کوئٹہ کی سیر - (تصاویر)

الم

محفلین
میری پیدائش چونکہ کوئٹہ میں ہوئی تھی اور اپنا بچپن وہیں گزرا تو وہاں کی یادیں ہمیشہ ساتھ رہتی۔ اب چونکہ وہاں سے کتنے سال ہو گئے چھوڑے لیکن پھر بھی اسکی خوب صورتی اور صفائی یاد آتی۔۔اوپر سے آنکھیں اشکوں سے بھر جاتی جب بھی کوئٹہ کے موجودہ حالات دیکھتے کہ اتنے ہنستے بستے امن والے شہر کو ناجانے کس کی نظر لگ گئی۔۔۔خیر میں نے مختلف جگہوں سے کوئٹہ کی اور کچھ گردونواح کی تصاویر اکھٹی کی سوچا آپ کو سیر کرائی جائے۔ پہلے آپکو تھوڑا اس شہر کے بارے میں بتاتا بلکہ ویکیپیڈیا سے ہی نقل کرتا ہوں۔۔

کوئٹہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کا صدر مقام اور سب سے بڑا شہر ہے۔ کوئٹہ کا نام ایک پشتو لفظ سے نکلا ہے جس کے لغوی معنیٰ 'قلعہ' کے ہیں۔ کوئٹہ شہر سطح سمندر سے تقریباً 1700 میٹر سے 1900 میٹر کی بلندی پر واقع ہے اور اپنے بہترین معیار کے پھلوں کی پیداوار کے لیے مشہور ہے۔ یہ بنیادی طور پر خشک پہاڑوں میں گھرا ہوا شہر ہے جہاں سردیوں میں شدید سردی اور برف باری ہوتی ہے۔



ابتدائی تاریخ

کوئٹہ شال کوٹ ایک پرانا شہر ہے جس کے نام کا لغوی معنیٰ 'قلعہ' کے ہیں۔ خیال ہے کہ یہ نام کسی قلعہ کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے پڑا کہ کوئٹہ چاروں طرف سے پہاڑوں سے گھرا ہوا شہر ہے جس سے وہ ایک قدرتی قلعہ ہے۔ اس کے اطراف میں جو پہاڑ ہیں ان کے نام چلتن، زرغون اور مہردار ہیں۔ سب پہاڑ بنیادی طور پر خشک ہیں۔ کوئٹہ قدیم شہر ہے جس کے وجود کا ثبوت چھٹی صدی عیسوی سے ملتا ہے۔ اس وقت یہ ایران کی ساسانی سلطنت کا حصہ تھا۔ ساتویں صدی عیسوی میں جب مسلمانوں نے ایران فتح کیا تو یہ اسلامی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ گیارہویں صدی عیسوی میں محمود غزنوی کی فتوحات میں کوئٹہ کا ذکر ملتا ہے۔ اس کے بعد ایک خیال کے مطابق کانسی قبیلہ کے افراد نے تخت سلیمان سے آکر کوئٹی میں بڑی تعداد میں سکونت اختیار کی۔ 1543ء میں مغل شہنشاہ ہمایوں جب شیر شاہ سوری سے شکست کھا کر ایران کی طرف فرار ہو رہا تھا تو یہاں کچھ عرصہ قیام کیا تھا اور جاتے ہوئے اپنے بیٹے اکبر کو یہیں چھوڑ گیا جو دو سال تک یہیں رہا۔ 1556ء تک کوئٹہ مغل سلطنت کا حصہ رہا جس کے بعد ایرانی سلطنت کا حصہ بنا۔ 1595ء میں دوبارہ شہنشاہ اکبر نے کوئٹہ کا اپنی سلطنت کا حصہ بنا لیا۔ 1730ء کے بعد یہ ریاست قلات میں شامل رہا۔ 1828ء میں ایک یورپی مسافر کے مطابق کوئٹہ کے اردگرد مٹی کی ایک بڑی دیوار تھی جس نے اسے ایک قلعہ کی شکل دے دی تھی اور اس میں تقریباً تین سو گھر آباد تھے۔ 1828ء اور اس کے بعد کوئٹہ کا جائزہ لینے کے لیے کئی انگریز مسافر کوئٹہ آئے جن کا مقصد انگریزوں کو معلومات مہیا کرنا تھا۔ 1839ء کی پہلی برطانوی و افغان جنگ کے دوران انگریزوں نے کوئٹہ پر قبضہ کر لیا۔ 1876ء میں اسے باقاعدہ برطانوی سلطنت میں شامل کر لیا گیا اور رابرٹ گروو سنڈیمن کو یہاں کا نمائندۂ سیاسی (پولیٹیکل ایجنٹ) مقرر کیا گیا۔ اس دوران ہزارہ قبائل کے افراد بڑی تعداد میں کوئٹہ میں آباد ہوئے۔ انگریزوں نے کوئٹہ کو ایک فوجی اڈہ میں تبدیل کر دیا چنانچہ اس دور میں کوئٹہ کی آبادی میں کافی اضافہ ہوا جو 1935ء کے مشہور زلزلہ تک جاری رہا۔
بیسویں صدی اور کوئٹہ کا زلزلہ


