کتابجہ: خدا ہی عظیم ہے

کتابچہ: خدا ہی عظیم ہے

یہ کتابچہ ڈاکٹر عبدلواہاب زاہد (مفتی کوریا) کی عربی تصنیف لقاء مع الفطرۃ کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ ان کی شام میں دھریوں‌کے ساتھ ایک نشست کا احوال ہے۔ برائے مہربانی یہاں‌کوئی تبصرہ یا جواب نہ تحریر کریں‌اور اسکے لیے الگ تھریڈ تجویز کرتا ہوں‌اگر ضرورت پڑی۔
===================
لقاء مع الفطرۃ
ڈاکٹر عبدلواہاب زاہد
مفتی کوریا ، امام جنجو مسجد
Zahid41@maktoob.com
http://www.quran.or.kr/zahid
MP:+82-186101483
Fax: +82-63-272-8951
=========================
 
اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو رحمٰن اور رحیم ہے۔

اپ کیسے توقع کرسکتے ہیں دوسرے اپ کو سنیں جبکہ اپ خود دوسروں کو سننا نہیں چاہتے؟
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے تمام کامیابیاں اچھائی کے ساتھ عطا کیں اور میرے اپنے (اللہ) پر ایمان کی طرف راہ نمائی فرمائی اور میرے دل کو اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی محبت سے بھر دیا۔ وہ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) جن پر اپنا قرآن نازل فرمایا۔
ہم شہادت دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور ہم شہادت دیتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تمام اہل بیت ِ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اور صحابہ کرام کو اپنی راہ میں قبول فرمائے اور قیامت کے دن بھی ان کے درجات بلند فرمائے۔
 
انسانی فطرت سے ملاقات
جستجوِ فطرت انسانی اپنی اصل کی طرف رجوع کرنے کا رجحانِ اعلیٰ رکھتی ہے جب بھی وہ اپنے خالق حقیقی کا خیال اور تلاش کی طرف راغب ہوتی ہے۔ یہ انسانی کی فطرت کی ایک واضح صفت ہے۔
نفسیات دانوں کے نزدیک اللہ پر ایمان انسانی روح کی ایک جہت ہے۔ اور انھوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ انسانی نوزائیدہ اپنی ساخت میں ایک سادہ صفحہ کی طرح ہوتا ہے کسی بھی رنگ سے بغیر۔ جیسا کہ ہمارے پیغمبر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا " ہر انسان درست فطرت پر پیدا ہوتا ہے" (بخاری)
یہ بات اب علم نفسیات سے بھی ثابت ہے کہ جب بچہ بلوغت کی عمر کو پہنچتا ہے تو ایک اس کے اندر تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جو کہ اس کو مذہب کی طرف راغب کرتی ہیں۔ اس عمرمیں نوجوان اپنے خالق کے بارے میں حقائق جاننے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔ یہ دراصل اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ نوجوان کی فطرت اس کی مجبور کررہی ہے کہ وہ متلاشی ہو اور سوچے اپنی زندگی کے سب سے اہم موضوع پر۔

کوئی بھی کافر یا مشرک اصولی طور پر کفر یا شرک نہیں کرنا چاہتا مگر جاھلیت اور محدود پرواز فکر اس کے دل و دماغ پر چھائی ہوئی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ بالاخر اپنے رب کی طرف جانے والے سیدھے اور سچے راستے کو کھو بیٹھتا ہے۔ وہ راستہ جو اللہ بتارک تعالیٰ کی طرف جاتا ہے۔ جو رب ہے اور سب سے عظیم ہے۔
جاری۔۔۔
 
درحقیقت اگر اللہ پر ایمان نہ رکھنے والے شخص کو ایک اچھا متقی رہ نما مل جائے تو انشاء اللہ وہ یقیناً اپنے خالق بارے میں علم حاصل کرلے گا۔ دوسری طرف اگر اس کو ایک گمراہ گائیڈ مل جائے تو لازماً وہ شخص مزید گمراہ ہوجائے گا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک جاھل اور خودگمراہ شخص کسی دوسرے شخص کی درست راستے کی طرف رہنمائی کرسکے۔

