''کاری عورت ''

نور وجدان

لائبریرین
پہلا منظر
شام ڈھل رہی تھی۔پرندے گھروں کی طرف لوٹ رہے تھے۔ ندی نالوں اور جھرنوں کی موسیقیت موسمِ بہار کے اوئل میں خوشی کا عندیہ دے رہی تھی ۔ سڑکوں پہ لوگوں کی آمدورفت کم ہوتی جارہی تھی ۔پہاڑوں نے ہر اوٹ سے وادی کو گھیر رکھا تھا۔ شہباز خان گاڑی میں سوار اپنے شہر کی طرف رواں دواں تھا۔صبح سے اس نے کچھ نہیں کھایا تھا۔صبح اسے میڈیا ڈائریکٹر کا فون آیا تھا ۔ جس میں اسے کھری کھری سُنا دی گئی تھی کہ اسے قلات میں ہونے والے دھماکے کی رپورٹنگ کرنی تھی ۔ اس کی کاہلی کے سبب دوسری نیوز ایجنسی اس میں سبقت لے گئی جس سے چینل کی ریٹنگ کا مسئلہ بڑھ گیا تھا۔ یہی سوچتے سوچتے اسے بھوک اور پیاس کا شدت سے احساس ہوا۔ واٹر بیگ میں پانی ختم ہوگیا تھا۔کھانےکے لیے صرف ایک باسی برگر بچا تھا۔ گاڑی سے اتر کر ندی کنارے منہ دھو کر پانی پیا۔پھر گاڑی میں پڑا برگر اٹھایا ۔پتھروں پہ بیٹھ کر برگر کھانے لگا۔اسے آہٹ سنائی دی ۔اور پھر '' دھس دھس'' کی آواز ۔۔۔ یہ آواز مسلسل آرہی تھی۔آواز کا تعاقب کرتے ہوئے برقعہ پوش عورت کو انہی پتھروں سے ذرا سی دور مٹی میں دباتے کچھ پایا۔ شہباز نے اس سے پوچھا :

''تم ڈھلتی شام کے اس پہر مٹی میں کیا دبا رہی ہو ۔؟ ''

آواز سن کر عورت کے ہاتھ ساکت ہوگئے۔اس نے اس کی طرف منہ کیا اور جلدی جلدی مٹی میں پھر سے دبانا شروع کردیا۔ ندی کے بہتے جھرنوں کے ساتھ ساتھ اسکے رونے کی آواز نے فضا کو پر نم کر دیا تھا۔

عورت نے سرمئی رنگ کا برقعہ پہنا ہوا تھا جس کے اوپر نیلے رنگ کی ٹوپی بھی تھی ۔درد ناک آواز میں بولی :

یاں عورت جات کی اہمیت نہی ہے۔یہ لوگ ہم کو بولتا یہ علاقہ ، اپنا گھر بار چھوڑ کے چلے جاؤ'' ''

شہباز نے عورت کا ناقدانہ جائزہ لیتے ہوئے پوچھا :'' یہ لوگ کون ہیں ۔؟ ایسا کیوں چاہتے ہیں ؟''

'' یاں پر بات کرنا مناسب نئیں۔۔۔ وہ لوگ ادِر ،اُدر گشت کرتا ہے ۔۔ اگر ان کا نظر پڑ گیا تو قیامت آجائے گی''

برقعہ پوش عورت نے ذرا توقف کیا۔پھر سانس لیتے ہوئے بولی

'' تم شام کے اس وقت یہاں کیا کر رہا ہے ، تمارا کاروبار کیا ہے ؟ تم یاں کے لوگ کو جانتا اے ؟''

شہباز اس برقعہ پوش کو دیکھ نہیں سکتا تھا۔ اس کی آواز سے اسکی عمر کا اندازہ لگانے کی کوشش کرنے لگا ۔ وہ لگ بھگ 40 سال کے قریب لگ رہی تھی ۔

'' میں جرنلسٹ ہوں ۔ انڈس نیوز ایجنسی میں معاشی و سماجی جرائم کی رپورٹ کرتا ہے اور یہاں ایک خود کش دھماکے کی رپورٹنگ کے لیے آیا ہوں '' یہ کہتے ہوئے وہ پتھروں پر ہاتھ پھیرنے لگا جیسے کوئی اپنے پالتو کتے کو پیار کرتے ہوئے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہے ۔

