کھیل ہی کھیل میں‌ اپنی املاء درست کریں۔

محمد امین

لائبریرین
لیجئے تمام تر اشکالات ہی دُور ہوگئے۔ :)
ویسے محمد امین بھیا! میں نے پہلے ہی عرض کردیا تھا کہ اپنی تحریر مجھے خود محفل کی نذر کرنے کے قابل نہیں لگ رہی تھی، سو پوسٹ نہیں کی لیکن آپ کے اصرار اور اپنی اصلاح کی خاطر پوسٹ کردی اور اس کا یہ فائدہ ہوا کہ میری اصلاح ہوگئی اور شاید مجھ جیسے دوسروں کی بھی ہوجائے تو تحریر کا مقصد ہی پورا ہوجائے۔ :)

اختلافِ نکتۂ نظر ہونا اچھی بات ہے۔ اور ایسا نہیں کہ آپ کی تحریر یا نکتۂ نظر محفل میں پوسٹ کرنے کے قابل نہیں۔ آپ علمی حوالے سے بہت اچھی طرح اپنی بات کو احاطۂ تحریر میں لائیں۔ کم از کم میں اتنی جامع اور مربوط تحریر نہیں لکھ سکتا۔ اور بحث کرکے ہی ہم ایک دوسرے سے سیکھ سکتے ہیں۔ تو اپنے نکتۂ نظر کا ذکر کرنا کوئی ہچکچاہٹ کی بات نہیں۔ اچھا ہوا آپ نے ارسال کیا اسی بدولت ہمارے دماغ کی تھوڑی گرد تو جھڑی ورنہ ہم ایسے سطحی آدمی ہیں کہ جو جیسا ہے چلنے دو کیا ضرورت دماغ چلانے کی ۔۔۔
 

مغزل

محفلین
رسید حاضر ہے گڑیا میں بشرطِ فرصت حاضر ہوتا ہوں۔۔ روزے داروں کے افطار کا انتظام بھی کرنا ہے۔۔ والسلام
 

