کلیاتِ اسمٰعیل میرٹھی- ص 1 تا 200

نایاب

لائبریرین
(١)

فہرست مضامین کلیات اسماعیل[
نمبرشمار | مضمون |نمبر صفحہ
مثنویات
١ | صنائع الہی | ١
٢ | خدا کی صنعت |٥
٣ | خطبہ اول |٨
٣ | خطبہ دوم |٩
٤ | تھوڑا تھوڑا بہت ہو جاتا ہے | ١٠
٥ | ایک وقت میں ایک کام کرو | ١٢
٦ | ہوا چلی |١٣
٧ | پن چکی |١٣
٨ | اسلم کی بلی |١٤
٩ | بچہ اور ماں |١٥
١٠ | ماں اور بچہ |١٦
١١ | ایک مور اور کلنگ |١٧
١٢| عجیب چڑیا| ١٨
١٣| ایک لڑکا اور بیر | ١٩
١٤| ایک پودا اور گھاس | ٢٠
١٥| ایک جگنو اور بچہ | ٢١
١٦| ایک گھوڑا اور اس کا سایہ | ٢٢
١٧| ایک کتا اور اس کی پر چھائیں | ٢٣
١٨| ریل گاڑی | ٢٤
١٩ | ہماری گائے | ٢٥
٢٠ | سچ کہو | ٢٦
٢١ | ہمارا کتا ٹیپو | ٢٧
٢٢ | شفق | ٢٨
٢٣ | رات | ٢٩
٢٤ | گرمی کا موسم | ٣٠
٢٥ | برسات | ٣١
٢٦ | ملمع کی انگوٹھی | ٣١
٢٧ | دال کی فریاد| ٣٢
٢٨ | دال چہاتی | ٣٣
٢٩ | دو مکھیاں | ٣٥
٣٠ | آب زلال | ٣٦
٣١ | موعظت | ٣٩
٣٢ | داناؤں کی نصیحت دل سے سنو | ٤٠

(٢)


[مبرشمار | مضمون |نمبر صفحہ
٣٣ | چھوٹے کام کا بڑا نتیجہ | ٤١
٣٤ | اونٹ | ٤٢
٣٥ | شیر | ٤٣
٣٦ | کیڑا | ٤٥
٣٧ | ایک قانع مفلس | ٤٦
٣٨ | موت کی گھی | ٤٧
٣٩ | فادر ولیم | ٤٩
٤٠ | حب وطن | ٥٠
٤١ | انسان کی خام خیالی | ٥١
٤٢ | کوہ ہمالہ | ٥٣
٤٣ | بارش کا پہلا قطرہ | ٥٥
٤٤ | مثنوی بامراد | ٥٧
٤٥ | ایک گنوار اور قوس قزح | ٦١
٤٦ | ترک تکبر | ٦٢
٤٧ | حیا | ٦٣
٤٨ | کچھوا اور خرگوش | ٦٤
٤٩ | مناقشہ ہوا و آفتاب | ٦٧
٥٠ | ناقدردانی | ٦٩
٥١ | جنگ روم و روس | ٦٩
٥٢ | مکالمہ سیف و قلم | ٧٢
٥٣ | شمع ہستی | ٧٨
٥٤ | منوی فی العقائد | ٨١
٥٥ | حمد باری تعالی | ٨٣
٥٦ | یاد حضرت شیخ | ٨٥
٥٧ | صفت شیخ | ٩٠
٥٨ | مناجات | ٩١
٥٩ | غصہ کا ضبط | ١٠٠
٦٠ | ادب | ١٠١
٦١ | چغل خوری | ١٠١
٦٢ | آزادی غنیمت ہے | ١٠١
٦٣ | طلب خیر میں قناعت سے حرص بہتر ہے | ١٠٢
٦٤ | تکبر میں ذلت ہے اور تواضع میں عزت | ١٠٢
۔۔ | (٢) مثلث |
١ | اب آرام کرو | ١٠٣
۔۔ | (٣) مربع |
١ | اچھا زمانہ آنے والا ہے | ١٠٤
۔۔ | (٤) مخمس |
١ | چھوٹی چیونٹی | ١٠٦
٢ | کوشش کیئے جاؤ | ١٠٧
٣ | میرا خدا میرے ساتھ ہے | ١٠٩

(٣)

[نمبرشمار | مضمون |نمبر صفحہ
٤ | صبح کی آمد | ١١١
٥ | قیصرہ الہند سلامت رہے | ١١٤
۔۔ | (٥) نظم بے قافیہ |
١ | چڑیا کے بچے | ١١٥
٢| تاروں بھری رات | ١١٧
۔۔ | (٦) مسدس |
١ | ماں کی مامتا | ١١٨
٢ | مرثیہ سید اقبال احمد مرحوم | ١٢٢
٣ | مرثیہ پلیونا| ١٢٤
٤ | متفرق | ١٢٦
٥ | انسان | ١٤٨
۔۔ | (٧) مثمن |
١ | آثار سلف (کیفیت قلعہ اکبرآباد | ١٣٨
۔۔| (٨) ترجیع بند |
١ | نالہ چند در فراق شیخ | ١٤٨
٢ | ہفت درود محمود | ١٥٤
۔۔ | (٩) قصائد |
١ | قصیدہ ١٨٦٩ عیسوی | ١٥٨
٢ | قصیدہ ناتمام ١٨٦٩ عیسوی | ١٦١
٣ | قصیدہ | ١٦٣
٤| خشک سالی ١٨٧٧ عیسوی | ١٦٥
٥ | شب برات ١٨٨٠ عیسوی | ١٦٧
٦ | عیدالفطر ١٨٨٠ عیسوی | ١٧٠
٧ | نذرانہ پیر جی ١٨٨١ عیسوی | ١٧٢
٨ | نذرانہ پیر جی | ١٧٤
٩ | جریدہ عبرت ١٨٨٥ عیسوی| ١٧٥
١٠| تہنیت جشن جوبلی ملکہ وکٹوریہ ١٨٨٧ عیسوی | ٢٠٥
١١ | جاڑا اور گرمی ١٨٨٨ عیسوی | ٢١٠
١٢ | تہنیت سالگرہ ملکہ وکٹوریہ ١٨٩٢ عیسوی | ٢١٤
١٣ | قصیدہ ناتمام | ٢١٥
۔۔ | (١٠) قطعات |
١ | ارل آف میو وائسرائے ہند ١٨٧٤ عیسوی | ٢١٦
٢ | شب برات ١٨٧٧ عیسوی | ٢١٧
٣ | شب برات ١٨٨٣ عیسوی | ٢١٨
٤ | قطعہ تاریخ وفات سر سالارجنگ بہادر ١٨٨٣ عیسوی | ٢١٩
٥ | عیدالفطر ١٨٨٠ عیسوی | ٢٢٠
٦ | عید الاضحے ١٨٨٤ عیسوی | ٢٢١
٧ | عید الاضحے ١٨٨٤ | ٢٢٢
٨ | نذرانہ پیر جی ١٨٨٣ عیسوی | ٢٢٣






(٤)
نمبر شمار ۔۔ مضمون ۔۔ صفحہ نمبر
٩ ۔۔ خواب راحت ١٨٨٧ عیسوی ۔۔ ٢٢٤
١٠ ۔۔ سر سید احمد خان و قانون ٹرسٹیاں ١٨٩٠ عیسوی ۔۔ ٢٢٧
١١ ۔۔ تہنیت سالگرہ ملکہ وکٹوریہ ١٨٩٢ عیسوی ۔۔ ٢٢٩
١٢ ۔۔ قطعہ تاریخ وفات سید اقبال احمد مرحوم ١٨٩٣ عیسوی ۔ ٢٣٠
١٣ ۔۔ مرثیہ مولوی حافظ رحیم اللہ صبا اکبر آبادی ١٨٩٢ عیسوی ۔۔ ٢٣٠
١٤ ۔۔ ایک گدھا شیر بنا تھا ۔۔ ٢٣٢
١٥ ۔۔ بخیلی اور فضولی ۔۔ ٢٣٣
١٦ ۔۔ کاشتکاری ۔۔ ٢٣٤
١٧ ۔۔ کاشتکاری ۔۔ ٢٣٥
١٨ ۔۔ قرض ۔۔ ٢٣٦
١٩ ۔۔ سب سے زیادہ بدنصیب کون ؟ ۔۔ ٢٣٧
٢٠ ۔۔ ہمت ۔۔ ٢٣٧
٢١ ۔۔ اپنے فعل پر پشیمانی ۔۔ ٢٣٧
٢٢ ۔۔ معافی میں سرور ہے ۔۔ ٢٣٧
٢٣ ۔۔ انتقام علاج خطا ہے ۔۔ ٢٣٨
٢٤ ۔۔ خطا کو خطا نہ جاننا ہلاکت ہے ۔۔ ٢٣٨
٢٥ ۔۔ ہر کام میں کمال اچھا ہے ۔۔ ٢٣٨
٢٦ دوراندیشی ۔۔ ٢٣٩
٢٧ ۔۔ بدی کے عوض میں نیکی کرنا ۔۔ ٢٣٩
٢٨ ۔۔ قول و فعل میں مطابقت چاہیئے ۔۔ ٢٣٩
٢٩ ۔۔ دل کی یکسوئی خلوت ہے ۔۔ ٢٣٩
(١١) غزلیات ٧٥ ۔۔ ٢٤٠
(١٢) رباعیات ٤٨ ۔۔٢٨٧
(١٣) ابیات ۔۔ ٢٩٦


(٥)
فارسی
نمبر شمار ۔۔ مضمون ۔۔ صفحہ نمبر
(١) مثنویات
١ ۔۔ آفتاب عالمتاب ۔۔ ٢٩٩
٢ ۔۔ مناظرہ میدان با کوہ ۔۔ ٣٠٠
٣۔۔ پنبہ دانہ ۔۔ ٣٠٣
٤ ۔۔ شیر ۔۔ ٣٠٦
٥ ۔۔ خجالت بر گناہ ۔۔ ٣٠٧
٦ ۔۔ کاخ ویرانہ ۔۔ ٣٠٨
٧ ۔۔ ابر و باراں ۔۔ ٣٠٩
٨ ۔۔ پیر جلاب و خرش ۔۔ ٣١٠
٩ ۔۔ چوبکے میان سیلاب ۔۔ ٣١٢
١٠ ۔۔ طفلکے و مادرش ۔۔ ٣١٣
١١ ۔۔ ابگیرے و رودے ۔۔ ٣١٤
١٢ ۔۔ دو جوے ۔۔ ٣١٥
١٣ ۔۔ کشفے و خرگوشے ۔۔ ٣١٦
١٤ ۔۔ طاؤس ۔۔ ٣١٧
١٥ ۔۔ شیرے و موشے ۔۔ ٣١٧
١٦ ۔۔ سگے ۔۔ ٣١٨
١٧ ۔۔ گرگے ۔۔ ٣١٩
١٨ ۔۔ محمود غزنوی ۔۔ ٣٢٠
١٩ ۔۔ بیرام و قاسم ۔۔ ٣٢١
٢٠ ۔۔ اورنگ زیب ۔۔ ٣٢٣
٢١ ۔۔ روباہے بے دم ۔۔ ٣٢٤
٢٢ ۔۔ باد و آفتاب ۔۔ ٣٢٥
٢٣ ۔۔ گوزنے ۔۔ ٣٢٦
٢٤ ۔۔ بدی و نیکی ۔۔ ٣٢٧
٢٥ ۔۔ دور آخر ۔۔ ٣٢٩
(٢) قصائید
١ ۔۔ تشبیب قصیدہ ۔۔ ٣٤٣
٢ ۔۔ تشبیب قصیدہ ۔۔ ٣٤٣
(٣) قطعات
١ ۔۔ قطعہ ۔۔ ٣٤٥
٢ ۔۔ قطعہ ۔۔ ٣٤٧
٣ ۔۔ قطعہ ۔۔ ٣٤٨
٤ ۔۔ قطعہ ۔۔ ٣٤٩


(٦)

نمبر شمار ۔۔ مضمون ۔۔ صفحہ نمبر
٥ ۔۔ قطعہ تاریخ وفات سر سالار جنگ بہادر ۔۔ ٣٤٩
٦ ۔۔ دو کیسہ داریم ۔۔ ٣٥٠
(٤)غزلیات ۔۔ ٣٥١
(٥) متفرقات
١ ۔۔ مثنویات (٥) ۔۔ ٣٥٦
٢ ۔۔ قطعات (٦) ۔۔ ٣٥٧
٣ ۔۔ ابیات (١٧) ۔۔ ٣٥٩
ضمیمہ اردو
مثنوی (کوا) (١) ۔۔ ٣٦٢
مثلث (١) ۔۔ ٣٦٤
قطعات
١ ۔۔ مسلمانوں کی تعلیم ۔۔ ٣٦٥
٢ ۔۔ وفات ملک معظم ایڈورڈ ہفتم آںجہانی ۔۔ ٣٦٩
٣ ۔۔ مسلمان اور انگریزی تعلیم ۔۔ ٣٧٠
٤ ۔۔ غریب اور امیر ۔۔ ٣٧٢
غزلیات (٢) ۔۔ ٣٧٢
رباعیات (٥) ۔۔ ٣٧٤
 

نایاب

لائبریرین
(١)

بسم اللہ الرحمان الرحیم
کلیات اسماعیل
مثنویات
١ ۔۔۔ صنائع الہی

خدایا نہیں کوئی تیرے سوا
اگر تو نہ ہوتا تو ہوتا ہی کیا

تصور تیری ذات کا ہے محال
کسے یہ سکت اور کہاں یہ مجال

تعقل میں اتنی صفائی کہاں
تفکر کو ایسی رسائی کہاں

یہاں عقل جاتی ہے آئی ہوئی
تخیل پہ ہیبت ہے چھائی ہوئی

تفکر کے جلتے ہیں پر اس جگہ
تصور کا کٹتا ہے سر اس جگہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٢)

کسی کی یہاں دال گلتی نہیں
کسی کی یہاں چال چلتی نہیں

نہ ٹھیری کوئی ناؤ اس موج میں
نہ پہنچا کوئی تیر اس اوج میں

جلا اس ہوا میں نہ کوئی چراغ
پریشاں ہوئے دل تھکے سب دماغ

جو ہوتی مشابہ ترے کوئی چیز
تو کچھ کام کرتی سمجھ با تمیز

ترا کوئی ہم جنس و ہمتا نہیں
گماں کا یہاں پاؤں جمتا نہیں

سمجھ کیا ہے ؟ اور سمجھ کی کیا بساط ؟
سمندر سے قطرہ کا کیا ارتباط؟

چلی بوند لینے سمندر کی تھا
یکایک لیاموج نے اس کو کھا

ہوئی آپ ہی گم تو پائے کسے؟
بتائے وہ کیا اور جتائے کسے؟

اگر تیری قدرت کی کاریگری
نہ کرتی سمجھ بوجھ کی رہبری

تو وہ سر پٹکتی ہی رہتی مدام
طلب میں بھٹکتی ہی رہتی مدام

بنائی ہے تو نے یہ کیا خوب چھت
کہ ہے سارے عالم کی جس میں کھپت

یہ سقف کہن ہے ابھی تک نئی
اسے دیکھتی یوں ہی دنیا گئی

زمین پر گئیں کتنی نسلیں گزر
رہی اس کی ہیبت پہ سب کی نظر

اسے سب نے پایااسی ڈھنگ میں
اسے سب نے دیکھا اسی رنگ میں

عجب ہے ، یہ خیمہ رسن ہے نہ چوب
ہمیشہ مصفا ہے بے رفت و روب

نہ در ہے نہ منظر نہ کوئی شگاف
ادھر سے ادھر تک ہے میدان صاف

جھروکا نہ کھڑکی نہ در ہے نہ چھید
عجب تیری قدرت عجب تیرے بھید


(٣)
کہیں جوڑ ہے اور نہ پیوند ہے
جدھر دیکھئے اس طرف بند ہے

بنایا ہے کیا دست قدرت نے گول
چرس ہے نہ جھری نہ سلوٹ نہ جھول

عجب قدرتی شامیانہ ہے یہ
نظر کی پہنچ کا ٹھکانہ ہے یہ

ہوا کو دیا تو نے کیا خوب رنگ
سراسیمہ ہے عقل اور فکر دنگ

پرے اس کی حد سے نہ جائے نظر
جہاں تک نظر جائے آئے نظر

یہ تارے جو ہیں آتے جاتے ہوئے
چمکتے ہوئے جگمگاتے ہوئے

نظر آ رہے ہیں عجب شان سے
ہیں لٹکے ہوئے سقف ایوان سے

چراغ ایسے روشن جو بن تیل ہیں
یہ تیری ہی قدرت کے سب کھیل ہیں

یہ لعل و گہر ہیں جو بکھرے پڑے
زمین سے بھی ہیں ان میں اکثر بڑے

کوئی ان میں سورج کوئی ان میں چاند
کہ ماہ خور سامنے جن کے ماند

نظر میں جو اتنے سے آتے ہیں یہ
بہت دور چکر لگاتے ہیں یہ

پڑے اپنے چکر میں ہیں گھومتے
ترے حکم کے ذوق میں جھومتے

یہ قائم ہیں تیری ہی تقدیر سے
بندھے ہیں بہم سخت زنجیر سے

گھسے جو کبھی اور نہ ٹوٹے کبھی
نہ اس بند سے کوئی چھوٹے کبھی

رسائی سے ہاتھوں کی برتر ہے وہ
نظر کے بھی قابو سے باہر ہے وہ

نہ سیمیں نہ زریں نہ وہ آہنی
مگر دست قدرت سے ہے وہ بنی

کھلے کب ، کوئی اس کو کھولے اگر
اسے عقل پائے ٹٹولے اگر



(٤)
وہ زنجیر کیا ہے کشش باہمی
نہ اس میں خلل ہو نہ بیشی کمی

عجب تو نے باندھی ہے یہ باگ ڈور
تلا سب کا رہتا ہے آپس میں زور

یہ سب لگ رہے ہیں اس لاگ پر
لگاتے ہیں چکر اسی باگ پر

ہر اک کے لئے اک معین ہے دور
وہی اک وتیرہ وہی ایک طور

نشہ میں اطاعت کے سب چور ہیں
کہ قانون قدرت سے مجبور ہیں

سدا چال کا ایک انداز ہے
نہ کھٹکا نہ آہٹ نہ آواز ہے

کبھی چلتے چلتے ٹھٹکتے نہیں
طریقہ سے اپنے بھٹکتے نہیں

ہے ان سب کا آیئین ایجاد ایک
ہنر ایک ہے اور استاد ایک

یہ شاخیں ہیں سب ایک ہی اصل کی
بہاریں ہیں کل ایک ہی فصل کی

ہر اک چیز ذرہ سے تا آفتاب
بلاشبہ رکھتی ہے یکساں حساب

ہیں ذروں میں خورشید کی سی صفات
ہے خورشید بھی ذرہ کائنات

حقیقت میں ہے یاں دورنگی کہاں
جہاں ذرہ ہے اور ذرہ جہاں

نہیں تیری قدرت سے کچھ یہ بعید
کہ ہو ہر ستارہ جہان جدید

نہیں تیرے لطف و کرم سے عجب
کہ ہو اس جہاں میں بھی مخلوق سب

ہو گرمی بھی سردی بھی برسات بھی
اندھیرا اجالا بھی دن رات بھی

یہ ندی نالے یہ سمندر یہ پہاڑ
یہی بیل بوٹے درخت اور جھاڑ

ہوا بھی ہو اور لطف باراں بھی ہو
خزاں بھی ہو فصل بہاراں بھی ہو

(٥)
ہو سر پر اسی طور سے آسمان
ہو پاؤں کے نیچے زمین بھی وہاں

فلک پر ستارے بھی ہوں جلوہ گر
وہاں بھی ہو دوران شمس و قمر

ہوں انسان بھی اور حیوان بھی
ہر اک جنس کا سازوسامان بھی
۔۔۔۔۔۔۔۔ ،،،،،،،،،،، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٢) خدا کی صنعت
جو چیز خدا نے ہے بنائی
اس میں ظاہر ہے خوشنمائی