'' ہم پر تم ایک ایسان کرے گا ؟ اس دنیا کا مرد بوت ظالم۔۔۔۔۔۔ اپنی ایجت کی خاطر ماں بین کی ایجٹ کو بھینٹ چڑ اتا ،جس کو عورت جنتی ہے نا۔۔! ووئی، اس کا جنا اس کو دغا دیتا ہے!!! ، وہی اس کو پتھر مارے جو اس کو پالے اے ، پرورش کرے اے ''

یہ کہتے ہوئے اس نے بے ساختہ رونا شروع کردیا۔ شہباز کا دل پگھل گیا تھا۔وہ بیس سال کا جذباتی نوجوان ، جسکی رگوں میں افغانی خون ڈھور رہا تھا۔اکثر عقل سے زیادہ جذبات سے کام لیتا تھا ۔ اس نے برقعہ پوش عورت سے پوچھا وہ اسکی کیا مدد کر سکتا ہے

'' میرا نام آمنہ ہے ِ۔!! یاں پہ کچھ بتا نئیں سکتی، تم کو گھر چلنا ہوگا۔
÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷

( جاری )
 
آخری تدوین:

سید فصیح احمد

لائبریرین
بہت اچھا شروع کیا نور! کچھ کہنے سے پہلے یہ پوچھنا چاہوں گا کہ یہ کس صنف پر لکھ رہی ہیں؟ ناول، کہانی ڈرامہ وغیرہ؟
بہت شکریہ۔
 

نور وجدان

لائبریرین
سب سے پہلے تو شکریہ کہ لکھا پسند آیا۔ میں آپ کی اور فاروق کی شکر گزار ہوں کہ پسندیدگی کی سند دی ۔۔۔۔میں طویل ناول نہیں لکھ رہی جس کو ابواب میں منقسم کیا۔جائے۔۔۔ ناول کو مناظر میں درجہ بندی ایک ساخت میں دینے کے لیے کی. وگرنہ بغیر منظر لکھے بھی کام چل سکتا تھا
میں ناول لکھ رہ ہوں ۔۔۔۔ اور کیا پوچھنا چاہتے ہیں ؟
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
دوسرا منظر
جا بجا پہاڑ پھیلے ہوئے تھے۔جس جگہ سے شہباز اور برقعہ پوش عورت گزر رہے تھے وہاں پر پہاڑی ڈھلانوں نے راستہ ناہموار اور تنگ کر دیا تھا۔ قدم زمین پر رکھتے ہی دھول اوپر کی جانب اٹھتی تھی۔یہ راستہ وادیِ ارک کو کھلے میدان میں لے گیا۔اس سلسلے کی ''ہنا ارک جھیل '' بہت مشہور ہے۔مویشیوں کے منمنانے اور گھوڑوں کے ہنہانے کی آوازیں کانوں میں پڑ رہی تھیں۔آمنہ کی قدموں یکا یک دو آدمیوں کے دیکھتے ہی تیزی آگئی کیونکہ وہ جانتی تھی وہ لوگ اسکے تعاقب میں ہیں۔لمبی لمبی چوغے نما قمیصوں اور ڈھیلی ڈھالی شلوار میں ملبوس ، سر پر دستار سجائے اور آنکھوں میں دہشت لیے وہ آدمی ان کا تعاقب کر رہے تھے۔ آمنہ کے ساتھ ساتھ شہباز نے بھی بھاگنا شروع کردیا۔آبادی کی طرف کے گھر ایک دوسرے سے متصل ،ایک قطار میں ، مٹی سے بنائے گئے تھے ۔ یوں لگ رہا تھا معمار نے اس جگہ کی مٹی کو بہت پہلے بنایا تھا۔اس لیے بوسیدگی کا لباس پہنے ہوئے یہ مکانات قدامت پسندی کا ثبوت دے رہے تھے۔نیلے رنگ کا ٹوٹا ہوا دروازہ جس کو آمنہ نے شہباز کے اندر آنے کے بعد چٹخنی لگائی۔صحن میں دو چارپائیاں ، ایک پرانی میز، دو کرسیاں ، ایک آڈیو ٹیپ پر شہباز کی نظر پڑ ی۔

آمنہ کے چہرے پر پریشانی نمایاں تھی۔آسکی آواز بھاری تھی ۔ اس وقت شہباز کو مردانہ سی محسوس ہوئی۔