درج ذیل واقعہ حقیقی افرادکی گفتگو پر مبنی ہے۔ جس میں اللہ کے فضل سے میں نے بھرپور کوشش کی ہےکہ سچائی اور پارسائی کی طرف رہنمائی ہو۔ میں یہ گفتگو اپنے معزز قارئین کی خدمت میں ایمان کی سچائی واضح کرنے کے لیے پیش کررہا ہوں ۔ اس امید واثق کے ساتھ کہ اللہ کی طرف رہنمائی ہوسکے انشاء اللہ۔ ہم اللہ سے اپنی انکھیں کھل جانے اوراللہ کے علم اور اس پر ایمان کی روشنی سے بھر جانے کی بھیگ مانگتے ہیں۔ اللہ جو کریم و مجیب ہے۔ وہی ہماری دعاوں کو سننے والا اور ان کو پوری کرنے والا ہے۔ امین۔
جاری۔۔
 
غیرمسلم افراد کے ساتھ ایک بامقصد و نتیجہ خیز مذاکرہ
ایک دن کچھ نوجوانوں کا ایک گروہ میرے پاس ایمان سے متعلق کچھ اہم بات کرنے ایا۔ وہ اللہ پر ایمان پر بات کرنا چاہتے تھے۔
وہ اللہ پر ایمان نہ رکھتے تھے بلکہ وہ کسی کو بھی خدا نہ مانتے تھے اورنہ ہی خدا کی کسی کتاب پر یقین رکھتے تھے۔ دوسرے الفاظ میں وہ سب دھریہ تھے۔ وہ صرف مادی زندگی پر یقین رکھتے تھے۔
گفتگو کے شروع ہی میں انھوں نے مجھ پر ایک شرط عائد کردی کہ ہم صرف منطقی دلائل اور سائنسی حقائق پر مبنی بات کریں گے اور قرآن و حدیث سے کوئی بات پیش کریں گے نہ سنیں گے۔ انھوں نے اس بات کو پسند کیا کہ ہم سوال و جواب کی صورت میں بات کریں۔ چنانچہ ان شرائط کی بنیاد پر ہم نے گفتگو کا آغاز کیا۔
جاری۔۔
 
اس گفتگو میں "زاھد" کی اصطلاح میری طرف اور "طالب" کی اصطلاح گروہ کے لیڈر کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
طالب: اللہ کہاں ہے ہم اللہ کو اپنی انکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں۔
زاھد: ( میں نے دل ہی دل میں اللہ کو پکارا "شروع اللہ کے نام سے جو رحمٰن و رحیم ہے" اور ساتھ ہی اللہ سے مدد کی دعا کی کہ میری مدد فرما اور سچائی و حکمت کی طرف میری رہنمائی فرمائے پھر میں نے طالب کو یہ جواب دیا):
کیا اپ اللہ کے وجود پر یقین رکھتے ہیں؟
طالب: ہم اللہ کے وجود پر یقین نہیں رکھتے بلکہ ہم کسی بھی ان دیکھے خدا پر یقین نہیں رکھتے۔ ہر چیز جو اس کائنات میں ہے حادثاتی طور پر وجود میں ائی ہے اور اس کا تخلیق کار یا خالق کوئی نہیں ہے۔
زاھد: اگر اپ کسی خدا پر یقین نہیں رکھتے پھر اپ کیسے پوچھ رہے ہیں کہ اللہ کہاں ہے۔ اپ کسی ایسی چیز کے بارے میں کیسے پوچھ سکتے ہیں جس کے وجود کے اپ منکر ہوں لہذا اللہ کو دیکھے جانے کے سوال سے پہلے ہم اللہ کے وجود پر بات کرلیتے ہیں تاکہ ہم اس بات پر متفق ہوسکیں کہ اللہ کا وجود ہے کہ نہیں پھر ہی ہم اس قابل بات ہوسکیں گے کہ اللہ کو دیکھے جانے کے مسئلے پر بات کریں گے۔ یہ تو بہت ہی غیر منطقی ہوگا کہ ہم ایسی چیز کو دیکھنے کے بارے میں اصرار کریں جس کے وجود کے ہم انکاری ہوں۔

طالب: ہاں ۔ ہم متفق ہیں۔ (پھر اس نے اشارے سے دوسرے اراکان کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا)
زاھد: ( میں نے اس ایک دھاتی چابی جو کہ میرے ہاتھ میں تھی دکھاتے ہوئے پوچھا) اگر کوئی کہےکہ یہ چابی خودبخود بغیر کسی کے عمل دخل کے بنی ہے تو کیا اپ اس بات پر یقین کریں گے؟
طالب: نہیں کوئی بھی باشعور شخص اس بات پر یقین نہیں کرسکتا۔ یہ بات تو بہت ہی غیرمعقول ہے۔
جاری۔۔
 
