فرخ منظور

لائبریرین
کعبے کی ہے ہوس کبھی کوئے بتاں کی ہے
مجھ کو خبر نہیں مری مٹی کہاں کی ہے

سن کر مرا فسانہ انہیں لطف آگیا
سنتا ہوں اب کہ روز طلب قصہ خواں کی ہے

پیغامبر کی بات پر آپس میں رنج کیا
میری زباں کی ہے نہ تمہاری زباں کی ہے

کچھ تازگی ہو لذتِ آزار کے لئے
ہر دم مجھے تلاش نئے آسماں کی ہے

جانبر بھی ہوگئے ہیں بہت مجھ سے نیم جان
کیا غم ہے اے طبیب جو پوری وہاں کی ہے

حسرت برس رہی ہے ہمارے مزار پر
کہتے ہیں سب یہ قبر کسی نوجواں کی ہے

وقتِ خرامِ ناز دکھا دو جدا جدا
یہ چال حشر کی یہ روش آسماں کی ہے

فرصت کہاں کہ ہم سے کسی وقت تو ملے
دن غیر کا ہے رات ترے پاسباں کی ہے

قاصد کی گفتگو سے تسلی ہو کس طرح
چھپتی نہیں وہ بات جو تیری زباں کی ہے

جورِ رقیب و ظلمِ فلک کا نہیں خیال
تشویش ایک خاطرِ نامہرباں کی ہے

سن کر مرا فسانہء غم اس نے یہ کہا
ہوجائے جھوٹ سچ یہی خوبی بیاں کی ہے

دامن سنبھال باندھ کمر آستیں چڑھا
خنجر نکال دل میں اگر امتحاں کی ہے

ہر ہر نفس میں دل سے نکلنے لگا غبار
کیا جانے گردِ راہ یہ کس کارواں کی ہے

کیونکر نہ آتے خلد سے آدم زمین پر
موزوں وہیں وہ خوب ہے جو سنتے جہاں کی ہے

تقدیر سے یہ پوچھ رہا ہوں کہ عشق میں
تدبیر کوئی بھی ستمِ ناگہاں کی ہے

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

داغ دہلوی
 

نوید صادق

محفلین
خوبصورت انتخاب ہے بھائی!

آپ کا کلاسیکس کاروز افزوں مطالعہ اشارے دے رہا ہے کہ آپ کوئی گُل کھلانے والے ہیں۔
 

فاتح

لائبریرین
آپ ہمیشہ کچھ نہ کچھ تاریخی اور کلاسیکی تلاش کر کے لے آتے ہیں۔
اس غزل کا بھی مقطع سن رکھا تھا ہم نے۔
آج مکمل غزل سے بھی شناسائی ہو گئی۔
بہت شکریہ جناب۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
آپ ہمیشہ کچھ نہ کچھ تاریخی اور کلاسیکی تلاش کر کے لے آتے ہیں۔
اس غزل کا بھی مقطع سن رکھا تھا ہم نے۔
آج مکمل غزل سے بھی شناسائی ہو گئی۔
بہت شکریہ جناب۔

بہت شکریہ فاتح صاحب۔ آپ کے ایما پر ہی یہ غزل تلاش کی ہے۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ فرخ صاحب!

ان دو اشعار میں سہو کاتب ہے!

ہر ہر نفس میں دل سے نکلنے لگا غبار
کیا جانے گردِ راہ یہ کس کاروں کی ہے

تقدیر سے یہ پوچھ رہا ہوں کہ عشق میں
تدبیر کوئی بھی سمتمِ ناگہاں کی ہے

اس شعر کے مصرعہ ثانی کے وزن میں مسئلہ لگا تھا لیکن شاید صحیح ہے، "خوب" کو "خب" اگر سمجھا جائے تو، لیکن اسکا مطلب ابھی تک سمجھ نہیں آیا :)

کیونکر نہ آتے خلد سے آدم زمین پر
موزوں وہیں وہ خوب ہے جو سنتے جہاں کی ہے

باقی مقطع کا مصرعہ ثانی جسطرح زبان زد عام ہے "سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے" اسکے متعلق فاتح صاحب پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں (شاید محفل پر بھی) کہ صحیح وہی ہے جو آپ نے لکھا ہے اور آپ نے بھی یقیناً مستند کلیات سے لکھا ہےٓ!
 