1876 ء میں کوئٹہ شال کوٹ کو باقاعدہ برطانوی سلطنت میں شامل کر لیا گیا۔ اس دوران ہزارہ قبائل کے افراد بڑی تعداد میں کوئٹہ میں آباد ہوئے۔ انگریزوں نے کوئٹہ کو ایک فوجی اڈہ میں تبدیل کر دیا چنانچہ اس دور میں کوئٹہ کی آبادی میں کافی اضافہ ہوا جو 1935ء کے مشہور زلزلہ تک جاری رہا۔ 31 مئی 1935ء کو کوئٹہ میں ایک بڑا زلزلہ آیا جس نے پورے شہر کو آناً فاناً مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کردیا اور ایک اندازہ کے مطابق 40،000 افراد چند دقیقوں میں ہلاک ہو گئے۔ اس قیامت خیز زلزلہ نے کوئٹہ کو بالکل تباہ کر دیا اور شہر میں کوئی عمارت نہ چھوڑی۔ یہ زلزلہ رچرڈ کے معیار کے مطابق 7.1 کی شدت کا تھا۔ اس کا شمار جنوبی ایشیاء کی تاریخ کے چار بڑے ترین زلزلوں میں کیا جاتا ہے جس کے بغیر کوئٹہ کی تاریخ نامکمل ہے۔ اس زلزلہ کے بعد کوئٹہ کی تعمیرِ نو ہوئی مگر تمام عمارات یک منزلہ تھیں۔ اس کے علاوہ برطانوی لوگوں نے چونکہ اپنے فوجی اڈے افغانستان کی سرحد کے ساتھ بنا لیے تھے اس لیے انہوں نے کوئٹہ کی تعمیرِ نو میں کوئی دلچسپی نہ لی۔ لیکن کوئٹہ چونکہ افغانستان اور ایران کے تجارتی راستے پر تھا اس لیے آہستہ آہستہ اس نے اپنی حیثیت دوبارہ مستحکم کر لی۔ اس کی تجارت افغانستان کے ساتھ چمن کے راستے اور ایران کے ساتھ نوشکی، دالبندین اور تفتان کے راستے دوبارہ شروع ہو گئی۔
آزادی کے بعد
1947ء میں پاکستان کی آزادی کے بعد کوئٹہ بلوچ علاقے کا صدر مقام تھا۔ بعد میں جب بلوچستان کو صوبہ بنایا گیا تو اس کی یہ حیثیت برقرار رہی۔ یہ اپنی پھلوں کی تجارت اور کرومائیٹ کی کانوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ سطح سمندر سے 5000 فٹ کی بلندی پر ہونے کی وجہ سے پرفضا مقام ہے اور سیاحت نے بڑی ترقی کی ہے۔ خصوصاً زیارت، جو کوئٹہ سے قریب ہے، پاکستان کے پہلے گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح کا پسندیدہ مقام تھا۔ صوبائی دارالحکومت ہونے کی وجہ سے بہت سے دفاتر قائم ہوئے ہیں اور صوبائی اسمبلی بھی متحرک رہتی ہے۔ 1979ء کے افغان مسئلہ کے بعد ہزاروں کی تعداد میں افغان مہاجرین کی آمد نے شہر کی شکل بدل دی اور جرائم کو فروغ دیا۔ آبادی میں اس اضافہ کی وجہ سے کوئٹہ بہت پھیل گیا ہے اور شہر کے اردگرد کافی نئی آبادیوں نے جنم لیا ہے۔ یہ پاکستان کا نواں بڑا شہر ہے جس کی ابادی چھ لاکھ کے قریب ہو چکی ہے (اس میں افغان مہاجرین شامل نہیں)۔ کوئٹہ کو پاکستان کے دیگر علاقوں سے ملانے کے لیے 1600 کلومیٹر طویل ریلوے لائن موجود ہے۔ اس کے علاوہ ایران کے شہر زاھدان سے ایک ریلوے لائن ملاتی ہے۔ کراچی اور کوئٹہ کے درمیان ایک سڑک براستہ سبی، جیکب آباد و سکھر پہلے موجود تھی۔ ایک نئی سڑک کوئٹہ کو براستہ مستونگ، قلات، خضداراور لسبیلہ ملاتی ہے۔ بہاولپور اور ملتان کے لیے بھی براستہ سڑک اچھے راستے موجود ہیں۔ کوئٹہ کی اہمیت پاکستان میں گوادر کی بندرگاہ کی تعمیر کے بعد بڑھ گئی ہے اور استعماری طاقتوں نے اسے اپنی سازشوں کا گڑھ بنا لیا ہے۔
موسم
یہاں گرمیوں میں شدید گرمی (46 ڈگری سینٹی گریڈ تک) اور سردیوں میں میں شدید سردی (-25 ڈگری سینٹی گریڈ تک) پڑتی پے۔
 