زاھد: اگر وہ شخص اس بات پر اصرار کرے یہ مفروضہ درست ہے بغیر کسی مہیا ثبوت کے تو پر اپ اس پر کیا کہیں گے؟
طالب: میں کہوں گا کہ یہ بات غیر منطقی ہے کیونکہ کوئی چیز بغیر کسی تخلیق کار کے نہیں بن سکتا۔
زاھد: ( اس نے (طالب نے) اب سوچنا شروع کردیا تھا اگرچہ نیم خوابیدہ ذھن کے ساتھ، کیونکہ کوئی بھی علم اللہ کے علم کے بغیر درست طریقے سے حاصل نہیں کیا جاسکتا جو کہ حق ہے)
ہم جانتے ہیں کہ کوئی بھی چیز مثلاً یہ گلاس کسی بھی صعنت کار یا کاریگر کے بغیر نہیں بن سکتا۔ اسی لیے ہم کسی گلاس کو دیکھ کر اس صعنت کار یا کاریگر کے وجود پر یقین رکھتے ہیں جس کو ہم نے دیکھا بھی نہیں ہو۔
ایک گلاس ہم کو اپنے خالق (کاریگر)کے وجود کی طرف رہ نمائی کرتا ہے۔ یہ ایک سادہ منطقی مسئلہ ہے۔ کیونکہ یہ بات ناممکن ہے کہ کوئی ایسا گلاس موجود ہو جو اپنا تخلیق کار خود ہو۔ درحقیقت گلاس کی مثال ایک خالق کے وجود کی دلیل ہے۔ پھر اپ کا کیا موقف ہے اس کائنات کے بارے میں جس میں عظیم سیارے اپنے مقرر کردہ مداروں میں نپے تلے نظام کے تحت گردش میں ہیں؟ یہ زمین جس میں لاتعداد اجسام جن کا شمار بھی ممکن نہ ہوسکا ہے رہتے ہیں اور بے شمار قدرتی ذرائع زمین کے اوپر اور اندر موجود ہوں اور سمندر جن کے اندر بے شمار تعجب انگیز چیزوں کا ہم مشاہدہ روزانہ کرتے ہیں۔
کیا اپ سمجھتے ہیں کہ یہ سب چیزیں بغیر کسی خالق کے عالم وجود میں ائی ہیں؟

طالب: میں اب بھی یہ سمجھتا ہوں کہ یہ کائنات خودبخود وجود میں ائی ہے ایک بہت بڑے دھماکے (بگ بینگ) کے نتیجے میں جیسا کہ اس کے بارے میں نظریات موجود ہیں۔
جاری۔۔۔۔
=============================
آسمان و زمیں میں موجود خدا کی علامتیں
 
زاھد: ایک دھماکہ تباھی کو جنم دیتا ہے نہ کہ ایک منظم کائنات کی تخلیق کا باعث بنے۔ فرض کریں کہ اپ کچھ مقدار میں دائنا مائٹ ایک پہاڑ کے اندر رکھ دیں اور پھر ایک دھماکہ ہو تو اپ کیا یہ توقع کریں گے کہ ایک خوبصورت گھر وجود میں اتا ہے؟ یقیناً نہیں بلکہ اپ کو بکھرے ہوئے پتھر ہی نتیجے میں ملیں گے۔ اسی طرح اگر ہم دھماکہ خیز مادہ ایک درخت کے اندر رکھ کر دھماکہ کریں تو کیا ایک خوبصورت میز یا کرسی وجود میں ائے گی؟ یا پھر اپ لکڑی کے بکھرے ہوئے ٹکڑے دیکھیں گے؟

