زاھد: ایک دھماکہ تباھی کو جنم دیتا ہے نہ کہ ایک منظم کائنات کی تخلیق کا باعث بنے۔ فرض کریں کہ اپ کچھ مقدار میں دائنا مائٹ ایک پہاڑ کے اندر رکھ دیں اور پھر ایک دھماکہ ہو تو اپ کیا یہ توقع کریں گے کہ ایک خوبصورت گھر وجود میں اتا ہے؟ یقیناً نہیں بلکہ اپ کو بکھرے ہوئے پتھر ہی نتیجے میں ملیں گے۔ اسی طرح اگر ہم دھماکہ خیز مادہ ایک درخت کے اندر رکھ کر دھماکہ کریں تو کیا ایک خوبصورت میز یا کرسی وجود میں ائے گی؟ یا پھر اپ لکڑی کے بکھرے ہوئے ٹکڑے دیکھیں گے؟
طالب: بلکل ہم اس طرح کے دھماکہ کے نتیجیے میں گھر یا کرسی کی تخلیق نہیں کرسکتے بلکہ اس طرح کا دھماکہ تباہی کا ہی باعث ہوسکتا ہے۔ کسی نظام کا سبب نہیں بن سکتا۔ یہ تو بے ترتیبی کا باعث ہی بنے گا۔
زاھد: اگر اپ اس بات سے متفق ہیں کہ پہاڑ کے اندر دھماکہ صرف تباہی کا سبب ہے پھر اپ کیسے یہ توقع کرتے ہیں کہ ایک دھماکہ اس منظم کائنات کا سبب ہو جس کے اندر اتنے سارے اجسام بہت ہی ترتیب سے حرکت میں ہیں؟ فرض کریں اپ یہ تسلیم کرلیں کسی ہستی نے یہ کائنات بنائی ہے تو پھر اس کائنات کو منظم کرنے والی ہستی کون ہے؟ کس نے یہ منظم حیرت انگیز کائنات، اسمان و زمیں اور یہ گیلکسی بنائی ہے اور پھر کس نے سب سے پہلا خلیہ بنایا؟
اور کیا اپ ڈارون پر یقین رکھتے ہیں؟ میں یہ کہوں گاکہ ڈارون صرف ایک ماہرِسلوتری تھا جس نے نظریہ ارتقا کو اپنی سائنسی ریسرچ میں استعمال کیا۔ مگر وہ اس عظیم کائنات کی اتھاہ سچائیوں اور واضح سائنسی حقائق سے ناواقف تھا جو کہ کسی بھی باشعور شخص کو خالقِ کائنات کی طرف رہنمائی کرتی ہیں۔ مختصراً اس کے مفروضہ یہ تھا کہ بندر کا بتدریج ارتقا ادم کی شکل میں ظاہر ہوا مگر اس کے اس مفروضہ کی کوئی سائنسی توجہیہ نہیں کی جاسکی اور تمام لیبارٹری تجربات کے نتیجے اس مفروضے کو رد کرتے ہیں۔
یہ بات تو اپ جانتے ہیں کہ سائنس میں مفروضے بغیر کسی ثبوت کے صرف مفروضے ہی رہتے ہیں جو رد کردیےجاتے ہیں۔
دوسری طرف سائنسدانوں نے واضح حیاتیاتی و اعضاتی فرق انسان اور بندر کے درمیان ثابت کیے ہیں۔ البتہ کچھ لوگ کچھ سطحی شبہاتیں پاتے ہیں جو قطعی اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ انسان کی اصل بندر ہے بلکہ یہ صرف اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ان دونوں تخلیق کا خالق ایک ہی ہے جو کہ اس بات کی قدرت رکھتا ہے کہ وہ تمام اجسام کی تخلیق کرسکے بشمول بندر و انسان کے جس طرح و چاہے ۔ اس طرح نہیں جیسا کہ ہم چاہیں۔
مزید یہ کہ ہم سائنسی طور پر یہ جانتے ہیں کہ ہر مخلوق ایک مخصوص اعضاتی نظام رکھتی ہے یہ فرق جانوروں کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ ایک دوسرے سے مخلوط ہوں اور اگر ایسا ہو بھی تو صرف ایک نسل کے عرصے کے لیے ہوتا ہے اور وہ نسل بھی مزیداولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے قاصر رہتی ہے۔ کچھ تجربات کیے گئے ہیں کہ انسان اور بندر کا جنسی اختلاط کیا جائے ( ایک انسانی نر اور مادہ بندر یا اسکے مخالف) مگر نتیجہ میں کوئی نسل حاصل نہیں ہوئی ۔ یہ تجربہ بھی ڈارون کے مفروضے کی نفی کرتا ہے۔
یہ کائنات اور اسکے اندر موجودات صرف ایک ہی رب نے بنائے ہیں جس کا نام اللہ ہے۔ اللہ نے جانورکو بطور جانور اور انسان کو بطور انسان بنایا۔ اس نے انسان کو اپنی واضح علامتیں اس کائنات کے اندر دکھادیں جو کہ انسان کی اپنے خالق کی طرف رہ نمائی کرتی ہیں۔
(ایک گہری فکر کے بعد طالب نے ٹھنڈے ذہن کے ساتھ کہا)
طالب: میں خالقِ کائنات کے وجود پر متفق ہوں مگر میں ابھی تک ان دیکھے خدا کے بارے میں مطمئن نہیں ہوں۔ میں کسی ان دیکھے خدا کو رب کیسے مان لوں؟
زاھد: اب اپ اپنے اپ کی نفی کررہے ہیں
طالب:مگر کیسے؟
جاری۔۔۔۔
===========================
ردِڈاردون ازم