کیا خوب ہے رنگ ڈھنگ سب کا
چھوٹی بڑی جس قدر ہیں اشیا

روشن چیزیں بنائیں اس نے
اچھی شکلیں دکھائیں اس نے

ہر چیز کی ادا ہے نرالی
حکمت سے نہیں ہے کوئی خالی

ہر چیز ہے ٹھیک ٹھیک لاریب
ہیں اس کے تمام کام بے عیب

ننھی کلیاں چٹک رہی ہیں
چھوٹی چڑیاں پھدک رہی ہیں

اس کی قدرت سے پھول مہکے
پھولوں پہ پرند آ کے چہکے

چڑیوں کے عجیب پر لگائے
اور پھول ہیں عطر میں بسائے

چڑیوں کی ہے بھانت بھانت آواز
پھولوں کا جدا جدا ہے انداز

محلوں میں امیر ہیں بہ آرام
ہے در پہ کھڑا غریب ناکام

ہے کوئی غنی تو کوئی محتاج
بے گھر ہے کوئی کسی کے گھر راج

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 

نایاب

لائبریرین

(٦)

روزی دونوں کو دی خدا نے
معمور ہیں قدرتی خزانے

تاروں بھری رات کیا بنائی ؛
دن کو بخشی عجب صفائی

موتی سے پڑے ہوئے ہیں لاکھوں
ہیرے سے جڑے ہوئے ہیں لاکھوں

کیا دودھ سی چاندنی ہے چھٹکی ؛
حیران ہو کر نگاہ ٹھٹکی ؛

تارے رہے صبع تک نہ وہ چاند
آگے سورج کے ہو گئے ماند

نیلا نیلا اب آسمان ہے
وہ رات کی انجمن کہاں ہے

شام آئی تو اس نے پردہ ڈالا
پھر صبح نے کر دیا اجالا

جاڑا ، گرمی ، بہار ، برسات
ہر رت میں نیا سماں نئی بات

جاڑے سے بدن ہے تھرتھراتا
ہر شخص ہے دن میں دھوپ کھاتا

سردی سے ہیں ہاتھ پاؤں ٹھرتے
سب لوگ الاؤ پر ہیں گرتے

سرسوں پھولی بسنت آئی
ہولی پھاگن میں رنگ لائی

پھوٹیں نئی کونپلیں شجر میں
اک جوش بھرا ہوا ہے سرمیں

جاڑے کی جو رت پلٹ گئی ہے
دن بڑھ گیا رات گھٹ گئی ہے

گرمی نے زمین کو تپایا
بھانے لگا ہر کسی کو سایہ

برسات میں دل ہیں بادلوں کے
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے

رو آئی ہے زور شور کرتی
دامان زمین کو کترتی

کس زور سے بہہ رہا ہے نالا
اونچے ٹیلے کو کاٹ ڈالا


(٧)


بل کھا کے ندی نکل گئی ہے
رخ اپنا ادھر بدل گئی ہے

دریا ہے رواں پہاڑ کے پاس
بستی ہے بسی اجاڑ کے پاس

بستی کے ادھر ادھر ہے جنگل
جنگل ہی میں ہو رہا ہے منگل

مٹی سے خدا نے باغ اگائے
باغوں میں اسی نے پھل لگائے

میوے سے لدی ہوئی ہے ڈالی
دانوں سے بھری ہوئی ہے بالی

سبزے سے ہرا بھرا ہے میدان
اونچے اونچے درخت ذی شاں

ہم کھیلتے ہیں وہاں کبڈی
مبری ہے کوئی ۔۔ کوئی ہے پھسڈی

گائے بھینسیں عجب بنائیں
کیا دودھ کی ندیاں بہائیں

پیدا کیے اونٹ بیل گھوڑے
ہر شے کے بنا دیے ہیں جوڑے

روشن آنکھیں بنائیں دو دو
قدرت کی بہار دیکھنے کو

دو ہونٹ دیئے کہ منہ سے بولیں
شکر اس کا کریں زبان کھولیں

ہر شے اس نے بنائی نادر
بیشک ہے خدا قوی و قادر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٨)

(٣) خطبہ
حمد و سپاس حصہ اس ذات پاک کا ہے
جو آسرا سہارا کل کائنات کا ہے

جب کچھ نہ تھا وہی تھا اس کے سوا نہ تھا کچھ
کچھ ہو نہ ہو وہ ہو گا ۔ قدرت ہے اس کی کیا کچھ

کن خوبیوں سے اس نے اس بزم کو سجایا
اور خلعت شرافت انسان کو پہنایا

اللہ رے اس کی قدرت ؛ اللہ رے بے نیازی ؛
دی بعض کو بہ نسبت بعضوں کے سرفرازی

پھر خاص خاص بندے جو اس نے چن لیئے ہیں
کیا کیا بلند رتبے ان کو عطا کئے ہیں

یاں بندگی ہے اور واں بندہ نوازیاں ہیں
یاں سر جھکا ہوا ہے واں سرفرازیاں ہیں

انسان ہی نہ ہوتا جو بندگی نہ ہوتی
اندھیر تھا جو دل میں یہ لو لگی نہ ہوتی

طاعت کا آدمی کو فرمان کیوں ملا ہے
بے حد وہاں مہیا انعام اور صلہ ہے

ہے اذن عام لوگو ؛ خوان کرم پہ ٹوٹو
بھر بھر کے جھولیاں لو ۔ دوڑا ثواب لوٹو

تم بھی نہیں ہو محروم ۔ آؤ گناہ گارو
گر صدق دل سے اپنے غفار کو پکارو

تو پاؤ گے ہمیشہ توبہ کا در کھلا تم
رحمت ہے اس کی بے حد کرتے ہو فکر کیا تم

ہر وقت باڑھ پر ہے لطف و کرم کا دریا
دو چار ہاتھ مارو ۔ لگتا ہے پار کھیوا

پھر اس کی نعمتیں ہیں اور عیش ہیں جناں کے
افسوس ۔ جو نہ مانیں گن ایسے مہربان کے

میں حمد اس کی ہر دم کرتا ہوں جان و دل سے
اور شکر ہے ٹپکتا اس میری آب و گل سے

میں اس کی مغفرت کا ہوں جی سے آرزومند
توبہ ہے اس کے آگے ۔ توبہ کا در نہیں بند

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(نوٹ) یہ دونوں خطبے خان بہادر ڈپٹی محمد صدیق صاحب رئیس میرٹھ کی فرمائش سے لکھے گئے تھے جب کہ ان کا تعلق سرکار نظام سے تھا ۔(١٢)

(٩)


میں اس سے چاہتا ہوں دنیا میں تندرستی
دے اپنی راہ میں وہ میرے قدم کو چستی

بادل برس پڑے کاش اس کی عنایتوں کا
ابلے زمین دل سے چشمہ ہدایتوں کا

رہنا گواہ تم بھی دیتا ہوں میں شہادت
ہے پاک ذات اس کی بس قابل عبادت

اس کے سوا تو کوئی معبود ہی نہیں ہے
ہاں ۔ اس کے ہوتے کوئی موجود ہی نہیں ہے

یکتا ہے وہ ۔ کہاں ہے ؟ اس کا شریک کوئی
میرے ہر اک دکھ کی کرتا ہے چارہ جوئی

ہاں ۔ یہ بھی سن رکھو تم دیتا ہوں میں گواہی
ہادی مرا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے بندہ الہی

تاج رسالت اس کے سر پر خدا نے رکھا
اوروں سے اس کو برتر صدق و صفا نے رکھا

اس کو خدا نے اپنا پیغام بر بنایا
بے کم و کاست اس نے جو حکم تھا سنایا

وہ خاتم نبوت وہ سرور دو عالم
درگاہ ایزدی کا تھا اک سفیر اعظم

حلم و وقار و نرمی خوش خوئی مہربانی
پیغمبری کی اس میں تھی یہ کھلی نشانی

خطبہ دوم
لوگو ۔ سنو کہ کوچ کی ساعت قریب ہے
جو جمع کر لے توشہ وہی خوش نصیب ہے

جی بندگی حق سے چراتے ہو واہ وا ؛
حالانکہ دوستی کا بھی کرتے ہو ادعا

دوزخ سے نفرت اور افعال زشت بھی ؛
کوتک تو ایسے اور امید بہشت بھی

دین کا معاملہ ہو تو گویا ہیں نیم جاں
دنیا کے کاروبار میں یہ جاں فشانیاں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(١٠)

دارالبقا کا بھول گئے اہتمام تم
دارالفنا کو سمجھے ہو اپنا مقام تم

واللہ ہو گئی ہے تمہاری سمجھ خراب
پوچھا گیا وہاں تو بھلا دو گے کیا جواب

افسوس اس سمجھ پہ عجب پر غرور ہو
موت آ رہی ہے تم ابھی غفلت میں چور ہو

سوتے ہیں زیر خاک پڑے کس قدر عزیز
تم اپنے مست عیش ہو کرتے نہیں تمیز

چھوٹے بھی اور بڑے بھی جو تم سے تھے چل بسے
کیا سمجھے ہو ؟ رہیں گے تمہارے محل بسے

ہیہات ان کے حال سے عبرت نہیں تمہیں
تحصیل جاہ و مال سے فرصت نہیں تمہیں

قراں سنو ۔ تو ہو تمہیں اس بات پر عبور
اللہ کی طرف ہمیں جانا ہے بالضرور

اللہ کا کلام ہے سب سے بلیغ تر
مالک ہے سب کا ۔ ہے اسے ہر بات کی خبر

قران پاک کوئی پڑھے تو سنوخموش
اللہ تم پے رحم کرے ہے وہ عیب پوش

(٤) تھوڑا تھوڑا مل کر بہت ہو جاتا ہے
بنایا ہے چڑیوں نے جو گھونسلہ
سو ایک ایک تنکا اکٹھا کیا

گیا ایک ہی بار سورج نہ ڈوب
مگر رفتہ رفتہ ہوا ہے غروب

قدم ہی قدم طے ہوا ہے سفر
گئیں لحظہ لحظہ میں عمریں گذر

سمندر کی لہروں کا تانتا سدا
کنارہ سے ہے آ کے ٹکرا رہا

سمندر سے دریا سے اٹھتی ہے موج
سدا کرتی رہتی ہے دھاوا یہ فوج

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 

نایاب

لائبریرین
(١١)

کراروں کو آخر گرا ہی دیا
چٹانوں کو بالکل صفا چٹ کیا

برستا جو مینہ موسلادھار ہے
سو یہ ننھی بوندوں کی بوچھار ہے

درختوں کے جھنڈ اور جنگل گھنے
یونہی پتے پتے سے مل کر بنے

ہوئے ریشہ سے بن اور جھاڑ
بنا ذرہ ذرہ سے مل کر پہاڑ

لگا دانہ دانہ سے غلہ کا ڈھیر
پڑا لمحہ لمحہ سے برسوں کا پھیر

جو ایک ایک پل کر کے دن کٹ گیا
تو گھڑیوں ہی گھڑیوں میں برس گھٹ گیا

لکھا لکھنے والے نے ایک ایک حرف
ہوئی گڈیاں کتنی کاغذ کی صرف

ہوئی لکھتے لکھتے مرتب کتاب
اسی پر ہر اک شے کا سمجھو حساب

ہر اک علم و فن اور کرتب ہنر
نہ تھا پہلے ہی دن سے اس ڈھنگ پر

یونہی بڑھتے بڑھتے ترقی ہوئی
جو نیزہ ہے اب ۔ تھا وہ پہلے سوئی

جولاہے نے جوڑا تھا ایک ایک تار
ہوئے تھان جس کے گزوں سے شمار

یونہی پھوئیوں پھوئیوں بھری جھیل تال
یونہی کوڑی کوڑی ہوا جمع مال

اگر تھوڑا تھوڑا کرو صبح و شام
بڑے سے بڑا کام بھی ہو تمام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(١٢)

(٥) ایک وقت میں ایک کام

ہے کام کے وقت کام اچھا
اور کھیل کے وقت کھیل زیبا

جب کام کا وقت ہو کرو کام
بھولے سے بھی کھیل کا نہ لو نام

ہاں کھیل کے وقت خوب کھیلو
کوندو پھاندو کہ ڈنڈ پیلو

خوش رہنے کا ہے یہی طریقہ
ہر بات کا سیکھیئے سلیقہ

اپنی ہمت سے کام کرنا
مشکل ہو تو چاہیے نہ ڈرنا

جو کچھ ہو سو اپنے دم قدم سے
کیا کام ہے غیر کے کرم سے

مت چھوڑیو کام کو ادھورا
بے کار ہے جو ہوا نہ پورا

ہر وقت میں صرف ایک ہی کام
پا سکتا ہے بہتری سے انجام

جب کام میں کام اور چھیڑا
دونوں میں ہی پڑ گیا بکھیڑا

جو وقت گزر گیا اکارت
افسوس ہوا خزانہ غارت

ہے کام کے وقت کام اچھا
اور کھیل کے وقت کھیل زیبا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(١٣)


(٦) ہوا چلی

ہونے کو آئی صبح تو ٹھنڈی ہوا چلی
کیا دھیمی دھیمی چال سے یہ خوش ادا چلی

لہرا دیا ہے کھیت کو ہلتی ہیں بالیاں
پودے بھی جھومتے ہیں لچکتی ہیں ڈالیاں

پھلواریوں میں تازہ شگوفے کھلا چلی
سویا ہوا تھا سبزہ اسے تو جگا چلی

سرسبز ہوں درخت نہ باغوں میں تجھ بغیر
تیرے ہی دم قدم سے ہے بھاتی چمن کی سیر

پڑجائے اس جہاں میں ہوا کی اگر کمی
چوپایہ کوئی زندہ بچے اور نہ آدمی

چڑیوں کو یہ اڑان کی طاقت کہاں رہے
پھر کائیں کائیں ہو نہ غٹر غوں نہ چہچہے

بندوں کو چاہیئے کہ کریں بندگی ادا
اس کی کہ جس کے حکم سے چلتی ہے یہ سدا

(٧) پن چکی

نہر پر چل رہی ہے پن چکی
دھن کی پوری ہے کام کی پکی

بیٹھتی تو نہیں کبھی تھک کر
تیرے پہیہ کو ہے سدا چکر

پیسنے میں لگی نہیں کچھ دیر
تو نے جھٹ پٹ لگا دیا اک ڈھیر

لوگ لے جائیں گے سمیٹ سمیٹ
تیرا آٹا بھرے گا کتنے پیٹ

بھر کے لاتے ہیں گاڑیوں میں اناج
شہر کے شہر ہیں ترے محتاج

تو بڑے کام کی ہے اے چکی
کام کو کر رہی ہے طے چکی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(١٤)


ختم تیرا سفر نہیں ہوتا
نہیں ہوتا مگر نہیں ہوتا

پانی ہر وقت بہتا ہے دھل دھل
جو گھماتا ہے آ کے تیری کل

کیا تجھے چین ہی نہیں آتا
کام جب تک نبڑ نہیں جاتا

مینہ برستا ہو یا چلے آندھی
تو نے چلنے کی شرط ہے باندھی

تو بڑے کام کی ہے اے چکی ؛
مجھ کو بھاتی ہے تیری لے چکی

علم سیکھو سبق پڑھو بچو
اور آگے چلو بڑھو بچو

کھیلنے کودنے کا مت لو نام
کام جب تک ہو نہ جائے تمام

جب نبڑ جائے کام تب ہے مزہ
کھیلنے کھانے اور سونے کا

دل سے محنت کرو خوشی کے ساتھ
نہ کہ اکتا کے خامشی کے ساتھ

دیکھ لو چل رہی ہے پن چکی
دھن کی پوری ہے کام کی پکی

(٨) اسلم کی بلی
چھوٹی سی بلی کو میں کرتا ہوں پیار
صاف ہے ستھری ہے بڑی ہے کھلار

گود میں لیتا ہوں تو کیا گرم ہے
گالے کی مانند رواں نرم ہے

میں جو نہ چھیڑوں تو نہ جھلائے وہ
میں نہ ستاؤں تو نہ غرائے وہ

کھینچ کے دم اب نہ ستاؤں گا میں
گھر میں سے باہر نہ بھگاؤں گا میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(١٥)

اب نہ ڈرے گی وہ مری مار سے
کھیلیں گے ہم دونوں بہت پیار سے

صحن میں گھر میں کبھی میدان میں
کھیلیں گے در میں کبھی دالان میں

دم کو ہلا میرے پڑے گی وہ پاؤں
بولے گی پھر پیار سے یوں “ میاؤں میاؤں “؛

دوں گا اسے گیند میں جب آن کر
جھپٹے گی وہ اس پہ چوہا جان کر

تاک لگائے گی ۔ دبوچے گی خوب
مار نہٹے اسے نوچے گی خوب

ہم نے بڑے پیار سے پالا اسے
کہتے ہیں سب چوہوں کی خالہ اسے

(٩) بچہ اور ماں

اچھی اماں ؛ مجھے بتا دو ابھی
کیوں ہے بچہ کی مامتا اتنی ؟

تم کو بچہ سے کیوں یہ الفت ہے ؟
کس لیئے اس قدر محبت ہے ؟

ماں نے بچہ کو یوں جواب دیا
حیف ؛ تم جانتے نہیں بیٹا

کیسا لیٹا ہے یہ خوش وخرم
نہ کوئی فکر ہے نہ کوئی غم

نہ تو روتا نہ بلبلاتا ہے
گود میں کیا ہمک کر آتا ہے

مسکراتا ہے کیا ہی خوش ہو کر
جیسے چڑیا مگن ہو ڈالی پر

جبکہ سونے کا وقت ہے آتا
میرے سینہ سے ہے چمٹ جاتا

جب کہ آنکھوں میں نیند آتی ہے
بسترا اس کا میری چھاتی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 

نایاب

لائبریرین
(١٦)

نیند لے کر ہنسی خوشی سے اٹھا
پھول گویا کھلا چنبیلی کا

لگ گئی بھوک کہہ نہیں سکتا
پیاری نظروں سے ہے مجھے تکتا

پیار کا میرے بس یہی ہے سبب
نہیں آتا بیان میں مطلب


(١٠) ماں اور بچہ
بولی بچہ سے ماں میرے پیارے
صدقے اماں ؛ جواب دو بارے

کہ ہے بچہ کو ماں سے الفت کیوں ؟
رکھتا ہے اس قدر محبت کیوں ؟

دیا بچے نے یوں جواب سنو ؛
اے ہے اماں خبر نہیں تم کو

مجھ کو تکلیف سے بچاتی ہو
پیار سے گود میں بٹھاتی ہو

جی مرا بدمزہ اگر ہو جائے
میرے دکھ کا تمہیں اثر ہو جائے

مجھ کو ہو درد تم کو حیرانی
چپکے چپکے کرو نگہ بانی

اچھے اچھے کھلاتی ہو کھانے
پیار کرتی ہو تم ۔ خدا جانے

اور سب سے کہ آ رہے ہیں نظر
تم زیادہ ہو مہربان مجھ پر

جانتا ہوں عزیز سب سے تمہیں
چاہتا ہوں اسی سبب سے تمہیں

پیاری اماں کہا نہیں جاتا
نہیں مطلب بیان میں آتا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٧)


(١١) ایک مور اور کلنگ

دم مور نے پھول کر دکھائی
اور بولا کلنگ سے کہ بھائی

کیا خوب ہیں نقش اور کیا رنگ
دنیا مجھے دیکھ کر ہوئی دنگ

میری سی کہاں ہے آپ کی دم
کر نہیں سکتے مقابلہ تم

بولا اس سے کلنگ ہنس کر
ہاں آپ کے لاجواب ہیں پر

لیکن نہیں کچھ بھی کام آتے
بچوں ہی کے دل کو ہیں لبھاتے

اڑنے نہیں دیتی دم تمہاری
لیتے ہیں پکڑ تمہیں شکاری

یہ کہہ کے پروں کو پھٹپھٹا کر
بولا اونچا ہوا پے جا کے

آؤ کریں آسمان کا پھیرا
کچھ دم ہے تو ساتھ دو نہ میرا

منہ اپنا سا لے کے رہ گیا مور
تھا اس میں کہاں اڑان کا زور

بھاتا ہے جنہیں نرا دکھاوا
وہ لوگ ہیں مور کے بھی باوا

بس ان کو ہے ٹیپ ٹاپ کی دھن
شیخی کے سوا نہیں کوئی گن

دیکھیں کسے یاد ہے زبانی
مور اور کلنگ کی کہانی

۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(١٨)

