نور وجدان
لائبریرین
پہلا منظر
شام ڈھل رہی تھی۔پرندے گھروں کی طرف لوٹ رہے تھے۔ ندی نالوں اور جھرنوں کی موسیقیت موسمِ بہار کے اوئل میں خوشی کا عندیہ دے رہی تھی ۔ سڑکوں پہ لوگوں کی آمدورفت کم ہوتی جارہی تھی ۔پہاڑوں نے ہر اوٹ سے وادی کو گھیر رکھا تھا۔ شہباز خان گاڑی میں سوار اپنے شہر کی طرف رواں دواں تھا۔صبح سے اس نے کچھ نہیں کھایا تھا۔صبح اسے میڈیا ڈائریکٹر کا فون آیا تھا ۔ جس میں اسے کھری کھری سُنا دی گئی تھی کہ اسے قلات میں ہونے والے دھماکے کی رپورٹنگ کرنی تھی ۔ اس کی کاہلی کے سبب دوسری نیوز ایجنسی اس میں سبقت لے گئی جس سے چینل کی ریٹنگ کا مسئلہ بڑھ گیا تھا۔ یہی سوچتے سوچتے اسے بھوک اور پیاس کا شدت سے احساس ہوا۔ واٹر بیگ میں پانی ختم ہوگیا تھا۔کھانےکے لیے صرف ایک باسی برگر بچا تھا۔ گاڑی سے اتر کر ندی کنارے منہ دھو کر پانی پیا۔پھر گاڑی میں پڑا برگر اٹھایا ۔پتھروں پہ بیٹھ کر برگر کھانے لگا۔اسے آہٹ سنائی دی ۔اور پھر '' دھس دھس'' کی آواز ۔۔۔ یہ آواز مسلسل آرہی تھی۔آواز کا تعاقب کرتے ہوئے برقعہ پوش عورت کو انہی پتھروں سے ذرا سی دور مٹی میں دباتے کچھ پایا۔ شہباز نے اس سے پوچھا :
''تم ڈھلتی شام کے اس پہر مٹی میں کیا دبا رہی ہو ۔؟ ''
آواز سن کر عورت کے ہاتھ ساکت ہوگئے۔اس نے اس کی طرف منہ کیا اور جلدی جلدی مٹی میں پھر سے دبانا شروع کردیا۔ ندی کے بہتے جھرنوں کے ساتھ ساتھ اسکے رونے کی آواز نے فضا کو پر نم کر دیا تھا۔
عورت نے سرمئی رنگ کا برقعہ پہنا ہوا تھا جس کے اوپر نیلے رنگ کی ٹوپی بھی تھی ۔درد ناک آواز میں بولی :
یاں عورت جات کی اہمیت نہی ہے۔یہ لوگ ہم کو بولتا یہ علاقہ ، اپنا گھر بار چھوڑ کے چلے جاؤ'' ''
شہباز نے عورت کا ناقدانہ جائزہ لیتے ہوئے پوچھا :'' یہ لوگ کون ہیں ۔؟ ایسا کیوں چاہتے ہیں ؟''
'' یاں پر بات کرنا مناسب نئیں۔۔۔ وہ لوگ ادِر ،اُدر گشت کرتا ہے ۔۔ اگر ان کا نظر پڑ گیا تو قیامت آجائے گی''
برقعہ پوش عورت نے ذرا توقف کیا۔پھر سانس لیتے ہوئے بولی
'' تم شام کے اس وقت یہاں کیا کر رہا ہے ، تمارا کاروبار کیا ہے ؟ تم یاں کے لوگ کو جانتا اے ؟''
شہباز اس برقعہ پوش کو دیکھ نہیں سکتا تھا۔ اس کی آواز سے اسکی عمر کا اندازہ لگانے کی کوشش کرنے لگا ۔ وہ لگ بھگ 40 سال کے قریب لگ رہی تھی ۔
'' میں جرنلسٹ ہوں ۔ انڈس نیوز ایجنسی میں معاشی و سماجی جرائم کی رپورٹ کرتا ہے اور یہاں ایک خود کش دھماکے کی رپورٹنگ کے لیے آیا ہوں '' یہ کہتے ہوئے وہ پتھروں پر ہاتھ پھیرنے لگا جیسے کوئی اپنے پالتو کتے کو پیار کرتے ہوئے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہے ۔
'' ہم پر تم ایک ایسان کرے گا ؟ اس دنیا کا مرد بوت ظالم۔۔۔۔۔۔ اپنی ایجت کی خاطر ماں بین کی ایجٹ کو بھینٹ چڑ اتا ،جس کو عورت جنتی ہے نا۔۔! ووئی، اس کا جنا اس کو دغا دیتا ہے!!! ، وہی اس کو پتھر مارے جو اس کو پالے اے ، پرورش کرے اے ''
یہ کہتے ہوئے اس نے بے ساختہ رونا شروع کردیا۔ شہباز کا دل پگھل گیا تھا۔وہ بیس سال کا جذباتی نوجوان ، جسکی رگوں میں افغانی خون ڈھور رہا تھا۔اکثر عقل سے زیادہ جذبات سے کام لیتا تھا ۔ اس نے برقعہ پوش عورت سے پوچھا وہ اسکی کیا مدد کر سکتا ہے
'' میرا نام آمنہ ہے ِ۔!! یاں پہ کچھ بتا نئیں سکتی، تم کو گھر چلنا ہوگا۔
÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷
( جاری )
آخری تدوین: