الف عین
لائبریرین
حسینہ اور ادیب
حسیں موسم تھا اور رُت تھی گلابی
ہوائیں مست تھیں جیسے شرابی
رشید احمد کے گھر دعوت اڑا کے
ہوا میں گھر میں داخل مسکرا کے
مری کٹیا میں وہ بیٹھی تھی غمگین
کہا میں نے ہو کیسی بلبلِ چین؟
نہ دو دن سے ملا تھا اس کو کھانا
مگر یہ راز بندے نے نہ جانا
حسیں سا ایک مصرع گنگنا کے
کہا میں نے یہ اس کے پاس آ کے
وزیر آغا کی تازہ نظم سن لو
ذرا کچھ شاعری کے پھول چن لو
اب اس کے صبر کا پیمانہ چھلکا
پڑا پیلا گلابی رنگ ہلکا
وہ غصّے کی شکن ماتھے پہ لائی
معاً دینے لگی وہ یوں دُہائی
ترے ساتھ آ گئی ، پھوٹے مرے بھاگ
وزیر آغا کی نظموں کو لگے آگ
ارے چھوٹی سی تھی میں نظمِ آزاد
کیا پابند تو نے مجھ کو جلاّد
ادب نے کر دیا برباد مجھ کو
نہ اپنے ساتھ کرنا شاد مجھ کو
زباں پر ذکر منٹو دن میں دس بار
کبھی لا کر نہ دی اک ’کالی شلوار‘
’لحاف‘ اک بھی نہیں اور ذکرِ عصمت
بتا دے یہ کہاں کی ہے شرافت
تبسّم واجدہ کا کیا کروں گی
میں اس سے پیٹ کیا اپنا بھروں گی
مرا دل بھوک سے رنجور اگر ہے
مجھے کیا ہاجرہ مسرور اگر ہے
کلامِ میر بھی ہے، جوش بھی ہے
نہیں ہے گھر میں آٹا، ہوش بھی ہے؟
اگر فاقوں سے آیا غیظ مجھ کو
سنایا فیض احمد فیض مجھ کو
ہوئی جب چائے کی بندی کو خواہش
کہا پڑھ لو ذرا احسان دانش
نہ مجھ ناشاد کی پروا کبھی کی
جو کی تو فکر شاد امرتسری کی
کبھی آنسو نہ بندی نے سُکھائے
بڑے صوفی تبسّم بن کے آئے
کیا ہے جعفری نے تجھ کو برباد
جو آ کر دے گیا جھوٹی تجھے داد
صلاح الدین اگر کُٹیا میں آیا
تو سمجھو میں نے وا ویلا مچایا
بہت سودا ادب کا سر میں ہوگا
وہ مولانا اگر ہے، گھر میں ہوگا
نہ گھر میں اختر الایمان آئے
نہ اپنا وہ یہاں ایمان لائے
اسے چاٹو گے، چومو گے، یہ ہے طے
مگر وہ ’حجرِ اسود‘ تو نہیں ہے
دکھاؤں گی میں اس کو ایسا منظر
کہ ہنستا آئے گا ، جائے گا رو کر
جو راشد کی سنائی نظمِ آزاد
ترے ساتھ اس کو بھی کر دوں گی برباد
بڑی مشکل سے پیچھا تھا چھڑایا
وہ کیوں ایران جا کر لوٹ آیا
مرے وہ اشتراکی احمد عبّاس
وہ کر دے گا ترا بھی ستّیا ناس
کبھی ہوتا ہے یہ ،حسوس مجھ کو
بھگا لے جائے گا وہ روس تجھ کو
کسی "روسن" سے ہائے میرے اللہ
نہ بندھوا دے جکہیں وہ تیرا پلّہ
ندیمِ قاسمی سَو بار آیا
کبھی اس نے بہن مجھ کو بنایا؟
میں ہو جاتی تھی شرما کے گلابی
وہ کیوں آخر مجھے کہتا تھا بھابی
تم آ کر کس نشے میں ہو گئے غین
سدا ذکرِ کتابِ قرۃ العین
اسے میں ’آگ کے دریا‘ میں پھینکوں
’ستی‘ ہوتے ہوئے بھی اس کو دیکھوں
نہ یاں آئے کنھیّا لال مردہ
کپور آباد کا مشہور گردہ
جو ہنس ہنس پگڑیاں سب کی اچھالے
ذرا اب اپنی ٹوپی بھی سنبھالے
نہ سمجھو شاذ کو میں چھوڑ دوں گی
میں اس کی تمکنت بھی توڑ دوں گی
مجھے اس تونسوی کی فکر بھی ہے
لبوں پر تیرے اس کا ذکر بھی ہے
عدم ملکِ عدم جاتا نہیں کیوں؟
یہ اب جینے سے باز آتا نہیں کیوں؟
میں تنگ آئی تری بد عہدیوں سے
یہ آئے دن کے باقر مہدیوں سے
ادب لے کر مجھے ٹی بی کرائی
کرے گا کیا قتیل احمد شفائی
کنویں میں کرشن چندر کو میں پھینکوں
ہے دوبا یا نہیں اوپر سے دیکھوں
زباں سے لفظ بیدی گر نکالا
بجا دوں گی میں فوراً تیرے بارا
بتا مجھ کو۔ ترا ساحر کہاں ہے؟
کہاں وہ دشمنِ شاہِ جہاں ہے؟
جلا دے پھاڑ دے دیوانِ فانی
"مآلِ سوزِ غم ہائے نہانی‘
ثناء اللہ کے ہیں اب تک وہی طور
میں ڈالوں بھاڑ میں اس کا ’نیا دور‘
یہاں نوش اور نقوش آنے نہ پائیں
طفیل اور شاہد احمد بھی نہ آئیں
نہیں یہ شاہد احمد مجھ کو بھاتا
جو سیّد ہو کے ٹھمری بھی ہے گاتا
جو ہوتی کچھ شرافت اس میں باقی
رسالے کا نہ رکھتا نام ’ساقی‘
ادھر آ تجھ کو سیدھی رہ پہ ڈالوں
خلیل الاعظمی تیری نکالوں