مغزل

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
گوکہ یہ لڑی اُردو الفاظ کی دُرست ادائیگی اور املا کے حوالہ سے ہے تاہم محفل کے ایک انتہائی معزز ومحترم رکن کی شفقت آمیز ہدایت کے بموجب اس علمی اختلاف کے سلسلہ میں وضاحت پیش کر رہی ہوں جس کا اشکال انگریزی الفاظ کی اُردو املا کے سلسلہ میں مجھے درپیش ہوا تھا۔ اشکال کی اجمالی تفصیل یہ ہے کہ آیا انگریزی کے وہ الفاظ جن کی صوتی ادائیگی واؤ کے ساتھ ہوتی ہے انہیں اُردو میں الف کے ساتھ لکھنا درست ہے یا واؤ کے ساتھ۔ مثلاً ’’آفس، آڈیو، بلاگ‘‘ درست ہے یا ’’اوفس، اوڈیو، بلوگ‘‘ وغیرہ۔ اس ضمن میں مَیں اپنی ناقص عقل کے مطابق جو دُرست سمجھتی ہوں، اسے حوالہ محفل کررہی ہوں جس میں زیادہ احتمال اس بات کا ہے کہ میرا مفروضہ غلط ہی ہوگا لیکن اسے یہاں پیش کرنے کا مقصد ہی یہی ہے کہ میرے اس مفروضے کو سمجھ کر اس کی اصلاح کی جائے۔ :)
دوسری درخواست منتظمین سے ہے کہ اس کے لئے اگر یہ لڑی مناسب نہ ہو تو اسے کسی مناسب زمرہ میں منتقل فرمادیں۔ :)
اس سلسلہ میں پہلے انگریزی کے اُن الفاظ کی تھوڑی سی وضاحت ہوجائے جو ’’سین ساکن‘‘ سے شروع ہوتے ہیں اور اُردو میں املا لکھتے وقت ایسے الفاظ کے شروع میں ’’الف وصلی‘‘ لگا دیا جاتا ہے۔
مثلاً: ’’سکول کو اسکول، سٹوڈنٹ کو اسٹوڈنٹ، سٹیشن کو اسٹیشن، سکائی کو اسکائی، سٹار کو اسٹار، سٹون کو اسٹون، سٹیم کو اسٹیم، سپیڈ کو اسپیڈ، سپین کو اسپین‘‘ وغیرہ۔
ایسے فرنگی الفاظ اُردو میں دونوں طرح سے لکھے جاتے ہیں یعنی ’’سین ساکن‘‘ سے بھی اور ابتدا میں ہمزہ یا الف وصلی لگا کر بھی۔ صوبہ پنجاب اور خیبر پختون خوا (سابقہ صوبہ سرحد) میں ایسے الفاظ عموماً الف کے بغیر لکھے جاتے ہیں (جیسے ’’سکول، سٹوڈنٹ، سٹیشن‘‘وغیرہ) جبکہ صوبہ سندھ خصوصاًکراچی میں ایسے الفاظ الف کے اضافہ سے لکھے جاتے ہیں(جیسے ’’اسکول، اسٹوڈنٹ، اسٹیشن‘‘وغیرہ) کراچی اور ایسے علاقوں میں جہاں مادری زبان اُردو ہے، وہاں اس طرح لکھنا مجبوری بھی ہے اور اُردو قواعد کے مطابق بھی کیوں کہ اُردو زبان میں ’’سین ساکن‘‘ سے کوئی لفظ شروع نہیں ہوتا اور سین ساکن سے پہلے ایک الف مکسورہ کا اضافہ کرکے اسے سین ساکن سے جوڑا جاتا ہے تاکہ اسے (اُردو قواعد کے مطابق) پڑھا جاسکے۔ برخلاف صوبہ پنجاب اور خیبر پختون خوا کے کہ وہاں بغیر الف کے ایسے الفاظ لکھے جاتے ہیں۔ صوبہ خیبر پختون خوا کی حد تک تو بات کسی قدر سمجھ میں آتی ہے کیوں کہ پشتو زبان میں بھی سین ساکن سے الفاظ شروع ہوتے ہیں مثلاً: ’’ستا نوم سہ دے‘‘ (اُردو ترجمہ: آپ کا نام کیا ہے؟) اس میں ’’ستا‘‘ سین ساکن سے شروع ہوتا ہے، لہٰذا سین ساکن سے شروع ہونے والے فرنگی الفاظ بغیر الف کے لکھنے کے باوجود وہ اسے دُرست پڑھتے ہیں کیوں کہ ان کی مادری زبان میں بھی سین ساکن سے شروع ہونے کا قاعدہ موجود ہے۔ اس کے برخلاف صوبہ پنجاب میں جب ایسے الفاظ بغیر الف کے لکھے جاتے ہیں تو مجھ جیسے کم خواندہ اس کی ادائیگی میں غلطی کربیٹھتے ہیں۔ ایسے کئی الفاظ سننے میں آئے جو لکھے تو (انگریزی کے حوالے سے) بالکل دُرست تھے لیکن چونکہ ان کے ابتدا میں الف موجود نہ تھا اور نہ ان کی زبان میں سین ساکن سے الفاظ شروع ہونے کا قاعدہ موجود ہے، لہٰذا اپنے طور پر وہ سین پر فتحہ کی کی حرکت دے کر اس کی ادائیگی کرتے ہیں۔ مثلاً ’’اسکول کو سہ کول، اسٹوڈنٹ کو سہ ٹوڈنٹ، اسٹیشن کو سہ ٹیشن، اسپرے کو سَپْ رے‘‘ وغیرہ۔
اس احتمالی غلطی سے بچنے کے لئے (میری ناقص عقل کے مطابق) سین ساکن سے شروع ہونے والے انگریزی کے الفاظ کو اُردو میں لکھتے ہوئے ’’الف‘‘ کا اضافہ کیا جاتا ہے۔
(نوٹ: ایسی غلطیاں عموماً انگریزی سے نابلد افراد ہی کرتے ہیں، ورنہ تھوڑی بہت انگلش جاننے والا مذکورہ الفاظ چاہے الف کے ساتھ ہوں یا بغیر الف کے بالکل دُرست پڑھتے ہیں)
نوٹ ۲: یہ ضروری نہیں کہ انگریزی میں سین سے شروع ہونے والے تمام الفاظ سین ساکن سے ہی شروع ہوں بلکہ متحرک سین سے بھی شروع ہوسکتے ہیں جیسے:
سافٹ وئیر، سانتا کلاز، سفاری، سن، سینٹر، سنیٹر، سائنس، ساؤتھ افریقا وغیرہ۔
لیکن یہاں چونکہ اشکال سین ساکن سے شروع ہونے والے الفاظ کے متعلق ہے، لہٰذا ان کا صرف اجمالاً ذکر کردیا ہے۔
اس تمہید کے بعد اب اصل موضوع (انگریزی کے وہ الفاظ جن کی صوتی ادائیگی واؤ کے ساتھ ہوتی ہے، انہیں اُردو میں الف کے ساتھ لکھنا درست ہے یا واؤ کے ساتھ) کی طرف آتے ہیں۔
جس طرح سابقہ قاعدہ میں ذکر ہوا کہ سین ساکن سے شروع ہونے والے انگریزی الفاظ کی اُردو املا الف مکسورہ کے ساتھ لکھنا (میری ناقص عقل کے مطابق) دُرست ہے، اسی طرح یہاں بھی یہی قاعدہ کار فرما ہے۔
انگریزی کے ایسے الفاظ جن کی صوتی ادائیگی واؤ کے ساتھ ہوتی ہے، اس میں اُردو قاعدہ کے مطابق نہ تو فتحہ کی حرکت ہوتی ہے، نہ ضمہ کی بلکہ ان دونوں کے درمیان کی حرکت سے ان کی دُرست ادائیگی ہوتی ہے۔ مثلاً: ’’اس کے جھوٹ کا ’’پَول‘‘ کھل گیا‘‘، ’’اسے ’’پُھول‘‘ بہت پسند ہیں‘‘، رچرڈ اور ’’پال‘‘ (Paul) گہرے دوست ہیں۔‘‘
ان تینوں جملوں میں پہلے جملے کا پول ’’پ‘‘ پر فتحہ (زبر) کی آواز، دوسرے جملے کا پھول ’’پ‘‘ پر ضمہ (پیش) کی آواز جبکہ تیسرے جملے کے انگریزی لفظ پال کے ’’پ‘‘ پر فتحہ اور ضمہ کی درمیانی آواز نکلتی ہے جس کے لئے اُردو کا کوئی قاعدہ موجود نہیں۔ (فرق سمجھنے کے کے لئے اُردو کے پَول اور انگریزی کے پال کی صوتی ادائیگی کرکے محسوس کی جاسکتی ہے۔)
