ابن سعید
خادم
کچے کیلے کا ذائقہ عجیب ہوتا ہے، اس ذائقے کے لیے ہماری علاقائی زبان میں ایک لفظ موجود ہے لیکن اس کا فصیح اردو متبادل ہمارے علم میں نہیں۔ کچا کیلا یوں ہی کھانا غالباً اچھا تجربہ ثابت نہ ہو لیکن ایسا بھی نہیں کہ اس کے پکوان نہیں بن سکتے۔ لہٰذا کل ہم نے کچے کیلوں کو پکوڑوں کا ملزم قرار دیا۔ ہمارے مطبخ میں کچے کیلوں پر ڈھائے گئے مظالم کی با تصویر داستان ملاحظہ فرمائیں۔
سخت، گودے سے بھرے ہوئے کچے کیلے جنھیں چند دنوں تک رکھ دیا جائے تو پک جائیں، لیکن تا حال بالکل بھی پکے ہوئے نہ ہوں اور ان میں مٹھاس کا نام و نشان نہ ہو۔
کچے کیلے کا چھلکا اتارنا ایک مشکل کام ہے۔ کچے کیلے کا چھلکا اس کے گودے سے چپکا ہوتا ہے اور آسانی سے علیحدہ نہیں ہوتا۔ پکے کیلے کی طرح چھلکا اتارنے کی کوشش میں چھلکا بار بار ٹوٹ جاتا ہے۔ اس کوشش میں ناخنوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور انگلیاں بد رنگ ہو سکتی ہیں۔ اگر چاقو سے چھیلنے کی کوشش کریں تو کچھ گودا چھلکے کے ساتھ اتر آئے گا یا پھر چھلکے کا کچھ حصہ گودے میں چپکا رہ جائے گا۔ اس کا جو طریقہ کار ہم اپناتے ہیں وہ کچھ یوں ہے کہ چاقو کی نوک کو کیلے کی پشت کی جانب چھلکے کی موٹائی تک اندر اتار کر چٹکی سے پکڑے ہوئے لمبائی میں ایک چیرا لگاتے ہیں اور پھر چیرے کے پاس چٹکی سے ہولے ہولے چھلکے کو گودے سے علیحدہ کرتے جاتے ہیں، یوں سالم گودا چھلکے کے خول سے باہر نکل آتا ہے۔ ذیل کی تصویر ملاحظہ فرمائیں۔
ذیل کی تصویر فقط اس لیے پیش کی جا رہی ہے کہ ہم نے سارے کیلے صحیح و سالم چھلکوں سے آزاد کر لیے، اس بات کی سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔
اب ان جمع سالم کیلوں کو جمع مکسر قاشوں میں تبدیل کرنے کی باری۔ ہم نے ہر کیلے کو لمبائی میں دو حصوں میں منقسم کیا اور پھر ہر حصے کے چار چپٹے بخرے کیے۔
ان قاشوں پر نمک چھڑک کر علیحدہ رکھتے ہیں اور ان کی بے پردگی مٹانے کے لیے لبادہ تیار کرتے ہیں۔ عموماً اس مقصد کے لیے بیسن کا گاڑھا محلول استعمال کیا جاتا ہے لیکن ہم ان کو خستہ رکھنا چاہتے تھے اس لیے بیسن کے بجائے چاول کا آٹا استعمال کیا۔ بیسن کو شکایت نہ ہو کہ ہماری کوئی قدر ہی نہیں اس لیے تھوڑی مقدار میں بیسن بھی شامل کر دیا۔ یہ محلول کیلے کی قاشوں سے دامن نہ چھڑائے اس لیے اس میں تھوڑا سا مکئی کا پاؤڈر (کارن اسٹارچ) بھی شامل کر دیا۔ تھوڑا سا نمک، تھوڑی سی باریک کٹی ہوئی سبز مرچیں اور سادہ لباس کو رنگین کرنے کے لیے چٹکی بھر ہلدی پاؤڈر شامل کر کے پانی میں گاڑھا محلول تیار کر لیا۔
اس کے بعد کے مراحل تو بن کہے جگ ظاہر ہیں۔ ماضی قریب میں خریدے ہوئے ڈیپ فرائر میں تیل گرم کیا (ڈیپ فرائر دستیاب نہ ہو تو کڑاہی وغیرہ استعمال کریں۔) اور پھر قاشوں کو محلول میں ڈبکیاں دلا کر کھولتے تیل میں ڈالنے کی سزا دی۔
کرکرے خستہ پکوڑے تیار ہیں، گو کہ اس لذیذ پکوان کی تیاری میں کچے کیلوں اور ہری مرچوں سمیت کئیوں کو دردناک سزا ملی (کوئی ان کی بھی تو سوچے۔)
اگر سردی کے دنوں میں اچانک دھوپ کے ساتھ نسبتاً گرم دن میسر آ جائے اور سونے پر سہاگہ یہ کہ اختتام ہفتہ بھی ہو تو کوئی سبب نہیں کہ کچھ وقت ساحل سمندر پر نہ گزارا جائے۔ بس پھر کیا ہے، ناشتہ دان تیار کرتے ہیں، پکوڑوں کے ساتھ ہرے دھنیے اور پودینے کی سبز چٹنی اور ساتھ ہی میٹھی چٹنی کے بارے میں کیا خیال ہے؟
