کیا دو قومی نظریہ غلط ہے ؟

سید زبیر

محفلین
ہر سال نوجوان نسل ایک سوال پوچھتی ہے کہ آخر پاکستان کیوں بنا تھا ؟ بالکل اسی طرح جیسے ایک صاحب جائداد سے جائداد سنبھلتی نہیں تو وہ اپنے بزرگوں کو برا بھلا کہتا ہے کہ اس سے تو بہتر ہوتا کہ کوئی کاروبار کرلیا ہوتا ، یا کسی اچھے کاروبار میں سرمایہ کاری کر لی ہوتی ، کمائی آتی اور ہم آرام سے کپہیں بھی بہتر مکان کرائے پر لے کر رہ لیتے ۔ اب یہ مکان تو گلے ہی پڑ گیا کبھی دیواروں میں چوہے بل بنا لیتے ہیں اور کبھی دروازے کی چوکھٹ کو دیمک چاٹتی ہے بہتر یہی ہے کہ اس کے دروازے ، کھڑکیاں اور ملبہ بیچ کر سب بھائی اپنا پنا خود دھندہ کریں ۔ لیکن مکان کی اہمیت کیا ہے یہ کوئی مجھ سے پوچھے ، یہ شناخت ہے ، آج جبکہ میری عمر ساٹھ سال ہو چکی ہے میں کرائے کہ مکان میں رہتا ہوں ۔ ایک انچ قطعہ زمین میری نہیں جب میں شناختی کارڈ بنوانے نادرا کے دفتر گیا تو انہوں نے میرا مستقل پتہ پوچھا میں نے انہیں بتایا کہ میرا مستقل پتہ فی الحال یہی عارضی پتہ ہے کیونکہ میرا کوئی گھر نہیں ، وہ مجھے اپنے افسر کے پاس لے گیا کہ جناب ان کا کوئی مستقل پتہ ہی نہیں ۔ دیکھا ، یہ مکان ہی شناخت بنتی ہے ۔
اس بار اس مضمون کی ترغیب اس طرح ہوئی کہ اس دھاگے میں بعض ساتھیوں نے تحریک پاکستان کو ایک سازش قرا ردیا ۔یعنی ایک ایسی سازش جس برصغیر کے مسلمانوں کو ایک علیحدہ ملک مل گیا ۔ کیا یہ ایک سازش تھی یا یہ ملک جس مقصد کے لئے بنا تھا اس سے دور کرنا ایک سازش تھی ۔
کیا دو قومی نظریہ غلط تھا ؟
طالب علموں کو اسکولوں کالجوں میں بتایا جاتا ہے کہ دو قومی نظریے کی بنیاد سرسید احمد خان نے رکھی تو یہ بھی تاریخ کے ساتھ ایک مذاق ہے۔ سرسید سے بہت پہلے لالہ لجپت رائے اور دوسرے بہت سے بھارتی دو قومی نظریہ دے چکے تھے مگر جانے کیا وجہ تھی کہ دو قومی نظریے کا سہرا سرسید کے سر باندھا گیا اس میں کوئی شک نہیں کہ سرسید کی خدمات تحریک پاکستان کے لیے بلاواسطہ کہیں زیادہ ہیں اور یہ انہی کے علی گڑھ کالج کے فیضان کا اثر تھا کہ پاکستان کی تحریک نے زور پکڑ لیا وگرنہ مسلمانوں کے لیے پاکستان کا حصول کم از کم ایک صدی تک ممکن نہ تھا۔
دو قومی نظریے کی بنیاد غیر منقسم ہندوستان میں سب سے پہلے البیرونی نے اپنی کتاب ”کتاب الہند“میں پیش کی۔ اس نے واضح طور پر لکھا کہ مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں بلکہ اس نے تو یہاں تک بتایا کہ ہندو مسلمانوں کو نیچ قوم قرار دیتے ہیں اور ان سے کراہیت کرتے ہیں۔
1193 ء میں شہاب الدین غوری نے اُس وقت کے راجہ پرتھوی راج چوہان کے سامنے دو قومی نظریہ پیش کیا اور پرتھوی راج چوہان کو جنگ سے بچنے کے لیے مشورہ دیا کہ دریائے سندھ کا اس طرف والا حصہ (جو اب پاکستان میں شامل ہے) غوری کو دے دیا جائے جبکہ دریائے سندھ کا دوسری طرف والا حصہ (جس میں آج کا بھارت شامل ہے) وہ رکھ لے مگر چوہان نے اس کی بات نہ مانی اور شرمناک شکست سے دوچار ہوا۔
اور بقول ہمارے قائد اعظم ؒ کے کہ برصغیر میں دو قومی نظریہ اسی دن پیدا ہوگیا تھا جب یہاں کے پہلے ہندو نے اسلام قبولکیا اور وہ اپنی برادری سے کٹ کر مسلم قوم کا حصہ بنا۔
یہ بات تو واضح ہے کہ ہندووں ، یہودیوں ، عیسائیوں ،سکھوں ، پارسیوں کی طرح ایک قوم ہیں۔ جن کی اپنی تۃذیب ، و روایات ، رسم و رواج ہیں یعنی قومی نظریہ تو مسلم ہے ۔ اب بحث یہ ہے کہ ہندو مسلم اکٹھے کیوں نہیں رہے ؟ جبکہ سینکڑوں سال سے وہ رہ رہے تھے ۔