اس صورت میں انگریزی کے ایسے تمام الفاظ جن کی صوتی ادائیگی واؤ ساکن ماقبل مفتوح ومضموم کی درمیانی شکل کی صورت میں ہو، اسے اُردو میں الف کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔ جیسے:
اوفس کو آفس، اوسکر کو آسکر، اوکسفورڈ کو آکسفورڈ، اوڈیو کو آڈیو، بوس کو باس، ڈوکٹر کو ڈاکٹر،بوڈی کو باڈی، سوفٹ کو سافٹ، لوٹ کو لاٹ، اوسٹریلیا کو آسٹریلیا وغیرہ۔
علاوہ ازیں انگریزی کے وہ تمام الفاظ جن کا واؤ ساکن ماقبل مفتوح یا مضموم ہو، ایسے الفاظ کی اُردو املا واؤ کے ساتھ ہی لکھی جاتی ہے۔ جیسے واؤ ساکن ماقبل مفتوح کی مثال:
کوٹ، بوٹ (Boat)، نوٹ، ووٹ (بروزن ’’اوٹ‘‘) وغیرہ۔
واؤ ساکن ماقبل مضموم کی مثال:
بُوٹ، سُوٹ، شُوٹ، رُوٹ (بروزن ’’لُوٹ‘‘) وغیرہ۔
انگریزی کے واؤ ساکن ماقبل مفتوح ومضموم کی درمیانی شکل کے صوتی ادائیگی والے الفاظ کو ’’الف‘‘ سے لکھنے کی دوسری اہم وجہ اس احتمالی غلطی سے بچنے کے لئے اختیار کی جاتی ہے جس کا تذکرہ ’’سین ساکن‘‘ والے تمہیدی پیراگراف میں گزر چکا کہ انگریزی سے نابلد افراد اُردو میں پڑھتے ہوئے اس کی ادائیگی میں اس بناء پر غلطی کربیٹھتے ہیں کہ اس کا کوئی قاعدہ (مفتوح ومضموم کی درمیانی حرکت والا) اُردو میں موجود نہیں، لہٰذا یا تو وہ اسے فتحہ کے ساتھ یا ضمہ کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ ذیل میں اس کی چند مثالیں درج کی گئی ہیں:
مثلاً انگریزی کا لفظ ’’پال‘‘ یہ تینوں طرح سے ادا ہوتا ہے یعنی فتحہ اور ضمہ کی درمیانی حرکت کے ساتھ، فتحہ کے ساتھ اور ضمہ کے ساتھ۔
انگریزی کے واؤ ساکن ماقبل مفتوح ومضموم کی درمیانی شکل کے صوتی ادائیگی والے الفاظ کو ’’واؤ‘‘ سے لکھنے کی بناء پر ان میں فرق نہیں رہے گا کہ اس سے کونسا پال مراد ہے مثلاً:
پول (Paul) پول (Pole) پول (Pool) (اس میں تفریق نہیں کی جاسکتی کہ کونسا پال یا پول مراد ہے)
پال (Paul) پَول (Pole) پُول (Pool) (فرق صاف ظاہر ہے)
ایسی ہی مثال کال (Call) کَول (Coal) کُول (Cool)
کہ ان تینوں کو کول (Call) کول (Coal) کول (Cool) یعنی واؤ سے لکھنے کی صورت میں مفہوم سمجھنے اور پڑھنےیا بولنے کی غلطی کا احتمال ہے۔
اسی طرح گاگل (Gaugle) اور گوگل (Google) دونوں کو واؤ سے لکھنے کی صورت میں بعض افراد گاگل کو بھی گوگل (Google) پڑھ سکتے ہیں۔
