کون نہیں چاہتا ہوگا کہ ہماری لگی بندھی بور سی زندگی میں ایک بھونچال آجائے، کہ ہمارے ہاتھ کوئی جادو کا چراغ لگ جائے جو ہمیں عام لوگوں کی فہرست سے نکال کر خاص بنادے، کہ کوئی طاقتور مخلوق ہماری دوست بن جائے اور ہمیں کہیں دور دراز ایڈوینچر پر لے جائے یا خود ہمیں کوئی عظیم طاقت حاصل ہوجائے جو ہماری ڈل زندگی میں رنگ بھردے ایک لمحے ہم روزمرہ کے معاملات سے بور ہورہے ہوں اور اگلے ہی لمحے ساری کائنات ہماری منتظر ہو۔ ہماری یہ چاہت آج کی نہیں بلکہ صدیوں سے انسانی جبلت کا حصہ ہے اور صدیوں سے ہی ہمارا تخیل ہمیں خوش رکھنے کے لئے پراسرار اور حیرت انگیز کہانیاں تراشتا چلا آرہا ہے، بچپن کے اس لکڑہارے جسے شہزادی کے ساتھ ساتھ آدھی سلطنت بھی مل جاتی ہے سے لیکر عینک والا جن اور عمران سیریز تک یہ کہانیاں ہمیں اپنے سحر میں یوں جکڑ لیتی ہیں کہ ہم خود کو ان کہانیوں کا ایک کردار محسوس کرنا شروع کردیتے ہیں۔
دورجدید جس طرح سے زندگی کے ہرپہلو پر بھرپور طریقے سے اثرانداز ہوا ہے اسی طرح ہماری کہانیوں پر بھی اس نے گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ پچھلی دوصدیوں کی سائنسی ترقی نے ادب میں ایک نئے شعبے سائنس فکشن کوجنم دیا ہے، ماضی قریب کی فلموں اسٹار وارز، اسٹار ٹریک، بیک ٹودا فیوچر، جراسک پارک اور ایواتار سے تو ساری دنیا ہی واقف ہےخود پاکستان کا سب سے طویل سلسلہ وار ناول "دیوتا" بھی بنیادی طور پر ایک سائنس فکشن کہانی ہے۔ انیس ویں صدی کے ایک فرانسیسی ادیب جولیس ورن اس صنف کے اولین لکھاری ہیں اور بابائے سائنس فکشن کہلاتے ہیں، بیسویں صدی میں اس صنف کے تین بڑوں آئیزک آسموف، آرتھر سی کلارک اور رابرٹ ہنلین نےسائنس فکشن کو شہرت کی نئی بلندیوں پر پہچایا۔
وقت میں سفر سائنس فکشن کہانیوں کا ایک اہم عنصر رہا ہے اسے متعارف کروانے کا سہرا عظیم سائنس فکشن لکھاری ایج جی ویلز کو جاتا ہےجنہوں نے 1895 میں اپنے ناول ٹائم مشین میں اسے بطور مرکزی عنصر شامل کیاتھا۔ برقی ذرایعے ابلاغ کے متعارف ہونے سے کہانیاں پیش کرنے کا ایک نیا ذریعہ وجود میں آیا جہاں وقت میں سفر کے موضوع پر بھی کئی تخلیقات پیش کی گئیں جن میں بیک ٹو دا فیوچر اور خود ایج جی ویلز کی ٹائم مشین شامل ہیں، ان تمام تخلیقات میں سے کامیاب ترین برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی پیش کردہ ٹیلی ویژن سیریز Doctor Who ہے جس کی کامیابی کا اندازہ محض اس بات سے لگایا جاسکتا ہےکہ 1963 میں شروع ہونے والی یہ سریز 1989 تک بلا تعطل جاری رہی، 2005 میں کا دوبارہ آغاز کیا گیا اور یہ سیریز آج تک جاری ہے اس طرح یہ سریز ٹیلی ویژن کی تاریخ میں سب سے طویل عرصہ چلنے والی سیریز بن چکی ہے۔آج 23 نومبر 2013 کو ڈاکٹر ہو کے ٹیلی ویژن پر پچاس سال مکمل ہوجائینگے۔
ڈاکٹر ہو ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو کہ زماں و مکاں کا مسافر ہے، خود کو صرف ڈاکٹر کہلانے والا یہ شخص سیارہ گالافرے سے تعلق رکھتا ہے اور اس کی قوم ٹائم لارڈز کہلاتی تھی لیکن اب وہ پوری کائنات میں اکیلا ہےاس کا سیارہ گالافرے اور اس کے لوگ ایک جنگ میں فناء ہوچکے ہیں۔ اس کے پاس ایک پرانا خلائی جہاز ہے جو ٹارڈس (Time And Relative Dimension In Space - TARDIS)کہلاتا ہے، دکھنے میں یہ ایک پرانا برطانوی پولیس کال باکس دکھائی دیتا ہے لیکن اندر سے یہ ایک وسیع و عریض خلائی جہاز ہے جوکہ کائنات میں کہیں بھی اور کبھی بھی پہنچ سکتا ہے۔ ڈاکٹر ااپنے سفر میں جن لوگوں سے ملتا ہے یا جن سیاروں پر جاتا ہے اگر وہ خطرے میں ہوں تو وہ انکی مدد کرتاہے، ان کے دشمنوں سے لڑتاہے لیکن ڈاکٹر خود امن پسند ہے اور کبھی ہتھیار نہیں اٹھاتا ، وہ نہایت عقلمند ہے اور اسی کو وہ بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ بہت رحمدل ہے۔ اپنے اس سفر میں ڈاکٹر کئی لوگوں سے ملتا ہے جو اسے پسند آتے ہیں وہ انہیں اپنا ساتھی بنالیتا ہے لیکن یہ ساتھ ہمیشہ نہیں رہتا خود ڈاکٹر بھی اگر کبھی شدید زخمی ہوجائے تو اسکا جسم ری جنریشن کے حیاتیاتی عمل سے گزرتا ہے جس سے اسے دوبارہ زندگی تو مل جاتی ہے لیکن اس کا جسم تبدیل ہوجاتاہے۔
ڈاکٹر ہو پچاس سال قبل بی بی سی پر بچوں کے لئےبطور معلوماتی پروگرام شروع کیا گیا تھا، پروگرام کا مقصد وقت میں سفر کو استعمال کرکے بچوں کو ماضی اور سائنس کے بارے میں معلومات فراہم کرنا تھا، باوجود کم بجٹ اور ادنیٰ معیار کے گرافکس کے ڈاکٹر ہو اپنے اچھوتی کہانیوں کی وجہ سے مشہور ہوگیا، آج بھی جب کہ ڈاکٹر ہو کے گرافکس معیاری اور بجٹ بہت بہتر ہے ڈاکٹر ہو کی کامیابی کا راز اس میں پیش کی جانے والی کہانیاں ہیں، کہانی کا مرکزی پلاٹ انتہائی لچکدار ہے، ایک ایسا شخص جوکہ کائنات میں کبھی بھی اور کہیں بھی پہنچ سکتا ہواس کے لئے کیا مشکل ہے کہ وہ امریکی صدر نکسن کے ساتھ مل کرکام کرے (اقساط ، Impossible astronaut, Day of the Moon ) دوسری جنگ عظیم میں لندن پر بدترین بمباری کے دوران لندن کے شہریوں کی جنیات کو تبدیل کرتے مائیکرو باٹس کو روکے (اقساط The empty Child, The Doctor Dances)یا مستقبل بعید میں اپنی ساتھی کو زمین کی تباہی کا منظر دکھانے لے جائے(قسط The end of the World )۔ خود ڈاکٹر کا کردار بھی پروگرام کی کامیابی کی اہم وجہ ہے اب تک گیارہ اداکاروں نے ڈاکٹر کا رول نبھایا ہے اور ہر اداکار نے ڈاکٹر کو ایک نیا روپ دیا ہے لیکن ان تمام میں ایک بات مشترک ہے اور یہ ڈاکٹر کو دیگر سائنس فکشن پروگرامز سے منفرد بناتی ہے کہ ڈاکٹر کے پاس ہر مسئلے کا حل نہیں ہوتا ، ہرسوال کا جواب اس کے پاس نہیں ، وہ خوفزدہ بھی ہوتا ہے وہ غلطیاں بھی کرتاہے باوجود انسان نہ ہونے کہ ، باوجود ایک کی بجائے دو دل رکھنے کے ڈاکٹر مافوق الفطرت طاقتیں نہیں رکھتا بلکہ عام انسانوں کی طرح ہی اپنی عام سی صلاحیات پر بھروسہ کرتاہے۔
ڈاکٹر ہو خامیوں سے مبرا بلکل نہیں ہے، سیریز کی اپنی خامیاں ہیں ، پرانی سیریز کے ادنی گرافکس نئی سیریز کے شروع میں بھی باقی تھے، نئی سیریز کے بعض اقساط کی کہانیاں کسی حد تک مضحکہ خیز ثابت ہوئیں اور ذاتی طور پر مجھے پرانی سیریز کے ولن نئی سیریز میں بلکل اچھے نہیں لگتے لیکن یہ خرابیاں مجموعی طور پر سیریز کی اچھائیوں کہ مقابلے میں کچھ بھی نہیں اسی لئے اگر آپ سائنس فکشن پسند کرتے ہیں تو ڈاکٹر ہوآپ کو ضرور پسند آئے گا اور اگر آپ سائنس فکشن کے شوقین نہیں بھی ہیں تو بھی یہ چند اقساط ضرور دیکھیں۔
Empty Child & Doctor Dances. Season 1 Ep. 9&10
Blink. Season 2 Ep10
The Impossible Astronaut & The day of the Moon. Season 6 Ep. 1&2
A Christmas Carol. Christmas Special 2010
یہ تحریر میرے بلاگ پر دیکھنے کے لئے
یہاں کلک کریں۔