(١٢) عجیب چڑیا
چڑیا ہم نے عجیب پالی
زنجیر اس کے گلے میں ڈالی

دن رات ہو ۔ شام یا سویرا
لیتی ہے وہ جیب میں بسیرا

چڑیا سے بھی قد ہے اس کا چھوٹا
ہے اس کا بدن تمام پوٹا

پوٹے پہ جو غور سے نظر کی
پوٹا نہیں پوٹ ہے ہنر کی

گویا ہے ؛ اگرچہ بے زبان ہے
نادان ہے مگر حساب دان ہے

دانہ پانی نہیں وہ کھاتی
ہر دم ہے خوشی سے چہچہاتی

دن رات میں چھیڑ دو کسی آن
یہ چھیڑ ہے اس کے جسم کی جان

جب تک جیتی ہے جاگتی ہے
لو کام تو چیز کام کی ہے

کہتی ہے کہ وقت کی خبر لو
جو کچھ کرنا ہے جلد کر لو

غفلت کیجیے تو ٹوکتی ہے
عجلت کیجیے تو روکتی ہے

اس طور سے کرتی ہے گزارہ
انڈے دیتی ہے دن میں بارہ

پھر اتنے ہی رات کو ہے دیتی
دیتے ہی ہر ایک کو ہے سیتی

انڈے ہیں تمام اس کے سچے
ایک ایک سے نکلے ساٹھ بچے

ہر بچہ نے اگلے ساٹھ دانے
ہر دانے میں ہیں بھرے خزانے

جو دانہ گرا سو ہو گیا گم
ڈھونڈا کرو پھر نہ پاؤ گے تم

،،،،،،،،،،،،،،،

(١٩)

دانہ کی بتاؤں کیا قیمت
دانا سمجھیں اسے غنیمت

جس نے اسے پا لیا کہا واہ ؛
کیا بات ہے تیری بارک اللہ؛

سچ مچ تو لعل بے بہا ہے
گویا ہر درد کی دوا ہے

القصہ ہے وہ عجب پرندہ
مردہ اسے کہہ سکیں نہ زندہ

(١٣) ایک لڑکا اور بیر

ایک لڑکا ہے بڑا ایمان دار
آزمائیش ہو چکی ہے چند بار

ایک دن وہ نیک دل اور با حیا
اپنے ہمسایہ کے گھر میں تھا گیا

آدمی بالکل نہیں واں نام کو
کیونکہ ہمسایہ گیا ہے کام کو

تازہ تازہ بیر ڈلیا میں بھرے
بے حفاظت ہیں گھر میں دھرے

لیکن اس نے بیر کو چھیڑا نہیں
ہو نہ جائے شبہ چوری کا کہیں

آ گیا اتنے میں ہمسایہ وہاں
کھیل میں مصروف ہے لڑکا جہاں

اپنے بیروں میں نہ پائی کچھ کمی
ہو کے خوش لڑکے سے بولا آدمی

بیر یہ تم نے چرائے کیوں نہیں ؟
کیوں چراتا ؟ چور تھا کیا میں کہیں ؟

چور جب بنتے کہ کوئی دیکھتا
دیکھنے کو میں ہی خود موجود تھا

کچھ برائی آپ میں گر پاؤں میں
پانی پانی شرم سے ہو جاؤں میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷

(٢٠)

وا ؛ وا ؛ شاباش ؛ لڑکے واہ وا؛
تو جواں مردوں سے بازی لے گیا

(١٤) ایک پودا اور گھاس

اتفاقا ایک پودا اور گھاس
باغ میں دونوں کھڑے ہیں پاس پاس

گھاس کہتی ہے کہ اے میرے رفیق
کیا انوکھا اس جہاں کا ہے طریق

ہے ہماری اور تمہاری ایک ذات
ایک قدرت سے ہے دونوں کی حیات

مٹی اور پانی ہوا اور روشنی
واسطے دونوں کے یکساں ہے بنی

تجھ پہ لیکن ہے عنایت کی نظر
پھینک دیتے ہیں مجھے جڑ کھود کر

سر اٹھانے کی مجھے فرصت نہیں
اور ہوا کھانے کی بھی رخصت نہیں

کون دیتا ہے مجھے یاں پھیلنے
کھا لیا گھوڑے گدھے یا بیل نے

تجھ پہ منہ ڈالے جو کوئی جانور
اس کی لی جاتی ہے ڈنڈے سے خبر

اولے پالے سے بچاتے ہیں تجھے
کیا ہی عزت سے بڑھاتے ہیں تجھے

چاہتے ہیں سب تجھ کو سب کرتے ہیں پیار
کچھ پتا اس کا بتا اے دوست دار

اس سے پودے نے کہا یوں سر ہلا
گھاس سب سچا ہے تیرا یہ گلا

مجھ میں اور تجھ میں نہیں کچھ بھی تمیز
صرف سایہ اور میوہ ہے عزیز

فائدہ اک روز مجھ سے پائیں گے
سایہ میں بیٹھیں گے اور پھل کھائیں گے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،،،،،÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷​
 

نایاب

لائبریرین
(٢١)

ہے یہاں عزت کا سہرا اس کے سر
جس سے پہونچے نفع سب کو بیشتر

(١٥) ایک جگنو اور بچہ کی باتیں

سناؤں تمہیں بات اک رات کی
کہ وہ رات اندھیری تھی برسات کی

چمکنے سے جگنو کے تھا اک سماں
ہوا پر اڑیں جیسے چنگاریاں

پڑی ایک بچہ کی ان کی پر نظر
پکڑ ہی لیا ایک کو دوڑ کر

چمک دار کیڑا جو بھایا اسے
تو ٹوپی میں جھٹ پٹ چھپایا اسے

وہ جھم جھم چمکتا ادھر سے ادھر
پھرا کوئی رستہ نہ پایا مگر

تو غمگین قیدی نے کی التجا
کہ چھوٹے شکاری ؛ مجھے کر رہا

جگنو
خدا کے لیے چھوڑ دے چھوڑ دے
مری قید کے جال کو توڑ دے

بچہ
کروں گا نہ آزاد اس وقت تک
کہ میں دیکھ لوں دن میں تیری چمک

جگنو
چمک میری دن میں نہ دیکھو گے تم
اجالے میں ہو جائے گی وہ تو گم

بچہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(٢٢)

ارے چھوٹے کیڑے نہ دے دم مجھے
کہ ہے واقفیت ابھی کم مجھے

اجالے میں دن کے کھلے گا یہ حال
کہ اتنے سے کیڑے میں ہے کیا کمال

دھواں ہے نہ شعلہ ہے نہ گرمی نہ آنچ
چمکنے کی تیرے کروں گا میں جانچ

جگنو
یہ قدرت کی کاریگری ہے جناب
کہ ذرہ کو چمکائے جوں آفتاب

مجھے دی ہے اس واسطے چمک
کہ تم دیکھ کر مجھ کو جاؤ ٹھٹک

نہ الہڑ پنے سے کرو پائمال
سنبھل کر چلو آدمی کی سی چال

(١٦)ایک گھوڑا اور اس کا سایہ

ایک گھوڑا تھا نہایت عیب دار
اپنے سایہ سے بدکتا بار بار

اس سے مالک نے خفا ہو کر کہا
سن تو احمق ؛ جس سے تو ہے ڈر رہا

جسم کا تیرے ہی تو سایہ ہے وہ
کچھ درندہ ہے نہ چوپایہ ہے وہ

جسم رکھتا ہے نہ اس کی جان ہے
تو بڑا ڈرپوک او نادان ہے

یوں دیا گھوڑے نے مالک کو جواب
سچ کہا یہ آپ نے لیکن جناب

آدمی سے بڑھ کر میں وہمی نہیں
ان ہوئی باتوں کا ہے جس کو یقین

بھوت کا قصہ کہانی کے سوا
کچھ نشان گھر میں نہ جنگل میں پتا
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

(٢٣)

بھوت سے ڈرنا بھی کوئی بات ہے
کیا ہی وہمی آدمی کی ذات ہے

سایہ تو آنکھوں سے آتا ہے نظر
کیا عجب ہے جو ہوا مجھ پر اثر

اپنے دکھ کا کیجیئے اول علاج
دوسروں کا پوچھیئے پیچھے مزاج

(١٧) ایک کتا اور اس کی پرچھائیں

منہ میں ٹکڑا لیئے ہوتے کتا
ایک دریا کو تیر کر اترا

پانی آئینہ سا رہا تھا چمک
نظر آتی تھی تہہ کی مٹی تک

اپنی پرچھائیں پر کیا جو غور
اس کو سمجھا کہ ہے یہ کتا اور

منہ میں ٹکڑا دبا رہا ہے یہ
گہرے پانی میں جا رہا ہے یہ

حرص نے ایسا بے قرار کیا
جھٹ سے غرا کے اس پہ وار کیا

جونہی ٹکڑے پہ اس کے منہ مارا
اپنا ٹکڑا بھی کھو دیا سارا

واں نہ ٹکڑا نہ اور کتا تھا
وہم تھا ۔ وہم کے سوا کیا تھا

یونہی جتنے ہیں لالچی نادان
کر کے لالچ اٹھاتے ہیں نقصان

باندھتے ہیں کہاں کہاں کے خیال
اور کھو بیٹھتے ہیں اپنا مال

تم ہوس میں سڑی نہ بن جاؤ
جو ملے اس کو کام میں لاؤ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٢٤)

(١٨) ریل گاڑی

حیواں ہے نہ وہ انساں جن ہے نہ وہ پری ہے
سینہ میں اس کے ہردم اک آگ سی بھری ہے

کھا کے آگ پانی چنگھاڑ مارتی ہے
سر سے دھوئیں اڑا کر غصہ اتارتی ہے

وہ گھورتی گرجتی بھرتی ہے اک سپاٹا
ہفتوں کی منزلوں کو گھنٹوں میں اس نے کاٹا

آتی ہے شور کرتی جاتی ہے غل مچاتی
وہ اپنے خادموں کو ہے دور سے جگاتی

بے خوف بے محابا ہر دم رواں دواں ہے
ہاتھی بھی اس کے آگے اک مور ناتواں ہے

آندھی ہو یا اندھیرا ہے اس کو سب برابر
یکساں ہے نور و ظلمت اور روز و شب برابر

اتر سے لے دکن تک پورب سے لے پچھاں تک
سب ایک کر دیا ہے پہنچی ہے وہ جہاں تک

بجلی ہے یا بگولا ۔ بھونچال ہے کہ آندھی
ٹھیکہ پہ ہے پہونچتی بچنوں کی ہے وہ باندھی

ہر آن ہے سفر میں کم ہے قیام کرتی
رہتی نہیں معطل ۔ پھرتی ہے کام کرتی

پردیسیوں کو جھٹ پٹ پہونچا گئی وطن میں
ڈالی ہے جان اس نے سوداگری کے تن میں

ہر چیز سے ہے نرالی چال ڈھال اس کی
پاؤ گے صنعتوں میں کمتر مثال اس کی

برکت سے اس کی بے پر پردار بن گئے ہیں
ملک اس کے دم قدم سے گلزار بن گئے ہیں

ہم کہہ چکے مفصل ۔ جو کچھ ہے کام اس کا
جب جانیں تم بتا دو بن سوچے نام اس کا

جی ہاں سمجھ گیا میں ۔ پہلے ہی میں نے تاڑی
وہ دیکھو آگرہ سے آتی ہے ریل گاڑی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٢٥)

(١٩) ہماری گائے
رب کا شکر ادا کر بھائی
جس نے ہماری گائے بنائی

اس مالک کو کیوں نہ پکاریں
جس نے پلائیں دودھ کی دھاریں

خاک کو اس نے سبزہ بنایا
سبزہ کو پھر گائے نے کھایا

کل جو گھاس چری تھی بن میں
دودھ بنی اب گائے کے تھن میں

سبحان اللہ دودھ ہے کیساا
تازہ گرم سفید اور میٹھا

دودھ میں بھیگی روٹی میری
اس کے کرم نے بخشی سیری

دودھ دہی اور مٹھگا مسکا
دے نہ خدا تو کس کے بس کا

گائے کو دی کیا اچھی صورت
خوبی کی ہے گویا مورت

دانہ دنکا بھوسی چوکر
کھا لیتی ہے سب خوش ہو کر

کھا کر تنکے اور ٹھیڑے
دودھ دیتی ہے شام سویرے

کیا ہی غریب اور کیسی پیاری
صبح ہوئی جنگل کو سدھاری

سبزہ سے میدان ہرا ہے
جھیل میں پانی صاف بھرا ہے

پانی موجیں مار رہا ہے
چرواہا چمکار رہا ہے

پانی پی کر چارہ چر کر
شام کو آئی اپنے گھر پر

دوری میں جو دن ہے کاٹا
بچہ کو کس پیار سے چاٹا

۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 

نایاب

لائبریرین
(٢٦)

گائے ہمارے حق میں ہے نعمت
دودھ دیتی ہے کھا کے بنسپت

بچھڑے اس کے بیل بنائے
جو کھیتی کے کام میں آئے

رب کی حمد و ثنا کر بھائی
جس نے ایسی گائے بنائی

(٢٠) سچ کہو

سچ کہو سچ کہو ہمیشہ سچ
ہے بھلے مانسوں کا پیشہ سچ

سچ کہو گے تو تم رہو گے عزیز
سچ تو یہ ہے کہ سچ ہے اچھی چیز

سچ کہو گے تو تم رہو گے شاد
فکر سے پاک رنج سے آزاد

سچ کہو گے تو تم رہو گے دلیر
جیسے ڈرتا نہیں دلاور شیر

سچ سے رہتی ہے تقویت دل کو
سہل کرتا ہے سخت مشکل کو

سچ ہے ساری معاملوں کی جان
سچ سے رہتا ہے دل کو اطمینان

سچ میں راحت ہے اور آسانی
سچ سے ہوتی نہیں پشیمانی

سچ ہے دنیا میں نیکیوں کی جڑ
سچ نہ ہو تو جہان جائے اجڑ

سچ کہو گے تو دل رہے گا صاف
سچ کرا دے گا سب قصور معاف

سچ سے زنہار درگزر نہ کرو
دل میں کچھ خوف اور خطر نہ کرو

جس کو سچ بولنے کی عادت ہے
وہ بڑا نیک با سعادت ہے

۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٢٧)

وہی دانا ہے جو کہ ہے سچا
اس میں بڈھا ہو یا کوئی بچا

ہے برا جھوٹ بولنے والا
آپ کرعتا ہے اپنا منہ کالا

فائدہ اس کو کچھ نہ دے گا جھوٹ
جائے گا اک روز بھانڈا پھوٹ

جھوٹ کی بھول کر نہ ڈالو خو
جھوٹ ذلت کی بات ہے اخ تھو؛؛

(٢١ ) ہمارا کتا ٹیپو

ٹیپو ہے اس کا نام یہ کتا عجیب ہے
بڈھا ہے با ادب ہے نہایت غریب ہے

ہم دونوں بہن بھائیوں سے الفت ہے اس قدر
جب دیکھتا ہے دور سے آتا ہے دوڑ کر

افسوس میرے ٹیپو ؛ حیراں ہوں کیا کروں
کس ڈھب سے تیرے ساتھ محبت کیا کروں

آتا ہے کم جہاں میں تجھ سا رفیق ہاتھ
جاتا ہوں جب میں سیر کو رہتا ہے میرے ساتھ

میں دودھ پی رہا ہوں تو بیٹھا ہے میرے پاس
کچھ شک نہیں کہ تو ہے وفادار حق شناس

البتہ میں بھی کرتا ہوں صرف اس قدر سلوک
دیتا ہوں ایک ٹکڑا کہ دب جائے تیری بھوک

لیکن مجھے یقین ہے اگر کچھ نہ دوں تجھے
دیکھے گا پھر بھی پیار کی نظروں سے تو مجھے

اس واسطے کہ تو ہے وفادار حق شناس
مالک کا اپنے تجھ کو بہت ہے لحاظ و پاس

ٹیپو ہمارے گھر کا پرانا رفیق ہے
بڈھا ہے با وفا ہے نہایت شفیق ہے

جنگل کو جائیں ڈھور تو جاتا ہے ساتھ ساتھ
جب گھر کو واپس آءیں تو آتا ہے ساتھ ساتھ

۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٢٨)

بیچارہ گھر کی چوکسی کرتا ہے رات بھر
اور دن میں کھیلتا ہے مرے ساتھ ادھر ادھر

(٢٢) شفق

شفق پھولنے کی بھی دیکھو بہار
ہوا میں کھلا ہے عجب لالہ زار

ہوئی شام بادل بدلتے ہیں رنگ
جنہیں دیکھ کر عقل ہوتی ہے دنگ

نیا رنگ ہے اور نیا روپ ہے
ہر ایک روپ میں یہ وہی دھوپ ہے

طبیعت ہے بادل کی رنگت پہ لوٹ
سنہری لگائی ہے قدرت نے گوٹ

ذرا دیر میں رنگ بدلے کئی
بنفشی و نارنجی و چنپئی

یہ کیا بھید ہے ؛ کیا کرامات ہے
ہر اک رنگ میں اک نئی بات ہے

یہ مغرب میں جو بادلوں کی ہے باڑ
بنے سونے چاندی کے گویا پہاڑ

فلک نیلگوں اس میں سرخی کی لاگ
ہرے بن میں گویا لگا دی ہے آگ

اب آثار ظاہر ہوئے رات کے
کہ پردے چھٹے لال بانات کے

۔۔۔۔۔،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٢٩)

(٢٣) رات
گیا دن ہوئی شام آئی ہے رات
خدا نے عجب شے بنائی ہے رات

نہ ہو رات تو دن کی پہچان کیا
اٹھائے مزہ دن کا انسان کیا

ہوئی رات خلقت چھٹی کام سے
خموشی سی چھائی سر شام سے

لگے ہونے اب ہاٹ بازار بند
زمانے کے سب کار بہوار بند

مسافر نے دن بھر کیا ہے سفر
سر شام منزل پہ کھولی کمر

درختوں کے پتے بھی چپ ہو گئے
ہوا تھم گئی پیڑ بھی سو گئے

اندھیرا اجالے پہ غالب ہوا
ہر اک شخص راحت کا طالب ہوا

ہوئے روشن آبادیوں میں چراغ
ہوا سب کو محنت سے حاصل فراغ

کسان اب چلا کھیت کو چھوڑ کر
کہ گھر میں چین سے شب بسر

تھپک کر سلایا اسے نیند نے
تردد بھلایا اسے نیند نے

غریب آدمی جو کہ مزدور ہیں
مشقت سے جن کے بدن چور ہیں

وہ دن بھر کی محنت کے مارے ہوئے
وہ ماندے تھکے اور ہارے ہوئے

نہایت خوشی سے گئے اپنے گھر
ہوئے بال بچے بھی خوش دیکھ کر

گئے بھول سب کام دھندے کا غم
سویرے کو اٹھیں گے اب تازہ دم

کہاں چین یہ بادشہ کو نصیب
کہ جس بے غمی سے ہیں سوتے غریب

۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٣٠)

(٢٤) گرمی کا مہینہ

مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ
بہا چوٹی سے ایڑی تک پسینا

بجے بارہ تو سورج سر پہ آیا
ہوا پیروں تلے پوشیدہ سایا

چلی لو اور تراقی کی پڑی دھوپ
لپٹ ہے آگ کی گویا کڑی دھوپ

زمین ہے یا کوئی جلتا توا ہے
کوئی شعلہ ہے یا پچھوا ہوا ہے

در و دیوار ہیں گرمی سے تپتے
بنی آدم ہیں مچھلی سے تڑپتے

پرندے اڑ کے ہیں پانی پہ گرتے
چرندے بھی ہیں گھبرائے سے پھرتے

درندے چھپ گئے ہیں جھاڑیوں میں
مگر ڈوبے پڑے ہیں کھاڑیوں میں

نہ پوچھو کچھ غریبوں کے مکاں کی
زمین کا فرش ہے چھت آسمان کی

نہ پنکھا ہے نہ ٹٹی ہے نہ کمرہ
ذرہ سی جھونپڑی محنت کا ثمرہ

امیروں کو مبارک ہو حویلی
غریبوں کا بھی ہے اللہ بیلی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 

