کلامِ راجہ مہدی علی خاں

الف عین

لائبریرین
حسینہ اور ادیب

حسیں موسم تھا اور رُت تھی گلابی
ہوائیں مست تھیں جیسے شرابی
رشید احمد کے گھر دعوت اڑا کے
ہوا میں گھر میں داخل مسکرا کے
مری کٹیا میں وہ بیٹھی تھی غمگین
کہا میں نے ہو کیسی بلبلِ چین؟
نہ دو دن سے ملا تھا اس کو کھانا
مگر یہ راز بندے نے نہ جانا
حسیں سا ایک مصرع گنگنا کے
کہا میں نے یہ اس کے پاس آ کے
وزیر آغا کی تازہ نظم سن لو
ذرا کچھ شاعری کے پھول چن لو
اب اس کے صبر کا پیمانہ چھلکا
پڑا پیلا گلابی رنگ ہلکا
وہ غصّے کی شکن ماتھے پہ لائی
معاً دینے لگی وہ یوں دُہائی
ترے ساتھ آ گئی ، پھوٹے مرے بھاگ
وزیر آغا کی نظموں کو لگے آگ
ارے چھوٹی سی تھی میں نظمِ آزاد
کیا پابند تو نے مجھ کو جلاّد
ادب نے کر دیا برباد مجھ کو
نہ اپنے ساتھ کرنا شاد مجھ کو
زباں پر ذکر منٹو دن میں دس بار
کبھی لا کر نہ دی اک ’کالی شلوار‘
’لحاف‘ اک بھی نہیں اور ذکرِ عصمت
بتا دے یہ کہاں کی ہے شرافت
تبسّم واجدہ کا کیا کروں گی
میں اس سے پیٹ کیا اپنا بھروں گی
مرا دل بھوک سے رنجور اگر ہے
مجھے کیا ہاجرہ مسرور اگر ہے
کلامِ میر بھی ہے، جوش بھی ہے
نہیں ہے گھر میں آٹا، ہوش بھی ہے؟
اگر فاقوں سے آیا غیظ مجھ کو
سنایا فیض احمد فیض مجھ کو
ہوئی جب چائے کی بندی کو خواہش
کہا پڑھ لو ذرا احسان دانش
نہ مجھ ناشاد کی پروا کبھی کی
جو کی تو فکر شاد امرتسری کی
کبھی آنسو نہ بندی نے سُکھائے
بڑے صوفی تبسّم بن کے آئے
کیا ہے جعفری نے تجھ کو برباد
جو آ کر دے گیا جھوٹی تجھے داد
صلاح الدین اگر کُٹیا میں آیا
تو سمجھو میں نے وا ویلا مچایا
بہت سودا ادب کا سر میں ہوگا
وہ مولانا اگر ہے، گھر میں ہوگا
نہ گھر میں اختر الایمان آئے
نہ اپنا وہ یہاں ایمان لائے
اسے چاٹو گے، چومو گے، یہ ہے طے
مگر وہ ’حجرِ اسود‘ تو نہیں ہے
دکھاؤں گی میں اس کو ایسا منظر
کہ ہنستا آئے گا ، جائے گا رو کر
جو راشد کی سنائی نظمِ آزاد
ترے ساتھ اس کو بھی کر دوں گی برباد
بڑی مشکل سے پیچھا تھا چھڑایا
وہ کیوں ایران جا کر لوٹ آیا
مرے وہ اشتراکی احمد عبّاس
وہ کر دے گا ترا بھی ستّیا ناس
کبھی ہوتا ہے یہ ،حسوس مجھ کو
بھگا لے جائے گا وہ روس تجھ کو
کسی "روسن" سے ہائے میرے اللہ
نہ بندھوا دے جکہیں وہ تیرا پلّہ
ندیمِ قاسمی سَو بار آیا
کبھی اس نے بہن مجھ کو بنایا؟
میں ہو جاتی تھی شرما کے گلابی
وہ کیوں آخر مجھے کہتا تھا بھابی
تم آ کر کس نشے میں ہو گئے غین
سدا ذکرِ کتابِ قرۃ العین
اسے میں ’آگ کے دریا‘ میں پھینکوں
’ستی‘ ہوتے ہوئے بھی اس کو دیکھوں
نہ یاں آئے کنھیّا لال مردہ
کپور آباد کا مشہور گردہ
جو ہنس ہنس پگڑیاں سب کی اچھالے
ذرا اب اپنی ٹوپی بھی سنبھالے
نہ سمجھو شاذ کو میں چھوڑ دوں گی
میں اس کی تمکنت بھی توڑ دوں گی
مجھے اس تونسوی کی فکر بھی ہے
لبوں پر تیرے اس کا ذکر بھی ہے
عدم ملکِ عدم جاتا نہیں کیوں؟
یہ اب جینے سے باز آتا نہیں کیوں؟
میں تنگ آئی تری بد عہدیوں سے
یہ آئے دن کے باقر مہدیوں سے
ادب لے کر مجھے ٹی بی کرائی
کرے گا کیا قتیل احمد شفائی
کنویں میں کرشن چندر کو میں پھینکوں
ہے دوبا یا نہیں اوپر سے دیکھوں
زباں سے لفظ بیدی گر نکالا
بجا دوں گی میں فوراً تیرے بارا
بتا مجھ کو۔ ترا ساحر کہاں ہے؟
کہاں وہ دشمنِ شاہِ جہاں ہے؟
جلا دے پھاڑ دے دیوانِ فانی
"مآلِ سوزِ غم ہائے نہانی‘
ثناء اللہ کے ہیں اب تک وہی طور
میں ڈالوں بھاڑ میں اس کا ’نیا دور‘
یہاں نوش اور نقوش آنے نہ پائیں
طفیل اور شاہد احمد بھی نہ آئیں
نہیں یہ شاہد احمد مجھ کو بھاتا
جو سیّد ہو کے ٹھمری بھی ہے گاتا
جو ہوتی کچھ شرافت اس میں باقی
رسالے کا نہ رکھتا نام ’ساقی‘

