نایاب
لائبریرین
السلام علیکم
پچھلے دنوں محترم " فرح دیبا ورک " کی نثری نظموں پہ مشتمل کتاب " کاغذ پہ دھری آنکھیں " منصہ شہود پہ آئی ۔
محترم فرح دیبا ورک بارے اک انکشاف دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ محترم فرح دیبا کچھ عرصہ قبل تک اردو محفل پر خوشی کے نک سے کافی متحرک رہی ہیں ۔
ان کی نثریہ نظمیں بہت سادگی کے ساتھ مختصر سے جملوں کے ہمراہ قاری کو صنف نازک کے اندرونی احساسات سے مطلع کرنے میں کامیاب دکھائی دیتی ہیں ۔۔
" کاغذ پہ دھری آنکھیں " سے کچھ میری پسندیدہ نظمیں ۔۔۔۔۔۔۔
(1)
میں محبت نہیں کر سکتی ؟؟؟
اے محبت
میرے پیچھے نہ پڑ
مجھے آواز نہ دے
میرے دل میں
جگہ نہیں تیرے لیے
کیا تجھے نہیں معلوم
دل میں سوراخ ہوں
تو
جذبے نہیں ٹھہرتے
(2)
بھیدوں بھری شرارت
اب کے جب تم آؤ گے
اک ذرا ستائیں گے
اپنی آنکھیں بھر کے ہم
تم کوبھی رلائیں گے
بھر کے اپنی باہوں میں
شہر دوستاں کی سیر
ہم تمہیں کرائیں گے
(3)
پہرہ
والدین کی ضرورتیں پوری کرتے
اپاہج بھائی کے بچوں کی فیسیں دیتے
اُس کے بالوں میں چاندی اتر چکی ہے
اُس کی اداس آنکھیں
دروازے پر لگی رہتی ہیں
اور
اُس کی ماں
کسی فقیر کی دستک پر بھی
دروازہ
کھولنے نہیں دیتی
(4)
خبر
اس کا جسم بخار سے تپ رہا ھے
اور وہ لاپرواہ
اخبار پڑھنے میں مشغول
اچانک
ایک خبر پہ نظر پڑتے ہی
اس کا جسم جھنجنا گیا
!ماں
مٹی کے چلن بدل چکے
اور گورستان کی ہوائیں نوحہ کناں
تم مجھے دفن مت کرنا
جلا دینا
!
(5)
بے سبب رقابت
تیری میری راہ الگ
نہ تیری میری ذات ہی ایک
تو میری دیورانی نہ جیٹھانی
نہ میں تیری سوت
پھر
کیوں مجھ سے جلتی ھے ؟
پچھلے دنوں محترم " فرح دیبا ورک " کی نثری نظموں پہ مشتمل کتاب " کاغذ پہ دھری آنکھیں " منصہ شہود پہ آئی ۔
محترم فرح دیبا ورک بارے اک انکشاف دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ محترم فرح دیبا کچھ عرصہ قبل تک اردو محفل پر خوشی کے نک سے کافی متحرک رہی ہیں ۔
ان کی نثریہ نظمیں بہت سادگی کے ساتھ مختصر سے جملوں کے ہمراہ قاری کو صنف نازک کے اندرونی احساسات سے مطلع کرنے میں کامیاب دکھائی دیتی ہیں ۔۔
" کاغذ پہ دھری آنکھیں " سے کچھ میری پسندیدہ نظمیں ۔۔۔۔۔۔۔
(1)
میں محبت نہیں کر سکتی ؟؟؟
اے محبت
میرے پیچھے نہ پڑ
مجھے آواز نہ دے
میرے دل میں
جگہ نہیں تیرے لیے
کیا تجھے نہیں معلوم
دل میں سوراخ ہوں
تو
جذبے نہیں ٹھہرتے
(2)
بھیدوں بھری شرارت
اب کے جب تم آؤ گے
اک ذرا ستائیں گے
اپنی آنکھیں بھر کے ہم
تم کوبھی رلائیں گے
بھر کے اپنی باہوں میں
شہر دوستاں کی سیر
ہم تمہیں کرائیں گے
(3)
پہرہ
والدین کی ضرورتیں پوری کرتے
اپاہج بھائی کے بچوں کی فیسیں دیتے
اُس کے بالوں میں چاندی اتر چکی ہے
اُس کی اداس آنکھیں
دروازے پر لگی رہتی ہیں
اور
اُس کی ماں
کسی فقیر کی دستک پر بھی
دروازہ
کھولنے نہیں دیتی
(4)
خبر
اس کا جسم بخار سے تپ رہا ھے
اور وہ لاپرواہ
اخبار پڑھنے میں مشغول
اچانک
ایک خبر پہ نظر پڑتے ہی
اس کا جسم جھنجنا گیا
!ماں
مٹی کے چلن بدل چکے
اور گورستان کی ہوائیں نوحہ کناں
تم مجھے دفن مت کرنا
جلا دینا
!
(5)
بے سبب رقابت
تیری میری راہ الگ
نہ تیری میری ذات ہی ایک
تو میری دیورانی نہ جیٹھانی
نہ میں تیری سوت
پھر
کیوں مجھ سے جلتی ھے ؟