نایاب

لائبریرین
(٣١)

(٢٥) برسات

وہ دیکھو اٹھی کالی کالی گھٹا
ہے چاروں طرف چھانے والی گھٹا

گھٹا کے جو آنے کی آہٹ ہوئی
ہوا میں بھی اک سنسناہٹ ہوئی

گھٹا آن کر مینہ جو برسا گئی
تو بے جان مٹی میں جان آ گئی

زمین سبزے سے لہلہانے لگی
کسانوں کی محنت ٹھکانے لگی

جڑی بوٹیاں پیڑ آئے نکل
عجیب بیل پتے عجب پھول پھل

ہر اک پیڑ کا اک نیا ڈھنگ ہے
ہر اک پھول کا ایک نیا رنگ ہے

یہ دودن میں کیا ماجرا ہو گیا
کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا

جہاں کل تھا میدان چٹیل پڑا
وہاں آج ہے گھاس کا بن کھڑا

ہزاروں پھدکنے لگے جانور
نکل آئے گویا کہ مٹی کے پر


(٢٦) ملمع کی انگوٹھی

چاندی کی انگوٹھی پہ جو سونے کا چڑھا جھول
اوچھی تھی لگی بولنے اترا کے بڑا بول

چاندی کی انگوٹھی کہ نہ میں ساتھ رہوں گی
وہ اور ہے میں اور یہ ذلت نہ سہوں گی

میں قوم کی اونچی ہوں بڑا میرا گھرانا
وہ ذات کی گھٹیا ہے نہیں اس کا ٹھکانا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،،،۔÷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٣٢)

میری سی چمک اس میں نہ میری سی دمک ہے
چاندی ہے کہ ہے رانگ مجھے اس میں بھی شک ہے

میری سی کہاں چاشنی میرا سا کہاں رنگ
وہ مول میں اور تول میں میرے نہیں پاسنگ

اے دیکھنے والو تمہیں انصاف سے کہنا
چاندی کی انگوٹھی بھی ہے کچھ گہنوں میں گہنا

یہ سنتے ہی چاندی کی انگوٹھی بھی گئی جل
اللہ رے ملمع کی انگوٹھی تیرے چھل بل

سونے کے ملمع پہ نہ اترا میری پیاری
دو دن میں بھڑک اس کی اتر جائے گی ساری

کچھ دیر حقیقت کو چھپایا بھی تو پھر کیا
جھوٹوں نے سچوں کو چڑایا بھی تو پھر کیا

مت بھول کبھی اپنی اصل کو اری احمق ؛
جب تاؤ دیا جائے گا ہو جائے گا منہ فق

سچے کی تو عزت ہی بڑھے گی جو کریں جانچ
مشہور مثل ہے کہ نہیں سانچ کو کچھ آنچ

کھوٹے کو کھرا بن کے نکھرنا نہیں اچھا
چھوٹے کو بڑا بن کر ابھرنا نہیں اچھا

(٢٧) دال کی فریاد

ایک لڑکی بگھارتی ہے دال
دال کرتی ہے عرض یوں احوال

ایک دن تھا ہری بھری تھی میں
ساری آفات سے بری تھی میں

تھا ہرا کھیت میرا گہوارہ
وہ وطن تھا مجھے بہت پیارا

پانی پی پی کے تھی میں لہراتی
دھوپ لیتی کبھی ہوا کھاتی

مینہ برستا تھا جھوکے آتے تھے
گودیوں میں مجھے کھلاتے تھے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٣٣)

یہی سورج زمین تھے ماں باوا
مجھ سے کرتے تھے نیک برتاوا

جب کیا مجھے کو پال پوس بڑا
آہ ۔۔۔۔ ظالم کسان آن پڑا

گئی تقدیر یک بیک جو پلٹ
کھیت کا کھیت کر دیا تلپٹ

خوب لوٹا دھڑی دھڑی کر کے
مجھ کو گونوں میں لے گئے بھر کے

ہو گئی دم کی دم میں بربادی
چھن گئی ہائے میری آزادی

کیا بتاؤں کہاں کہاں کھینچا
دال منڈی میں مجھ کو جا بینچا

ایک ظالم سے واں پالا پڑا
جس نے چکی مجھ کو دل ڈالا

ہوا تقدیر کا لکھا پورا
دونوں پاٹوں نے کر دیا چورا

نہ سنی میری آہ اور زاری
خوب بنیئے نے کی خریداری

چھانا چھلنی میں چھاج میں پھٹکا
قید خانہ میرا بنا مٹکا

پھر مقدر مجھے یہاں لایا
تم نے تو اور بھی غضب ڈھایا

کھال کھینچی الگ کیئے چھلکے
زخم کیونکر ہرے نہ ہوں دل کے

ڈالین مرچیں نمک لگایا خوب
رکھ کہ چولہے پہ جی جلایا خوب

اس پہ کفگیر کے تہوکے ہیں
اور ناخن کے بھی کچوکے ہیں

میرے گلنے کی لے رہی ہو خبر
دانت ہے آپ کا مرے اوپر

گرم گھی کر کے مجکو داغ دیا
ہائے تم نے بھی کچھ نہ رحم کیا

ہاتھ دھو کر پڑی ہو پیچھے تم
جان پر آ بنی حواس ہیں گم

اچھی بی بی تمہیں کرو انصاف
ظلم ہے یا نہیں (قصور معاف )

کہا لڑکی نے میری پیاری دال
مجکو معلوم ہے ترا سب حال

تو اگر کھیت سے نہیں آتی
خاک میں مل کے خاک ہو جاتی

یا کوئی گائے بھینس چر لیتی
پیٹ میں اپنے تجکو بھر لیتی

میں تو رتبہ ترا بڑھاتی ہوں
اب چپاتی سے تجکو کھاتی ہوں

نہ ستانا نہ جی جلانا تھا
یوں تجھے آدمی بنانا تھا

اگلی بیتی کا تو نہ کر کچھ غم
مہربانی تھی سب نہ تھا یہ ستم

(٢٨) دال چپاتی

اور سنو ایک حکایت نئی
دال چپاتی میں جھڑپ ہو گئی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٣٤)

دال لگی کہنے کہ میرا مزہ
کرتا چپاتی کو بھی ہے با مزہ

میرے بدوں اس کو بھلا کھائے کون
]روکھی چپاتی میں مزہ پائے کون

بلکہ اگر نری دال اگر کھائیے
ہونت ہی بس چاٹتے رہ جایئے

کرتا ہے درویش جو روٹی طلب
دال چپاتی اسے دیتے ہیں سب

دیکھ لو اس وقت میری برتری
نیچے ہے وہ اور میں اوپر دھری

بیٹھتی ہوں چڑھ کے چپاتی پہ میں
مونگ دلا کرتی ہوں چھاتی پہ میں

اس کے سوا دیکھیئے میرا سنگار
پہلے مصالح ہے پھر اس سے بگھار

مجکو پکاتے ہیں سبھی اد بدا
کھاتے ہیں سب شاہ سے لے تا گدا

میری فضیلت میں نہیں کوئی شک
واہ رے میں اور مرا آب و نمک

ذائقہ خوشبو پے مری لوٹ ہے
دل پہ چپاتی کے یہ ہی چوٹ ہے

دال نے شیخی جو بگھاری بڑی
سن کے چپاتی بھی اچھل ہی پڑی

بے ادبی کر نہ میری شان میں
میری طفیلی ہے تو ہر خوان میں

دال ہو سالن ہو کہ چٹنی اچار
سب ہیں میرے ساتھ کے خدمت گذار

کوفتہ ہو قورمہ ہو یا کباب
تھام کے چلتے ہیں سب میری رکاب

چٹ پٹی ترکاریاں جب ہوویں ساتھ
دال کو پھر کون لگاتا ہے ہاتھ

دال کا دانہ بھی نہ چھکے کوئی
بلکہ رکابی میں نہ رکھے کوئی

دال تو اک ہارے کا ہتیار ہے
کھائے وہی اس کو جو بیمار ہے

۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٣٥)

دال میسر نہیں ہوتی جنہیں
صرف چپاتی کو غنیمت گنیں

جس کی فقط دال پہ گزران ہے
آدمی کاہے کو وہ حیوان ہے

یوں تو سبھی کھانوں میں افضل ہوں میں
دال سے سو مرتبہ اول ہوں میں

دونوں میں القصہ بہت بڑھ گئی
ایک پے ایک آن کے پھر چڑھ گئی

لقمہ بنا دونوں کو میں کھا گیا
قصہ ہوا فیصلہ جھگڑا گیا

(٢٩) دو مکھیاں

ایک مکھی کہ ہے نری احمق
فکر انجام اسے نہیں مطلق

کوتہ ادیش ۔ لالچی ۔ ناداں
دیتی پھرتیہے مفت اپنی جاں

گری شیرہ پے حرص کے مارے
پاؤں اور پر لتھڑ گئے سارے

آنکھ اس کی ہیئے کی پھوٹ گئی
اکھڑے بازو تو ٹانگ ٹوٹ گئی

آخرش پھنس کے رہ گئی مکھی
کیا حماقت کی چاشنی چکھی

ایک مکھی ہے سخت دوراندیش
سوچ لیتی ہے کام کا پس و پیش

اس پے غالب نہیں ہوسناکی
اڑتی پھرتی ہے وہ بہ چالاکی

کہیں مصری کی جب ڈلی پائی
تو بہ آہستگی اتر آئی

گرچہ اس کام میں لگی کچھ دیر
چاٹ کر ہو گئی مگر وہ سیر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 

نایاب

لائبریرین
(٣٦)

چاٹ کے کھا کے اڑ گئی پھر پھر
دوربینی کا اس کو یاد ہے گر

کس مزہ سے گزارتی ہے دن
شکر کا گیت گاتی ہے بھن بھن

(٣٠) مثنوی آب زلال

خدا نے دی ہے تم کو عقل و تمیز
ذرا دیکھو تو یہ پانی ہے کیا چیز

دکھاؤ کچھ طبیعت کی روانی
جو دانا ہو تو سمجھو کیا ہے پانی

یہ مل کر دو ہواؤں سے بنا ہے
گرہ کھل جائے تو فورا ہوا ہے

نظر ڈھونڈے مگر کچھ بھی نہ پائے
زبان چکھے مزہ ہر گز نہ آئے

ہواؤں میں لگایا خوب پھندا
انوکھا ہے تیری قدرت کا دھندا

نہیں مشکل اگر تیری رضا ہو
ہوا پانی ہو اور پانی ہوا ہو

مزاج اس کو دیا ہے نرم کیسا
جگہ جیسی ملے بن جائے ویسا

نہیں کرتا جگہ کی کچھ شکایت
طبیعت میں رسائی ہے نہایت

نہیں کرتا کسی برتن سے کھٹ پٹ
ہر اک سانچہ میں ڈھل جاتا ہے جھٹ پٹ

نہ ہو صدمہ سے ہر گز ریزہ ریزہ
نہ ہو زخمی اگر لگ جائے نیزہ

نہ اس کو تیر سے تلوار سے خوف
نہ اس کو توپ کی بھرمار سے خوف

تواضع سے سدا پستی میں بہنا
جفا سہنا مگر ہموار رہنا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،،،،،۔÷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٣٧)

نہیں ہے سرکشی سے کچھ سروکار
نہ دیکھو گے کبھی تم اس کا انبار

خزانہ گر بلندی پر نہ ہوتا
تو فوارہ سے وہ باہر نہ ہوتا

جو ہلکا ہو اسے سر پر اٹھائے
جو بھاری ہو اسے غوطا کھلائے

نہ جلتا ہے نہ گلتا ہے نہ سڑتا
نرا پانی نہیں ہر گز بگڑتا

اسے بھیچو دباؤ یا ٹٹولو
اسے چھیڑو اچھالو یا گھنگولو

اسے رگڑو گھسو پیسو بہاؤ
جھکولے دو مسل ڈالو دباؤ

کسی عنوان سے ہو گا نہ نابود
وہی پانی کا پانی دودھ کا دودھ

لگے گرمی تو اڑجائے ہوا پر
پڑے سردی تو بنجاتا ہے پتھر

ہوا میں مل کے غائب ہو نظر سے
کبھی اوپر سے بادل بن کر برسے

ہوا پر چڑھ کے پہونچے سیکڑوں کوس
کبھی اولا کبھی پالا کبھی اوس

کہر ہے بھاپ ہے پانی ہے یا برف
کئی صیغوں میں ہے ایک اصل کی صرف

اسی کے دم سے دنیا میں تری ہے
اسی کی چاہ سے کھیتی ہری ہے

پھلوں میں پھول میں ہر پنکھڑی میں
ہر اک ٹہنی میں ہر جڑی بوٹی میں

ہر اک ریشہ میں ہے اس کی رسائی
غذا ہے جڑ سے کونپل تک چڑھائی

پھلوں کا ہے اسی سے تازہ چہرہ
اسی کے سر پے ہے پھولوں کا سہرہ

اسی کو پی کے جیتے ہیں سب انسان
اسی سے تازہ دم ہیں سارے حیوان

یہی معدہ کو پہنچاتا رسد ہے
یہی تحلیل میں کرتا مدد ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔
(٣٨)

عمارت کا بسایا اس نے کھیڑا
تجارت کا کیا ہے پار پار بیڑا

زراعت اس کی موروثی اثامی
صناعت کے بھی اوزاروں کا حامی

کہیں ساگر کہیں کھاڑی کہیں جھیل
کہیں جمنا کہیں گنگا کہیں نیل

کہیں نالہ کہیں ندی کہیں سیل
ہے یہ دنیا کی کمسریٹ کا جرنیل

یہی پہلے زمین پر موجزن تھا
نہ میدان تھا نہ پربت تھا نہ بن تھا

زمین سب غرق تھی پانی کے اندر
جدھر دیکھو سمندر ہی سمندر

زمین پوشیدہ تھی اسکی بغل میں
نہ تھا کچھ فرق جل میں اور تھل میں

نہ بستی تھی نہ ٹاپو تھا کہیں پر
اسی کا دور دورہ تھا زمین پر

نہ افریقہ نہ امریکہ نہ یورپ
رہی تھی ایشیا او شنییا چھپ

ہمالہ نے بھی تھی ڈبکی لگائی
نہ دیتی تھی کہیں چوٹی دکھائی

نہ طارس تھا نہ بندھیاچل نہ الطین
نہ فارس تھا نہ ہندوستان نے چین

مگر دنیا میں یکسانی کہاں ہے
جواب دیکھو تو وہ پانی کہاں ہے

یہاں ہر چیز ہے کروٹ بدلتی
ہر ایک حالت ہے چڑھتی اور ڈھلتی

کوئی شے ہو ہوا ہو یا ہو پانی
سبھی کو ہے بڑھاپا اور جوانی

رہا باقی نہ وہ پانی کا ریلا
اسے خشکی نے پستی میں دھکیلا

زمین آہستہ آہستہ گئی چوس
چھپائے مال کو جس طرح کنجوس

تری کا جب کہ دامن ہو گیا چاک
تو خشکی نے اڑائی جا بجا خاک

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٣٩)


پہاڑ ابھرے ہوئے میدان پیدا
ہوئے میدان میں نخلستان پیدا

تری کا گو ابھی بھی ہے پلہ بھاری
لڑائی ہے مگر دونوں میں جاری

کیا کرتے ہیں دونوں کانٹ اور چھانٹ
چلی جاتی ہے باہم لاگ اور ڈانٹ

تری ہر دم چلی جاتی ہے اٹتی
کبھی خشکی بھی ہے کایا پلٹتی

تری کا تین چوتھائی میں ہے راج
تو خشکی ایک چوتھائی میں ہے آج

نہیں چلتی تری کی سینہ زوری
زمین اک دن رہ جائے گی کوری

پہن رکھا تھا جب آبی لبادہ
مٹاپا بھی زمین کا تھا زیادہ

مگر اب دن بدن چڑھتی ہے خشکی
تری گھٹتی ہے اور بڑھتی ہے خشکی

کمی بیشی نہیں آتی نظر کچھ
بہت عمروں میں ہوتا ہے اثر کچھ

(٣١) موعظت

کرے دشمنی کوئی تم سے اگر
جہاں تک بنے تم کرو درگزر

کرو تم نہ حاسد کی باتوں پہ غور
جلے جو کوئی ۔ اس کو جلنے دو اور

اگر تم سے ہو جائے سرزد قصور
تو اقرار و توبہ کرو بالضرور

بدی کی ہو جس نے تمہارے خلاف
جو چاہے معافی ۔ تو کردو معاف

نہیں بلکہ تم اور احساں کرو
بھلائی سے اس کو پشیماں کرو

۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٤٠)

ہے شرمندگی اس کے دل کا علاج
سزا اور ملامت کی کیا احتیاج

بھلائی کرو تو کرو بے غرض
غرض کی بھلائی تو ہے اک مرض

جو محتاج مانگے تو دو تم ادھار
رہو واپسی کے نہ امیدوار

جو تم کو خدا نے دیا ہے تو دو
نہ خست کرو اس میں جو ہوسو ہو

(٣٢) داناؤں کی نصیحت دل سے سنو

راوی نے ہے اس طرح خبر دی
اک شب لگی بندروں کو سردی

سردی نے دیا جو سخت آزار
جویا ہوئے آگ کے وہ ناچار

ہر چار طرف دوا دوش کی
پائی نہ کہیں دوا خلش کی

ناگہہ چمکا جو کرم شب تاب
اخگر اسے جان کر لیا داب

ناچے کودے خوشی سے باہم
تنکے پتے کیئے فراہم

رکھ کر اسے خار وخس کے اندر
پھونکیں لگے مارنے وہ بندر

لیکن ہوا فائدہ نہ کچھ بھی
اٹھا نہ دھواں نہ آگ سلگی

کرتے رہے پھر بھی کام اپنا
چھوڑا نہ خیال خام اپنا

صحرا میں جو اور جانور تھے
وہ تجربہ کار و باخبر تھے

سمجھانے لگے ازروئے شفقت
یوں وقت کو رائیگاں کرو مت

۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 

نایاب

لائبریرین

(٤١)

اس کام سے کیجیئے کنارہ
جگنو کو نہ جانیئے شرارہ

سمجھانے سے وہ مگر نہ سمجھے
جب تک نہ ہوئی سحر نہ سمجھے

یاروں نے کہی تھی بات ڈھب کی
غرا کے انہیں دکھائی بھبکی

ناداں رہے رات بھر اکڑتے
سر مارتے ایڑیاں رگڑتے

جب صبح ہوئی تو شک ہوا دور
شرمندہ ہوئے بہت وہ مغرور

سن لو نہ سنے گا جو نصیحت
ہو گا وہ اسی طرح فضیحت

(٣٣) چھوٹے سے کام کا بڑا نتیجہ

ایک بچہ کہ ابھی کچھ اسے تمیز نہ تھی
لہو و بازی سے پسندیدہ کوئی چیز نہ تھی

کھیلنا ۔ کودنا ۔ کھانا ۔ یہی معمول تھا بس
انہیں طفلانہ تمناؤں میں مشغول تھا بس

ایک تالاب تھا دو چار قدم گھر سے پرے
دل میں لہر آئی لب آب ذرا سیر کرے

صاف پانی سے جو تالاب کو پایا لبریز
کھیل کا شوق طبیعت میں ہوا اور بھی تیز

آس پاس اپنے جو پایا کوئی کنکر پتھر
پھینک مارا اسے پانی میں بہت خوش ہو کر

کھیل تھا پہلے تو اب طرفہ تماشا دیکھا
دل ہی دل میں متحیر تھا کہ یہ کیا دیکھا

دائرہ ایک بنا ایسا کہ بڑھتا ہے محیط
گھیر لی جس نے کہ تالاب کی سب سطع بسیط

پھر تو کھیل اس کا اسی شغل پہ موقوف رہا
اسی نظارہ میں تا دیر وہ مصروف رہا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٤٢)

