حسان خان
لائبریرین
تو جب
بمبریت کے قاتل پہاڑوں کی صلیبوں سے اتر آئے
تو یہ جانا
کہ ہم دشتِ عدم کو پار کر آئے
ہر اک کے پاؤں چھلنی جسم شل
اعضا تھکن سے چور
لیکن سب
ہراسِ مرگ سے بے جان۔۔۔ بے حس تھے
سبھی یوں زرد رو جیسے
ابھی تک آسمانوں کے سفر سے لوٹ کر
روحیں نہیں آئیں
چلو ہم سب کے سب زندہ ہیں
جیسے بھی ہیں یکجا ہیں
ضیا، باسط، سعید اور میں
ہمارا میزباں کب سے نہ جانے
گھر کے دروازے کھلے چھوڑے
سبک شہتیر کے پُل پر ہمارا منتظر تھا
اس کو یہ معلوم تھا
ہم اجنبی مہماں
سیاحت کے لیے کن مشکلوں سے
ہفت خواں طے کر کے
اِس وادی میں آئیں گے
چناروں کے بلند اشجار
انگوروں کی بیلیں
چار سُو سبزہ
ہوائیں بیدمشک و عود و مُر کی خوشبوؤں سے
چُور بوجھل
طائرانِ خوشنما و خوش نوا۔۔۔ بے کل
سبک رفتار چشموں کی تہوں میں
پتھروں کا نیلم و یاقوت سا چھل بل
ادھر کچھ دور بُزغالوں کے گلے
نوجواں چرواہیوں کے دودھیا چہروں کی صورت
برف سے شفاف و دل آرا
فضا حیرت فزا۔۔۔ سحر آفریں دنیا
"مژہ برہم مزن تا نشکنی رنگِ تماشا را"
ہمارا میزباں مفلس تھا
لیکن شام کو خوانِ ضیافت دیکھ کر
ہم خس بدنداں تھے
کشادہ طشت میں بزغالۂ بریاں
بطک میں آبِ تاک
اور کشتیوں میں ڈھیر سیبوں کے
الاؤ میں دہکتی آگ
کتنی گرم کتنی خوبصورت تھی
مگر ہم منتظر اس پل کے تھے
جب کافرستاں کی جواں پریاں
زمینی خلد کی حوریں
دف و مردنگ کی تھاپوں پہ رقصاں
اپنے محبوبوں کی فرقت کے
نشیلے گیت گائیں گے
الف لیلہ کے شہزادوں کی صورت
ہم میں ہر اک
اس طلسماتی فضا کے سحر میں گم تھا
بتانِ آذری کا رقص جاری تھا
سیہ ملبوس میں لپٹے ہوئے
مرمر کے بت
مہتاب سے پیکر
سبھی باہوں میں باہیں ڈال کر زنجیر کی صورت
کماں کی شکل میں جنباں
کہ جیسے دیوتاؤں کے رتھوں کی گھوڑیاں
وحشت سے پاکوباں
دف و دمامہ و مردنگ کے آہنگ میں
آہستہ آہستہ
کھنکتے قہقہے۔۔۔ محجوب آوازیں بھی
شامل ہو گئیں آکر
کہ جیسے نقرئی گھنگرو
اچانک جھنجھنا اٹھیں
سبھی غارت گرِ تمکین و ہوش و دشمنِ ایماں
ہر اک فتنہ گرِ دوراں
مگر وہ سرگروہِ نازنیناں
غیرتِ ناہید
جانِ حلقۂ خوباں
کشان بی بی
قد و قامت قیامت
جنبشیں جادو
بدن طوفاں
ضیا کردار میں گوتم
مجسم صدق و ایثار و وفا
درد آشنا و نفس کُش ہمدم
لہو اس کا بھی اس شعلے نے گرمایا
مگر سب ساتھیوں سے کم
بتانِ آذری رقصاں
مگر باسط جو اک فنکار
لیکن شکوہ سنجِ زندگی ہر دم
قلم اس کا دُر افشان و گہر تحریر
لیکن خود تہی داماں
شکستہ دل
خود اپنے فن سے اپنے آپ سے نالاں
یہاں دنیا کے غم بھولا ہوا
بسمل
ہر اک پیکر پہ سو سو جان سے قرباں
سعید اک کم نظر جذبات کا پتلا
مہندس
اور فقط جسموں کا سوداگر
جو اپنے ساتھیوں سے بھی چھپا کر ساتھ لایا تھا
کئی تحفے
ملمع کی ہوئی انگوٹھیاں
جھوٹے نگوں کے ہار
دل آویز آویزے
کسی ماہر شکاری کی طرح
اپنی کمند و دام پر نازاں
ہر اک پر سحر طاری تھا
بتانِ آذری کا رقص جاری تھا
ضیا حیرت میں گم
باسط ز خود رفتہ
سعید افسوں زدہ
میں بت
کشان بی بی کے لب
کلیوں کی صورت نیم وا
اور ہم فقط
آواز کی خوشبو سے پاگل
لذتِ معنی سے نامحرم
زبانِ یار کیلاشی و ما از حرفِ بیگانہ
(ہمارے میزباں نے ترجمانی کی)
کشان بی بی یہ کہتی ہے
"مرے محبوب تو اک دستۂ مُر ہے
کہ جو راتوں کو میری چھاتیوں کے درمیاں
خوشبو لٹاتا ہے
مری ہمجولیو!