اضافی نوٹ: اگر یہ پکوڑے بچ جائیں تو بعد میں شوربہ تیار کر کے ان کا سالن بن سکتا ہے۔
سخت، گودے سے بھرے ہوئے کچے کیلے جنھیں چند دنوں تک رکھ دیا جائے تو پک جائیں، لیکن تا حال بالکل بھی پکے ہوئے نہ ہوں اور ان میں مٹھاس کا نام و نشان نہ ہو۔
کچے کیلے کا چھلکا اتارنا ایک مشکل کام ہے۔ کچے کیلے کا چھلکا اس کے گودے سے چپکا ہوتا ہے اور آسانی سے علیحدہ نہیں ہوتا۔ پکے کیلے کی طرح چھلکا اتارنے کی کوشش میں چھلکا بار بار ٹوٹ جاتا ہے۔ اس کوشش میں ناخنوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور انگلیاں بد رنگ ہو سکتی ہیں۔ اگر چاقو سے چھیلنے کی کوشش کریں تو کچھ گودا چھلکے کے ساتھ اتر آئے گا یا پھر چھلکے کا کچھ حصہ گودے میں چپکا رہ جائے گا۔ اس کا جو طریقہ کار ہم اپناتے ہیں وہ کچھ یوں ہے کہ چاقو کی نوک کو کیلے کی پشت کی جانب چھلکے کی موٹائی تک اندر اتار کر چٹکی سے پکڑے ہوئے لمبائی میں ایک چیرا لگاتے ہیں اور پھر چیرے کے پاس چٹکی سے ہولے ہولے چھلکے کو گودے سے علیحدہ کرتے جاتے ہیں، یوں سالم گودا چھلکے کے خول سے باہر نکل آتا ہے۔ ذیل کی تصویر ملاحظہ فرمائیں۔
ذیل کی تصویر فقط اس لیے پیش کی جا رہی ہے کہ ہم نے سارے کیلے صحیح و سالم چھلکوں سے آزاد کر لیے، اس بات کی سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔
اب ان جمع سالم کیلوں کو جمع مکسر قاشوں میں تبدیل کرنے کی باری۔ ہم نے ہر کیلے کو لمبائی میں دو حصوں میں منقسم کیا اور پھر ہر حصے کے چار چپٹے بخرے کیے۔
ان قاشوں پر نمک چھڑک کر علیحدہ رکھتے ہیں اور ان کی بے پردگی مٹانے کے لیے لبادہ تیار کرتے ہیں۔ عموماً اس مقصد کے لیے بیسن کا گاڑھا محلول استعمال کیا جاتا ہے لیکن ہم ان کو خستہ رکھنا چاہتے تھے اس لیے بیسن کے بجائے چاول کا آٹا استعمال کیا۔ بیسن کو شکایت نہ ہو کہ ہماری کوئی قدر ہی نہیں اس لیے تھوڑی مقدار میں بیسن بھی شامل کر دیا۔ یہ محلول کیلے کی قاشوں سے دامن نہ چھڑائے اس لیے اس میں تھوڑا سا مکئی کا پاؤڈر (کارن اسٹارچ) بھی شامل کر دیا۔ تھوڑا سا نمک، تھوڑی سی باریک کٹی ہوئی سبز مرچیں اور سادہ لباس کو رنگین کرنے کے لیے چٹکی بھر ہلدی پاؤڈر شامل کر کے پانی میں گاڑھا محلول تیار کر لیا۔
اس کے بعد کے مراحل تو بن کہے جگ ظاہر ہیں۔ ماضی قریب میں خریدے ہوئے ڈیپ فرائر میں تیل گرم کیا (ڈیپ فرائر دستیاب نہ ہو تو کڑاہی وغیرہ استعمال کریں۔) اور پھر قاشوں کو محلول میں ڈبکیاں دلا کر کھولتے تیل میں ڈالنے کی سزا دی۔
کرکرے خستہ پکوڑے تیار ہیں، گو کہ اس لذیذ پکوان کی تیاری میں کچے کیلوں اور ہری مرچوں سمیت کئیوں کو دردناک سزا ملی (کوئی ان کی بھی تو سوچے۔)
اگر سردی کے دنوں میں اچانک دھوپ کے ساتھ نسبتاً گرم دن میسر آ جائے اور سونے پر سہاگہ یہ کہ اختتام ہفتہ بھی ہو تو کوئی سبب نہیں کہ کچھ وقت ساحل سمندر پر نہ گزارا جائے۔ بس پھر کیا ہے، ناشتہ دان تیار کرتے ہیں، پکوڑوں کے ساتھ ہرے دھنیے اور پودینے کی سبز چٹنی اور ساتھ ہی میٹھی چٹنی کے بارے میں کیا خیال ہے؟
اضافی نوٹ: اگر یہ پکوڑے بچ جائیں تو بعد میں شوربہ تیار کر کے ان کا سالن بن سکتا ہے۔