اسی اثنا می ہوا بچہ کی ماں کا بھی گزر
بولا اماں مجھے آئی ہے عجب چیز نظر

جو نہ دیکھی نہ سنی تھی کبھی اب سے پہلے
شاید آئی ہے نظر مجھکو ہی سب سے پہلے

اک ذرا سی حرکت اور یہ تاثیر عجیب
دائرہ بڑھ کے پہونچتا ہے کنارے کے قریب

بسکہ جی جان سے اس شعبدہ پر تھا شیدا
وسعت دائرہ کی اپنے عمل سے پیدا

تھی وہ ماں اہل دل اور نیک منش نیک نہاد
ہنس کہ فرمایا مری جاں یہ نصیحت رکھ یاد

یو ہیں ہر کام کا ہو جاتا ہے انجام بڑا
گو کہ آغاز میں ہوتا نہیں وہ کام بڑا

کبھی ادنی حرکت زلزال بن جاتی ہے
کبھی ناچیز سی اک بات غضب ڈھاتی ہے

یہ ہی انداز نکوکاری و بدکاری ہے
اولا خاص تھی اب عام میں وہ جاری ہے

(٣٤ ) اونٹ

اونٹ تو ہے بس حلیم و خوش خصال
تربیت میں چھوٹے بچوں کی مثال

تیری پیدائیش رفاہ عام ہے
آدمی کے حق میں اک انعام ہے

کھانے کپڑے کا بھی تجھ پر ہے مدار
تو نے دی ہے اس کو تیزی مستعار

لق و دق سحرا میں یا میدان میں
یا عرب کے گرم ریگستان میں

سایہ افگن ہے نہ واں کوئی چٹان
سرد پانی کا نہ دریا کا نشان

چلچلاتی دھوپ ہے اور چپ ہوا
واں پرندہ بھی نہیں پر مارتا

۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٤٣)

تو وہاں کے مرحلے کرتا ہے طے
دن بدن اور ہفتہ ہفتہ پے بہی پے

قیمتی اشیا ہیں تیری پشت پر
تاجروں کا ریشم اور شاہوں کا زر

تودہ تودہ تیرے اوپر لد رہا
ہے بھرا گویا جہاز پر بہا

چند ہفتے جب کہ جاتے ہیں گزر
اور تھکا دیتا ہے راکب کو سفر

اونٹ ؛ گھبراتا نہیں تو بار سے
دیکھتا ہے اس کی جانب پیار سے

گویا کہتا ہے کہ اے میرے سوار
ایک دن تو اور بھی ہمت نہ ہار

ہاں نہ ہو بیدل نہ رستے میں ٹھٹک
صاف سر چشمہ ہے آگے دھر لپک

مجھ کو آتی ہے ہوا سے بوئے آب
نا امیدی سے نہ کر تو اضطراب

اونٹ ؛ تو کرتا ہے اس کی رہبری
یوں بنا دیتا ہے راکب کو جری

آخرش منزل پہ پہونچاتا ہے تو
اور سوکھے خار و خس کھاتا ہے تو

صبر ساے کرتا ہے طے راہ دراز
سچ کہا ہے تو ہے خشکی کا جہاز

الغرض تو ہے حلیم و خوش خصال
تربیت میں چھوٹے بچوں کی مثال

(٣٥) شیر

اے شیر تیرے تن پہ ہے طاقت کا پوستیں
شاہی کے حق میں کوئی بھی ساجھی ترا نہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٤٤)

پیدا ہے تیرے رخ سے تری شوکت اور جلال
ظاہر ہے تیری شکل سے باطن کا تیرے حال

دل تیرا بزدلی و غلامی سے ہے بری
پھٹکے نہ تیرے پاس کبھی خوف اے جری

تیرا حریف کون ہے جو تو ہٹے بچے
جھپکے نہ تیری آنکھ نہ گردن تیری لچے

حق نے عطا کیا ہے تجھے زور بے خلل
فولاد کی رگیں ہیں تو ہے دل ترا اٹل

گر سورما سجے کوئی میدان کا دھنی
جوشن کہ چار آءینہ یا خود آہنی

حملہ سے تیرے بچنے کو کافی نہ ہو مگر
اللہ رے تیرا حوصلہ بل بے ترا جگر

غرا کہ شیر کرتا ہے جب جوش و خروش
جنگل تمام ہوتا ہے سنسان اور خموش

پہچانتے ہیں جانور آواز شیر کی
وہ ہولناک ہے کہ دہلتا ہے سب کا جی

جاتی ہے ان کے پائوں تلے کی زمین نکل

۔،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔

(٤٥)

ہیں بھاگتے کہ گویا تعاقب میں ہے اجل

اے شیر گرم خطہ ہے تیرے لیئے وطن
بیہڑ ہو ۔ نیستاں ہو ۔ جھاڑی ہو یا ہو بن

لو ہو ۔ کہ گرم دھوپ ہو یا ریگ زار ہو
تینوں غضب ہیں کیوں نہ مسافر شکار ہو

اے شیر تو ہے شاہ ترا تخت ہے کچھار
ہے کس کو تیرے ملک میں دعوی گیرودار

(٣٦) کیڑا

تم اس کیڑے کو دیکھو تو لگاتار
تمہاری راہ میں ہے گرم رفتار

چلا کترا کے کیا کیا پیچ و خم سے
جھجکتا ہے یہ آواز قدم سے

کسی سوراخ میں دن کاٹتا ہے
سویرے اٹھ کے شبنم چاٹتا ہے

کرو چشم حقیقت بین سے تمیئز
کہ سمجھے ہو جسے تم سخت ناچیز

اسے قدرت نے زریں پروئے ہیں
کچھ اک سبزی و سرخی بھی لیئے ہیں

تمہیں لگتی ہے اچھی مور کی دم
کہ خوش ہوتے ہو اس کو دیکھ کر تم

جو دیکھو ناچ اس کا دور ہی سے
تو اس پر لوٹ ہو جاتے ہو جی سے

مگر کیڑے کو بھی سمجھو نہ ہیٹا
یہ مانا خاک مٹی میں ہے لیٹا

نوٹ ۔۔ یہ نظم ١٨٦٧ میں ایک انگریزی پوئٹری سے ترجمہ کی گئی تھی ۔ (١٢)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 

نایاب

لائبریرین
(٤٦)

نہ بے پروائی سے چلئیے جھپٹ کر
قدم رکھئیے ذرا کیڑے سے ہٹ کر

کہ ہے دونو سے دانا دیکھ سکتا
نمونے دو ہیں کاریگر ہے یکتا

ہے دونو ہی میں یکساں دستکاری
کسے ہلکی کہیں اور کس کو بھاری

ہے ان دونوں کو اس کا لطف حاصل
کہ بخشا ہے برابر عیش کامل

اگر ہے خوبصورت مور پیارا
تو کیڑا بے گنہ کیوں جائے مارا

تو ہے ننھی سی جان اس کی تڑپتی
ہے تم جیسا ہی اک جاندار وہ بھی

(٣٧) ایک قانع مفلس ۔۔(١)
سو ہزار ایکڑ ہے کلن کی زمین
ملک میری ایک بھی ایکڑ نہیں

ہے محل اس کا نہایت شان دار
اور ہمارا جھونپڑا ہے تنگ و تار

ان گنت ہے اس کی نقدی و مال
ایک پائی کے لیئے میں پائمال

اس کا رتبہ ہے بڑا عزت بڑی
میرے سر پر خاک ذلت کی پڑی

ہے زمیندار آج کلن واقعی
زر سے پر ہے اس کا دامن واقعی

پر جہاں تک میری جاتی ہے نظر
ملک سب اپنی ہی نظر آتی ہے نظر

(١) یہ نظم بھی ١٨٦٧ عیسوی میں ایک انگریزی پوئٹری سے ترجمہ کی گئی تھی (١٢)

۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٤٧)

لطف جو اس حال میں ہے بالیقین
دولت دنیا میں آدھا بھی نہیں

سست ہے کلن بایں نازونعم
میں ہوں چاق و چست ہر دم تازہ دم

واں امیرانہ ہے مخمل کا لباس
میں ہوں مفلس میری پوشش ہے پلاس

وہ ہے قیدی ۔ پائے بند ملک و مال
اور میں آزاد ہوں مثل خیال

ڈاکٹر واں بیس ہیں بہر علاج
یاں نہیں ہے ایک کی بھی احتیاج

ہے مصیبت مال و دولت میں بڑی
موت کا دھڑکا ہے اس کو ہر گھڑی

لطف قدرت کا نہیں اس کو نصیب
یہ بہار بے خزاں بھی ہے عجیب

یہ بیاباں یہ سمندر یہ ہوا
گونجتی ہے ان میں قدرت کی نوا

کان سے کلن کی لیکن دور ہے ]
وہ تو دولت کے نشہ میں چور ہے

راگنی قدرت کی ہر دم ہے چھڑی
میں تو ہوں اس لے کا دیوانہ سڑی

(٣٨) موت کی گھڑی ۔۔ (١)
جب کہ طوفاں ہو زندگی میں بپا
گھیر لیں ہر طرف سے موج و ہوا

جب کہ لغزش میں پانو تیرا ہو
اور آنکھوں تلے اندھیرا ہو

بلکہ ہوش و حواس بھی ہوں جدا
ڈر نہ زنہار ۔ رکھ نظر بخدا

(١) یہ نظم بھی ١٨٦٧ عیسوی میں انگریزی پوئٹری سے ترجمہ کی گئی تھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٤٨)

تھام دل کو نہ خوف کر نہ ہراس
کہ نگہ باں ہے تیرا تیرے پاس

تھا جو ایام عیش کا ہمدم
ہم پیالہ شریک شادی و غم

لہو و بازی میں ساتھ رہتا تھا
ہر گھڑی نرم و گرم سہتا تھا

آنکھ تجھ سے اگر چرا جائے
ابر غم جب کہ تجھ پہ چھا جائے

اس محبت کا دل میں باندھ خیال
جس کو ہر گز نہیں بیم و زوال

آرزوئیں تھیں وہ جو دل میں بھری
ٹمٹماتے چراغ تھے سحری

کر دے ان وسوسوں کو دل سے دور
اس محبت کو دیکھ جو ہے سرور

ہے شگفتہ ازل سے تا بہ ابد
نہ کبھی خاتمہ نہ اس کی حد

جب عزیز و قریب یار نہ ہوں
دوستداری میں استوار نہ ہوں

یعنی فرزند جیسا لخت جگر
اور ہم خانہ جیسے جاں پرور

گر دم واپسیں جدا ہو جائیں
وقت کے وقت سب ہوا ہو جائیں

کر توقع نہ غم گساری کی
یاد کر گور کی وہ تاریکی

اس وطن کی طرف ہو راہ سپر
کہ محبت جہاں ہے تازہ و تر

آہ جب آئے موت کی نوبت
آنے والی گھڑی ہو پر ہیبت

اور گزرے ہوئے زمانہ پر
ڈالتی آئے پردہ سر تا سر

دل کو رکھ تو امید پر شیدا
ہو نہ حسرت نگاہ سے پیدا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٤٩)

(٣٩) فادر ولیم ۔۔ (١)

نوجواں آدمی نے کی تقریر
اے پدر ولیم اب تو ہو تم پیر

چند موئے سفید ہیں باقی
کہ نمایاں ہے جن میں براقی

لیک ویسے ہی تندرست ہو تم
خوب چاق و دلیر و چست ہو تم

سن کے ولیم نے یوں زبان کھولی
گرہ پرسش نہاں کھولی

تھی جوانی میں یہ نصیحت یاد
کہ ہے عہد شباب صورت باد

اس لیئے طاقت و توانائی
کی نہ ضائع بعہد برنائی

تاکہ انجام کار وقت اخیر
ہوں نہ محتاج ان کا بن کر پیر

بولا پھر وہ جوان نیک شیم
تم تو ہو پیر اے پدر ولیم

اور ناپائدار لطف شباب
ہوتے ہیں کوئی دم کے مثل حباب

مگر ان کا الم نہیں تم کو
حسرت بیش و کم نہیں تم کو

کچھ بیاں کیجیئے گا صاف اس کا
تاکہ ہو مجھ پہ انکشاف اس کا

ولیم پیر نے جواب دیا
کیا پسندیدہ با صواب دیا

میں جوانی میں کہتا تھا ہر بار
کہ یہ دن دیرپا نہیں زنہار

اس لئے تھا خیال آئندہ
سوچتا تھا مال آئندہ

تاکہ پاؤں غم و الم سے اماں
نہ رہے حسرت گزشتہ زماں

نوٹ ۔ یہ نظم بھی ١٨٦٧ عیسوی میں انگریزی پوئٹری سے ترجمہ کی گئی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٥٠)

پھر بھی گویا ہوا جوان لطیف
اے پدر تم تو ہو گئے ہو ضعیف

اور گزرتی ہے زندگانی جلد
چھوڑنی ہے سرائے فانی جلد

ظاہرا کس قدر مسن ہو تم
مگر اس پر بھی مطمئن ہو تم

ہے تمہیں ذوق داستاں اجل
اور پسندیدہ ہے بیان اجل

مدعا یہ ہے کچھ بیاں ہو جائے
راز پوشیدہ تا عیاں ہو جائے

وہ مخاطب ہوا بسوئے جواں
کہ ہے البتہ مجھ کو اطمیناں

کیونکہ ایام نوجوانی میں
موسم عیش و کامرانی میں

میں نے اپنے خدا کو رکھا یاد
نہ کیا اس سے نفس کو آزاد

وہی اب میرا دستگیر ہوا
لطف یزداں عصائے پیر ہوا

(٤٠) حب وطن

دل میں اک چاشنی محبت کی
جملہ جاندار کو خدا نے دی

قلب انسان ہی پہ کیا ہے مدار
کہ ہر اک دل میں ہے اسی کا شرار

ایک اسپین کی جواں طوطی
جو کہ بچپن سے تھی اسیر ہوئی

وہ درخشاں پر خجستہ نوا
ہوئی وارد بملک سرد ملا

اس نے وہ پر شمیم نخلستاں
کہ نکالے تھے پرو بال جہاں

نوٹ ۔ یہ نظم ١٨٦٧ عیسوی میں انگریزی پوءتری سے ترجمہ کی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 
آپ کا ارادہ کچھ ایسا بنانے کا تو نہیں تھا؟ اگر ہاں تو اس علاقے کے ایڈمنز محترم کی پہلی پوسٹ میں خاطر خواہ تدوین کر دیں۔ اور میرا یہ پیغام حذف کر دیں۔

نمبرشمار | مضمون |نمبر صفحہ
مثنویات
١ | صنائع الہی | ١
٢ | خدا کی صنعت |٥
٣ | خطبہ اول |٨
٣ | خطبہ دوم |٩
٤ | تھوڑا تھوڑا بہت ہو جاتا ہے | ١٠
٥ | ایک وقت میں ایک کام کرو | ١٢
٦ | ہوا چلی |١٣
٧ | پن چکی |١٣
٨ | اسلم کی بلی |١٤
٩ | بچہ اور ماں |١٥
١٠ | ماں اور بچہ |١٦
١١ | ایک مور اور کلنگ |١٧
١٢| عجیب چڑیا| ١٨
١٣| ایک لڑکا اور بیر | ١٩
١٤| ایک پودا اور گھاس | ٢٠
١٥| ایک جگنو اور بچہ | ٢١
١٦| ایک گھوڑا اور اس کا سایہ | ٢٢
١٧| ایک کتا اور اس کی پر چھائیں | ٢٣
١٨| ریل گاڑی | ٢٤
١٩ | ہماری گائے | ٢٥
٢٠ | سچ کہو | ٢٦
٢١ | ہمارا کتا ٹیپو | ٢٧
٢٢ | شفق | ٢٨
٢٣ | رات | ٢٩
٢٤ | گرمی کا موسم | ٣٠
٢٥ | برسات | ٣١
٢٦ | ملمع کی انگوٹھی | ٣١
٢٧ | دال کی فریاد| ٣٢
٢٨ | دال چہاتی | ٣٣
٢٩ | دو مکھیاں | ٣٥
٣٠ | آب زلال | ٣٦
٣١ | موعظت | ٣٩
٣٢ | داناؤں کی نصیحت دل سے سنو | ٤٠
 

نایاب

لائبریرین
آپ کا ارادہ کچھ ایسا بنانے کا تو نہیں تھا؟ اگر ہاں تو اس علاقے کے ایڈمنز محترم کی پہلی پوسٹ میں خاطر خواہ تدوین کر دیں۔ اور میرا یہ پیغام حذف کر دیں۔

نمبرشمار | مضمون |نمبر صفحہ
مثنویات
١ | صنائع الہی | ١
٢ | خدا کی صنعت |٥
٣ | خطبہ اول |٨
٣ | خطبہ دوم |٩
٤ | تھوڑا تھوڑا بہت ہو جاتا ہے | ١٠
٥ | ایک وقت میں ایک کام کرو | ١٢
٦ | ہوا چلی |١٣
٧ | پن چکی |١٣
٨ | اسلم کی بلی |١٤
٩ | بچہ اور ماں |١٥
١٠ | ماں اور بچہ |١٦
١١ | ایک مور اور کلنگ |١٧
١٢| عجیب چڑیا| ١٨
١٣| ایک لڑکا اور بیر | ١٩
١٤| ایک پودا اور گھاس | ٢٠
١٥| ایک جگنو اور بچہ | ٢١
١٦| ایک گھوڑا اور اس کا سایہ | ٢٢
١٧| ایک کتا اور اس کی پر چھائیں | ٢٣
١٨| ریل گاڑی | ٢٤
١٩ | ہماری گائے | ٢٥
٢٠ | سچ کہو | ٢٦
٢١ | ہمارا کتا ٹیپو | ٢٧
٢٢ | شفق | ٢٨
٢٣ | رات | ٢٩
٢٤ | گرمی کا موسم | ٣٠
٢٥ | برسات | ٣١
٢٦ | ملمع کی انگوٹھی | ٣١
٢٧ | دال کی فریاد| ٣٢
٢٨ | دال چہاتی | ٣٣
٢٩ | دو مکھیاں | ٣٥
٣٠ | آب زلال | ٣٦
٣١ | موعظت | ٣٩
٣٢ | داناؤں کی نصیحت دل سے سنو | ٤٠

السلام علیکم
محترم ابن سعید جی
توجہ سے نوازنے کا شکریہ
پہلے ایسے ہی فہرست بنائی تھی ٹیبل کے ساتھ
لیکن محترم الف عین جی نے آگاہی دی کہ یہ ٹیبل صرف محفل پر کارآمد ہے اس لیے حذف کر دیا ۔
اللہ تعالی بہت سی رحمتوں سے نوازے آپ کو آمین
نایاب
 

نایاب

لائبریرین


(٥١)

اور وہ ملک و میوہ ہائے وطن
آسمان وطن ہوائے وطن

سب فراموش کر دئے ناچار
تھا یہاں اور رنگ لیل و نہار

تیرہ و تار وادی پر دود
ساحت آسمان بخار آلود

اور بسیط زمین پر از خاشاک
قلہ کوہ و موج دہشت ناک

یاں کے القصہ دیکھکر یہ ساز
چشم زریں سے تھی نظرانداز

اس دیار غریب میں آ کر
سرد خطہ میں پرورش پا کر

رہی شکر شکن و خوش گفتار
باعث طول عمر آخر کار

اس کے زریں زمردیں پر و بال
بھورے بھورے سے ہو گئے فی الحال

عاقبت ایسی صم و بکم بنی
چہچہے وہ نہ وہ شکر شکنی

اسی اثنا میں ایک مرد غریب
آیا اسپین سے ملا کے قریب

اس نے طوطی سے جا کلام کیا
حرف اسپین میں سلام کیا

دیا اس نے اسی زباں میں جواب
اور کنج قفس میں ہو بیتاب

کیا ہی مسرور چہچہا کے ہوئی
آخر آخر پھڑک پھڑک کے موئی

(٤١) انسان کی خام خیالی ۔ (١)
اے دیدہ و وران دانش آثار
دنیا میں ہیں کیسے کیسے جاندار

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٥٢)

