کب پیش آیا؟‘‘ ۔۔ بہت معروف اور مانوس ہے۔
 
Top