بلا شبہ مسلمان اور ہندو سینکڑوں سال سے رہ رہے تھے مگر جیسا کہ البیرونی کی کتاب " کتاب الہند " میں ذکر ہے کہ ہندو مسلمانوں کو نیچ سمجھتے تھے ۔ مسلمان ایک نیچ قوم کی حیثیت سے ذہنی غلام تھے ۔ یا د رہے کہ یہ وہ مسلمان نہیں تھے جو ایران ، ترک یا عرب سے آئے تھے ان سیدوں ،شیرازیوں ، گیلانیوں ، برلاس ، قریشیوں بخاریوں کو مقام حاصل تھا یہ وہ مسلمان تھے جن کا نسلی تعلق ہندووں ہی کی مختلف برادریوں سے تھا جن میں بگٹی ، مینگل ، بھٹو ، بھٹی ، شیخ ، راو ، رانا ،کھوکھر، سبھی شاامل تھے ۔مگر ان کے قبول اسلام ہی سے وہ ہندو قوم سے جدا ہو کر امت مسلمہ میں شامل ہوگئے اور ہندووں کی نظر میں نیچ کہلائے ۔ہندوستان میں انگریزوں کی آمد سے ساڑھے پانچ سو سے زائد ریاستیں تھیں جن کے ماتحت جاگیریں تھٰن۔ تاریخ شاہد ہے کہ جن ریاستوں کے حکمران مسلمان تھے وہاں رواداری ، مساوات عام تھی ، مگر جن کے حکمران ہندو تھے وہاں تعصب عام تھا۔ ہو سکتا ہے مسلمان حکمران ہندووں کی اکثریت اور حیثیت کی وجہ سے مصلحتاً رواداری برتتے ہوں مگر بعض حالات میں ایسا نہیں تھا۔بے شک انگریزوں نے بزور شمشیر اور عیاری و مکاری سے برصغیر پر قبضہ کیا مگر انہوں نے عوامی مفاد کے لئے کام بھی بہت کئے جن میں تعلیمی اداروں ، ہسپتالوں کے قیام کے علاوہ سڑکوں اور ریلوے کا جال بچھانا انہیں کی وجہ سے ممکن ہو سکا ۔انگریزوں کی غلامی کا جو سب سے اہم فائدہ ہوا وہ جذبہ حریت کا پیدا ہونا تھا ۔ ورنہ انگریزوں کی آمد سے قبل یہ ہندو اور مسلمان اپنے جاگیردار یا نواب کی بیگار و خدمت گذاری کے علاوہ کچھ نہیں سوچ سکتے تھے۔ سینکڑوں سال سے مقامی حکمران ان کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک کرتے تھے ۔ یہ غلامی ہماری گھُٹی میں شامل تھی اور ہے آج بھی ہم اپنے محلے ، اپنی بستی کے غنڈے ، جابر و ظالم کے سامنے کھڑے ہونے کی جرات نہیں کرتے ۔بہر حال ہندو اور مسلامانوں نے امل کر انگریزوں سے آزادی کی جنگ لڑی جس میں اگر مینگل پانڈے ،بھگت سنگھ ، جیسے آزادی کے متوالے تھے تو دلا بھٹی ۔ رائے احمد خان کھرل ، عجب خان آفریدی جیسے بھی اس قافلے میں شامل تھے مگر اُس دور کے خوشامد یوں نے انہیں ڈاکو اور لٹیرے کی حیثیت سے متعارف کرایا ۔ آزادی کی جنگ دونوں قوموں نے لڑی ۔ اُس وقت معاشی اور معاشرتی طور پر ہندو مسلمانوں کے مقابل میں بہت مستحکم تھے ۔ مسلمانوں کی اکثریت مقامی طور پر ان کے تابع تھی ۔ جہاں ہندو کم تھے وہاں بھی معاشرتی اور سیاسی طور پر وہ غالب تھے اس لئے یہ یقین کامل تھا کہ مسلمان آزادی کے بعد پھر ماضی کی طرح ہندووں کی غلامی میں آجائیں گے ۔۔ اس موقع پر مسلمانوں کا ایک مفاد پرست طبقے نے جن میں پنجاب کی یونیسسٹ پارٹی اور خیبر پختون خواہ کی کانگریس مذہبی علما سے مل کر پاکستان اور دو قومی نظریہ کی مخالفت کی ۔ آج حالت یہ ہے کہ جو لوگ یا صوبے تحریک پاکستان کی مخالفت میں پیش پیش تھے، آج انہیں کی اولادیں مسندِ اقتدار پر جلوہ افروز ہیں
پنجاب کی یونیسٹ پارٹی اور سر فضل حسین خضر حیات ٹوانہ کی قائداعظم اور ڈاکٹر محمد علامہ اقبال سے دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ پنجاب نے آخر دم تک پاکستان کی مخالفت کی اور کانگریس کی حمایت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ کو پنجاب میں کبھی کامیابی نہ ہو سکی
بلوچستان کی بات جانے دیجیے کہ وہ تو خان آف قلات کی جاگیر تھی۔ آئیے خیبرپختونخواہ کی طرف چلتے ہیں۔ یہ سرزمین اُس شخص کی ہے جس نے پاکستان دشمنی کی مثال قائم کی اور کانگریس کی چاپلوسی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی خیبر پختون خوا میں ریفرنڈم کران پڑا جس میں انہیں منہ کی کھانی پڑی آج اے۔این۔پی جو درحقیقت خان عبدالغفار خان کا لگایا ہوا پودا ہے آج خیبرپختونخواہ کی سیاست پر راج کر رہا ہے۔ کیا یہ تاریخ کا مذاق نہیں؟
جن اسلامی جماعتوں نے قائداعظم کو کافر اعظم کہا۔ اقبال پر کفر کا فتویٰ عائد کیا اور پاکستان کو ایک حرافہ سے تشبیح دی۔ مگر آج وہی پاکستان کی ایک کثیر آبادی پر اپنا تسلط قائم رکھنا چاہتی ہیں کیا یہ تاریخ کا ظلم نہیں؟
محسن بھوپالی نے اسی لئے کہا تھا