''وہ لوگ ابھی آتا ہوگا۔ام تم کو کچھ نہی بتا سکتا تم یہ کیسٹ لے لو۔مری خائش اے تم ساری دنیا کو بتاؤ ،یاں کا لوگ کتنا ظالم ہے''

شہباز نے اس کو دیکھا اور پھر کیسٹ کو۔۔

'' میں یہ کیسٹ نہیں لے سکتا ، جب تک کہ تم مجھے خود کہانی نہیں بتاؤ گی ''

اتنے میں گھر کا دروازہ کھٹکٹانے کی آواز آئی ۔ آمنہ نے اس کی منت شروع کردی اسے اس کے فرض کا احساس دلایا۔ اور اس کو کہا گھر کے پچھلے راستے سے روانہ ہوجاؤ ۔ورنہ یہ لوگ تمہیں نہیں چھوڑیں گے

شہباز ابھی کچھ اور کہنا ہی چاہتا تھا۔ دروازے پر اس طرح دستک ہوئی جیسے وہ ٹوٹ جائے گا۔ شہباز نے وہ کیسٹ لی اور پچھلے را ستے سے ہو لیا۔

ابھی وہ گھر کے پچھلے دروازے پر تھا کہ اس لگا دھماکہ ہوگیا ہے ۔ اسے آواز سنائی دی

''کہاں ہے وہ؟ تم نے اس کو کچھ بتایا تو نہیں؟ دیکھ بی بی ! ہم تمارا ایجت کرتا ہے ! تمارا شادی قران سے ہوا ! تم کو ہم یہ اجازت ہر گز نہیں دے گا کہ تم امارے قبیلے کے رسم و رواج کے خلاف کام کرو ، اسکو کچھ بتانے کا کوشش کیا تو وہ یاں سے زندہ واپس نہی جائے گا''

شہباز اب جلدی سے اپنی گاڑی میں سوار ہونا چاہتا تھا۔ وہ جیسے ہی گھر سے نکلا وہ لوگ اسکا تعاقب کرنے لگے۔ وہ بمشکل گاڑی کی طرف پہنچا ہی تھا۔وہ لوگ بھی آگئے ۔ اس نے گاڑی کو جلد سے اسٹارٹ کیا۔ اسکی گاڑی پر فائرنگ شروع ہوگئی۔ایکسیلریٹر پر پڑا پاؤں بار بار ہلتا رہا ، اس کی رفتار سرخ پیمانے کو چھونے لگے ۔بالآخر وہ وادی ارک سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا ۔


÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷
( جاری )
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
سب سے پہلے تو شکریہ کہ لکھا پسند آیا۔ میں آپ کی اور فاروق کی شکر گزار ہوں کہ پسندیدگی کی سند دی ۔۔۔۔میں طویل ناول نہیں لکھ رہی جس کو ابواب میں منقسم کیا۔جائے۔۔۔ ناول کو مناظر میں درجہ بندی ایک ساخت میں دینے کے لیے کی. وگرنہ بغیر منظر لکھے بھی کام چل سکتا تھا
میں ناول لکھ رہ ہوں ۔۔۔۔ اور کیا پوچھنا چاہتے ہیں ؟
جی میرا سوال بھی کہانی کو منظروں میں بانٹنے سے متعلق تھا۔ خیر بات واضح ہو گئی۔ جاری رکھیں پڑھ کر اچھا لگا۔
 

x boy

محفلین
بہت شکریہ انتظار ہے

کارو کاری سنا تھا
یہ کاری کا کیا مطلب ہے
ہم اس محفل میں نئے ہیں
ورنہ ہم تو وہی محاورا استعمال کرینگے
رات جگے رام پاٹ بتایا اجالے میں میں پوچھا رام گیتا کون تھے
:D:D:D
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
بہت شکریہ انتظار ہے

کارو کاری سنا تھا
یہ کاری کا کیا مطلب ہے
ہم اس محفل میں نئے ہیں
ورنہ ہم تو وہی محاورا استعمال کرینگے
رات جگے رام پاٹ بتایا اجالے میں میں پوچھا رام گیتا کون تھے
:D:D:D

محترم میں خود نور کو عنوان بدلنے کا کہنے والا تھا۔ مگر عنوان کی درست وضاحت تو وہ خود ہی کر سکتی ہیں۔ شاید کہانی میں اس عنوان کا کوئی متحرک نکلے۔ خیر اس پر بات کہانی کے انجام پر ہی بہتر ہو گی۔
 