یہی مثال لاء (Law) لو (Low)، شاٹ (Shot) شوٹ (Shoot) اور آنرز (Honors) اونرز (Owners) کی بھی ہے کہ ’’لا کو لو، شاٹ کو شوٹ اورآنرز کو اونرز‘‘ لکھنے کی بناء پر ان کا غلط مفہوم سمجھے جانے کا احتمال ہے۔
اور بات صرف مفہوم ہی کی نہیں بلکہ ان کی ادائیگی میں بھی مجھ ایسے انگریزی سے نابلد افراد غلطی کرسکتے ہیں۔
نوٹ: اوپر ذکر کی گئی باتوں کو قاعدہ کلیہ نہ سمجھا جائے بلکہ یہ ایک مبتدی کا اپنا ناقص خیال ہے جس کا غلط ہونا عین قرین قیاس ہے بلکہ یوں سمجھیے کہ ایک غلط قاعدہ اپنی طرف سے پیش کرکے آپ اہل علم وفن کی خدمت میں اس لئے پیش کیا ہے کہ اس کو علمی دلائل سے ردّ کرکے میری اصلاح فرمائیں۔ :)
جزاکم اللہ احسن الجزاء
بہت خوب گڑیا ، ماشا اللہ تو یہ جوہر ہیں۔۔
دیکھا اسے کہتے ہیں ’’ قدرِ زر، زرگرشناشد، قدرِ جوہر،جوہری‘‘
میں سب سے پہلے تو زبان کے حوالے سے اتنی مدّلل مرصّع طرزِ نگارش پر اپنی بہناکو دعا ئیں دیتا ہوں ، اللہ کرے زورِ قلم ، حرمتِ قرطاس و قلم اور زیادہ۔۔۔ جُگ جُگ جیو۔۔ میری طر ف سے میری گڑیا رانی کے لیے ایک تحفہ ہے جو میں سمیع بھائی (جو مصروفیات نما مشکلات کاشکار ہیں ) کی وساطت سے ۔۔ انشا اللہ جلد یا بہ دیر ضرور مل جائے گا۔
ایک بات کی طر ف اشارہ تو نہیں بس تھوڑی سی صراحت کہ ۔۔ علاقائی بول چال میں لکھے جانے والے الفاظ کا تعلق میرے نزدیک علم سے اور لاعلمی سے نہیں (مراد سکول سٹوڈنٹ وغیرہ جن کا تذکرہ تفصیلی ہوچکا) بلکہ لب و لہجہ سے ہے اور تغّیرات و تبدّلِ زماں و مکاں کی وجہ سے بول چال سے تحریر کا حصّہ بن گئے ہیں ان سے چھٹکارا حاصل کرنا احسن عمل ہے مگر ’’جُوئے شِیرلانے‘‘ سے کہیں زیادہ کٹھن ہے ۔۔کال callلاء law جیسے الفاظ کی بابت عرض کرتا چلوں کہ یہاں فتح کا استعمال ’’ مخفی‘‘ یعنی ’’ فتحِ مجہول‘‘ سے ہے ۔ عام طور پر افراد چوں کہ روز مّرہ کو ہی زبان خیال کرتے ہیں سو وہ اس طرف دھیان نہیں دیتے ، مکمل مضمون میری دانست میں معرکے اور خاصے کا ہے۔۔ مجھے فخر ہے کہ میری بہنا نے میری بات کی لاج رکھی اور زبان و بیان کے حوالے سے مضمون شاملِ محفل کیا۔ہر چند کہ امین میاں اس کا فخر مجھ سے لے جانے میں برتری دکھا گئے ۔۔ ایک بات اور کہ میں نے امین کا اختلافی مراسلہ بھی دیکھا ہے اس بابت میں امین سے عرض گزار رہوں گا۔ مگر اپنی گڑیا کو ایک بات بتائے چلتا ہوں کہ اختلاف کو ہمیشہ فراغ دلی سے سننا چاہیے ، مباحث میں عام رویہ یہ ہے کہ احباب اختلاف کو مخاصمت کی ذیل میں لیتے ہیں گڑیا اگر ایسا بھی جائے توہمیشہ خندہ پیشانی سے توجہ سے دیکھنا چاہیے ۔مجھے اپنی گڑیا میں بالکل اپنے جیسے معاملات نظر آتے ہیں ماشا اللہ چشمِ بد دُور

