رافع شروع ہی سے پوزیشن حاصل کرنے والوں میں شامل رہا تھا لہذا اس فرمائش کو پورا کرنا بھی ممکن نہ تھا۔
"رافع نے سارا دن اسکول میں آج کیسے گزارا ہوگا؟"
یہ سوال گھر کے تمام افراد کے ذہن میں آیا۔ یہاں تک کہ رکشا رکنے کی آواز آئی اور رافع میاں مردہ چال چلتے گھر پہنچے۔
اسکول بیگ صوفے پر پٹخا اور جوتے ایک طرف پھینکے۔
"میں کل اسکول نہیں جاؤں گا۔"
یہ اعلان انہوں نے گزشتہ پانچ چھ سالوں میں ایک دفعہ بھی نہیں کیا تھا۔ یقینی طور پر اس خبر نما اعلان کے سنتے ہی تمام افراد کے کان کھڑے ہو گئے۔
"کیا ہوگیا ہے رافع؟ طبیعت تو ٹھیک ہے؟"
"اسکول میں آج کسی سے لڑائی جھگڑا تو نہیں ہوا؟"
رنگ برنگے تبصرے تھے۔ سنی ان سنی کرتے ہوئے رافع نے کمبل اوپر تان لیا اور کسی کو کوئی جواب نہ دیا۔ ثمن آپی آگے بڑھیں۔ وہ کیا سب گھر والے جانتے تھے کہ رافع انتہائی ذمہ دار، سنجیدہ اور صلح جو بچہ ہے، یہاں مسئلہ کچھ اور ہے۔
ثمن آپی نے رافع کے منہ سے کمبل ہٹایا اور اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔
"کہیں بخار تو نہیں ہے میرے بھیا کو۔"
رافع گم صم لیٹا رہا۔
"پیٹ میں یا سر میں درد تو نہیں ہے؟" امی نے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
"سر میں درد ہے نہ پیٹ میں، پھر بھی طبیعت خراب ہے۔" رافع نے آہستہ سے کہا۔
"رات کیا کھایا تھا؟" ہر شخص جو سوال پوچھنا فرض عین سمجھتا ہے، وہ یہی ہوتا ہے۔
"رات صرف چائے رس لیے تھے۔" رافع نے بد دلی سے بتایا۔
"کہیں گرے تو نہیں جس کی وجہ سے چوٹ لگی ہو؟" ثمن آپی نے رائے ظاہر کی۔
"نہیں، میں تو کئی روز سے کہیں کھیلنے ہی