الم

محفلین
تو حاضر ہے ہمارے پیارے سے وطن کی ایک چھوٹی سی پیاری سی سر زمیں کا تصویری احوال۔۔۔​
چلیں پھر نکلتے ہیں کوئٹہ کی طرف۔۔۔ پون پون!!​
ٹرین سے شروع کرتے سفر۔۔۔​
یہ ایک سرنگ ہے کوئٹہ سے تھوڑا پہلے جاتے ہوئے جگہ کچھ یاد نہیں۔۔۔۔​
ٹرین کے زریعے کوئٹہ کی طرف رواں دواں جعفر ایکسپریس میں۔۔۔​
پون پون!!​
Quetta_27.jpg
لو جی ایک اور اینگل سے دکھاتے آپکو لگتا کراس آگیا جو بے وجہ رکی ہوئی ٹرین۔۔۔​
اے بھائی ٹرین روکے رکھیو میں ذرا ایک منظر محفوظ کر لوں۔۔۔​
جی یہ ہے وہ منظر۔۔​
Quetta_25.jpg
پون پون۔۔۔۔۔۔​
بس جی آنے لگا کوئٹہ۔۔۔۔​
لو آگیا۔۔۔چلو چلو اتریں۔۔​
تو جی یہ ہے پلیٹ فارم۔۔​
image.jpg
 

الم

محفلین
پہلے تو خوش آمدید، پخیر راغلے​
کوئٹہ کی نیشنل ہائی وے 25​
Quetta_44.jpg
آگے چلیں۔۔۔پون پون!!​
کوئٹہ کا ریلوے سٹیشن کا داخلی دروازہ​
کہتے کہ یہ فرنگی زمانے کا ہے 1935 کے زلزلے کے بعد اسکو اور تعمیر کیا یہ نا صرف پاکستان کے شہروں سے منسلک بلکہ یہ ہمارے ہمسایہ ملک ایران کے شہرزاهدان سے بھی منسلک ہے۔​
Quetta_16.jpg
اب آپ نے قدم رکھ ہی لیا کوئٹہ میں تو آگے چلتے تھوڑا ۔۔۔​
رکیں ذرا پیچھے چلتے ارے نہیں اصل میں پیچھے نہیں تاریخ میں کوئٹہ کا سٹیشن 1920 میں 1935 کے زلزلے سے پہلے​
Quetta_10.jpg
 