طالب: بلکل ہم اس طرح کے دھماکہ کے نتیجیے میں گھر یا کرسی کی تخلیق نہیں کرسکتے بلکہ اس طرح کا دھماکہ تباہی کا ہی باعث ہوسکتا ہے۔ کسی نظام کا سبب نہیں بن سکتا۔ یہ تو بے ترتیبی کا باعث ہی بنے گا۔
زاھد: اگر اپ اس بات سے متفق ہیں کہ پہاڑ کے اندر دھماکہ صرف تباہی کا سبب ہے پھر اپ کیسے یہ توقع کرتے ہیں کہ ایک دھماکہ اس منظم کائنات کا سبب ہو جس کے اندر اتنے سارے اجسام بہت ہی ترتیب سے حرکت میں ہیں؟ فرض کریں اپ یہ تسلیم کرلیں کسی ہستی نے یہ کائنات بنائی ہے تو پھر اس کائنات کو منظم کرنے والی ہستی کون ہے؟ کس نے یہ منظم حیرت انگیز کائنات، اسمان و زمیں اور یہ گیلکسی بنائی ہے اور پھر کس نے سب سے پہلا خلیہ بنایا؟
اور کیا اپ ڈارون پر یقین رکھتے ہیں؟ میں یہ کہوں گاکہ ڈارون صرف ایک ماہرِسلوتری تھا جس نے نظریہ ارتقا کو اپنی سائنسی ریسرچ میں استعمال کیا۔ مگر وہ اس عظیم کائنات کی اتھاہ سچائیوں اور واضح سائنسی حقائق سے ناواقف تھا جو کہ کسی بھی باشعور شخص کو خالقِ کائنات کی طرف رہنمائی کرتی ہیں۔ مختصراً اس کے مفروضہ یہ تھا کہ بندر کا بتدریج ارتقا ادم کی شکل میں ظاہر ہوا مگر اس کے اس مفروضہ کی کوئی سائنسی توجہیہ نہیں کی جاسکی اور تمام لیبارٹری تجربات کے نتیجے اس مفروضے کو رد کرتے ہیں۔
یہ بات تو اپ جانتے ہیں کہ سائنس میں مفروضے بغیر کسی ثبوت کے صرف مفروضے ہی رہتے ہیں جو رد کردیےجاتے ہیں۔
دوسری طرف سائنسدانوں نے واضح حیاتیاتی و اعضاتی فرق انسان اور بندر کے درمیان ثابت کیے ہیں۔ البتہ کچھ لوگ کچھ سطحی شبہاتیں پاتے ہیں جو قطعی اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ انسان کی اصل بندر ہے بلکہ یہ صرف اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ان دونوں تخلیق کا خالق ایک ہی ہے جو کہ اس بات کی قدرت رکھتا ہے کہ وہ تمام اجسام کی تخلیق کرسکے بشمول بندر و انسان کے جس طرح و چاہے ۔ اس طرح نہیں جیسا کہ ہم چاہیں۔
مزید یہ کہ ہم سائنسی طور پر یہ جانتے ہیں کہ ہر مخلوق ایک مخصوص اعضاتی نظام رکھتی ہے یہ فرق جانوروں کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ ایک دوسرے سے مخلوط ہوں اور اگر ایسا ہو بھی تو صرف ایک نسل کے عرصے کے لیے ہوتا ہے اور وہ نسل بھی مزیداولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے قاصر رہتی ہے۔ کچھ تجربات کیے گئے ہیں کہ انسان اور بندر کا جنسی اختلاط کیا جائے ( ایک انسانی نر اور مادہ بندر یا اسکے مخالف) مگر نتیجہ میں کوئی نسل حاصل نہیں ہوئی ۔ یہ تجربہ بھی ڈارون کے مفروضے کی نفی کرتا ہے۔
یہ کائنات اور اسکے اندر موجودات صرف ایک ہی رب نے بنائے ہیں جس کا نام اللہ ہے۔ اللہ نے جانورکو بطور جانور اور انسان کو بطور انسان بنایا۔ اس نے انسان کو اپنی واضح علامتیں اس کائنات کے اندر دکھادیں جو کہ انسان کی اپنے خالق کی طرف رہ نمائی کرتی ہیں۔
(ایک گہری فکر کے بعد طالب نے ٹھنڈے ذہن کے ساتھ کہا)
طالب: میں خالقِ کائنات کے وجود پر متفق ہوں مگر میں ابھی تک ان دیکھے خدا کے بارے میں مطمئن نہیں ہوں۔ میں کسی ان دیکھے خدا کو رب کیسے مان لوں؟

زاھد: اب اپ اپنے اپ کی نفی کررہے ہیں
طالب:مگر کیسے؟
جاری۔۔۔۔
===========================
ردِڈاردون ازم
 