ہاتھی چیونٹی عقاب مکھی
قدرت نے ہے سب میں بات رکھی

ایسا تو بتاؤ کوئی حیوان
جیسا نادان ہے یہ انساں

ہر ایک ہے اپنی راہ چلتا
جس راہ سے ہے مدعا نکلتا

آرام و خورش جو چاہتے ہیں
قدرت کی روش نباہتے ہیں

جس چیز سے ہے گزند ان کو
آتی ہی نہیں پسند ان کو

انساں ہے اگرچہ سب پہ فائق
مشہور ہے اشرف الخلائق

اڑتا ہے مگر اسی کا خاکا
پتلا ہے یہ سہو اور خطا کا

ممکن ہی نہیں خیال پرواز
کرنے لگے بیل صورت باز

یا چھوڑ کے عرصہ چراگاہ
غواص ہو مچھلیوں کے ہمراہ

انسان بخلاف حکم قدرت
کرتا ہے خیال ترک فطرت

ہو دل کو خوشی نہیں یہ ممکن
جب تک کہ نہ ہو صفاے باطن

یا نفس کہ تابع خرد ہو
حاصل تب راحت ابد ہو

یا وہ دل صاف اور فیاض
ہو خودغرضی سے جس کو اعراض

یا صبر کہ خندہ زن ہو اکثر
مجبوری بخت نا رسا پر

شاکر قسمت ہی پر رہے وہ
قدرت کو الاہنا نہ دے وہ

یا عقل کہ ہو سلیم و یک سو
اندوہ سے ہو نہ چیں بابرو

۔،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٥٣)

یہ رمز کہ ہو چکے ہویدا
ہے اصل خوشی انہیں میں پیدا

جو لوگ ہیں عقل سے گزرتے
بیہودہ خوشی پہ ہیں وہ مرتے

گر ہووے خلاف اس کے مضمون
باطل ہیں دلائل افلاطون

(٤٢) کوہ ہمالہ

ہے ہمالہ پہاڑ سر جیون
جس کے اوپر تلے کھڑا ہے بن

بیل بوٹوں سے بن رہا ہے چمن
سبز چوٹی ہرے بھرے دامن

ہے ہر اک ڈھانگ اس کی پھلواری
سرد چشمے ادھر ادھر جاری

لالہ خودرو ہے اور اس کے پاس
لہلہاتی ہے خوبصورت گھاس

سیکڑوں قسم کے ہیں پھول کھلے
پیڑ باہم کھڑے ہوئے ہیں ملے

کہیں بن مالنا کہیں بیلا
کہیں اخروٹ اور کہیں کیلا

سال کا کیا ہی خوب جنگل ہے
سورماؤں کا بن کے دنگل ہے

سرو و شمشاد ہیں قطار قطار
ریچھ پھرتے ہیں بن کے چوکیدار

ہیں چٹانوں پہ کودتے لنگور
ایک ہی جست میں وہ پہونچے دور

ہیں ترائی میں ہاتھیوں کے غول
کوئی پائل ہے اور کوئی بخھول

شیر خونخوار شاہ ہے یاں کا
پاڑھے چیتل کو خوف ہے جاں کا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٥٤)

بارہ سنگے غریب پر ہے لتاڑ
سینگ ہیں اس کے جھاڑ اور جھنکاڑ

وہ جو ہے ہند کا بڑا ساگر
واں سے چلتا ہے ابر کا لشکر

کوچ در کوچ روز بڑھتا ہے
پھر ہمالہ پہ آ کے چڑھتا ہے

کبھی دیتا ہے باندھ مینہ کا تار
کبھی کرتا ہے برف کی بھر مار

جا چڑھا یوں پہاڑ پر پانی
کی ہے قدرت نے کیا ہی آسانی

واں سے چشمے بہت ابل نکلے
ندی نالے ہزار چل نکلے

سندھ و ستلج ہیں مغربی دریا
اور پورب میں میگھنا گنگا

ہیں یہ دریا بہت بڑے چاروں
جن میں بہتا ہے پانی الغاروں

پس سمندر سے جو رسد آئی
یوں ہمالہ نے بانٹ کر کھائی

ہوا سرسبز ہند کا میداں
تیری حکمت کے اے خدا قرباں

ہند کی سر زمیں ہے ان ماتا
اور ہمالہ پہاڑ جل داتا

اے ہمالہ پہاڑ ؛ تیری شان
دنگ رہ جائے دیکھکر انسان

ساری دنیا میں ہے تو ہی بالا
پہونچے جب پاس دیکھنے والا

سامنے اک سیاہ دل بادل
دیو کی طرح سے کھڑا ہے اٹل

گھاٹیاں جن میں گونجتی ہے صدا
آبشاروں کا شور ہے برپا

دبدبہ اپنا تو دکھاتا ہے
گویا میدان کو ڈراتا ہے

ہے میرے دل میں یہ خیال آتا
کاش چوٹی پہ تیرے چڑھ جاتا

۔۔۔،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٥٥)

واں سے نیچے کا دیکھتا میداں
جس میں گنگ و جمن ہیں تیز رواں

دو لکیریں سی وہ نظر آتیں
دائیں بائیں کو صاف لہراتیں

اس تماشے سے جب کہ جی بھرتا
تو شمالی طرف نظر کرتا

شام کو دیکھتا بہار بڑی
گویا سونے کی ہے فصیل کھڑی

پھر وطن میں جب آن کر رہتا
دوستوں سے یہ ماجرا کہتا

(٤٣) بارش کا پہلا قطرہ
گھنگھور گھٹا تلی کھڑی تھی
پر بوند ابھی نہیں پڑی تھی

ہر قطرہ کے دل میں تھا یہ خطرہ
ناچیز ہوں میں غریب قطرہ

تر مجھ سے کسی کا لب نہ ہو گا
میں اور کی گوں نہ آپ جوگا

کیا کھیت کی میں بجھاؤں گا پیاس
اپنا ہی کروں گا ستیا ناس

آتی ہے برسنے سے مجھے شرم
مٹی پتھر تمام ہیں گرم

خالی ہاتھوں سے کیا سخاوت
پھیکی باتوں میں کیا حلاوت

کس برتے پہ میں کروں دلیری
میں کون ہوں کیا بساط میری

ہر قطرہ کے دل میں تھا یہی غم
سرگوشیاں ہو رہی تھیں باہم

کھچڑی سی گھٹا میں پک رہی تھی
کچھ کچھ بجلی چمک رہی تھی

۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 

نایاب

لائبریرین
(٥٦)

اک قطرہ تھا کہ بڑا دلاور
ہمت کے محیط کا شناور

فیاض و جواد و نیک نیت
بھڑکی اس کی رگ حمیت

بولا للکار کر کہ آؤ
میرے پیچھے قدم بڑھاؤ

کر گزرو جو ہو سکے کچھ احسان
ڈالو مردہ زمین میں کچھ جان

یارو ؛ یہ ہچر مچر کہاں تک
اپنی سی کرو بنے جہاں تک

مل کر جو کرو گے جانفشانی
میدان پہ پھیر دو گے پانی

کہتا ہوں یہ سب سے برملا میں
آتے ہو تو آؤ لو چلا میں

یہ کہہ کے وہ ہو گیا روانہ
“ دشوار ہے جی پہ کھیل جانا “

ہر چند کہ تھا وہ بے بضاعت
کی اس نے مگر بڑی شجاعت

دیکھی جرات جو اس سخی کی
دوچار نے اور پیروی کی

پھر ایک کے بعد ایک لپکا
قطرہ قطرہ زمین پہ ٹپکا

آخر قطروں کا بندھ گیا تار
بارش لگی ہونے موسلادھار

پانی پانی ہوا بیاباں
سیراب ہوئے چمن خیاباں

تھی قحط سے پائمال خلقت
اس مینہ سے ہوئی نہال خلقت

جرات قطرہ کی کر گئی کام
باقی ہے جہاں میں آج تک نام

اے صاحبو قوم کی خبر لو
قطروں کا سا اتفاق کر لو

قطروں ہی سے ہو گی نہر جاری
چل نکلیں گی کشتیاں تمہاری

۔،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔

(٥٧)

(٤٤) مثنوی باد مراد
چل اے باد بہاری سمت گلزار
تمنائی ہے تیرا ہر گل و خار

نہال و نخل و سبزہ سب ہیں سنساں
گیاہ مردہ میں تو ڈالدے جان

نہیں گلشن میں پتے کا بھی کھڑکا
ذرا شاخیں ہلا ۔ طائر کو بھڑکا

لہک تیزی سے اے باد بہاری
کہ ہو جائے چمن پر وجد طاری

جو تو لہکے تو سبزہ لہلہائے
چمن کا بیل بوٹا سر ہلائے

لچک جائے کمر نازک شجر کی
زمیں پہ جھک پڑے ڈالی ثمر کی

ٹپک جائے جو ہو پکا ہوا پھل
کہ شاخیں ہورہی ہیں سخت بوجھل

سنا ۔ باد صبا ؛ کیا کیا خبر ہے
قلمرو میں تیری کل بحر و بر ہے

ذرا کر دامن صحرا میں راحت
بہت کی تو نے دریا کی سیاحت

بس اب آرام کر لوگوں کے گھر میں
رہی تا دیر تو سیر و سفر میں

تیرے ہمرہ چلے آتے ہیں پیہم
یہی ہیں کیا سفیر بحر اعظم

جلو میں ہے تیرے اک فوج جرار
تو ہی ہے ابر کے لشکر کی سردار

اٹھایا ہے سمندر تو نے سر پر
گھٹا کو لاد کر لائی کمر پر

تیری تیزی سے ہیں بادل لپکتے
تیرے جھونکوں سے ہیں قطرے ٹپکتے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٥٨)

غزل

چمن ہے ابر ہے ٹھنڈی ہوا ہے
ہجوم طائران خوش نوا ہے

کبھی جھونکا نکل جاتا ہے سن سے
کبھی آہستہ رو موج صبا ہے

غبار و گرد سے جو اٹ گئی تھی
صبا نے غسل کا سامان کیا ہے

ہوا نے کیا ہوا باندھی چمن میں
کہ خوبان چمن کا سر ہلا ہے

چمن کا پتہ پتہ ہے نوا سنج
صبا کی آمد آمد جا بجا ہے

گلوں کی ڈالیاں جھک جھک گئی ہیں
زمین پر سبزہ کیسا لوٹتا ہے

کھلی ہر پنکھڑی گلہائے تر کی
صبا نے کان میں کیا کہدیا ہے

بکھیری نسترن پر زلف سنبل
صبا شوخی میں فتنہ ہے بلا ہے

گیاہ سبز کا طرہ پریشان
صبا تیرے ہی چھیڑے سے ہوا ہے

نہیں ہے مجھ کو دعوی شاعری کا
تو پھر مقطع سے بھی کیا مدعا ہے

کر اے باد مراد آہنگ آفاق
جہاز سست رو ہے تیرا مشتاق

پھریرے کو اڑا کس بادباں کو
کہ دیکھیں ساحل ہندوستاں کو

خلیج و آبنائے و بحر و ساحل
تیرے دیکھے پڑے ہیں سب مراحل

مقام استوا سے تا بہ قطبین
تجھے جنبش نہیں دیتی کبھی چین

بہت کھوندے ہیں کوہ و دشت تو نے
کیا بحرین کا گلگشت تو نے

۔۔،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٥٩)

محیط ارض ہے تو اے سبک پا
تیری موجیں رواں ہیں مثل دریا

لطیف و نازک و بے رنگ ہے تو
اصول نغمہ و آہنگ ہے تو

رواں ہے تیری موجوں میں ہر آواز
تو ہی کانوں میں ہے ہنگامہ پرواز

جہاں میں تو رسول ہر ندا ہے
مذاق سامعہ تجھ پر فدا ہے

نہ پہونچے تو اگر تا پردہ گوش
سب آوازیں رہیں پردہ میں روپوش

وہ بہرا ہے جو تجھ سے بے اثر ہے
وہ سنتا ہے جو تجھ سے بہرہ ور ہے

زبان کو نطق کا یارا ہے تجھ سے
جہاں میں شور و شر سارا ہے تجھ سے

حجاب دیدہ بینا نہیں تو
نگہ سے گرچہ ہے پردہ نشین تو

تیرے کھانے سے دم لیتی ہے خلقت
تیرے کھانے پہ دم دیتی ہے خلقت

ہمیں تیری ضرورت ہے بہر طور
نہیں ایسی ضروری شے کوئی اور

اگر اک لمحہ گزرے ہم پہ تجھ بن
تو ہو جائے تنفس غیر ممکن

ہر تیرا شغل دائم پاس انفاس
نہیں ہے ورنہ تجھ بن زیست کی آس

تو ہی ہے اے نسیم صبح گاہی
مثال رحمت عام الہی

جہاں میں ہیں تیرے الطاف حاوی
غریبوں اور امیروں پر مساوی

کبھی بنتی ہے ایسی تند و پر شور
معاذ اللہ ؛ معاذ اللہ ؛ ترا زور

اگر تو خشمگیں اے تند خو ہو
تہ و بالا جہاز جنگ جو ہو

کبھی دریا میں لے جائے بہا کر
کبھی ساحل پہ دے پٹکے اٹھا کر

۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٦٠)

اڑاتی ہے اسے تو راہ بے راہ
جہاز آگے ترے مثل پر کاہ

معاذ اللہ ترا طوفان غضب ہے
تیری تیزی نشان قہر رب ہے

اجاڑا تو نے گلزار و چمن کو
ہلا ڈالا جنگل اور بن کو

یہ چھیڑا نے میں کیسا راگ تو نے
نیستاں میں لگا دی آگ تو نے

تیری رفتار ہے بے باک کیسی
اڑاتی ہے زمین کی خاک کیسی

یہ گل کترے ہیں تو نے بے تامل
کیا اک دم زدن میں شمع کو گل

کبھی گرمی سے گرما گرم ہے تو
کبھی سردی سے سرد و نرم ہے تو

چرا لیتی ہے تو پانی کو چپ چاپ
نظر آتا نہیں جب بن گیا بھاپ

برودت کی پولیس نے تجھ کو گھیرا
تو کچھ کچھ مال مسروقہ بھی پھیرا

جو بادی چور تو ایسی نہ ہوتی
نہ پاتے صبح کو شبنم کے موتی

دبائیں تو نہیں دبنےسے انکار
تیری عادت نہیں ضد و اصرار

خوشامد تیری خصلت میں نہیں ہے
تیری تیزی برابر ہر کہیں ہے

اجاڑا اگر کسی مفلس کا چھپر
اکھاڑا خیمہ و خر گاہ لشکر

نہ در گزرے غریبوں کے مکاں سے
نہ جھجکے طرہ تاج شہاں سے

نہیں کچھ تجہ کو خوف شان سلطاں
اڑایا پردہ ایوان سلطاں

کسی کا طرہ طرار چھیڑا
کسی کا برقع زر تار چھیڑا

غرض دلچسپ تیری ہر ادا ہے
تیری شوخی و چالاکی بجا ہے

۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 

نایاب

لائبریرین
(61)

(٤٥) ایک گنوار اور قوس قزح

تھی شام قریب اور دہقاں
میدان میں تھا گلہ کا نگہباں

دیکھی اس نے کمان ناگاہ
جو کرتی ہے مینہ سے ہم کو آگاہ

رنگت میں اس کو عجیب پایا
ظاہر میں بہت قریب پایا

پہلے سے وہ سن چکا تھا اکثر
ہے قوس میں اک پیالہ زر

مشہور بہت ہے یہ کہانی
افسانہ تراش کی زبانی

ملتی ہے جہاں کماں زمیں سے
ملتا ہے وہ جام زر وہیں سے

سوچا لو جام اور بنو جم
چھوڑو بز و گوسفند کا غم

بیہودہ گنوار اس گماں پر
سیدھا گیا تیر سا کماں پر

دن گھٹنے لگا قدم بڑھایا
امید کہ اب خزانہ پایا

جتنی کوشش زیادہ تر کی
اتنی ہی کمان پرے کو سرکی

پنہاں ہوئی قوس آخر کار
اور ظلمت شب ہوئی نمودار

ناکام پھرا وہ سادہ دہقاں
حسرت زدہ غم زدہ پشیماں

۔۔۔،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٦٢)

(٤٦) ترک تکبر

بلندی سے چلا سیلاب پرزور
پہاڑی گھاٹیوں میں مچ گیا شور

ہوا اس تیزی و تندی سے جاری
کہ تھی سنگ گراں پر ہول طاری

شجر تو کیا اٹھاتے اس کی ٹکر
بہم ٹکرا دیے پتھر سے پتھر

غرض ڈھایا بہایا اور توڑا
پڑا جو سامنے اس کو نہ چھوڑا

اسی زمرہ میں اک لکڑی بھی بہتی
چلی جاتی تھی اور یوں دل میں کہتی

“ میں راہ رسم منزل سے ہوں آگاہ
یہ سارا قافلہ ہے میرے ہمراہ

اشاروں پہ میرے چلتا ہے پانی
ہے میرے بس میں دریا کی روانی

مرے دم سے رواں یہ کارواں ہے
مرا تابع ہے جو کوئی یہاں ہے “

قضا را موج نے پلٹا جو کھایا
تو اک پتھر نے لکڑی کو دبایا

کہا لکڑی نے او گستاخ مغرور
مرے دامن سے اپنا ہاتھ رکھ دور

کہ میں ہے بدرقہ ہوں رہنما ہوں
امیر بحر ہوں اور ناخدا ہوں

مجھے او بے ادب کیوں تو نے چھیڑا
جو میں ڈوبی تو بس ڈوبا یہ بیڑا

رکوں گی میں تو رک جائے گا دریا
کڑھے گا اور پچھتائے گا دریا

کہا پتھر نے ساحل سے احوال
کہ ہے ہم سب میں وہ پیر کہن سال

۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٦٣)

کہی لکڑی نے ساحل سے وہی بات
تو ساحل نے صدا یوں دی ہیہات ؛

ہزاروں مدعی آگے بھی آئے
بہت جوش و خروش اپنے دکھائے

گیا سالم نہ کوئی اس بھنور سے
یہی دیکھا کیا عمر بھر سے

ہوئے یہاں غرق لاکھوں تجھ سے فرعون
نہ پوچھا کسی نے یہ کہ تھے کون

مگر دریا کی باقی ہے وہی آن
وہی رونق ؛ وہی عظمت ؛ وہی شان

نہیں دریا کی مواجی میں کچھ فرق
اسے کیا غم ترے کوئی کہ ہو غرق

(٤٧) حیا

او حیا ؛ او پاسبان آبرو
نیکیوں کی قوت بازو ہے تو

پاکدامانی پہ تجھ کو ناز ہے
کیا ہی تیرا دل پذیر انداز ہے

کھب گئی جس آنکھ میں تو مثل نور
بد نگاہی سے رہی وہ آنکھ دور

دامن عصمت کو تو رکھتی ہے پاک
ہے سدا جرم و گنہ سے تجھ کو باک

گر نہ ہوتا درمیاں تیرا حجاب
فعل بد سے کون کرتا اجتناب

خواہشوں کو جو نہ تو دیتی لگام
آدمی حیوان بن جاتے تمام

جب خطا کرتی ہے دل میں شورو شر
تو ہی بن جاتی ہے واں سینہ سپر

ذلت و خواری تجھے بھاتی نہیں
تاب رسوائی کی تو لاتی نہیں

۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٦٤)

تو مذلت کو سمجھتی زہر ہے
اور ملامت تیرے حق میں قہر ہے

مفلسوں کی ہے تو ہی پشت و پناہ
تو سجھاتی ہے عرق ریزی کی راہ

گو تہی دستی کے ہو جائیں شکار
ہے مگر تجھ کو گدائی ننگ و عار

ہے ترے نزدیک مر جانا پسند
پر نہیں ہے ہاتھ پھیلانا پسند

اس قدر تجھ کو نہیں پروائے نان
جس قدر تو آن پر دیتی ہے جان

آبرو کھوتی نہیں از بہر قوت
لب پہ بن جاتی ہے تو مہر سکوت

اغنیا کے دل کو گرماتی ہے تو
بخل و خست سے شرماتی ہے تو

تو سکھا دیتی ہے ان کو بذل مال
زخم خنجر ہے تجھے رد سوال

(٤٨) کچھوا اور خرگوش


ایک کچھوے کے آگئی جی میں
کیجیے سیر و گشت خشکی میں

جا رہا تھا چلا ہوا خاموش
اس سے ناحق الجھ پڑا خرگوش

میاں کچھوے ؛ تمہاری چال ہے یہ
یا کوئی شامت اور وبال ہے یہ

یوں قدم پھونک پھونک دھرتے ہو
گویا اتو زمیں پہ کرتے ہو

کیوں ہوئے چل کے مفت میں بدنام
بے چلے کیا اٹک رہا تھا کام

تم کو یہ حوصلہ نہ کرنا تھا
چلو پانی میں ڈوب مرنا تھا

۔۔۔۔،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٦٥)