(حاشیہ: اصل مراسلہ خرابی کی وجہ سے ضائع ہوگیا تھا یہ اشاعت دوسری نشست میں ممکن ہو سکی)
 

محمد امین

لائبریرین
محمود بھائی بے فکر رہیں :) ۔۔۔ نازنین بہن اور میں فراخ دلی کے ساتھ اختلافی گفتگو کر رہے ہیں اور اس میں کوئی فتح و شکست کی بات نہیں ۔۔۔ :)
 

نازنین ناز

محفلین
جزاکم اللہ خیرا احسن الجزاء
مغل بھیا! آپ کے ان الفاظ اور حوصلہ افزائی نے میرے لئے امرت کا کام کیا اور میرے جذبے کو مہمیز بھی دی ہے۔ :)
اگر آپ کی رہنمائی اور شفقت آمیز اصلاح اسی طرح ہم رُکاب رہی تو ان شاء اللہ آپ کے حکم کی تعمیل میں گاہے بگاہے اسی طرح لکھنے کی کوشش کرتی رہوں گی۔
شکریہ کہہ کر میں اپنے بھیا کے اس مان کو نہیں توڑ سکتی جو انہیں مجھ پر ہے، اور ویسے بھی اپنے بھیا سے اصلاح لینا میرا حق بھی تو ہے۔ :)
 

مغزل

محفلین
نازنین: جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ آپ کی تحریر بہت اچھی ہے۔ آپ دلائل دینا بھی جانتی ہیں اور لکھنا بھی۔ آپ کی تحریر تمہید سے تو مجھے قطعاً اختلاف نہیں۔

غالباً میں پہلے درست انداز میں آپ تک پہنچا نہیں پایا۔ میں تحریر کے معاملے میں خاصا بے ربط سا آدمی ہوں۔ بہرحال:

جہاں تک بات تفریق کی ہے، تو ایسا ہی تو اردو الفاظ میں بھی نہیں ہے کیا؟ بہت سے الفاظ لکھے ایک ہی طرح جاتے ہیں مگر بولے مختلف انداز میں جاتے ہیں۔
مثال کے طور پر: "تو" بفتحِ اول اور "تو" بضمِ اول۔۔۔ ۔

ایسی ہی بہت سی مثالیں ہوسکتی ہیں۔

آپ نے یہ لکھا ہے کہ :

"یہی مثال لاء (Law) لو (Low)، شاٹ (Shot) شوٹ (Shoot) اور آنرز (Honors) اونرز (Owners) کی بھی ہے کہ ’’لا کو لو، شاٹ کو شوٹ اورآنرز کو اونرز‘‘ لکھنے کی بناء پر ان کا غلط مفہوم سمجھے جانے کا احتمال ہے۔
اور بات صرف مفہوم ہی کی نہیں بلکہ ان کی ادائیگی میں بھی مجھ ایسے انگریزی سے نابلد افراد غلطی کرسکتے ہیں۔"

تو اس سلسلے میں میری گزارش صرف اتنی تھی کہ اردو میں الف ساکن ماقبل مفتوح کا تلفظ کسی بھی طور درمیانی آواز نہیں ہوسکتا (فتحہ اور ضمہ کی درمیانی آواز)۔ جب کہ اردو میں اس درمیانی آواز کے لیے ہمیشہ واؤ کا استعمال ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر:

سو (تعداد) ۔۔ نو (تعداد)۔۔۔ شوہر (بیچارہ) ۔۔۔ ۔ طور (بفتحِ اول)۔۔۔ ۔ اور ۔۔۔ ۔۔

آپ غور کیجیے ۔۔۔ (اس لفظ غور پر بھی غور کیجیے) ۔۔۔ کہ اوفس کا تلفظ کیا لفظ "اور" سے ملتا جلتا نہیں ہے؟

جب اردو میں ایک تلفظ کے لیے پہلے سے ایک رائج طریقہ (یا حرف) موجود ہے ۔۔ (اس موجود کے "مو" پر بھی غور کریں)۔۔ تو اس کے لیے الف جو کہ ایک بالکل مختلف آواز ہے، کا استعمال مجہول تلفظ پر کیوں؟

ہاں اگر آپ امریکی لب و لہجے میں بولنا چاہیں تو میری تمام بحث بیکار ہے :) کیوں کہ امریکی تلفظ ایسا ہی ہوتا ہے جیسا اردو میں لکھا جاتا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں کہ اردو پر امریکی انگریزی کے اثرات رہے ہیں۔ اردو پر تو ہمیشہ سے برطانوی انگریزی کے اثرات تھے۔ اردو ادب کے ابتدائی دور (اس دور پر بھی غور ضروری ہے) میں ادباء اور معلمین انگریزی سے اس قدر واقف نہیں تھے تو یہ بنیاد وہیں غلط پڑی تھی۔ بہرحال "غلط العام صحیح" مانا جاتا ہے :)۔ ہاں میں نے کچھ ادیبوں کے ہاں ایسا ہی لکھا دیکھا ہے جیسا میں کہتا ہوں۔۔۔