نیرنگی سیاست دوراں تو دیکھئے
منزل انہیں ملی، جو شریک سفر نہ تھے

درباری ملاؤں اور مفاد پرست سیاست دانوں نے پاکستان کو جس قدر نقصان پہنچایا ہے اتنا دھچکا کسی نہیں پہنچایا۔ بازاری عورتیں ان سے افضل ہیں کہ جہاں وہ بے چاری اپنا جسم فروخت کرتی ہیں اور یہ یہ چند کھوٹے سکوں کے عوض اپنا ایمان فروخت کرتے ہیں یہ وہی ہیں۔جنہوں نے شیعہ کو سنی کے ہاتھوں اور سنیوں کو شیعوں کے ہاتھ شہید کروایا۔ انہوں ہی نے قوم کو علاقائی ، فرقوں اور مختلق قویتوں میں تقسیم کردیا خدا کی لعنت ہو ایسے لو گوں پر۔ خدا کی مار پڑے ایسے جہنمیوں پر۔وگرنہ میرے آقا محمد ﷺ نے تو سدا امن کا،پیار و محبت کا آشتی اور مذہبی رواداری کا پیغام دیا۔
تو عرض یہ ہے کہ یہ ارض پاکستان سازش کا تحفہ نہیں عطیہ خداوندی ہے جو 27 رمضان کو معرض وجود میں آیا ۔ہمارا نظریہ مستحکم ہے ، ہمارا عقیدہ و ایمان ہمیں باہم اور غیر مسلموں سے رواداری ، مساوات ، امن و سلامتی کا درس دیتا ہے ۔ مثبت سوچ سے ہمیں آگے بڑھنا ہے ۔
 