یہ تن و توش اور یہ رفتار
ایسی رفتار پر خدا کی مار

بولا کچھوا کہ ہوں خفا نہ حضور
میں تو ہوں آپ معترف بہ قصور

اگر آہستگی ہے جرم و گناہ
تو میں خود اپنے جرم کا ہوں گواہ

مجھ کو جو سخت سست فرمایا
آپ نے سب درست فرمایا

مجھ کو غافل مگر نہ جانئے گا
بندہ پرور برا نہ مانئے گا

یوں زبانی جواب دوں تو کیا دوں
شرط بد کر چلو تو دکھلا دوں

تم تو ہو آفتاب میں ذرہ
پر مٹا دوں گا آپ کا غرہ

سن کے خرگوش نے یہ تلخ جواب
کہا کچھوے سے یوں زروے عتاب

تو کرے میری ہمسری کا خیال
تیری یہ تاب یہ سکت یہ مجال

چیونٹی کے جو پر نکل آئے
تو یقین ہے کہ اب اجل آئے

ارے بیباک ؛ بد زباں منہ پھٹ
تو نے دیکھی کہاں ہے دوڑ جھپٹ

جب میں تیزی سے جست کرتا ہوں
شہسواروں کو پست کرتا ہوں

گرد کو میری باد پا نہ لگے
لاکھ دوڑے میرا پتہ نہ لگے

ریل ہوں برق ہوں چھلاوہ ہوں
میں چھلاوے کا بلکہ باوا ہوں

تیری میری نبھیگی صحبت کیا
آسمان کو زمیں سے نسبت کیا

جس نے بھگتے ہوں ترکی و تازی
ایسے مریل سے کیا بدے بازی

بات کو اب زیادہ کیا دوں طول
خیر کرتا ہوں تیری شرط قبول

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 

نایاب

لائبریرین


(٦٦)

ہے مناسب کہ امتحاں ہو جائے
تاکہ عیب و ہنر عیاں ہو جائے

الغرض اک مقام ٹھیرا کر
ہوئے دونوں حریف گرم سفر

بسکہ زوروں پہ تھا چڑھا خرگوش
تیزی پھرتی سے یوں بڑھا خرگوش

جس طرح جائے توپ کا گولا
یا گرے آسمان سے اولا

ایک دو کھیت چوکڑی بھر کے
اپنی چستی پہ آفریں کر کے

کسی گوشہ میں سو گیا جا کر
؛ فکر کیا ہے چلیں گے سستا کر ؛

اور کچھوا غریب آہستہ
چلا سینہ کو خاک پر گھستا

سوئی گھنٹے کی جیسے چلتی ہے
یا بتدریج چھاؤں ڈھلتی ہے

یوں ہی چلتا رہا بہ استقلال
نہ کیا کچھ ادھر ادھر کا خیال

کام کرتا رہا جو پے در پے
کر گیا رفتہ رفتہ منزل طے

حیف ؛ خرگوش رہ گیا سوتا
ثمرہ غفلت کا اور کیا ہوتا

جب کھلی آنکھ تو سویرا تھا
سخت شرمندگی نے گھیرا تھا

صبر و محنت میں ہے سرافرازی
سست کچھوے نے جیت لی بازی

نہیں قصہ یہ دل لگی کے لئے
بلکہ عبرت ہے آدمی کے لئے

ہے سخن اس حجاب میں روپوش
ورنہ کچھوا کہاں کہاں خرگوش
۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٦٧)

(٤٩) مناقشہ ہوا و آفتاب

باد صحرا نے کہا یوں اک روز
مہر تاباں سے کہ اے گیتی فروز

تو ہے علوی اور میں سفلی مگر
زور بازو میں ہوں میں تجھ سے زبر

نیراعظم نے فرمایا کہ ہاں
ہو اگر ثابت زروئے امتحاں

ورنہ ہے پادر ہوا یہ قال و قیل
ہیچ ہے دعوی نہ ہو جب تک دلیل

بولی جو یوں ہے تو اچھا یوں سہی
ہاتھ کنگن کے لئے کیا آرسی

آئیے زور آزمائی کیجئے
اس بکھیڑے کی صفائی کیجئے

اک مسافر اپنی دھن میں تھا رواں
اس کو ان دونوں نے تاکا نا گہاں

ہو گئے آپس میں طے قول و قرار
جو لبادہ لے مسافر کا اتار

بس اسی کے نام کا ڈنکا بجے
سر پہ دستار فضیلت وہ سجے

پھر تو آندھی بن کر چل نکلی ہوا
ایسی بپھری کر دیا طوفان بپا

اونچے اونچے پیڑ تھرانے لگے
جھوک سے جھوکوں کی چرانے لگے

نونہالوں کی کمر بل کھا گئی
پھول پتوں پر قیامت آ گئی

کانپ اٹھے اس دشت کے کل وحش و طیر
مانگتے تھے اپنے اپنے دم کی خیر

ہو گیا دامان صحرا گرد برد
گھر گیا آفت میں وہ صحرا نورد

چاہتی تھی لوں لبادہ کو اچک
مدعی کو دوں سر میدان زک

۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،،،،۔÷۔۔۔۔۔۔

(٦٨)

جب ہوا لیتی تھی چکر میں لپیٹ
بیٹھ جاتا تھا وہ دامن کو سمیٹ

سینہ زوری سے نہ چوری سے ڈری
کرسکی لیکن نہ کچھ غارت گری

باندھ لی کس کر مسافر نے کمر
تا ہوا کا ہو نہ کپڑوں میں گزر

تھک گئی آخر نہ اس کا بس چلا
ٹل گئی سر سے مسافر کے بلا

اب تھما جھکڑ تو نکلا آفتاب
روئے نورانی سے سرکائی نقاب

تمکنت چہرے سے اس کے آشکار
چال میں ایک بردباری اور وقار

وہ ہوا کی سی نہ تھی دھوم دھام
کر رہا تھا چپکے چپکے اپنا کام

دھیمی دھیمی کرنیں چمکانے لگا
رفتہ رفتہ سب کو گرمانے لگا

اس مسافر کو پسینا آگیا
کھول ڈالے بند جی گھبرا گیا

اور آگے کو بڑھا تو دھوپ سے
تن بدن میں کچھ پتنگے سے لگے

اب لبادہ کو لیا کاندھے پہ ڈال
بدلی یوں نوبت بہ نوبت چال ڈھال

جب چڑھا خورشید سمت الراس پر
بیٹھ کر سایہ میں پھر تو گھاس پر

دور پھینکا اس لبادہ کو اتار
واہ رے سورج ؛ لیا میدان مار

تیزی و تندی کے گرویدہ ہیں سب
کامیابی کا مگر ہے اور ڈھب

اس کا گر ہے نرمی و آہستگی
سرکشی کی رگ اسی سے ہے دبی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٦٩)

(٥٠) ناقدردانی
کہیں اک لعل کیچڑ میں پڑا تھا
نہ قامت بلکہ قیمت میں بڑا تھا

کوئی دہقاں اٹھا کر لے گیا گھر
وہ کیا جانے یہ پتھر ہے کہ جوہر

نیا تحفہ جو بچے کو دکھایا
؛ ہا ہا ہا ؛ کھلونا ہم نے پایا

ہوئی جب لعل کی واں یہ مدارات
تو بولا حسرتا ہیہات ہیہات

نہیں اس گھر میں میری قدر ممکن
کہ اندھوں کے لئے کیا رات کیا دن

اگر پاتا مجھے کوئی نظر باز
تو کرتا اپنی قسمت پر وہ سو ناز

جو لے جاتا مجھے تا درگہ شاہ
تو مالا مال ہوتا حسب دلخواہ

اری ناقدردانی تجھ پے لعنت
کہ ہے تجھ کو مساوی نوروظلمت

سمجھ لیتی ہے عیبوں کو ہنر تو
ہنر کی توڑ دیتی ہے کمر تو

خدا محفوظ رکھے ہر بلا سے
خصوصا تیری نالائق جفا سے

کہ ہے اندھے کی لاٹھی تیری بیداد
جہاں میں داد ہے جس کی نہ فریاد

(٥١) جنگ روم و روس ۔ (١)

حلات روم سے ہمیں دن رات کام ہے
اخبار کا ورق نہیں خوان طعام ہے

(١) یہ مثنوی یکم شوال ١٣٩٤ ہجری مطابق ١٩ اکتوبر ١٨٧٧ عیسوی میں لکھی گئی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٧٠)

کیسے خیال جنگ میں روزے گزر گئے
معلوم بھی نہیں کدھر آئے کدھر گئے

سوجھا نہ اور کچھ ہمیں اس بھوک پیاس میں
دن کاٹتے رہے انہیں خبروں کی آس میں

روزہ خبر بغیر ہمیں بار ہو گیا
آیا جو تار فتح تو افطار ہو گیا

چھٹکی ہوئی ہے چاندنی اور صاف آسماں
چپ چاپ ہے زمین تو سنسان ہے جہاں

پتا بھی دیکھئے تو کھڑکتا نہیں کوئی
طائر بھی آشیاں میں پھڑکتا نہیں کوئی

خلق خدا پڑی ہوئی سوتی ہے بے خبر
بجنے لگا ہے اتنے میں نقارہ سحر

اس وقت جاگتے ہیں تو آتا ہے یہ خیال
اے ماہ کیا ہے خطہ بلگیریا کا حال

کیا اب بھی گونجتا ہے وہ میدان توپ سے
آتش فشاں ہے لشکر عثمان توپ سے

بلقان کے دروں میں سلیمان صف شکن
کیا اب بھی ہے غنیم کے لشکر میں شعلہ زن

کیا خیمہ زن ہوئی ہے محمد علی کی فوج
یا خبترہ کی سمت رواں ہے مثال موج

بیکر کے شہسوار ہیں کس داروگیر میں
کیا غلغلہ ہے کوچ کا ترکی بیر میں

کیا اب بھی ترکتا زمین ترکی سوار ہیں
جن غازیوں کے تیغ سے روسی فگار ہیں

کیا کر رہی ہے احمد مختار کی سپاہ
فیروزمند غازی جرار کی سپاہ

اے ماہ نور بار سفر میں ہے تو مدادم
حالات جنگ کے تجھے معلوم ہیں تمام

تو جا کے معرکہ میں چمکتا ہے رات بھر
اور سیر دیکھنے کو ٹھٹھکتا ہے رات بھر

کرتے تھے اس طرح سے خیالی خطاب ہم
جب دیکھتے تھے لطف شب ماہ تاب ہم

۔۔۔،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 

نایاب

لائبریرین


(٧١)

لیکن ہجوم اب تو ہے ابر بہار کا
ہے آسمان نمونہ صف کارزار کا

بجلی کے کوندنے میں ہے شمشیر کی ادا
اور بادلوں کی گھور گرج توپ کی صدا

یوں ابر جھوم جھوم کے آتا ہے بار بار
شیکا پے جیسے حملہ ترکان ذی وقار

بد دل ہے فوج روس تو ہو اور بھی خراب
عثمانیوں کے دبدبہ ہو جائے کامیاب

ہے یہ دعائے شام یہ ہی نالہ سحر
ہوں ترک فتحیاب خدا یا بکروفر

عثمان پر جو لشکر روسی کا ہے ہجوم
ابر سیہ کی طرح سے آتا ہے جھوم جھوم

خودزار بھی گیا ہے کمال غرور سے
اور فوج جمع کی ہے بہت دور دور سے

عثمان یا خدا انہیں زیر و زبر کرے
سیلاب خون روس سے مٹی کو تر کرے

ترکوں کو ایسی شوکت و شان و جلال دے
جو زلزلہ غنیم کے لشکر میں ڈال دے

مشرق کی سمت سے ہو سلیمان گرم کار
افواج زار وچ کو دکھا وے رہ فرار

بلگیریا میں ختم ہو ہنگامہ جنگ کا
رومانیہ نشانہ ہو ترکی تفنگ کا

دم بند روسیوں کا ہو صمصام ترک سے
بھاگے سپاہ روس فقط نام ترک سے

محمود روز عید ہے دل سے دعا کرو
حامد یہ التجا بحضور خدا کرو

ترکی سپاہ میں علم فتح ہو بلند
پہونچے سپاہ زار کو آزار اور گزند

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٧٢)

(٥٢) مکالمہ سیف و قلم
١ ۔۔ سیف و قلم میں جو ہوئی دوبدو
شوق ہے تم کو تو سنو مو بمو

٢ ۔۔ خامہ لگا کہنے کہ او تیغ تیز
تجھ سے بھلا کس کو مجال ستیز

٣ ۔۔ آب وہ تیری کہ نہ ٹھیرے نگاہ
آنچ وہ تیری ۔ کہ خدا کی پناہ

٤ ۔۔ رہزن سفاک کی یاور ہے تو
خون کے دریا کی شناور ہے تو

٥ ۔۔ سیکھے ستم کس ستم ایجاد سے
شور ہے برپا تری بیداد سے

٦ ۔۔ شوخی و بے باکی و تیزی میں برق
آگ ہے اور آب میں رہتی ہے غرق

٧ ۔۔ تندمزاجی میں تو شداد ہے
بیضہ فولاد کی اولاد ہے

٨ ۔۔ آتش سوزاں کا پیا تو نے دود
اس لئے جاں سوز ہے تیرا وجود

٨ ۔۔ حیف تیری سختی و آہن دلی
نوع بشر کی ہے تو دشمن دلی

١٠ ۔۔ خرمن ہستی میں لگاتی ہے آگ
عافیت و امن سے رکھتی ہے لاگ

١١ ۔۔ گو کہ مجلا ہے تو آئینہ دار
تیرہ درونی ہے تیری آشکار

١٢ ۔۔ تیری گھٹی میں پڑا زہر ہے
چال قیامت تو ادا قہر ہے

١٣ ۔۔ فتنہ عالم ہے تیرا بانک پن
شوخی و شنگی ہے تیرا خاص فن

١٤ ۔۔ شکل انوکھی تو نرالی ہے دھج
جسم بھی خمدار طبیعت بھی کج

١٥ ۔۔ قحط زدوں کا سا تن و توش ہے
کھانے پہ ڈھوکے تو بلا نوش ہے

١٦ ۔۔ عرصہ راحت ہے ترے دم سے تنگ
ایسی لڑاکا کہ بنی خانہ جنگ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٧٣)

١٧ ۔۔ تیری جبلت ہے فسوق و جدال
ناحق و حق کا نہیں تجھکو خیال

١٨ ۔۔ قتل کا رکھتی ہے بہت چاؤ تو
رن میں کیا کرتی ہے ستھراؤ تو

١٩ ۔۔ اف نہ کرے لاکھ گلے کاٹ کر
جی نہ بھرے تیرا لہو چاٹ کر

٢٠ ۔۔ خلق خدا تجھ سے ہے آزار کش
کرتی ہی رہتی ہے سدا چپقلش

٢١ ۔۔ بحر فنا کہئے ترے گھاٹ کو
جس نے دئے سینکڑوں بیڑے ڈبو

٢٢ ۔۔ گرچہ سراپا ہے ترا آب گون
پر تری چتوں سے ٹپکتا ہے خون

٢٣ ۔۔ تو نے اجاڑیں بہت آبادیاں
چھین لیں اقوام کی آزادیاں

٢٤ ۔۔ تو نے کڑوڑوں کئے بچے یتیم
لاکھوں ہی باپوں کے کئے دل دو نیم

٢٥ ۔۔ لے گئی ماؤں کی کمائی کو لوٹ
رہگیئں بیچاریاں چھاتی کو کوٹ

٢٦ ۔۔ دلہنیں روتی ہیں تری جان کو
ساتھ ہی لے جائیں گی ارمان کو

٢٧ ۔۔ موتیوں سے مانگ تھی جن کی بھری
ان سے کراتی ہے تو گدیہ گری

٢٨ ۔۔ تو نے رفیقوں کو رلایا ہے خوں
غم سے عزیزوں کو ہوا ہے جنوں

٢٩ ۔۔ تفرقہ پرداز ؛ یہ کیا کر دیا ؟
گوشت کو ناخن سے جدا کر دیا

٣٠ ۔۔ شیوا ترا شہرہ آفاق ہے
خون خرابہ میں تو مشاق ہے

٣١ ۔۔ چاہتی ہے بغض و عداوت کو تو
انس و محبت کی نہیں تجھ میں بو

٣٢ ۔۔ تیری دغا بازی ہے ضرب المثل
غیر ہے قبضہ سے گئی جب نکل

٣٣ ۔۔ تو نے وفا کی نہیں پٹی پڑھی
اس کی ہوئی جس کے تو ہتے چڑھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٧٤)

٣٤ ۔۔ کوں کرے تجھ سے رفاقت کی آس
کچھ نہیں تجھ کو حق صحبت کا پاس

٣٥ ۔۔ رکھتی نہیں سابقہ لطف یاد
کور نمک ہے ترا کیا اعتماد

٣٦ ۔۔ میل حریفوں سے یگانوں سے چھوٹ
نکلے گا مالک کا نمک پھوٹ پھوٹ

٣٧ ۔۔ مملکتیں خاک سیہ تو نے کیں
تیری قساوت نے اجاڑی زمین

٣٨ ۔۔ بستیاں کرتی ہیں پڑیں بھائیں بھائیں
مقبرے آباد ہیں کچھ دائیں بائیں

٣٩ ۔۔ اٹھے تیری ذات سے جو جو فساد
اہل تواریخ کو کچھ کچھ ہیں یاد

٤٠ ۔۔ ثبت جریدہ انھیں میں نے کیا
ہے وہ خلاصہ تری روداد کا

٤١ ۔۔ تو ہی بھرت کھنڈ کی بھارت میں تھی
تیری خوشی جانوں کی غارت میں تھی

٤٢ ۔۔ ہند کے جودھا تھے بڑے سور بیر
کھا گئی تو سب کو دم داروگیر

٤٣ ۔۔ تو نے نصیحت نہ کسی کی سنی
چٹ کئے اس عہد کے گیانی گنی

٤٤ ۔۔ وادی توران میں چمکی کبھی
دیتی تھی ایران کو دھمکی کبھی

٤٥ ۔۔ باڑھ پہ تیری جو چڑھا پہلواں
نام کو بھی اس کا نہ چھوڑا نشاں

٤٦ ۔۔ تیری جو ضحاک سے گہری چھنی
قوم کا ہر فرد بنا کشتنی

٤٧ ۔۔ معرکہ رستم و افراسیاب
تیری بدولت ہوا زیب کتاب

٤٨ ۔۔ قتل کا دھبا ترے دامن پہ ہے
خون سیاوش تری گردن پہ ہے

٤٩ ۔۔ خاک اڑائی یہ تری آب نے
جان دی ناشاد ہی سہراب نے

٥٠ ۔۔ تو جو طرفدار سکندر ہوئی
خاک میں دارا کو ملا کر ہی سوئی

۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٧٥)