آپ اور تمام سائنسدان بہت سی ایسی چیزوں کے بارے میں ایمان رکھتے ہیں جن کو انھوں نے خود نہیں دیکھا ہوتا۔ مثال کے طور پر کیا اپ نے برقی رو (الیکڑک کرنٹ) کو دیکھا ہے جو کہ تاروں کے اندر رواں ہوتی ہے ؟
طالب: نہیں
زاھد: کیا اپ برقی رو کے وجود پر یقین رکھتے ہیں
طالب: جی ھاں
زاھد: اپ کیسے کسی غیر مرئی چیز پر یقین رکھتے ہیں؟ جس کو اپ نے دیکھا نہیں ہے۔ ( میں نے گفتگو اگے بڑھاتے ہوئے کہا) ہم زندگی کے بہت سے مظاہر اور خاصیتوں پر یقین رکھتے ہیں جو کہ غیر مرئی ہیں جیسا کہ روشنی کے خواص یا حرارت کے خواص۔ یہ برقی رو کے وجود کے مظہر ہیں (روشنی و حرارت)۔ برقی رو جو کہ الیکڑان کی صورت میں منفی پول سے مثبت پول کی طرف بہتے ہیں۔ یہ الیکڑان جو کہ ایٹم کا ایک ذرہ ہیں نہ صرف ننگی انکھ سے دیکھے جاسکتے ہیں بلکہ کہ کسی بھی معیاری مائیکروسکوپ سے بھی نہیں دیکھے جاسکتے۔ حالانکہ تمام سائنس دان الیکڑان کے وجود پر یقین رکھتے ہیں کیونکہ وہ اس (الیکڑان) کے وجود کے مظاہر کے شاہد ہیں نہ کہ خود الیکڑان کے ۔ اسی طرح ایٹم کے نیوکلیس میں مزید ذرات و فورسز موجود ہیں جس کے وجود کے سائنس دان بن دیکھے قائل ہیں۔ کیونکہ وہ ان ذرات وقوتوں کے مظاہر کے شاہد ہیں۔
اگر اپ اس کائنات کو دیکھیں تو اپ کو معلوم پڑے گا کہ کچھ اور مظاہر و اجسام ہمارے ادرگرد موجود ہیں جو کہ وجود رکھتے ہیں مگر دیکھے نہیں جاسکتے۔ ہم انہیں ننگی انکھ سے نہیں دیکھ سکتے کیونکہ وہ ہماری قوت بصارت کی حد سے باھر ہوتے ہیں مگر ہم ان پر پھر بھی یقین رکھتے ہیں اگرچہ ان میں سے کچھ صرف جدید الات کی مدد سے ہی دیکھے جاسکتے ہیں۔
اچھا اپ مجھے یہ بتائیے کہ ایک عاقل اور ایک دیوانہ ادمی کے درمیان کیا فرق ہے؟
طالب: میرے نزدیک فرق ذھنی شعور، ادراک و محسوسات کا ہے۔
زاھد: زبردست۔ کیا اپ نے اس فرق کا مشاہدہ کیا ہے؟
طالب: میں سمجھتا ہوں کہ میں اس فرق کو محسوس کرسکتا ہوں
زاھد: تو کیا اپ نہیں سمجھتے کہ اپ اس خدا پر ایمان لے ائیں جس نے ان محسوسات کو اپ کے اندر ڈال دیا ہے تاکہ اپ محسوس کریں اور سوچیں۔ سوچیں خدا کے وجود کے بارے میں اور اس بات کا ادراک کریں کہ تمام مخلوقات جو اس کائنات میں موجود ہیں خلق کی گئی ہیں۔ کیا اپ اس بات کو ضروری نہیں سمجھتے کہ خالق کے وجود پر ایمان لے ایا جائے۔
۔۔جاری۔۔
==========================
The Evolution Deceit
 
طالب: اپ کے بیان کردہ نکات اور غیرجانبددارنہ ذھن کے ساتھ سوچنے کے بعد میں اس قابل ہوا ہوں کہ اس بات کا اقرار کروں کہ میری پچھلی زندگی انتہائی جہالت میں گزررہی تھی باوجود اسکے بہت ہی واضح علامتیں میرے اردگرد ہی موجود تھیں۔ مگر میں نے اس زاویہ سے کبھی نہیں سوچا جس کو اپ نے اج مجھ پر اشکار کیا ہے۔ میں نے ایسا نہیں سوچا تھا کہ یہ تمام مظاہر ، اجسام و حیوانات ایک خالق نے ایک خاص مقصد کے لیے ایک منظم سسٹم میں ڈیزائن کیے ہیں۔
میں سب کے سامنے یہ شہادت دیتا ہوں کہ میں خدائے واحد ، رب ِعظیم اللہ پر ایمان لاتا ہوں جو تمام کائنات کا واحد و حقیقی خالق ہے۔ مگر مجھے ایک سوال پوچھنے کی اجازت دیجیے۔ ہم کیوں اللہ کواپنی انکھوں سے دیکھنے سے قاصر ہیں ۔ ہم انے ایمان کی مضبوطی کے لیے ایسا پوچھ رہے ہیں۔
۔۔۔جاری۔۔۔
===================
NAMES OF ALLAH
 