ادھر آ تجھ کو سیدھی رہ پہ ڈالوں
خلیل الاعظمی تیری نکالوں
 

محمد وارث

لائبریرین
پنجاب کے دیہات میں اردو


غمزدہ حسینہ

کیوں بجھاتے ہو دِیا الفت کا پُھوکاں مار کے
چاہتا ہے دل مرا روراں میں کُوکاں مار کے


ڈنگوری اور بے بے

ڈنگوری لے کے پے جا اس کو ابّا
میری بے بے نے چُوچا مار سٹیا


اللہ رکھا اور چارپائی

منجی دا پاوا امّاں میتھوں نہیں ہے ٹُٹیا
کل اس پہ اللہ رکھّا تشریف رکھ گیا تھا


عذرِ گناہ بہتر از گناہ

سَوں رب دی مام دین میں کل رات تیرے کو
ملتی ضرور پر مجھے چیتا نہیں رہا
 

فاتح

لائبریرین
تانگے والا

لے کے بیڑی کا ایک لمبا کش
ایک چابک لگا کے گھوڑے کو
تانگے والا مرا لگا کہنے
دیکھ کر اک حسین جوڑے کو
بابوجی ایک دن کا ذکر ہے یہ
میں نے ریشم کی مشہدی لنگی
آنکھ پر کچھ جھکا کے باندھی تھی
یہ مری آنکھ چھپ گئی سی تھی
اس سڑک پر اس آنکھ نے دیکھا
چلبلی پیاری اک حسینہ کو
"آجا کڑیئے ادھر ذرا" کہہ کر
مار دی آنکھ اس لعینہ کو
اپنے گورے سے ہاتھ کا تھپڑ
میرے منہ پر جما دیا اس نے
یوں لگا جیسے گرم اک بوسہ
میرے منہ پر لگا دیا اس نے
اس حسیں ہاتھ کی حسیں خوشبو
اب بھی آتی ہے سونگھ لیتا ہوں
دو گھڑی بند کر کے میں آنکھیں
اپنے تانگے میں اونگھ لیتا ہوں
اور کیا چاہئے تھا بابوجی ‫!​
 

فرخ منظور

لائبریرین
ڈاکوؤں سے انٹرویو​
جی اس بندے کو ویسے تو ابوداؤد کہتے ہیں​
بہت سے مہرباں لیکن ابو المردود کہتے ہیں​
مرے والد فرید آباد کے مشہور ڈاکو تھے​
خدا بخشے انھیں، اپنے زمانے کے ہلاکو تھے​
نہیں تھا چور کوئی شہر میں دادا کے پائے کا​
چرا کر گھر میں لے آئے تھے کتا وائسرائے کا​
مرے ماموں کے جعلی نوٹ امریکا میں چلتے تھے​
ہزاروں چور ڈاکو ان کی نگرانی میں پلتے تھے​
مرے پھوپھا چھٹے بدمعاش تھے اپنے زمانے کے​
خدا بخشے بہت شوقین تھے وہ جیل خانے کے​
خُسر صاحب سخاوت پور کی رانی بھگا لائے​
مرے ہم زُلف اس کی تین بہنوں کو اُٹھا لائے​
مرے بھائی نے کی تھی فور ٹونٹی چیف جسٹس سے​
وہ جب بگڑا، جلا دیں اس کی مونچھیں اپنی ماچس سے​
بڑے وہ لوگ تھے لیکن یہ بندہ بھی نہیں کچھ کم​
خدا کا فضل ہے مجھ پر نہیں مجھ کو بھی کوئی غم​
میں راجوں اور مہاراجوں کی جیبیں بھی کترتا تھا​
چرس، کوکین اور افیون کا دھندا بھی کرتا تھا​
مرے معمولی شاگردوں نے چودہ بینک لوٹے تھے​
مری کوشش سے باعزت بری ہو کر وہ چھوٹے تھے​
عدالت مانتی تھی میری قانونی دلیلوں کو​
کرایا میں نے اندر شہر کے پندرہ وکیلوں کو​
جو دن میں نے گزارے، شان و شوکت سے گزارے ہیں​
ذرا کچھ ان دنوں ہی میرے گردش میں ستارے ہیں​
(راجہ مہدی علی خان)​
 

فرخ منظور

لائبریرین
ادیب کی محبوبہ​
تمہاری الفت میں ’’ ہارمونیم ‘‘ پہ میر کی غزلیں گا رہا ہوں​
بہتر ان میں چھپے ہیں نشتر جو سب کے سب آزما رہا ہوں​
بہت دنوں سے تمھارے جلوے خدیجہ مستور ہو گئے ہیں​
ہے شکر باری کہ سامنے اپنے آج پھر تم کو پا رہا ہوں​
لحاف عصمت کا اوڑھ کر تم فسانے منٹو کے پڑھ رہی ہو​
پہن کے بیدی کا ’’ گرم کوٹ ‘‘ آج تم سے آنکھیں ملا رہا ہوں​
تمھارے گھر ن م راشد کا لے کے آیا سفارشی خط​
مگر تعجب ہے پھر بھی تم سے نہیں میں کچھ فیض پا رہا ہوں​
بہت ہے سیدھی سی بات میری نجانے تم کیوں نہیں سمجھتیں​
قسم خدا کی کلام غالب نہیں میں تم کو سنا رہا ہوں​
تمہاری زلف سیہ پہ تنقید کس سے لکھواؤں تم ہی بولو​
شری عبادت بریلوی کو میں تار دے کر بلا رہا ہوں​
میں تم پہ ہوں جاں نثار اختر قسم ہے منشی فدا علی کی​
بہت دنوں سے میں تم پہ ساحر سے جادو ٹونے کرا رہا ہوں​
اگر ہو تم ہاجرہ تو پھر مجھ سے مل کے مسرور کیوں نہیں ہو​
تمھارے آگے اوپندر ناتھ اشک بن کے آنسو بہا رہا ہوں​
حسیں ہو زہرہ جمال ہو تم، مجھے ستا کر نہال ہو تم​
تمھارے یہ ظلم قراۃ العین کو بتانے میں جا رہا ہوں​
مری محبت کی داستان سن کے رو پڑے جوش ملسیانی​
سکھا کے پنکھے سے ان کے آنسو ابھی وہاں سے میں آ رہا ہوں​
میری تباہی پہ چھاپ دیں گے نقوش کا ایک خاص نمبر​
طفیل صاحب کے پاس سارے ہی مسودے لے کے جا رہا ہوں​
وزیر آغا پٹھان ہیں ساتھ، ساتھ یاروں کے یار بھی ہیں​
پکڑ کے وہ تم کو پیٹ دیں گے، میں کل انہیں ساتھ لا رہا ہوں​
حکیم یوسف حسن نے جب میری نبض دیکھی تو رو کے بولے​
جگر ہے زخمی، تباہ گردے یہ بات تم سے چھپا رہا ہوں​
ملیح آباد جا رہا ہوں میں جوش لاؤں کہ آم لاؤں​
ہیں دونوں چیزیں وہاں کی اچھی ہیں لاؤں کیا تلملا رہا ہوں​
جو حکم دو واجدہ تبسم کا کچھ تبسم میں تم کو لا دوں​
تمھارے ہونٹوں پہ غم کی موجوں کو دیکھ کر تلملا رہا ہوں​
فسانۂ عشق مختصر ہے قسم خدا کی نہ بور ہونا​
فراق گورکھپوری کی غزلیں نہیں میں تم کو سنا رہا ہوں​
مری محبت کی داستاں کو گدھے کی مت سر گذشت سمجھو​
میں کرشن چندر نہیں ہوں ظالم یقین تم کو دلا رہا ہوں​
پلاؤ آنکھوں سے تا کہ مجھ کو کچھ آل احمد سرور آئے​
بہت ہیں غم مجھ کو عاشقی کے بنا پئے ڈگمگا رہا ہوں​
(راجہ مہدی علی خان)​
 