٥١ ۔۔ تخت کیاں کا دیا تختہ الٹ
کر دی یونان کی کایا پلٹ

٥٢ ۔۔ لشکر یوناں کی جلو جب پھری
باختر و بلخ پہ بجلی گری

٥٣ ۔۔ تو نے عرب سے جو کیا اتفاق
فارس و روما کی مٹی طمطراق

٥٤ ۔۔ جب ہوئی فارس پے تیری دست برد
دخمہ بنی یار گہ یزدجرد

٥٥ ۔۔ شوکت ساسان کے ڈیرے لدے
بجھ گئے زردشت کے آتشکدے

٥٦ ۔۔ غرب کی جانب کو جو تو جھک پڑی
شام پہ اک ضرب لگائی کڑی

٥٧ ۔۔ روم میں برپا کیا شور نشور
دولت ہرقل کا ہوا شیشہ چور

٥٨ ۔۔ توڑ دیا روم کا سارا طلسم
رہ گیا بے جان مردار سا جسم

٥٩ ۔۔ ہاشمیوں کا نہ دیا تو نے ساتھ
آل امیہ کا پڑا تجھ پہ ہاتھ

٦٠ ۔۔ ڈھایا کیا تو نے غضب برملا
گرم کیا معرکہ کربلا

٦١ ۔۔ طرفہ ستمگار ہے عالم میں تو
عید مناتی ہے محرم میں تو

٦٢ ۔۔ پھٹ نہ گیا کیوں ترا ظالم جگر
ڈوب مری کیوں نہ تو اے خیرہ سر

٦٣ ۔۔ قہر الہی سے جو ڈرتی کبھی ]
مرتی پہ یہ کام نہ کرتی کبھی

٦٤ ۔۔ ہند پہ محمود کی لشکر کشی
یاد دلاتی ہے تیری سر کشی

٦٥ ۔۔ بدل ہوا ایک تیری چال میں
لوٹ پڑی دولت جے پال میں

٦٦ ۔۔ کیا ہی نظر سوز تھی تیری چمک
دھاک تھی کالنجر و قنوج تک

٦٧ ۔۔ یاد ہیں کچھ تجھکو عجب داؤ گھات
توڑ دیا بت کدہ سومنات

٦٨ ۔۔ تو نے ہڑپ کر لئے لاکھوں ہی سر
کم نہ ہوئی پر تری جوع البقر

٦٩ ۔۔ غور سے جس دم تری آندھی چلی
ہند کی سینا میں مچی کھلبلی

٧٠ ۔۔ رائے پتھورا کا وہ جاہ و جلال
ہو گیا پل مارتے خواب و خیال

٧١ ۔۔ بن گئی ہر بزم طرب کدہ
دہلی و اجمیر تھے ماتم کدہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 

نایاب

لائبریرین
(٧٦)

٧٢ ۔۔ سوگ میں رانی نے کیا سینہ چاک
آتش سوزاں میں ہوئی جل کے خاک

٧٣ ۔۔ رائے رہا اور نہ رانی رہی
زیب سخن تیری کہانی رہی

٧٤ ۔۔ چونک پڑا فتنہ جنگ تتار
لشکر چنگیز کا اٹھا غبار

٧٥ ۔۔ چھا گیا اک ابر ستم چار سو
خون کے سیلاب بہے کو بکو

٧٦ ۔۔ کٹ گئے خوارزم اور خراساں کے باغ
زمزمہ بلبل کا بنا شور زاغ

٧٧ ۔۔ ویلم و بغداد پہ ٹوٹا غضب
درہم برہم ہوئی بزم عرب

طرفہ ستم گار ہے عالم میں تو
عید مناتی ہے محرم میں تو


٧٨ ۔۔ صرصر تاراج چلی سر بسر
آگ وہ بھڑکی کہ جلے خشک و تر

٧٩ ۔۔ تیرے ہی کوتک تھے یہ اے نابکار
کیا کہوں بس تجھ کو خدا کی سنوار

٨٠ ۔۔ کشور یورپ سے اٹھا غلغلہ
وادی یردن میں پڑا زلزلہ

٨١ ۔۔ حرب صلیبی تھی وہ خونخوار جنگ
ٹوٹ پڑا جس کے لئے کل فرنگ

٨٢ ۔۔ تو جو برہنہ ہوئی او فتنہ گر ؛
تن سے جدا ہو گئے نو لاکھ سر

٨٣ ۔۔ نکلا تجھے لے کے جو تیمور لنگ
پھونک دیا چار طرف صور جنگ

٨٤ ۔۔ چوس لیا روس کا خون جگر
داب دئے قاف میں دیووں کے سر

٨٥ خون سے گل خاک صفاہاں ہوئی
کانپ اٹھی تختگہ ہند بھی

٨٦ ۔۔ ناحیہ شام سے تا حد چیں
مقتل انسان بنا دی زمیں

٨٧ ۔۔ تو جو بنی ہمدم نپیولین
بول دی یورپ میں صداے بزن
۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔،

(٧٧)

٨٨ ۔۔ تاجور اطراف کے تھرا گئے
ناک میں ہمسایوں کے دم آ گئے

٨٩ ۔۔ جب ہوئی نادر کی تو زیب کمر
خلق خدا بول اٹھی الحذر

٩٠ ۔۔ حضرت دہلی کنف عدل و داد
جس کو کیا تھا کبھی خسرو نے یاد

٩١ ۔۔ اسکی یہ حالت ہوئی زاروزبوں
کوچہ و برزن میں بہی جوے خوں

٩٢ ۔۔ دینے لگے اس میں صدا خوف و بیم
زلزلہ الساعتہ شی عظیم

٩٣ ۔۔ کیجئے القصہ کہاں تک بیاں
فرد مظالم ہے تری داستاں

٩٤ ۔۔ میری غرض تیری فضیحت نہیں
بلکہ بجز پندو نصیحت نہیں

٩٥ ۔۔ تند تھی ازبسکہ صریر قلم
سن کے ہوئی تیغ دودم بھی علم

٩٦ ۔۔ آتش غیض اس کی بھڑکنے لگی
بجلی کی مانند کڑکنے لگی

٩٧ ۔۔ ڈانٹ کر بولی کہ خبردار ہو ؛
اب مری باری ہے لے ہشیار ہو ؛

٩٨ ۔۔ بد ہوں خدا جانے کہ ہوں نیک میں
رکھتی ہوں دل اور زباں ایک میں

٩٩ ۔۔ مجھ کو دو رنگی نہیں بھاتی ذرا
میل ملاتی نہیں کھوٹا کھرا
١٠٠ ۔۔ مہر ہو تو مہر جو کیں ہو تو تو کیں
یک جہتی ہے مرا آئین و دیں

١٠١ ۔۔ بات کی ہر گز نہیں زنہار پچ
میرا خمیر اور مرا کس بل ہے سچ

١٠٢ ۔۔ حجت قاطع ہوں میں سرتا بپا
چھوڑتی باقی نہیں تسمہ لگا

١٠٣ ۔۔ جبکہ نہ ہو فصل خصومت بہم
میرے سوا کون بنے واں حکم

١٠٤ ۔۔ عیب کہو میرا اسے یا ہنر
فیصلہ دو ٹوک ادھر یا ادھر

١٠٥ ۔۔ تیری طرح کاہے باتیں گھڑوں
لڑنے پہ آؤں تو میں سنمکھ لڑوں

١٠٦ ۔۔ خوب کیا تو نے نکالی جو چھیڑ
دونگی ابھی میں ترے بخیے ادھیڑ

۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٧٨)

١٠٧ ۔۔ جنگ کا بوتی ہوں اگر بیج میں
سینچ کر پھر اس کو بتدریج میں

١٠٨ ۔۔ پود بڑھاتی ہوں وہ نعم البدل
رفق و مدارا کے لگیں جس میں پھل

(٥٣) شمع ہستی
اے شمع ہستی ؛ اے زندگانی ؛
بھاتی ہے دل کو تیری کہانی

ہے کوچ تیرا ہر لمحہ جاری
جاتی ہے بگ ٹٹ تیری سواری

بجلی سے بڑھکر بے تاب ہے تو
یا واہمہ ہے یا خواب ہے تو

کیوں چپ چپاتی ہر دم رواں ہے ؟
آئی کہاں سے جاتی کہاں ہے ؟

ظاہر ہیں یوں تو سب پر ترے گن
لیکن نہ پایا تیرا سر و بن

گزرا نہ کوئی اس ہفت خواں سے
جاہل ہیں تیرے سر نہاں سے

فی الجملہ ہمت سب ہار بیٹھے
ہیں سر بزانو ناچار بیٹھے

اے زندگانی ؛ اے شمع ہستی ؛
سونی پڑی تھی تجھ بن یہ بستی

چاروں طرف تھی چھائی اندھیری
ناگاہ اٹھی اک ڈیک تیری

وہ ڈیک تھی بس نور علے نور
کاہے کو رہتی پردہ میں مستور

پھولوں میں جھلکی تاروں میں چمکی
بخشی جہاں کو رونق ارم کی

ہوتا نہ یاں جو تیرا ٹھکانا
چوپٹ ہی رہتا یہ کارخانہ

۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٧٩)

کیا پھونک ماری دنیا کے تن میں ؛
گویا لگا دی دوں خشک بن میں

بزم جہاں میں رونق ہے تجھ سے
اس میکدہ میں ہو ۔ حق ہے تجھ سے

ہے تیرے دم سے اے عالم آرا ؛
بزم عروسی میں آفاق سارا

سرگرم ہے تو جادوگری میں
ہیں تیرے عشوے خشکی تری میں

مٹی کا جوبن تو نے نکھارا
دیے دے کے چھینٹے اس کو ابھارا

بے حس کو بخشا احساس تو نے
دی مشت گل کو بو باس تو نے

تھی بھولی بھالی بھونڈی بہنگم
تو نے سکھایا اس کو خم و چم

کرتب سے تیرے سانچے میں ڈھل کر
کندن سے نکلی رنگت بدلکر

ٹھکرا کے تو نے جب کہدیا ؛ قم ؛
اٹھ بیٹھی فورا کرتی تبسم

بھولی ہے اپنی اوقات پہلی
پھرتی ہے خوش خوش کیا اہلی گھلی

پاتی ہے خلقت جب تیری آہٹ
ہوتی ہے پیدا اک گدگداہٹ

مچتا ہے پھر تو اودھم غضب کا
بجتا ہے ڈنکا عیش و طرب کا

کہتی ہے دنیا “ تو ہے تو کیا غم
تو آئے نت نت تو آئے جم جم “

جیتے ہیں جب تک مرتے ہیں تجھ پر
سب کچھ تصدق کرتے ہیں تجھ پر

کیا مال ہے جو تیرے سوا ہے
تو ہی نہ ہو تو سب پروھتا ہے

اے سب کی پیاری سب کی چہیتی
کہہ منہ زبانی کچھ آپ بیتی

“ قدرت کے گھر کی لاڈلی ہوں
ناز و نعم سے برسوں پلی ہوں

تقویم احسن میرا لگن تھا
فردوس اعلی میرا وطن تھا

حور و ملک کی آبادیاں تھیں
بے فکریاں تھیں آزادیاں تھیں

۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٨٠)

چلتی تھی ہر دم باد بہاری
شیر و عسل کی نہریں تھیں جاری

میری ادا پہ مرتے تھے قدسی
سجدہ پہ سجدہ کرتے تھے قدسی

تکریم میری ہوتی تھی ازحد
ہیں داستانیں جس کی زباں زد

پھر دیس چھوٹا گزری سو جھیلی
پردیسیوں کا اللہ بیلی ؛

پل مارنے کا ہے یاں بسیرا
حب وطن ہے ایمان میرا

آب و ہوا میں دشت و جبل میں
میری رسائی ہے ہر محل میں

لیکن یہاں میں خلوت نشین ہوں
ہوں اس طرح پر گویا نہیں ہوں

خواب گراں کی حالت ہے طاری
مستی میں گم ہے سب ہوشیاری

جب آتے آتے سبزہ میں آئی
کروٹ بدل کر میں لہلہائی

انگڑائیاں لیں منہ کھول ڈالا
پر آنکھ سے کچھ دیکھا نہ بھالا

داخل ہوئی جب حیواں کے تن میں
اک شور اٹھا اس انجمن میں

انساں کا جامہ جب میں نے پہنا
اللہ رے میں کیا میرا کہنا ؛

کس کس جتن سے میں نے بنایا
رتبہ بہ رتبہ پایہ بہ پایہ

جامد کو نامی نامی کو حیواں
حیواں کو وحشی وحشی کو انساں

پھیلایا میں نے کیا کیا بکھیڑا
شادی و غم کے ارگن کو چھیڑا

نیکی بدی کے میلے جمائے
جھوٹ اور سچ کے سکے چلائے

جو ناچ میں نے جس کو نچایا
وہ ناچتے ہی اس کو بن آیا

القصہ ہوں میں وہ اسم اعظم
ہے جس کے بس میں تسخیر عالم

کچھ کچھ کھلے ہیں انداز میرے
دیکھے ہیں کس نے اعجاز میرے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 

نایاب

لائبریرین
(٨١)

مجھکو نہ سمجھو تم آج کل کی
ہوں موج مضطر بحر ازل کی

رکھوں کی جاری یونہی سفر میں
قعر ابد کی لوں گی خبر میں

ہے میری ہستی اک طرفہ مضموں
کچھ بھی نہیں ہوں پر میں ہی میں ہوں

سنتے رہو گے میری کہانی
جب تک ہے باقی دنیاے فانی

(٥٤) مثنوی فی العقائد ۔ (١)

ذات حق اپنے آپ میں ہے موجود
کوئی اس کے سوا نہیں معبود

اس کا جوڑا نہیں مثال نہیں
اس کو گھاٹا نہیں زوال نہیں

اس کا جو وصف ہے سو کامل ہے
نہ کسی سے جدا نہ شامل ہے

اس کا ساجھی نہیں شریک نہیں
اور کو مانئے تو ٹھیک نہیں

جانتا ہے وہ ان ہوئی باتیں
دیکھتا ہے ڈھکی چھپی گھاتیں

ہے وہ بے آنکھ دیکھتا سب کو
ہے وہ بے کان سنتا مطلب کو

اپنی مرضی سے وہ کام کرتا ہے
بے زباں وہ کلام کرتا ہے

اونگھتا ہے کبھی نہ سوتا ہے
سب ارادہ سے اس کے ہوتا ہے

وہ قوی ہے کبھی نہیں تھکتا
وہ ہر اک چیز کو ہے کر سکتا

زندہ ہے زندگی کا مالک ہے
جو ہے اس کے سوا سوہالک ہے

کہہ سکے کون اس کو کیسا ہے
آپ ہی جانتا ہے جیسا ہے

(١) مرتبہ ١٨٧٠ عیسوی بمقام میرٹھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٨٢)

اس نے یہ آسماں بنایا آپ
اس نے فرش زمیں بچھایا آپ

کئے اونچے پہاڑ اس نے کھڑے
میخ کی طرح جو زمین میں گڑے

اس نے بادل سے بوند ٹپکائی
اس نے پانی پہ ناؤ تیرائی

مردہ مٹی میں اس نے ڈالی جان
لہلہائے ہرے بھرے میدان

ہے مسلم اسی کو سلطانی
عرش اعظم ہے تخت ربانی

ہے وہی ۔ تھا وہی ۔ وہی ہوگا
کون اس کی برابری جوگا

جس کو چاہے کرے ملیامیٹ
نہیں اس کو کسی سے لاگ لپیٹ

اس نے پیدا کیا ہے عالم کو
آسماں کو زمین کو ہم کو

اس کا احسان و فضل ہے دن رات
اس پہ واجب نہیں ہے کوئی بات

خاتم انبیا محمد ہے
جس کا احسا ن ہم پہ بے حد ہے

اس نے حکم خدا کیا تلقین
تھا وہ اللہ کا رسول امین

اس نے تعمیل حکم کر دی ہے
ٹھیک ہے ۔ اس نے جو خبر دی ہے

دل سے مانو جو عقل بینا ہے
کہ موئے بعد پھر بھی جینا ہے

زندگی جس نے دی ہے اول بار
دوسری بار دے تو کیا دشوار

بعد مرنے کے حشر کا ہونا
ہے مثال اس کی جاگنا سونا

اس کی ہستی سے سب کی ہستی ہے
خلقت اس کی بسائی بستی ہے

۔۔،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٨٣)

(٥٤) حمد باری تعالی
خدایا اول و آخر بھی تو ہے
خدایا ظاہر و باطن بھی تو ہے

وہ اول تو کہ نا محرم بدایت
وہ آخر تو کہ ناپیدا نہایت

نہیں اول کو آخر سے جدائی
ورائے عقل ہے تیری خدائی

جو آخر ہے وہی اول بھی تھا تو
وہی جو آج ہے سو کل بھی تھا تو

ہے تیرا اول و آخر مطابق
نہ تیرے ساتھ لاحق ہے نہ سابق

جو اول ہے تو پہلے اور تھا کون
جو آخر ہے تو پیچھے رہ گیا کون

جو باطن ہے تو باطن کا پتا کیا
جو ظاہر ہے تو ہے تیرے سوا کیا

ہے تو باطن میں ظاہر بلکہ اظہر
بظاہر بن گیا تو عین مظہر

ترا اخفا ہے گویا عین اظہار
ترا اظہار ہے اخفائے اسرار

کھلا جتنا ہو اتنا ہی مستور
چھپا جتنا رہا کھلتا بدستور

ازل سے تا ابد ہے ایک ہی شان
ترا طغرا ہے آلآن کما کان

مبرا قید اور اطلاق سے تو
منزہ انفس و آفاق سے تو

مگر میں ہے تو عین مطلق
نہ جامد ہے نہ مصدر ہے نہ مشتق

مقید میں مقید ہے تری ذات
نہیں ہوتا کسی خانہ میں تو مات

۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٨٤)

ہے اصل روح تو روحانیوں میں
ہے قید جسم تو جسمانیوں میں

اگر ناسوت میں ہے موج پر جوش
تو ہے لاہوت میں دریائے خاموش

اگر جبروت میں بانگ انا ہے
صف ارواح میں حمد و ثنا ہے

تو ہی ہے علم و عالم بلکہ معلوم
تو ہی ہے رحم و راحم بلکہ مرحوم

تجھے نسبت ہے لا شے سے نہ شے سے
غنی ہے تو نہیں سے اور ہے سے

تری وحدت میں کثرت ہے نمودار
کہ بے کثرت نہیں وحدت کا اظہار

نہ ہو وحدت تو کثرت بھی عدم ہے
حدوث آئنہ حسن قدم ہے

زمین و آسماں کا نور ہے تو
مگر خود ناظر و منظور ہے تو

سوا تیرے نہیں موجود کوئی
نہ عابد ہے نہ ہے معبود کوئی

ازل سے دائم المعروف ہے تو
ابد تک خود بخود موصوف ہے تو

تری رحمت ہے یہ جلسے دکھاتی
ہے قہاری تری سب کو مٹاتی

مسلم ہے تجھی کو حکم رانی
کہ تیری سلطنت ہے جاودانی

ہو الموجود ہے تجھی سے عبارت
ہو المقصود ہے تجھ سے اشارت

احد ہے تو نہیں زنہار معدود
صمد ہے تو نہ والد ہے نہ مولود

عیاں دیکھا تو پھونچا غیب ہو میں
نہاں ڈھونڈا تو آیا رنگ و بو میں

نہ پایا ہے نہ پائے گا کبھی تو
کہ ہے معروف و عارف آپ ہی تو

تصور قرب کا دوری ہے تجھ سے
خیال بعد مہجوری ہے تجھ سے

۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٨٥)

نہ دوری ہے نہ نزدیکی نہ مابین
عبارت منقطع لاغیر و لا عین

حقیقت سے نہیں ہے کوئی آگاہ
مشبہ اور موحد ہیں سب گمراہ

نہ ہو جب فرق ہی تو راہ کیوں ہو
نہ ہو کوئی تو پھر آگاہ کیوں ہو

پتا لگتا نہیں تنزیہ میں بھی
خبر ملتی نہیں تشبیہ میں بھی

یہ ہنگامہ اور اس پر بے نشانی
ہوا ہے عقل کل کا خون پانی

تمیم کر کہ خاکستر ہے دریا
لگا غوطہ کہ ہے گرداب صحرا

نہ صحرا ہے نہ دریا ہے نہ میں تو
نہ یاد و بود باقی ہے نہ ہا ہو

(٥٦) یاد حضرت شیخ
لب پہ آیا نام شہ غوث علی
بے تکلف کھل گئی دل کی کلی

پھر صبا سبزہ کولہرانے لگی
باغ معنی میں بہار آنے لگی

پھر لگا دی ابر رحمت نے جھڑی
پھر وہی باد بہاری چل پڑی

پھر وہی محمل ہے وہی ہے کارواں
ناقہ سرمست وحدی خواں سا رواں

پھر اسی منزل میں جا کھولی کمر
دشت چٹیل اور ویرانہ نگر

پھر کھلا در حجرہ انوار کا
قفل ٹوٹا قبہ اسرار کا

پھر وہی صحبت وہی لیل و نہار
پھر لگے ہونے در معنی نثار

۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 
Top