الم

محفلین
چلیں اب چلتے۔۔​
یہ تھوڑی سردیوں کی ہے ذرا مفلر وغیرہ پہن لیں۔۔۔​
یہ ہے اسمبلی روڈ اس کے بائیں طرف جو تھوڑا حصہ آیا بلڈنگ کا (داخل ہوتی گاڑی سے پہلے) وہ کوئٹہ کو مشہور زمانہ سکول فار گرلز ہے کانونٹ اور دائیں طرف جو ہے وہ کوئٹہ کا مشہور بوائز سکول گرائمر سکول۔​
Quetta_13.jpg
آئیں تھوڑا اور آگے چلتے۔۔۔​
ارے یہ تو اسمبلی آگئی۔ جی! تو یہ ہے بلوچستان نیشنل اسمبلی کی بلڈنگ​
Quetta_19.jpg
چلیں تھوڑا اور آگے چلیں۔۔ یہ ہے اسمبلی روڈ تھوڑا آگے جا کے نیشنل اسمبلی سے​
Quetta_38.jpg
تھوڑا آگے جائیں تو پی ٹی وی کوئٹہ سنٹر آتا (فرنٹئیر کور کے میں ہیڈ کواٹر کے سامنے)۔ یہ ہے پی ٹی وی کوئٹہ سنٹر کا داخلی دروازہ​
Quetta_39.jpg
رکئیے ایک بار پھر تاریخ میں موجود ایک تصویر دیکھیں دیکھیں۔۔​
تو جناب آپ کو بتاتا چلوں کہ کوئٹہ کو 1935 کے زلزلے سے پہلے فرنگیوں نے ایشئین پیرس کا خطاب دیا تھا۔ اسی کی نسبت سے کوئٹہ کا 1920 کا ٹاؤن ہال کا ایک منظر ہے مندرجہ زیل میں۔۔​
image.jpg
 

الم

محفلین
آگے چلتے اہو یہ کیا بچوں نے تو گولہ باری شروع کی ہوئی یہ تصویر کوئٹہ کے ایک پارک میں 2005 کی برف باری میں کھینچی گئی تھی۔۔۔​
Quetta_4.jpg
ایک اور دلکش منظر ریلوے کالونی میں لیا گیا برفباری کا​
Quetta_11.jpg
آئیں چلتے تھوڑا اور آگےذرا کوئٹہ کی مشہور اور بزنس کلاس کا ایریا ایم اے جناح روڈ کا منظر ۔۔۔​
Quetta_21.jpg
ایک دفعہ پھر آپکو کوئٹہ کے 1935 کے زلزلے کا منظر دکھاتا جو کے بروس سٹریٹ موجودہ ایم اے جناح روڈ کی تباہ کاری کا بتاتا​
Quetta_after1935.jpg
بھوک تو نہیں لگی؟ وہ دیکھ رہے (اوپر نئے جناح روڈ کی تصویر میں) جو پیپسی کا نشان نظر آرہا بائیں طرف وہ بڑا کلاسیکل فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ ہے بیگ سنیک بار اسکی ایک خصوصیت جو آپ نے کہیں بھی شاید نا دیکھی ہو وہ نچلی تصویر میں دیکھیں اسکی بالائی منزل پہ ۔۔۔ لو اب تصویر بھی تو دیکھیں نا۔۔۔​
image.jpg
 

الم

محفلین
چلیں ذرا اوپر چڑھتے بلڈنگ کے کسی۔۔۔​
جی یہ ہے ایم اے جناح روڈ کی ایک بلڈنگ کی چھت سے منظر کوئٹہ کے پہاڑی سلسلے کا​
Quetta_17.jpg
چلیں اتریں نیچے ابھی آپ کو کوئٹہ کا مشہور چوک میزان چوک دکھاتے جو کہ یہ ہے اس کے سیدھے جائیں تو بلوچستان کا انتہائی مشہور بازار لیاقت بازار ہے۔​
Quetta_35.jpg
اچھا ذرا میزان چوک پہ کھڑے ہو کے وہاں سے دائیں طرف کا منظر دیکھتے روڈ کا جو جا رہی۔۔۔​
Quetta_43.jpg
یہ رہا کوئٹہ کے لیاقت بازار کا منظر صبح صبح ہے اس لئیے دکانیں بند۔۔۔ یہاں دسمبر کے دنوں میں پنجاب،سندھ،خیبر پختونخواہ سے آئے لوگوں سے یہ بھر جاتا تھا جہاں پہ دنیا جہاں کی چیزیں معیاری دام میں مل جاتی تھیں۔۔وہیں کے ایک تحمینے کے مطابق زیادہ لوگ پنجاب سے خاص طور پہ شاپنگ کے لئیے آتے تھے ۔۔​
Quetta_Liyaqat.jpg
 