تدوین: نازنین ناز بہن اور دوسروں کے لیے ایک وضاحت بھی کرتا چلوں۔ یہ بحث مباحثہ خدانخواستہ کسی کی پگڑی اچھالنے کے لیے یا علمی رعب جھاڑنے کے لیے نہیں ہے۔ کیوں کہ میں ایک جاہل سا انسان ہوں مگر سیکھنے کے لیے بحث کرتا ہوں۔

بہت خوب امین ۔۔ ماشا اللہ
میں مجموعی حیثیت میں تمھاری بات سے اختلاف نہیں رکھتا ، ہاں مقدور بھر جہل سمیت حاضر ہوا تھا۔ سو گڑیا کے مراسلے میں ’’ تلفظِ اصل اور علاقائی بول چال‘‘ کے حوالے سے گزارش کر دی ہے۔۔ مجھے خوشی ہے امین لفظوں کی امانت میں بھی خوب امین ہے ماشا اللہ ۔۔ خوش رہو یہ مباحث دیکھ کر پڑھ کر روح سرشار ہوگئی ۔ ہماری محفل کو اسی نوع کے مباحث کی ضرورت ہے۔۔ بلکہ میں اکیلا کب تک گلے میں ڈھول لٹکائے پیٹتا رہتا ، شاباش۔۔ تحفہ تمھارے لیے بھی ہے ۔۔ مگرفی الوقت پیٹھ ٹھونک رہا ہوں۔۔ خوش رہو شاد رہو آباد رہو۔۔
 

مغزل

محفلین
محمد امین اور نازنین ناز بہنا کے اشتراکی انکسارپر میں اپنے حوالے سے کیا لکھوں ؟؟
کہ میری مثال ’’ طوقِ زرّیں ہمہ در گردنِ خر‘‘ ۔۔۔۔(گدھے کے گلے میں زرّ و جواہر سے مرصّع مالا حمائل ہے) والی ہے۔۔
اور میں بھی اسی میں خوش خوش اٹھکیلیاں کرتا جاتا ہوں کہ ’” پخ‘‘ ( علمیّت) ہمراہ ہے اور میرا بوجھ اس نے بھی بانٹ رکھا ہے۔۔
وگرنہ من آنم کہ من دانم۔۔۔ دامن و دیدہ و دل خالی است۔
ایک شعر یاد پڑتا ہے:
نہ شگوفہ ام نہ برگم نہ درختِ سایہ دارم
ہمہ حیرتم کہ دہقاں بہ چہ کار کِشت ما را ؟

رات بھیگتی چلی جارہی ہے ۔۔ سو باقی مراسلت آئندہ پر موقوف بشرطِ زندگی و مہلتِ صبح و پّری
 

محمد امین

لائبریرین
محمد امین اور نازنین ناز بہنا کے اشتراکی انکسارپر میں اپنے حوالے سے کیا لکھوں ؟؟
کہ میری مثال ’’ طوقِ زرّیں ہمہ در گردنِ خر‘‘ ۔۔۔ ۔(گدھے کے گلے میں زرّ و جواہر سے مرصّع مالا حمائل ہے) والی ہے۔۔
اور میں بھی اسی میں خوش خوش اٹھکیلیاں کرتا جاتا ہوں کہ ’” پخ‘‘ ( علمیّت) ہمراہ ہے اور میرا بوجھ اس نے بھی بانٹ رکھا ہے۔۔
وگرنہ من آنم کہ من دانم۔۔۔ دامن و دیدہ و دل خالی است۔
ایک شعر یاد پڑتا ہے:
نہ شگوفہ ام نہ برگم نہ درختِ سایہ دارم
ہمہ حیرتم کہ دہقاں بہ چہ کار کِشت ما را ؟