زاھد: اللہ تبارک تعالیٰ کا شکر ہے جس نے تم کو درست راستہ دکھایا اور اپنے (اللہ) کے وجود کی سچائی کو ثابت کیا۔ اب میں تم کو کچھ مزید وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔ دیکھو ہم ہوا کو محسوس کرسکتے ہیں اور ہوا کے وجود کے قائل ہیں مگر ہوا کو دیکھ نہیں سکتے کیونکہ جن چیزوں سے ہوا مرکب ہے وہ ہماری بصری حدود سے پرے کی چیز ہیں۔ مگراللہ تعالیٰ نے ہمیں کچھ حسّیات عطا کی ہیں جن کی مدد سے ہم اپنی ضرورت کے مطابق ہوا کو محسوس کرسکتے ہیں۔ بلکل اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیں کچھ فکری حسّیات و ذہنی صلاحیتں بھی دی ہیں جو ھماری ضروریات کے مطابق ہیں تاکہ ہم اللہ تعالیٰ صفات اور اس خالق حقیقی کی تخلیقات پر غور کرسکیں جو لازماً ہمیں اللہ تعالیٰ کے وجود پر قائل کردیں۔مزیدبراں کہ اللہ نے کچھ قابل اعتماد بندے چن لیے تاکہ وہ اللہ کا پیغام لوگوں تک پہچائیں اور لوگوں کا اللہ کا راستہ دکھائیں۔
میں تم کو یہ نصحیت کرتا ہوں کہ سچی نیت کے ساتھ قران کریم ک مطالعہ کرو۔ قران کریم وہ واحد ذریعہ ہے جس کی بنا پر دنیا اور اخرت میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ تم اپنے لے فائدہ مند راہ قران میں ہی پاو گے۔ اور تم اللہ کے وجود کی مزید شہادتیں پاو گے اور اللہ کی طاقت کے بارے میں جان پاوگے۔
-----------------------------
قران کریم سنیے اردو، انگریزی اور کورین ترجمہ کے ساتھ
 
تم اللہ کی عظمت کے بارے میں مزید جان سکوگے کہ اس کائنات کا انتظام کس طرح توحید کی طرف واضح اشارہ کرتی ہیں۔ انشاللہ یہ تھمارے ایمان کی مضبوطی کا سبب بن جائے گا۔ میں تھمیں مزید مثالیں دیتا ہوں جو کہ سائنس دانوں کی دریافت یا ان سے تصدیق شدہ ہیں۔
* اس زمیں کا حجم اور موٹائی، سورج اور چاند کے درمیان فاصلہ، سورج کا درجہ حرارت اور سورج کی شعاعوں کا زمیں تک پہچنا تاکہ زندگی ممکن ہوسکے، زمین میں موجود پانی کی مقدار، زندہ اجسام کے لیے مناسب مقدار میں اکسیجن اور نائٹروجن کا ہوا میں تناسب، یہ سب ایک متناسب اور منظم کائنات کے جز ہیں اور ٹھیک ٹھیک تخمینی انجینرنگ کا نتیجہ ہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ یہ کائنات ایک حادثہ کی صورت میں بغیر خالق کے موجود ہو۔ کس نے یہ کائنات اتنی نپی تلی بنائی ہے؟ یہ اللہ ہے۔
* زمیں اپنے مدار میں ایک مرتبہ چوبیس گھنٹے میں گھومتی ہے اور سورج کے گرد ایک سال میں ۔ یہ بہت ہی نپا تلا انتظام ہے۔
اگر کوئی زمین کے اس معمول میں کوئی مداخلت ہوجائے یا ذرا سی تبدیلی واقع ہوجائے یعنی اگر اس کی گردش کی رفتار میں کچھ رخنہ ہوجائے تو دن و رات کے طول میں تبدیلی ہوجائے گی۔ یہ دن و رات کا مخصوس دورانیہ کس نے بنایا ہے؟ یہ اللہ ہے۔
--------------------------------------------
The alternation of day and night And the flowering hormone
----------

[ame="http://www.youtube.com/watch?v=5L22pUoArTE"]خواہش[/ame]
انگلش ٹرانسلیش
Qadr (Creed) from Allah; we do not object to it. Allah says in the meaning of the verse, "Perhaps you would dislike something and yet it is better for you." However, Abdullah, tell me about the most important things that you used to have and now you don't and wish you would have again after you have been paralyzed.


Abdullah: Three wishes??!!! I have three wishes that concern me. I am grieved by the fact that I can't have them. The first is to be able to prostrate even one "sajdah" to Allah (subhanahu wa ta'aala). I wish I could prostrate to Allah one sajdah only to never rise from it inshaAllah. There is fear inside me. There is an ayah (Verse) in the Quran that says, "...on the day when a shin will be uncovered and they will be invited to prostrate [to Allah] but they will not be able to." (surat Noon) Today I can't prostrate; but when I was able to walk, I had neglected many prayers. Some people may feel sad for me when they see me now. Those people were not sad when I neglected my prayers.