الم

محفلین
چلیں ذرا ہوٹل چلتے کوئٹہ میں پرنس کریم آغا خان کے مشہورہوٹل جسکی شاخیں پاکستاں میں متعدد جگہ پہ ہیں سرینا ہوٹل دکھاتے۔۔۔​
Quetta_12.jpg
ایک اور اندر سے منظر سرینا ہوٹل کا برف میں ڈھکے درخت۔۔​
saree.jpg
ایک اور طرف سے ہوٹل پہ نظر​
Quetta_37.jpg
لو آپ تو اسکی چھت پہ بھی چڑھ گئے۔۔۔​
Quetta_9.jpg
 

الم

محفلین
اتریں اور بھی بہت کچھ دکھانا آپکو۔۔۔جی تو یہ دیکھیں کوئٹہ کینٹ کا ایک مشہور ہوٹل لورڈز۔۔۔بہت مزے کا سوپ مل جاتا تھا اور بلڈنگ بہت پیاری اور پرانی فرنگی دور کی طرز پہ تھی۔۔۔​
Quetta_15.jpg
یہ کیا آگیا مزے دار جناب تو یہ ہے بلوچی سجی جو کہ کوئٹہ کی فوڈ سٹریٹ سے ہے جو کہ موتی رام روڈ پہ واقع ہے۔​
ویسے اصلی سجی تو بکرے کی رانوں کی ہوتی لیکن چلیں اسکو بھی سجی کہ لیتے۔۔​
Quetta_22.jpg
چلیں آپکو کوئٹہ کے مشہورِ زمانہ پارک عسکری پارک لئیے چلتے اوہو یہاں تو خزاں ہے۔۔۔​
Quetta_7.jpg
ایک عسکری پارک کا بینچ اکیلا۔۔چلیں بیٹھ جائیں اس پہ۔۔۔​
Quetta_8.jpg
 

الم

محفلین
چلیں اٹھیں نکلیں یہاں سے قریب میں ائیرپورٹ ہے وہاں بعد میں آتے پہلے واپس شہر چلتے تو ملاحظہ فرمائیں ائرپورٹ روڈ بائیں طرف عسکری پارک ہی ہے ۔۔۔​
Quetta_40.jpg
پھر وہی ائیرپورٹ روڈ۔۔۔۔​
Quetta_6.jpg
ارے یہ دیکھیں دائیں طرف کوئٹہ کا گورا قبرستان یہاں بڑی پرانی فرنگیوں کی قبریں بھی ہیں جو پاکستان بننے سے پہلے کی ہیں اور یہ ایلیٹ کلاس کا قبرستان سمجھا جاتا تھا گوروں کا اب کا پتہ نہیں۔۔۔​
Quetta_5.jpg
ایک اور منظر گورا قبرستان کا۔۔​
Quetta_41.jpg
 

الم

محفلین
چلیں آگے۔۔۔لو جی بارش شروع اسی لئیے تو۔۔۔ یہ دیکھیں بیچارے گدھے میاں کتنے سمجھ دار سمجھا رہے کہ پرہیز علاج سے بہتر۔۔​
Quetta_32.jpg
اوہ پراپٹی ڈیلر بھی ہے میکانگی روڈ پہ کوئٹہ کے دیکھیں آگ سینک رہے ۔۔۔​
Quetta_33.jpg
 

الم

محفلین
واہ اب یہ دیکھیں بلوچستان کا سب سے بہترین کالج تعمیرِ نو کالج (کوئٹہ کا جی سی کالج سمجھ لیں) اور مابدولت کا بھی۔ اس سے لگاؤ کچھ اس لئے بھی زیادہ تھا کیوں کے مابدولت کے دادا جی اس کے ٹھیکیدار یا کنٹریکٹر تھے لہذا یہ اس لحاز سے بھی میری یادوں کا ساتھی۔۔۔سچ پوچھیں تو بہت ہی پیارا اور بڑا کالج ہے۔۔۔​
Quetta_31.jpg
چلیں تھوڑا آگے چلتے اوہ یہ روڈ تو دکھا دیں یہ رہا گلستان روڈ تھوڑا سا آگے جا کے کالج سے۔۔​
Quetta_42.jpg
اور یہ تھوڑا آگے جائیں تو اسٹیٹ بینک کی کوئٹہ برانچ​
Quetta_34.jpg
اسکے اگے حبیب بینک کی مین برانچ​
Quetta_36.jpg
اب یہاں سے تھوڑا آگے چوک آتا جہاں سے بائیں ہوں تو چائنہ چوک جہاں سے ایم اے جناح روڈ بھی شروع ہوتا آپ پیچھے حبیب بینک کی مین برانچ کی تصویر بھی دیکھ سکتے۔۔​
800px_Jinnah_Road_Quetta.jpg
 