نوید صادق

محفلین
فرخ بھائی!
یہ غزل آپ نے کہاں سے اٹھائی ہے۔ میرے پاس مجلسِ ترقئ ادب کی نئی(کمپوزنگ والا ایڈیشن) شائع کردہ " مہتابِ داغ" ہے۔ اس میں تو مجھے یہ غزل نہیں ملی۔
مقطع تو ویسے ہی بہت مشہور ہے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
فرخ بھائی!
یہ غزل آپ نے کہاں سے اٹھائی ہے۔ میرے پاس مجلسِ ترقئ ادب کی نئی(کمپوزنگ والا ایڈیشن) شائع کردہ " مہتابِ داغ" ہے۔ اس میں تو مجھے یہ غزل نہیں ملی۔
مقطع تو ویسے ہی بہت مشہور ہے۔

نوید بھائی یہ غزل "گلزارِ داغ" میں سے لی گئی ہے۔ "مہتابِ داغ" میں یہ غزل نہیں‌ ہے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
شکریہ فرخ صاحب!

ان دو اشعار میں سہو کاتب ہے!



اس شعر کے مصرعہ ثانی کے وزن میں مسئلہ لگا تھا لیکن شاید صحیح ہے، "خوب" کو "خب" اگر سمجھا جائے تو، لیکن اسکا مطلب ابھی تک سمجھ نہیں آیا :)



باقی مقطع کا مصرعہ ثانی جسطرح زبان زد عام ہے "سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے" اسکے متعلق فاتح صاحب پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں (شاید محفل پر بھی) کہ صحیح وہی ہے جو آپ نے لکھا ہے اور آپ نے بھی یقیناً مستند کلیات سے لکھا ہےٓ!

وارث صاحب مستند پہ مجھے شک ہے۔ کیونکہ یہ انجمنِ ترقی ادب کا نہیں چھپا ہوا۔ اور بھی کافی جگہ مجھے اغلاط نظر آئی ہیں۔ لیکن ستمم اور کاروں والی غلطیاں میری تھیں جو میں نے درست کر دی ہیں۔
 

کاشفی

محفلین
غزل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)

کعبے کی ہے ہوس کبھی کوئے بتاں کی ہے
مجھ کو خبر نہیں مری مٹی کہاں کی ہے

سن کر مرا فسانہ انہیں لطف آگیا
سنتا ہوں اب کہ روز طلب قصہ خواں کی ہے

پیغامبر کی بات پر آپس میں رنج کیا
میری زباں کی ہے نہ تمہاری زباں کی ہے

کچھ تازگی ہو لذتِ آزار کے لئے
ہر دم مجھے تلاش نئے آسماں کی ہے

جانبر بھی ہوگئے ہیں بہت مجھ سے نیم جان
کیا غم ہے اے طبیب جو پوری وہاں کی ہے

حسرت برس رہی ہے ہمارے مزار پر
کہتے ہیں سب یہ قبر کسی نوجواں کی ہے

وقتِ خرامِ ناز دکھا دو جدا جدا
یہ چال حشر کی یہ روش آسماں کی ہے

فرصت کہاں کہ ہم سے کسی وقت تو ملے
دن غیر کا ہے رات ترے پاسباں کی ہے

قاصد کی گفتگو سے تسلی ہو کس طرح
چھپتی نہیں وہ بات جو تیری زباں کی ہے

جورِ رقیب و ظلمِ فلک کا نہیں خیال
تشویش ایک خاطرِ نامہرباں کی ہے

سن کر مرا فسانہء غم اس نے یہ کہا
ہوجائے جھوٹ سچ یہی خوبی بیاں کی ہے

دامن سنبھال باندھ کمر آستیں چڑھا
خنجر نکال دل میں اگر امتحاں کی ہے

ہر ہر نفس میں دل سے نکلنے لگا غبار
کیا جانے گردِ راہ یہ کس کارواں کی ہے

کیونکر نہ آتے خلد سے آدم زمین پر
موزوں وہیں وہ خوب ہے جو سنتے جہاں کی ہے

تقدیر سے یہ پوچھ رہا ہوں کہ عشق میں
تدبیر کوئی بھی ستمِ ناگہاں کی ہے

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
 

صفدر خان

محفلین
بہت خوب سخنور صاحب۔ دل خوش ہوگیا۔
بے شمار دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ اردو ادب سے متعلق مجھے جس چیز کی گوگل پر تلاش ہوتی ہے وہ اسی ویب سائٹ پہ ملتی ہے۔ لہٰذا اِس ویب سائٹ پر میں ہمیشہ براستہ گوگل ہی آتا ہوں۔ آپ لوگ بہت اعلیٰ کام کر رہے ہیں۔
یہاں خود حصہ نہ لینے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اوپرا براؤزر پہ یہ ویب سائٹ کام نہیں کرتی۔اور کسی دوسرے براؤزر کو استعمال کرنے سے مجھے نیند آتی ہے۔ اِس لئے سائٹ منتظمین سے گزارِش ہے کہ اِس سائٹ کی تیّاری میں اگر ہماری خاطر اتنا خیال رکھ لیا جائے تو کیا حرج ہے۔
 
Top