دوقومی نظریے کی ترویج میں مولانا احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کا بھی اہم کردار ہے۔ انہوں نے ہندو مسلم اتحاد پر مبنی ہر سیاسی تحریک کی مخالفت کی اور بار بار مسلمانوں کو یہ یاد دلایا کہ ہندو مسلمانوں کے کبھی دوست یا ہمدرد نہیں ہوسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی حمایت کرنے والے مسلمانوں اور علماء کی اکثریت مولانا احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے ہی مذہبی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے۔
 
آخری تدوین:

دوست

محفلین
ہمیشہ امت اور قوم کو مِکس کر کے ایک عجیب الخلقت بچہ تشکیل دے دیتے ہیں۔ پانچ ٹانگیں اور دو دھڑ۔
ابھی کل ہی ایک اور قوم نے کراچی میں فریڈم مارچ نکالا ہوا تھا۔ نام کے وہ سارے مسلمان تھے اور پاکستانی بھی تھے۔ لیکن کہہ خود کو سندھی رہے تھے اور مانگ پاکستان سے آزادی۔
قومیں مذہب کی بنیاد پر کم اور دوسری بنیادوں پر زیادہ بنتی ہیں۔ آج تک تو یہی دیکھا اور سنا ہے۔ ہاں مذہب پسند یہ بات سننا پسند نہیں کرتے۔ ان کے مطابق اسلام کے آنے کے بعد اب یا تو مسلمان قوم ہے یا کافر قوم۔ پھر قوم = امت اور پھر وہی عجیب الخلقت دو دھڑ پانچ ٹانگوں والا بچہ جو نہ حرکت کرنے جوگا ہے نا چلنے جوگا ہے۔ عرب قوم سے تعلق رکھنے والی سعودی قوم قطر قوم سے اپنا سفیر بلوا لیتی ہے۔ ترک قوم شامی قوم کا جہاز مار گراتی ہے۔
 
دو قومی نظریہ برطانوی ہند میں علیحدہ ملک کی خواہش کے نتیجے میں پیدا ہوا جب مسلمان انگریز اور ہندو کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں پس رہے تھے۔
جب دو قومی نظریے کی روح کو فراموش کر دیا جائے گا تو فریڈم مارچ جیسی چیزیں پیدا ہونا ایک منطقی بات ہے۔
دو قومی نظریہ اس وقت ناکام یا غلط ثابت ہوتا اگر پاکستان میں سے کوئی قومیت بھارت سے الحاق کی خواہش کرتی۔ ایسا تو مجیب الرحمن نے بھی نہیں کیا حالانکہ بھارت نے مجیب کو بھارت میں ادغام کی پیشکش بھی کی تھی۔
اگر پاکستانی اور بھارتی مسلمانوں کا تقابل کیا جائے تو دوقومی نظریہ سچا ہی ثابت ہوتا ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
سیّد زبیر بھائ۔ آپ نے میرے خیالات کی ترجمانی کی ہے۔ مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہیں چھوڑی۔
کیسے منزل پہ پہنچتا کوئ
راہ میں راہ نما بیٹھے تھے
 

عبد الرحمن

لائبریرین
حضرت! بہت اہم محسوس موضوع پر قلم اٹھایا ہے اور زبردست لکھا ہے۔
جزاکم اللہ خیرا!
اللہ کریم آپ کی تمام مشکلات اور مسائل کو دور فرما کر صحت و عافیت نصیب فرمائے۔ (آمین)
 

سید ذیشان

محفلین
میں تو اس موضوع پر کچھ نہیں کہہ سکوں گا۔ پہلے ہی شیعہ اور پشتون ہونے کی وجہ سے تین چوتھائی مائنوریٹی تو ہوں، مزید کچھ کہوں گا تو پکا غدار کہلاوں گا۔
 

زیک

مسافر
"پاکستان کیوں بنا تھا؟" اور "کیا دو قومی نظریہ غلط ہے؟" انتہائی مختلف سوال ہیں۔
 