نور وجدان

لائبریرین
محترم ایکس بوائے
مجھے فصیح الدین کی بات سے اتفاق ہے . آپ کی بات میں نے اپنے ذہن میں رکھ لی . جیسے ہی یہ ختم ہوگا .. آپ کو اس کو جواب مل جائے گا. اگر نہ ملا تو اس پر گفتگو کی جاسکتی ہے .
محترم نظام الدین، سیماب ، فاروق ، سید فصیح اور ایکس بوائے شکریہ ... معذرت آپ کو انتظار کرنا پڑا... کچھ اپنے بھی کام تھے .... انشاء اللہ جلد ختم کر دوں گی
 

نور وجدان

لائبریرین
تیسرا منظر
شہباز نے گاڑی کوئٹہ کی طرف موڑ دی۔ بلوچستان کے خراب سیاسی و معاشی حالات کی وجہ سے کوئی بھی صحافی ادھر آنے کا نام نہیں لیتا تھا۔ شہباز نے یہاں کی رپورٹنگ کا ذمہ لیا۔ وہ اور اسکے ساتھی جرنلسٹ (حامد اور فاروق) ہر ماہ مقرر کردہ دس دنوں کے لیے آتے تھے اور رپورٹنگ کے فرائض سر انجام دیتے تھے۔ یہ ہفتہ شہباز کی رپورٹنگ کا تھا۔ انڈس نیوز ایجنسی کا آفس کوئٹہ میں تھا۔گاڑی وادی ِ ارک سے ''ہنہ جھیل'' کی طرف سے گزر رہی تھی۔ وہ جب بھی یہاں آتا تھا '' ہنہ جھیل'' ضرور جاتا تھا۔ مہکتے پھولوں کی خوشبو ، پتوں کی دھیمی دھیمی سرسراہٹ ، نالے کا ٹھنڈا بہتا پانی دور سے ہی سحر طاری کردیتا تھا۔ وہ بار بار پیچھے مڑ کر دیکھتا رہا کہ کہیں کوئی اسکے تعاقب میں تو نہیں ۔ کئی دفعہ اس نے گاڑی کے مرر سے بغور جائزہ لیا۔ سڑک پر گزرتے ٹرکوں کے ساتھ اکا دک گزرنے والی جیپیں اس کو پریشان کر رہی تھی کہیں کوئی اسکے تعاقب میں نہیں ۔ رات کے اندھیرے میں گاڑی چلانا مناسب نہیں تھا مگر وہ زیادہ خطرہ مول نہیں لینا چاہتا تھا۔

تنہا ڈرائیو کرتے ہوئے وہ سوچنے لگا جب وہ بچہ تھا تب وہ افغانستان سے پاکستان آیا تھا۔اسکے والد جہانزیب خان نے پشاور میں قیام کیا۔ اس کے خاندان میں یہ رواج تھا ابتدا ہی سے مارشل آرٹس، قومی اور علاقائی زبانیں سکھائیں جائیں۔ جہانزیب خان نے روایت کو تازہ رکھا۔ شہباز نہ صرف صوبائی سطح پر بلکہ بین الااقوامی سطح پر ہونے والے کئی مقابلوں میں میڈل جیت چکا تھا۔پشاور کے مقامی سکول سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ لاہور چلا گیا۔یہاں پر تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے اس نے جاب شروع کردی ۔ اتنے بڑے میڈیا کارپوریشن میں اس کو جاب اس کی مختلف زبانوں پر عبور حاصل ہونے کی وجہ سے مل گئی۔

گاڑی کوئٹہ میں داخل ہونے کے بعد انڈس نیوز ایجنسی کے آفس میں داخل ہوگئی۔اسی آفس کی پچھلی طرف بنے کمرے میں شہباز خان کو جانا تھا۔ وہ سرعت سے کمرے میں گیا، اپنی ساری چیزیں بیڈ پر پھینکیں۔ اور نہانے چلا گیا۔ جب وہ شاور لے کر نکلا تو اس نے اپنی ٹیپ نکالی اور بیگ سے کیسٹ۔ اور ساتھ کھانے کا سامان کھولنے لگا جو کوئٹہ کے مقامی ہوٹل سے لایا تھا۔اس نے کھانا کھانے کے بعد ٹیپ کو ٹیبل لیمپ کے پاس رکھا جہاں اس کا لیپ ٹاپ ، ایک نوٹ پیڈ اور پین پڑا ہوا تھا۔ ٹیپ چلنے لگی۔۔۔یہ زبان اردو نہ تھی ۔۔۔ وہی بلوچی زبان جو وہ عورت بول رہی تھی ، وہی آواز جس سے وہ ہم کلام ہوا تھا۔ اس نے لائیٹ آف کردی ۔ کمرے میں سوائے لیمپ کی روشنی کے اور کوئی روشنی نہ تھی ۔وہ کرسی پر نیم دراز سننے لگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷


چوتھا منظر

میری بہن کا نام ''گل مینے ہے ۔اس دن وہ میرے پاس آئی تو بہت گھبرائی ہوئی تھی ۔ گل مینے اپنی ہر بات مجھ سے کہا کرتی تھی ۔

کیا بات ہے تمہارا چہرا اترا وا ہے؟''

گل مینے کو سرخ و سپید رنگت اور تیکھے نقوش قدرت نے عطا کیے تھے اسی وجہ سے وہ اسکی فیاضی سے بے نیاز سی تھی ۔ گھاگھر نما فراق پہنے گلے میں مالا ڈالے اس وقت آسمان سے اتری مخلوق لگ رہی تھی ۔اس کے چہرے پر پھیلی تیرگی نے اسکے خدوخال اور بھی واضح کردیے تھے ۔

''ولی خان کہتا ہے اس نے شادی کرنی ہے ۔ہمارے چار بچے ہیں میں اس کو کیسے دوں اجازت ۔۔۔!!! مجھے بولتا ہے ''

'' تم کو تو پتا ہے گل مینے ، وہ مرد ہے ۔۔۔!!! یاں کا مرد چار شادی بھی کر سکتا۔۔ تم اسکو اجازت دے دو۔۔!!

''ہم اس کو کیسے اجازت دے ، وہ ہم کو بولتا ہے کہ شادی وہ اس صورت میں کرے گا جب ہمیں طلاق دے گا۔۔۔ ہم ایسا کیسے کر دسکتا ہے ۔۔۔۔!!!

آمنہ نے زرمینے کا ساتھ لگا کر دلاسہ دیا۔ اور کہا کہ وہ ولی خان سے خود بات کرے گی ۔

گل مینے وہاں بیٹھی تھی کچھ عورتیں آگئیں ۔ مجھے گاؤں میں کون نہیں جانتا تھا۔ میں '' پاک بی بی '' سب کے دکھوں کا مداوا کرتی ،سب کی کتھائیں سنا کرتی تھیں ۔ ہمارے گاؤں میں '' پاک بی بی '' کو بہت احترام دیا جاتا ہے ۔ اس کی وجہ آپ سب جانتے ہوں گے مجھے یہ مقامِ احترام میری شادی قران ِ پاک سے کرنے پر دیا تھا۔ میرے پاس بہت سے تعویز ہیں جن میں ''اللہ '' کے سوا کچھ نہیں لکھا ہوتا ۔ میں ان کو تعویز دیتی ، قران و تفسیر پڑھایا کرتی ۔

گل مینے ، میرے گھر سے نکل جاتی ہے ۔ یہ میرے درس دینے اور مسئلے سننے کا وقت تھا۔

÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷

پانچواں منظر۔...

اپریل کا مہینہ تھا.دوپہر کے وقت بھی اچھی خاصی خنکی ہوجاتی تھی.وادی ارک کے پسماندہ گاؤں کے ایک پسماندہ سے گھر میں ولی خان داخل ہوتا ہے. اسکے لڑکے عمیر اور اکبر گلی میں کھیلتے ولی خان کو دیکھ کر اس سے لپٹ جاتے ہیں. دونوں کی عمر بارہ بالترتیب تیرہ سال تھی.ان کے ساتھ وہ گھر میں داخل ہونے سے پہلے ہمیشہ کی طرح دو سو عمیر کو اور پانچ سو اکبر کو دیے

گل مینے دستر خوان سجا چکی تھی جب عبد الولی خان گھر آیا.گل مینے نے زرمینے اور عائشہ کو آواز دی. ولی خان کا پورا کنبہ کھانے کی ٹیبل پر موجود تھا. کھانے میں دال اور پالک تھی.ولی نے کھانا دیکھ کے بیزاری کا اظہار کیا. اپنی مٹھیاں بھینچ لیں. پیشانی پر لکیریں بڑھنے لگی یوں جیسے ابھی پھٹ پڑے گا.
"گل مینے!! گوشت کدھر ہے؟ تم کو نہیں پتا مجھے گوشت پسند ہے "