The second wish is to be able to turn one page of the Quran. This is something you (ie: healthy people) never think of. But for me it is like a mountain.


The third is that in a day of "Eid" or happiness or any occasion, I wish I were able enter the house and give my mother a hug,,,,, (long pause​
---------------------------------
میری بھی استدعا ہے

۔۔۔ جاری۔۔۔
 
* اگر سورج کی شعاعوں کا طول ایک ڈگری بدل جائےیا سورج اور زمین کے درمیان فاصلہ کم یا بڑھ جائے تو نتیجہ زمین کی یقینی تباہی ہوگا۔ کس نے یہ فاصلے اتنے درست بنائے ہیں۔ یہ اللہ ہے۔
* اسی طرح اگر چاند اور زمیں کے درمیان فاصلہ گھٹ یا بڑھ جائے تو نتیجتاً سمندر کے مدو جزر میں تبدیلی ہوجائے گی اور پانی کی سطح بلند ہوجائے گی۔ ظاہر ہے کہ نتیجہ زمین کی تباہی ہوگی۔ کس نے یہ پیمائش درست طور پر مقرر کی ہے۔ یہ اللہ ہے۔
* فضائی تہہ کی موٹائی جس میں ہوا میں مختلف گیسوں کی متناسب مقدار شامل ہے بشمول اکسیجن جس کی وجہ سے زندگی ممکن ہے کس نے ممکن بنائی ہیں۔ اور یہ بھی کہ حال ہی میں دریافت کردہ اوزون کی تہہ جس نے زمین کو ڈھانپا ہوا ہے اور سورج کی مضر شعاعوں سے تحفظ کا کام کرتی ہے اور ہمارے سیارے کے لیے اینٹی بایوٹک کا کام بھی کرتی ہے۔ یہ شعاعوں کی ایک مخصوص مقدار کو زمیں کی حد میں داخل ہونے دیتی ہے جو کہ حیات کے لیے ضروری ہے۔ یہ سب بہت ہی ٹھیک ٹھیک قاعدے کے ساتھ بنائی گئی ہیں اور معمولی سی تبدیلی زمیں کی تباہی کی صورت میں ظاہر ہوسکتی ہے۔ کس نے اتنے احسن طریقے سے یہ نظام بنایا۔ یہ اللہ ہے۔
--------------------------------------------------------------
The Earth’s Atmosphere
 
* زمیں سے نکلتی زہریلی گیسیں جو کہ زمانہ قدیم سے ہی زمیں کے اندر/ سے اج تک نکل رہی ہیں، زمین کی فضا کو الودہ کردیتی ہیں۔ یہ فضا ہمارے نظام تنفس سے ہم اہنگ ہوا پر مشتمل ہے۔ ہوا فطری طور پر صاف ہوتی ہے اور اپنے اندر وہ تمام ضروری گیسیس رکھتی ہے جن کی نہ صرف ہم کو بلکہ تمام اجسام کو زندہ رہنے کے لیے ضرورت ہے۔ ہوا تقریباً اٹھتر فی صد نائٹروجن اور اکیس فی صد اکسیجن گیس پر مشتمل ہے۔ اگر یہ تناسب بگڑ جائے اور اکسیجن پچاس فی صد تک بڑھ جائے تو وہ تمام اجسام جل جائیں گے اگر معمولی بجلی زمیں کو چھو جائے۔ کس نے یہ تناسب ِ احسن بنایا ہے۔ یہ اللہ ہے۔
* کچھ درختوں کے پتے انسانی جسم کے پھپھڑوں کے مانند کام کرتے ہیں ۔ ان کا کام ذرا مختلف انداز میں سانس لینا ہی ہوتا ہے۔ درخت کاربن ڈائی اکسائیڈ کا جذب کرتے ہیں اور اکسیجن کا اخراج کرتے ہیں جبکہ انسان اور حیوانات اکسیجن کو جذب کرتے ہیں اور کاربن ڈائی اکسائیڈ کا اخراج کرتے ہیں۔
تم دیکھ سکتے ہو اگر درخت ختم ہوجائیں تو انسان و حیوان بھی نتیجہ میں ختم ہوجائیں گے ۔ یہ بقا کے لیے ایک دوسرے کی ضرورت ہیں۔ ان کی یہ ہم اہنگی کتنی حیرت انگیز ہے۔ یہ ہم اہنگی خالقِ حقیقی نے بنائی ہے۔ یہ اللہ ہے۔