الف عین

لائبریرین
طفیل صاحب کے پاس سارے مسودے لے کے جا رہا ہوں
اس مصرع میں شاید ’ہی‘ کی کمی ہے
طفیل صاحب کے پاس سارے ہی مسودے لے کے جا رہا ہوں
 

الف عین

لائبریرین
میرا جمع کردہ باقی ماندہ مواد، جس کو عبد القدیر مقدر کی کلیات کی فائل فراہم کر دینے کے وعدے نے برقی کتاب بنانے سے باز رکھا۔


تکیوں پر لکھے ہوئے اشعار


یہ آرزو ہے کہ سویا رہوں ہزاروں سال
قیامت آئے تو بیگم ذرا جگا دینا

.....٭.....

کھا نہ ہمسائی سے میری چغلیاں جانِ بہار
میں نے آنکھیں بند کر لی ہیں مگر سویا نہیں

.....٭.....

تکیے پہ شب کو پانی چھڑک کر میں سو گیا
وہ سمجھیں اُن کے ہجر میں رویا تمام رات

.....٭.....

پانچ چھ تکیوں کو پھیلا کر اُڑھا دو اِک لحاف
بھاگ جاؤ بیویاں سمجھیں گی شوہر گھر میں ہے

.....٭.....

کوشش کروں ہزار نہ آئے گی مجھ کو نیند
تکیہ ہے نرم، بیوی کا برتاؤ سخت ہے

.....٭.....

خدایا کون یہ تکیے پہ میرے لکھ گیا آ کر
تیرا سر رنج بالیں ہے تیرا تن بار بستر ہے

غزل

ہزاروں لڑکیاں ایسی کہ ہر لڑکی پہ دم نکلے
بہت نکلے حسیں سڑکوں پہ لیکن پھر بھی کم نکلے

بھرم کھل جائے گا ان سب کے قامت کی درازی کا
جو ان کی ’’ سیٹ شدہ ‘‘ زلفوں کا کچھ بھی پیچ و خم نکلے

ملی آزاد نظموں کی طرح ان کو بھی آزادی
وہ آزادی کہ جس کو دیکھ کر شاعر کا دم نکلے

کوئی ہے آ کے جو ان سب کے ایڈریس ہم کو لکھوا دے
کوئی شام اور گھر سے جیب میں رکھ کر قلم نکلے

گھروں سے وہ نکل آئی ہیں ’’ ٹا ٹا ‘‘ کہہ کے پردے کو
کہ گر نکلے تو سب عشاق کا سڑکوں پہ دم نکلے

گیا عہد کہن اور شاعروں کی آج بن آئی
جو ’’ از راہ ستم ‘‘ چھپتے تھے ’’ از راہ کرم ‘‘ نکلے

چلے آئے ادھر ہم بھی جوانی کا علم لے کر
کہ جن سڑکوں پہ جیتے ہیں انہیں سڑکوں پہ دم نکلے