رات بھیگتی چلی جارہی ہے ۔۔ سو باقی مراسلت آئندہ پر موقوف بشرطِ زندگی و مہلتِ صبح و پّری

بھیگنے کے ساتھ ساتھ آج رات کی خنکی بھی بڑھ گئی ہے :)
 
ماشاء اللہ یہاں تو علم وفضل کے دریا بہائے جارہے ہیں۔ :) ہم جیسے کم علم اس پر کیا تبصرہ کریں کہ نہ تو انگریزی سے واقفیت ہے، نہ اردو سے۔ لے دے کے اپنا مافی الضمیر ہی کسی نہ کسی طرح ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں بیان کردیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بڑا معرکہ مار لیا۔ :)
یہی عرض کرسکتے ہیں نازنین ناز اور محمد امین بھائی بہت تعمیری گفتگو کر رہے ہیں آپ دونوں۔ اردو محفل کو ایسی ہی تحاریر کی ضرورت ہے۔
 

مغزل

محفلین
ماشاء اللہ یہاں تو علم وفضل کے دریا بہائے جارہے ہیں۔ :) ہم جیسے کم علم اس پر کیا تبصرہ کریں کہ نہ تو انگریزی سے واقفیت ہے،
نہ اردو سے۔ لے دے کے اپنا مافی الضمیر ہی کسی نہ کسی طرح ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں بیان کردیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بڑا معرکہ مار لیا۔ :)
یہی عرض کرسکتے ہیں نازنین ناز اور محمد امین بھائی بہت تعمیری گفتگو کر رہے ہیں آپ دونوں۔ اردو محفل کو ایسی ہی تحاریر کی ضرورت ہے۔
وہ کیا ہے کہ اپنے حافظ سمیع اللہ آفاقی بھائی کوئی ٹوٹے پھوٹے کا انکسار نہیں چلے گا۔۔دیکھیں ہماری گڑیا نے کیا خاصے کا مضمون لکھا ہے ۔ یہ آپ دو دونوں بہن بھائی چھپے رستم ہیں ۔
مگر ہم بھی تھوڑی سی پرکھ رکھتے ہیں ، سیدھی شرافت سے ان ابحیاث میں حصہ لیا کیجے تاکہ باقیوں کا بھی بھلا ہوسکے ۔جزاک اللہ
 

محمد امین

لائبریرین
سمیع بھائی :) ۔۔۔ فون پر آپ سے گفتگو کرلینے کے بعد ہم تو آپ کے اس (بقول مغل بھائی) ٹوٹے پھوٹے انکسار کو نہیں مان سکتے :)
 

تبسم

محفلین
بہت سارے لوگ السلامُ علیکم کو مندرجہ ذیل املاء میں لکھتے ہیں :

السلام علیکم
اسلام و علیکم
السلام و علیکم

جبکہ اس کی صحیح املا مندرجہ ذیل ہے :

اَلسلامُ علیکم

یہ عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے " تم پر سلامتی ہو"۔
السلام میں حرف ل حرف شمسی ہے۔ اس کی آواز نہیں آتی لیکن لکھنے میں آتا ہے۔


اس کے ہجے کچھ اس طرح ہیں :

اَس سَ لً ا مُ عً لًے کُ م
میں اس بات کو لئے کر بہت کنفوز ہو رہی تھی
آپ کا بہت بہت شکریہ بھائی
السلام کر نے میں اور لکھنے میں بہت فرق ہو تا ہے اور میں السلام علیکم لکھنے میں ایک بھی غلطی ہو گی تو اس کے معٰی بدل جاتے ہیں
اس بات کو لے کر میں بہت ڈر تی تھی ایک بار پھر آپ کا بہت بہت شکریہ
 
Top