بیٹے اپنی ماں کا، بیٹیاں اپنے باپ کا منہ دیکھنے لگی. گو کہ یہ پہلی لڑائی نہیں تھی. ان کا دورانیہ اور شدت بڑھنے لگی تھی.گل مینے نے ولی خان کو دیکھا جس کے چہرے پر بیزاری، نخوت اور غصے کے سوا کچھ نہیں تھا.
"گھر میں گوشت نہیں ہے. تم گھر میں پیسہ دیتے ہو گوشت کے لیے، یہ سبزی، دال میں نے اپنی پیسوں سے لیا ہے "


ولی خان اٹھا اور کھانے سمیت برتن زمین پر دے مارے .مٹی کے بنے برتنوں کے ٹکرے بکھرے ہوئے تھے.کہیں دال تو کہیں پالک نے فرش کو اینٹوں کو رنگ دے دیا تھا.پھر زرمینے کے قریب آیا اسکے بال پکڑ کر کھینچتے ہوئے بولا:


"عورت کا کام مرد کو خوش کرنا ہے تمہارا فرض ہے مجھے گوشت سے بھرپور کھانا دو "

یہ کہ کر وہ گل مینے کو دوسرے کمرے میں لے گیا اور طنطناتے لہجے میں کہا:

"اب بھی وقت ہے مان جاؤ، ضد چھوڑ دو، تمہیں بہت اچھا مہر دوں گا. تمہیں گاؤں کے امام کے پاس جانا ہے اور یہ کہنا ہے کہ تم اپنے شوہر کو دوسری شادی کی اجازت دیتی ہو اور ساتھ طلاق قبول کرتی ہو "

گل مینے کا چہرا تاثرات سے عاری، سپاٹ تھا جیسے اسکو کچھ کہا ہی نہیں گیا. اس نے ولی کو جواب نہ دیا.

ولی خان نے گل مینے کو مارنا شروع کردیا .اسکا ہاتھ کے وار کی کاٹ نے اس کا چہرہ زخمی کردیا. خون کی دو چار لکیریں چہرے سے رسنے لگی.گل مینے چپ چاپ مار کھاتی رہی.ولی خان یہ کہتے ہوئے نکل گیا:

"تم نہی مانے گا.تمھارا بندوبست کرنا پڑے گا، اب بھی وقت ہے مان جاؤ، ... " گل مینے کو ساکت پا کر وہ تن فن کرتا گھر سے نکل گیا.

اس کے جانے کے بعد اکبر اور عمیر اسکے پاس آئے. ماں کا چہرا گل و گلزار دیکھ دونوں نے تفاخرانہ مسکراہٹ ایک دوسرے پر اچھالی. پھر اکبر بولا:

"ہمارا باپ ٹھیک کہتا ہے تمھارا فرض ہے اس کو اور ہمیں گوشت کھلانا، تم ہمارے باپ کے قابل ہی نہیں، وہ دنیا کا سب سے اچھا باپ ہے "

یہ کہ کر اکبر اور عمیر گھر سے نکل گئے. گل مینے نے سہمی ہوئی زرمینے اور عائشہ کو ساتھ لگا لیا جو ساتھ اور آٹھ سال کی خاموش تماشائی بن کر یہ منظر دیکھ اور سن رہی تھیں ...




جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

سید فصیح احمد

لائبریرین
محترم ایکس بوائے
مجھے فصیح الدین کی بات سے اتفاق ہے . آپ کی بات میں نے اپنے ذہن میں رکھ لی . جیسے ہی یہ ختم ہوگا .. آپ کو اس کو جواب مل جائے گا. اگر نہ ملا تو اس پر گفتگو کی جاسکتی ہے .
محترم نظام الدین، سیماب ، فاروق ، سید فصیح اور ایکس بوائے شکریہ ... معذرت آپ کو انتظار کرنا پڑا... کچھ اپنے بھی کام تھے .... انشاء اللہ جلد ختم کر دوں گی

نور باقی باتیں درست مگر یہ فصیح الدین کون صاحب ہیں؟ o_O
 
Top