نایاب

لائبریرین
"پاکستان کیوں بنا تھا؟" اور "کیا دو قومی نظریہ غلط ہے؟" انتہائی مختلف سوال ہیں۔
پاکستان کا مطلب کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ لا الہ الا اللہ
جب سے یہ نعرہ بر آمد ہوا ہے ۔ پاکستان وجود میں آنے کی وجوہات اور دو قومی نظریہ کی حقیقت کہیں پس پردہ رہ گئی ہے ۔
اور یہ حقیقت بھی کسی سے مخفی نہیں کہ سن اکہتر میں دو قومی نظریہ کس طرح اپنوں کی مدد سے خلیج بنگال میں ڈبو دیا گیا ۔۔
وہ لوگ جو کہ " دو قومی نظریئے " کی شدت سے مخالفت کرتے رہے وہی پاکستان بننے کے بعد اس نظریئے کے ٹھیکیدار بن بیٹھے ۔
اور پیڑھی در پیڑھی مفادات کا کھیل کھیلتے کھیلتے دو قومی نظریئے کو مذاق بنا کر رکھ دیا ۔۔۔
کوئی بتائے گا کہ آج مسلمان بحیثیت اک قوم کے متحد و متفق آرام و سکون سے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔؟
اس سوال کا کھرا جواب ہی اس بات کا تعین کر دے گا کہ
دو قومی نظریہ کی اساس و بنیاد کیا ہے ۔۔۔۔۔؟
 
دو قومی نظریہ اگر خلیج بنگال میں ڈوبا ہوتا تو مشرقی بنگال بھارت کا حصہ بننا قبول کر چکا ہوتا۔ :)
دوقومی نظریہ نہیں ڈوبا ہم لوگ خود غرضی اور منزل فراموشی کی دلدل میں ڈوب گئے۔
 
ہمیشہ امت اور قوم کو مِکس کر کے ایک عجیب الخلقت بچہ تشکیل دے دیتے ہیں۔ پانچ ٹانگیں اور دو دھڑ۔
ابھی کل ہی ایک اور قوم نے کراچی میں فریڈم مارچ نکالا ہوا تھا۔ نام کے وہ سارے مسلمان تھے اور پاکستانی بھی تھے۔ لیکن کہہ خود کو سندھی رہے تھے اور مانگ پاکستان سے آزادی۔
قومیں مذہب کی بنیاد پر کم اور دوسری بنیادوں پر زیادہ بنتی ہیں۔ آج تک تو یہی دیکھا اور سنا ہے۔ ہاں مذہب پسند یہ بات سننا پسند نہیں کرتے۔ ان کے مطابق اسلام کے آنے کے بعد اب یا تو مسلمان قوم ہے یا کافر قوم۔ پھر قوم = امت اور پھر وہی عجیب الخلقت دو دھڑ پانچ ٹانگوں والا بچہ جو نہ حرکت کرنے جوگا ہے نا چلنے جوگا ہے۔ عرب قوم سے تعلق رکھنے والی سعودی قوم قطر قوم سے اپنا سفیر بلوا لیتی ہے۔ ترک قوم شامی قوم کا جہاز مار گراتی ہے۔
دوست محمد شاکر عزیز بھائی دراصل دو قومی نظریہ کیا ہے۔ ہم نے صرف مذہبی اختلاف کو دو قومی نظریہ سمجھ لیا ہے۔ اور صرف اس اختلاف کو بنیاد بنا کر الگ ملک کا مطالبہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حالانکہ کہ دو قومی نظریہ تب بھی قائم تھا جب مدینہ میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان معاہدہ ہوا، دونوں قومیں اکٹھی رہیں، تجارت بھی ہوئی اور دیگر معاملات بھی ہاں مذاہب بھی جدا جدا ہی رہے۔
دو قومی نظریہ اس وقت بھی قائم تھا جب مسلمانوں نے کفار مکہ( جو مسلمانوں کے جانی دشمن تھے) سے امن کا معاہدہ کیا ۔
اصل میں دو قومی نظریہ ہے اپنا الگ تشخص قائم رکھنا وہ بعض اوقات اکٹھے رہ کر بھی قائم رہتا ہے اور بعض اوقات زمینی تقسیم سے بھی قائم نہیں رہ پاتا۔

قیام پاکستان کا ایک سبب مذہب کا اختلاف بھی تھا لیکن دیگر بھی کئی اسباب تھے جن کی وجہ سے ایک الگ وطن حاصل کیا گیا۔ اور مجھے بحیثیت پاکستانی فخر ہے۔ ہمارے رہنمائوں نے بالکل درست فیصلہ کیا اور آج ہم اس پیارے وطن میں رہ رہے ہیں۔
گو کہ یہاں بہت سے مسائل ہیں، جان، مال، عزت آبرو کچھ بھی سلامت نہیں لیکن پھر بھی
پاکستان، پاکستان ای اے۔:)
 