بستی کے سارے نوجوانوں میں
مرا محبوب پیارا
جس طرح بن کے درختوں میں ہو نخلِ سیب استادہ
مرا محبوب
جیسے جھاڑیوں کے درمیاں کوئی گلِ سوسن
مرا محبوب مجھ سے کل ملا تھا
اُس نے مجھ سے خوب باتیں کیں
وہ کہتا تھا کہ اے میری پری
اے نازنین
اب تو مری بستی کو میرے ساتھ چل
برسات کا موسم چلا
بادل برس کر کھل چکے
انگور اور سیبوں کی مٹی جاگ اٹھی
اے کوہساروں کی چکوری
تو نہ جانے کن پہاڑوں کی دراڑوں میں چھپی ہے
آ مرے ہمراہ چل پیاری"
بتانِ آذری کا رقص جاری تھا
فضا پر سحر طاری تھا
ہر اک کی آنکھ میں تل کی طرح
وہ کافرستاں کی قلوپطرہ
مگر ہم میں کوئی سیزر نہ انتونی
ضیا گوتم سہی
لیکن کشاں بی بی
وہ کافر جو ضیا کو بھی نہ سونپی جائے ہے مجھ سے
نہ جانے کس طرح یہ شب ڈھلی
لیکن سحر دم
جب پرندوں کے چہکنے کی صدا آئی
کشان بی بی
سیہ ملبوس میں لپٹی
جبیں پر کوڑیوں کا تاج
گالوں پر گھنی زلفیں
کنیزوں کی طرح اپنی رفیقوں کو لیے
رخصت ہوئی ہم سے
بصد اندازِ استغنا و دارائی
تو ہم سارے تماشائی تھے پتھر
اور پتھر تھے تماشائی
(احمد فراز)
کشان بی بی = کافرستان کی ایک لڑکی
بمبریت کے قاتل پہاڑوں کی صلیبوں سے اتر آئے
تو یہ جانا
کہ ہم دشتِ عدم کو پار کر آئے
ہر اک کے پاؤں چھلنی جسم شل
اعضا تھکن سے چور
لیکن سب
ہراسِ مرگ سے بے جان۔۔۔ بے حس تھے
سبھی یوں زرد رو جیسے
ابھی تک آسمانوں کے سفر سے لوٹ کر
روحیں نہیں آئیں
چلو ہم سب کے سب زندہ ہیں
جیسے بھی ہیں یکجا ہیں
ضیا، باسط، سعید اور میں
ہمارا میزباں کب سے نہ جانے
گھر کے دروازے کھلے چھوڑے
سبک شہتیر کے پُل پر ہمارا منتظر تھا
اس کو یہ معلوم تھا
ہم اجنبی مہماں
سیاحت کے لیے کن مشکلوں سے
ہفت خواں طے کر کے
اِس وادی میں آئیں گے
چناروں کے بلند اشجار
انگوروں کی بیلیں
چار سُو سبزہ
ہوائیں بیدمشک و عود و مُر کی خوشبوؤں سے
چُور بوجھل
طائرانِ خوشنما و خوش نوا۔۔۔ بے کل
سبک رفتار چشموں کی تہوں میں
پتھروں کا نیلم و یاقوت سا چھل بل
ادھر کچھ دور بُزغالوں کے گلے
نوجواں چرواہیوں کے دودھیا چہروں کی صورت
برف سے شفاف و دل آرا
فضا حیرت فزا۔۔۔ سحر آفریں دنیا
"مژہ برہم مزن تا نشکنی رنگِ تماشا را"
ہمارا میزباں مفلس تھا
لیکن شام کو خوانِ ضیافت دیکھ کر
ہم خس بدنداں تھے
کشادہ طشت میں بزغالۂ بریاں
بطک میں آبِ تاک
اور کشتیوں میں ڈھیر سیبوں کے
الاؤ میں دہکتی آگ
کتنی گرم کتنی خوبصورت تھی
مگر ہم منتظر اس پل کے تھے
جب کافرستاں کی جواں پریاں
زمینی خلد کی حوریں
دف و مردنگ کی تھاپوں پہ رقصاں
اپنے محبوبوں کی فرقت کے
نشیلے گیت گائیں گے
الف لیلہ کے شہزادوں کی صورت
ہم میں ہر اک
اس طلسماتی فضا کے سحر میں گم تھا
بتانِ آذری کا رقص جاری تھا
سیہ ملبوس میں لپٹے ہوئے
مرمر کے بت
مہتاب سے پیکر