۔



نکلنا نوکروں کا گھر سے سنتے آئے ہیں، لیکن
بہت بے آبرو ہو کر تیری کوٹھی سے ہم نکلے

تیرے کتے بھی سارے شہر میں اتراتے پھرتے ہیں
کبھی بھی تیری کوٹھی سے نہیں وہ ’’ سر بہ خم‘‘ نکلے

کہاں مے خانے کا دروازہ غالب اور کہاں سلمیٰ
پر اتنا جانتے ہیں ہم، وہ آتی تھی کہ ہم نکلے

شاعری میں مجھے اتنا بھی نہ کم تر سمجھو
میرؔ و غالبؔ نہ سہی، اکبرؔ و حالیؔ نہ سہی


ایک چہلم

رفیقہ ذرا گرم چاول تو لانا
ذکیہ ذرا ٹھنڈا پانی تو پلانا

بہت خوبصورت، بہت نیک تھا وہ
ہزاروں جوانوں میں بس ایک تھا وہ

منگانا پلاؤ ذرا اور خالہ
بڑھانا ذرا قورمے کا پیالہ

جدھر دیکھتے ہیں اُدھر غم ہی غم ہے
کریں اس کا جتنا بھی ماتم وہ کم ہے

یہ ننھی کے زردے میں کشمش ہے تھوڑی
بہت دیر سے مانگتی ہے نگوڑی

وہ ٹکڑا جگر کا تھا، آنکھوں کا تارا
ہمیں اپنی اولاد سے بھی تھا پیارا

پڑا ہے پلاؤ میں گھی ڈالڈے کا
خدا تو ہی حافظ ہے میرے گلے کا

دلہن سے کہو آہ! اتنا نہ روئے
بچاری نہ بے کار میں جان کھوئے

اری بوٹیاں تین سالن میں تیرے
یہ چھچھڑا لکھا تھا مقدر میں میرے

بہت خوبصورت، بہت نیک تھا وہ
ہزاروں جوانوں میں بس ایک تھا وہ
 

فرخ منظور

لائبریرین
جنّت سے منٹو کا خط
(1)
میں خیریت سے ہوں لیکن کہو کیسے ہو تم "راجہ"
بہت دن کیوں رہے تُم "فلم کی دنیا" میں گم "راجہ"
یہ دنیائے ادب سے کیوں کیا تم نے کنارا تھا
ارے اے بے ادب کیا "شعر" سے "زر" تم کو پیارا تھا
جو نظمیں تم نے لکھی تھیں کبھی جنت کے بارے میں
چھپی تھیں وہ یہاں بھی "خلد" کے پہلے شمارے میں
ادب کی شعر کی دنیا میں تم لوٹ آئے اچھا ہے
ارے لکھوالو نظمیں! پھر سے تم چلّائے اچھا ہے
مگر پھر سوچتا ہوں شعر لکھ کر کیا کرو گے تم؟
یہ اندازہ ہے میرا غالباً بھوکے مرو گے تم
یہ بہتر ہے کسی اچھی سی "مِل" میں نوکری کر لو
کرو تم شاعری تفریح کو اور پیٹ یوں بھر لو
(2)
یہ وہ دنیا ہے جس نے "کیس" چلوائے ادیبوں پر
بہت کی بارشِ مشقِ ستم ہم خوش نصیبوں پر
ہوا پیدا یہاں جو نکتہ داں صدیوں میں سالوں میں
مرا سڑکوں پہ وہ یا سڑ گیا پھر ہسپتالوں میں
ہوں زندہ ہم تو ناک اور بھوں چڑھا کر نام دھرتے ہیں
جو مر جائیں تو پھر دیکھو یہ کتنی قدر کرتے ہیں
یکایک ایک دن روئیں گے یہ برسی منا لیں گے
یہ غازی ہم شہیدوں کے لیے جھنڈے اٹھا لیں گے
پڑھیں گے مرثیے تڑپیں گے کر ڈالیں گے تقریریں!
ہمارا نام کرنے کی کریں گے لاکھ تدبیریں
ہمارے بال بچوں سے نہ پوچھیں گے کہ کیسے ہو
ادیبوں شاعروں کی قدر دانی ہو تو ایسے ہو
کریں کیا ہم نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا ادیبوں کی
یہ دنیا ہے سزاؤں کی، وہ دنیا ہے خطیبوں کی
(3)
زمیں والے ہوں کیسے بھی وہ ہر دم یاد آتے ہیں
جو دنیا میں اٹھائے وہ حسیں غم یاد آتے ہیں
زمیں والوں کی صحبت میں کبھی جو دن گذارے تھے
قلم لکھنے سے قاصر ہے کہ وہ دن کتنے پیارے تھے
وہ گلیاں بائیکلہ٭ کی دور سے مجھ کو بلاتی ہیں
وہاں کے گھر کی یادیں دل میں اب تک گنگناتی ہیں
مجھے اس گھر میں صفیہ٭ کی محبت یاد آتی ہے
مجھے جنت میں بھی وہ گھر کی جنت یاد آتی ہے
جہاں بچوں کی صورت دیکھ کر میں مسکراتا تھا
جہاں آ کر میں دنیا کا ہر اِک غم بھول جاتا تھا
بلاناغہ جہاں ہر شام تم ملنے کو آتے تھے
جہاں سب دوست آ کر اِک نئی جنت بساتے تھے
وہ جنّت لٹی چکی دل میں مگر آباد ہے اب تک
فضا اُس گھر کی وقفِ ماتم و فریاد ہے اب تک