یہ تمام بیان کردہ کچھ مثالیں ہیں لاتعداد اشارات اور شہادات میں سے جو کائنات میں موجود ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کو بیان کرتی ہیں جو ہمارا خالق ہے۔ یہ بہت ہی غیر عقلی اور نامناسب ہوگا یہ سوچنا کہ کائنات ایک حادثہ کی وجہ سے وجود میں ائی ہے بغیر کسی خالق کے۔ یہ نپی تلی و تخمین شدہ تخلیق ظاہر کرتی ہے کہ اسے خالق حقیقی یعنی اللہ تعالیٰ نے بنایاہے۔
اس بدو کی کہانی تو تم نے سنی ہی ہوگی جو کہ ایک صحرا میں رہتا تھا۔ یہ کہانی ہمارے زمانہ قدیم کی ایک روشن مثال ہے۔ بہت متاثر کن مثال کہ کیسے لوگ اللہ کے وجود اور توحید تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ یہ بدو اونٹوں کی رکھوالی کرتا تھا۔ ایک مرتبہ جب وہ اونٹوں کو چارہ ڈال رہا تھا تو کسی نے پوچھا۔ " تم اپنے خالق کے وجود کے کس طرح قائل ہو" بدو نے ایک پردلیل عقلی جواب دیا " اس اونٹ کے فضلات ظاہر کرتے ہیں کہ یہ ایک جاندار جسم ہے اسی طرح نشان ِ قدم ظاہر گزرنے والے کے وجود کو ظاہر کرتے ہیں"
تو پھر کس طرح اس اسمان کے وجود، سیاروں اور ان کے مدار کے وجود ، زمیں اور اس کے اندر یہ ھیبت ناک پہاڑ تم کو اپنے عظیم خالق حقیقی کے وجود کا پتہ نہیں دیتے؟ آللہ کے وجود کا جو کائنات کی ہر باریکی کا جاننے والا ہے کیونکہ وہی تو خالق ہے۔
۔۔۔جاری۔۔۔
=====================================
وہی خدا ہے
 
سائنسی تجربات جو زمانہِ جدید میں کیے گئے اس کائنات کے ایسے مظاہر اور حقائق سے پردہ اٹھاتے ہیں جو ایک عاقل انسان کو باسانی قائل کردیں کہ یہ کائنات ایک ہی خالق نے بنائ ہے۔ تو اس ایک عظیم خالقِ حقیقی کی عبادت ہر باشعور انسان اپنی مرضی سے کرنا چاہے گا۔ اپنی رضا کو اللہ کی رضا کے اگے خم کردے گا۔ سرِ تسلیم خم ہوگا۔
اگر میں یہ کہنا چاہوں گا فطرت بلکل عقلی توجیہ پر پوری اترتی ہے۔ دراصل انسانی فطرت بسا اوقات کسی وجہ سے اپنی اصل سے دور ہوجاتی ہے مثلا میڈیا، غلط گھریلو حالات، غلط صحبت وغیرہ مگر جب اسے اللہ تعالٰی کے طرف سے ھدایت موصول ہوتی ہے اور وہ سچائی کو پہچان لیتی ہے۔ پھر وہ بیدار ہو پڑتی ہے اور اپنی اصل کی طرف لوٹ اتی ہے جو کہ ایک اللہ پر پختہ یقین ہے۔
ہم شہادت دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں جو ہر موجود کا خالقِ عظیم ہے۔ او اللہ ہم کمزور بندے ہیں ۔ ہم تجھ سے ھدایت کی بھیک مانگتے ہیں تاکہ ہم خود ھدایت پر رہیں اور دوسروں کو بھی ھدایت کی راہ دکھاتے رہیں۔ اللہ ہم کو گمراہی میں نہ چھوڑدیجیو کہ ہم ذلیل و خوار ہوجائیں۔ اللہ ہم کو ہر دنیا میں سربلند رکھ۔ امین۔
========================
اختتام
--------------------------------------------
یہ کتاب ڈاکٹر عبدلوہاب زاہد کی کتابچہ "لقا مع الفطرہ" کا انگلش ورژن سے ترجمہ ہے۔ کچھ ٹائپو کو رفع کرکے انشاللہ میں‌اس کو درج ذیل صفحہ پر جلد لوڈ کردوں گا۔ (ترجمہ: ہمت علی)
اللہ قبول کرے ۔ امین
http://www.quran.or.kr/urdu
 
Top