الم

محفلین
شام ہو چلی لگتا کوئٹہ کی ایک پہاڑی سلسلے کے ساتھ ہزارہ قوم کی کالونی ہے جسے مری آباد کہتے اسکے پہاڑ سے ایک دل موہ لینے والا منظر۔۔۔۔۔​
Quetta_20.jpg
وہی جگہ مری آباد کی لیکن رات کا منظر۔۔۔​
Quetta_18.jpg
ایک اور جگہ سے سکون والا منظر سرد راتوں کا​
Quetta_26.jpg
کوہِ مردار کے قریب جو مری آباد میں ہی آتا تھا منظر​
Quetta_Night.jpg
 

الم

محفلین
سی ایم ہاؤس​
Quetta_23.jpg
چلیں تھوڑا باہر کوئٹہ کی طرف۔۔۔یہ ہے نیشنل ہائی وے 40 تفتان بارڈر کی طرف جو ایران جاتی​
Quetta_29.jpg
اُس طرف تو دیکھیں اونٹ​
Quetta_28.jpg
او ہو! کوئٹہ کا انٹر نیشنل ائیر پورٹ تو دیکھیں نا وہ تو دیکھا ہی نہیں​
Quetta_30.jpg
 

الم

محفلین
اب آپکو کوئٹہ سے آگے مضافات میں لے جاتے۔وہاں جاتے ہوئے تفریحی مقامات آتے جن میں ایک اڑک ہے اور مشہورِ زمانہ ہنہ جھیل جو ایک چھوٹے سے ڈیم سُرپل کے پانی سے بنی جو کوئٹہ سے تقریباً 14 کلومیٹر دور ہے جو برٹش کے دور میں 1894میں بنائی تھی جو ایک وقت میں گولڈن فش سے بھری ہوتی تھی اور دنیا کے گرد چکر لگانے والے پرندوں کی آماجگاہ تھی لیکن صد افسوس 2010 میں یہ سوکھ گئی تھی اب کا نہیں پتا۔۔۔ یہ ایک منظراس بند کا جو اس جھیل پہ بنایا گیا تھا۔۔​
800px_Abubakar_Ali.jpg
یہ ہے جھیل کا منظر گرم موسم میں اسکے درمیان میں ایک پوائنٹ بنایا تھا جہاں پیڈل مار مار کے یا چپو والی کشتیوں کے بل پہنچا جاتا تھا۔۔​
Quetta_2.jpg
سرد موسم کے مناظر​
Quetta_1.jpg
Quetta_3.jpg
Quetta.jpg
 

الم

محفلین
یہ منظر کوئٹہ کی برف باری کے دنوں میں بلوچستان جامعہ کی اندرونی طرف سے لیا گیا۔۔۔

Quetta_14.jpg
چلیں یہ تھا مختصر سا تعارف جگہیں تو بہت تھیں لیکن جتنی مل سکی آپ کے گوش کزار کی۔۔۔​
او ہو!! یہ ٹرک بھی نا پھس گیا برف میں چلیں میں چلا ذرا اسکو نکالنے میں لوگوں کی مدد کرنے​
Quetta_24.jpg
ولسلام،
فہیم محمود میر​

ختم شُد۔
 

الم

محفلین
یہ تھی چھوٹی سی کاوش آپکو کوئٹہ کی سیر کرانے کی معافی اگر کوئی غلطی ہو گئی ہو۔۔۔اور اسکو شروع سے دیکھیں گے تو زیادہ مزہ آئے گا انشااللہ۔۔امید ہے دوسرے ساتھی بھی اپنے شہروں سے تعارف کروائیں گے۔میں لاہور کا بھی کروا سکتا تھا کیوں کے اسی میں ڈیرہ ڈالا ہوا لیکن میں نے کہا کے یہ زیادتی ہو گی میری لاہور والے بھائی سے :)۔۔۔امید ہے آپکو پسند آئے گی اگر کوئی املا کی غلطی بھی ہو گئی ہو تو معاف کر دیجئے گا :)۔۔۔!!

اللہ آپ سب کا نگہبان ہو!
(آمین)
 

الم

محفلین
Top