تم اکثر اب بھی اُس گھر کی سڑک پر سے گذرتے ہو
وہ سب کچھ لُٹ چکا بیکار تم کیوں آہیں بھرتے ہو؟
یہی اجڑا ہوا گھر پھر بسانا چاہتا ہوں میں
بلندی چھوڑ کر پستی پہ آنا چاہتا ہوں میں
(4)
فلک پر میں ہوں اور تم ہوں زمیں پر جی نہیں لگتا
جہاں بھی جاؤں جنت میں کہیں پر جی نہیں لگتا
میں چاہوں بھی تو اب دنیا میں واپس آ نہیں سکتا
خوشی بن کر تمہاری محفلوں میں چھا نہیں سکتا
زمیں والوں سے اے ملعون کب توڑو گے تُم ناتے؟
بآسانی تم آ سکتے ہو ظالم، کیوں نہیں آتے؟
فلک سے روز میں آواز دیتا ہوں تمہیں راجا
تمہیں معلوم ہے "راجا" کا ہے اِک قافیہ "آ جا"
زمیں سے بوریا بستر اٹھاؤ اور چلے آؤ
مرے گھر آؤ میرا بیل بجاؤ اور چلے آؤ
کروڑوں مر گئے چپ چاپ لیکن تم نہیں مرتے
جو مردِ نیک ہیں جینے پہ اتنی ضد نہیں کرتے
اگر کچھ عمر باقی ہے تو کر کے خودکشی آؤ
میں ہوں جب تک یہاں خوفِ جہنّم سے نہ گھبراؤ
میں جرمِ خودکشی کو لڑ جھگڑ کے بخشوا لوں گا
تمہارا نام ہر جنت کے پرچے میں اچھالوں گا
چلے آؤ، چلے آؤ مجھے تم سے محبت ہے
چلے آؤ، چلے آؤ یہاں راحت ہی راحت ہے
(5)
نہیں میں خود غرض سن لو تمہیں میں کیوں بلاتا ہوں
مرے راجا تمہیں میں ایک خوش خبری سناتا ہوں
خبر یہ گرم تھی کچھ دن سے جنّت کے حسینوں میں
تمہارا نام بھی شامل ہے جنّت کے مکینوں میں
یہ سن کر میں نئی آبادیوں میں دوڑتا آیا
جو کی انکوائری تو اس خبر کو میں نے سچ پایا
تمہارا محل بھی دیکھا بہت ہی خوبصورت ہے
یہ سمجھو جگمگاتے نور اور چینی کی مورت ہے
تمہاری منتظر حوریں وہاں بے خواب رہتی ہیں
چمن کی عندلیبوں کی طرح بے تاب رہتی ہیں
وہ مجھ سے پوچھتی رہتی ہیں بتلاؤ وہ کیسے ہیں
فرشتے ہیں کہ شیطاں ہیں، وہ ایسے ہیں کہ ویسے ہیں
تمہاری جھوٹی تعریفوں کے پُل میں باند دیتا ہوں
خدا سے بعد میں رو رو معافی مانگ لیتا ہوں
جواں حوریں کہیں بوڑھی نہ ہو جائیں چلے آؤ
یہ جنگل میں محبت کے نہ کھو جائیں چلے آؤ
انہیں چھپ چھپ کے اک کم بخت ملّا گھورا کرتا ہے
بچا لو اِن کو اے راجا کہ وہ ان سب پہ مرتا ہے
یہ چنچل ہرنیاں تکتے ہی اس کو بھاگ جاتی ہیں
مری حوروں کو آ کر حال اپنا سب بتاتی ہیں
(6)
بہت جو یاد آتے ہیں اب ان کے نام لیتا ہوں
زمیں کے دوستوں کے نام کچھ پیغام دیتا ہوں
بہن عصمت٭ سے کہنا کب تلک فلمیں بناؤ گی
یہ حالت ہو گئی ہے آہ کیا اب بھی نہ آؤ گی
جو یاد آ جائے عصمت کی تو شاہد٭ بھی چلا آئے
وہ ضدی٭ آتے آتے اپنی فلمیں سب جلا آئے
مہندر ناتھ کو اور کرشن٭ کو بھی خط یہ دکھلاؤ
جو ممکن ہو تو دونوں بھائیوں کو ساتھ لے آؤ
اگر دنیا نہ آتی ہو موافق "فیض" و "راشد" کو
تو ان سے پوچھ کر لکھو، میں بھیجوں اپنے قاصد کو؟
نہ آئیں گر تو کہہ دینا کہ "پطرس" نے بلایا ہے
تمہاری یاد میں "تاثیر" تڑپا تلملایا ہے
تمہیں ہر روز "حسرت" اور "سالک" یاد کرتے ہیں
تمہیں یہ دونوں اخباروں کے مالک یاد کرتے ہیں
مجھے امید ہے یہ سن کے دونوں دوڑے آئیں گے
مری جنت میں آ کر اک نئی جنت بسائیں گے
دعا ہے یہ خدایا سب زمیں کے دوست مر جائیں!
یہ جنت کے چمن، یہ گھر، یہ سڑکیں ان سے بھر جائیں
٭بائیکلہ، بمبئی کا وہ علاقہ جہاں سعادت حسن منٹو کی رہائش تھی
٭ صفیہ یعنی صفیہ منٹو، منٹو کی بیوی
٭ عصمت یعنی مشہور افسانہ نگار عصمت چغتائی
٭ شاہد، عصمت چغتائی کا شوہر
٭ ضدی، ایک فلم جو شاہد نے بنائی اور عصمت چغتائی نے اس کی کہانی لکھی
 