سبھی باہوں میں باہیں ڈال کر زنجیر کی صورت
کماں کی شکل میں جنباں
کہ جیسے دیوتاؤں کے رتھوں کی گھوڑیاں
وحشت سے پاکوباں
دف و دمامہ و مردنگ کے آہنگ میں
آہستہ آہستہ
کھنکتے قہقہے۔۔۔ محجوب آوازیں بھی
شامل ہو گئیں آکر
کہ جیسے نقرئی گھنگرو
اچانک جھنجھنا اٹھیں
سبھی غارت گرِ تمکین و ہوش و دشمنِ ایماں
ہر اک فتنہ گرِ دوراں
مگر وہ سرگروہِ نازنیناں
غیرتِ ناہید
جانِ حلقۂ خوباں
کشان بی بی
قد و قامت قیامت
جنبشیں جادو
بدن طوفاں
ضیا کردار میں گوتم
مجسم صدق و ایثار و وفا
درد آشنا و نفس کُش ہمدم
لہو اس کا بھی اس شعلے نے گرمایا
مگر سب ساتھیوں سے کم
بتانِ آذری رقصاں
مگر باسط جو اک فنکار
لیکن شکوہ سنجِ زندگی ہر دم
قلم اس کا دُر افشان و گہر تحریر
لیکن خود تہی داماں
شکستہ دل
خود اپنے فن سے اپنے آپ سے نالاں
یہاں دنیا کے غم بھولا ہوا
بسمل
ہر اک پیکر پہ سو سو جان سے قرباں
سعید اک کم نظر جذبات کا پتلا
مہندس
اور فقط جسموں کا سوداگر
جو اپنے ساتھیوں سے بھی چھپا کر ساتھ لایا تھا
کئی تحفے
ملمع کی ہوئی انگوٹھیاں
جھوٹے نگوں کے ہار
دل آویز آویزے
کسی ماہر شکاری کی طرح
اپنی کمند و دام پر نازاں
ہر اک پر سحر طاری تھا
بتانِ آذری کا رقص جاری تھا
ضیا حیرت میں گم
باسط ز خود رفتہ
سعید افسوں زدہ
میں بت
کشان بی بی کے لب
کلیوں کی صورت نیم وا
اور ہم فقط
آواز کی خوشبو سے پاگل
لذتِ معنی سے نامحرم
زبانِ یار کیلاشی و ما از حرفِ بیگانہ
(ہمارے میزباں نے ترجمانی کی)
کشان بی بی یہ کہتی ہے
"مرے محبوب تو اک دستۂ مُر ہے
کہ جو راتوں کو میری چھاتیوں کے درمیاں
خوشبو لٹاتا ہے
مری ہمجولیو!
بستی کے سارے نوجوانوں میں
مرا محبوب پیارا
جس طرح بن کے درختوں میں ہو نخلِ سیب استادہ
مرا محبوب
جیسے جھاڑیوں کے درمیاں کوئی گلِ سوسن
مرا محبوب مجھ سے کل ملا تھا
اُس نے مجھ سے خوب باتیں کیں
وہ کہتا تھا کہ اے میری پری
اے نازنین
اب تو مری بستی کو میرے ساتھ چل
برسات کا موسم چلا
بادل برس کر کھل چکے
انگور اور سیبوں کی مٹی جاگ اٹھی
اے کوہساروں کی چکوری
تو نہ جانے کن پہاڑوں کی دراڑوں میں چھپی ہے
آ مرے ہمراہ چل پیاری"
بتانِ آذری کا رقص جاری تھا
فضا پر سحر طاری تھا
ہر اک کی آنکھ میں تل کی طرح
وہ کافرستاں کی قلوپطرہ
مگر ہم میں کوئی سیزر نہ انتونی
ضیا گوتم سہی
لیکن کشاں بی بی
وہ کافر جو ضیا کو بھی نہ سونپی جائے ہے مجھ سے
نہ جانے کس طرح یہ شب ڈھلی
لیکن سحر دم
جب پرندوں کے چہکنے کی صدا آئی
کشان بی بی
سیہ ملبوس میں لپٹی
جبیں پر کوڑیوں کا تاج
گالوں پر گھنی زلفیں
کنیزوں کی طرح اپنی رفیقوں کو لیے
رخصت ہوئی ہم سے
بصد اندازِ استغنا و دارائی
تو ہم سارے تماشائی تھے پتھر
اور پتھر تھے تماشائی
(احمد فراز)
کشان بی بی = کافرستان کی ایک لڑکی