فرخ منظور

لائبریرین
میں اور شیطان دیکھ رہے تھے

جنت کی دیوار پہ چڑھ کر
میں اور شیطاں دیکھ رہے تھے
جو نہ کبھی ہم نے دیکھا تھا
ہو کر حیراں دیکھ رہے تھے

وادیِ جنت کے باغوں میں
اف توبہ اک حشر بپا تھا
شیطاں کے ہونٹوں پہ ہنسی تھی
میرا کلیجہ کانپ رہا تھا

میں نہ کبھی بھولوں گا توبہ
میں نے دیکھا جو نظّارا
لعنت لعنت بول رہا تھا
جنت کا ہر منظر پیارا

موٹی موٹی توندوں والے
بدصورت بد ہیت ملا
خوف زدہ حوروں کے پیچھے
بھاگ رہے تھے کہہ کے "ہا ہا"

"بچ کے کہاں جاؤ گی؟" کہہ کے
وہ دیوانے ناچتے گاتے
چاروں طرف سے گھیر کے ان کو
ہنستے، کدکتے، شور مچاتے

ڈر کے چیخیں مار رہی تھیں
حوریں ریشمیں ساڑھیوں والی
ان کے دل دھک دھک کرتے تھے
دیکھ کے شکلیں داڑھیوں والی

میں اور شیطاں لب بہ دعا تھے
اے الله بچانا ان کو
اپنی رحمت کے پردے میں
اے معبود چھپانا ان کو​
 
Top