سید زبیر

محفلین
ہمیشہ امت اور قوم کو مِکس کر کے ایک عجیب الخلقت بچہ تشکیل دے دیتے ہیں۔ پانچ ٹانگیں اور دو دھڑ۔
ابھی کل ہی ایک اور قوم نے کراچی میں فریڈم مارچ نکالا ہوا تھا۔ نام کے وہ سارے مسلمان تھے اور پاکستانی بھی تھے۔ لیکن کہہ خود کو سندھی رہے تھے اور مانگ پاکستان سے آزادی۔
قومیں مذہب کی بنیاد پر کم اور دوسری بنیادوں پر زیادہ بنتی ہیں۔ آج تک تو یہی دیکھا اور سنا ہے۔ ہاں مذہب پسند یہ بات سننا پسند نہیں کرتے۔ ان کے مطابق اسلام کے آنے کے بعد اب یا تو مسلمان قوم ہے یا کافر قوم۔ پھر قوم = امت اور پھر وہی عجیب الخلقت دو دھڑ پانچ ٹانگوں والا بچہ جو نہ حرکت کرنے جوگا ہے نا چلنے جوگا ہے۔ عرب قوم سے تعلق رکھنے والی سعودی قوم قطر قوم سے اپنا سفیر بلوا لیتی ہے۔ ترک قوم شامی قوم کا جہاز مار گراتی ہے۔
بہت ہی عزیز دوست شاکر عزیز ، شائد میں اپنا موقف واضح نہیں کرسکا ، امت اور قوم کو میں بھی علیحدہ سمجھتا ہوں امت مسلمہ ہے ، جس میں کئی قومیں شامل ہیں ، اس امت کے لئے دین اسلام منتخب کیا گیا ، اس امت کو آخری امت کہا گیا ۔ اور ہدا ئت کی گئی کہ امت کی مثال ایسی ہے جیسے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں پیوست ہو جائیں ۔اینٹوں کی دیوار کی طرح آپس میں جُڑی ہوئی ۔ اس سے نہ ہاتھوں کی انگلیوں کے وجود کو خطرہ ہوتا ہے نہ اینٹوں کے کردار میں کمی ہوتی ہے ۔ ایک اور مثال دوں گا کہ ہمارے ملک کی ایک بری فوج ہے اس میں پنجاب رجمنٹ ، سندھ رجمنٹ ، بلوچ رجمنٹ اور فرنٹئیر فورس رجمنٹ ہیں چاروں انفنٹری یونٹ ہیں ،چاروں کا ایک ہی مقصد یعنی دست بدست لڑائی سے ملک کا دفاع کرنا ، ۔۔اپنی انفرادیت برقرار رکھتے ہوئے باہمی اتحاد ، ہم آہنگی ،یگانگت ہی کامیابی کی کنجی ہے ۔اسی طرح تمام مسلم ممالک کو اپنی انفرادیت برقرار رکھتے ہوئے امت کا واحد وجود برقرا رکھیں۔جس طرح فوج کی تمام یونٹیں ایک واح جسم کی طرح اپنا وجود قائم رکھتی ہے ۔
یہ بد قسمتی ہے کہ امت میں اتحاد نہیں رہا اس کو ہم اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں کہ سچائی یہ ہے کہ ہمیں متحد ہونا چاہئیے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم متحد نہیں ، نہ عالمی سطح پر اور نہ ہی محلہ اور علاقائی سطح پر ، ہم فرقہ پرستی کا شکار ہیں ، ہم لسانی ، علاقائی تعصب میں مبتلا ہوگئے ۔اگر متحد ہوتے ، نیٹو یا وارسا پیکٹ کی طرح تمام اسلامی ممالک کی بھی مشترکہ فوج ہوتی کاش
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر
اسلامی اور سیکولر ملک میں کیا فرق ہوتا ہے ۔ پاکستان اسلامی ملک کے طور پر کیوں بنا تھا ؟ کیا مقاصد حاصل ہوئے ؟ حقیقی اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کے حقوق کیا ہیں ؟ اس پر انشا اللہ کسی اور موقع پر تحریر کروں گا ۔
 

سید زبیر

محفلین
میں تو اس موضوع پر کچھ نہیں کہہ سکوں گا۔ پہلے ہی شیعہ اور پشتون ہونے کی وجہ سے تین چوتھائی مائنوریٹی تو ہوں، مزید کچھ کہوں گا تو پکا غدار کہلاوں گا۔
میرے بھائی سید ذیشان ایسی دل دکھانے کی باتیں پلیز نہ کیا کریں ۔۔انسان ہی عظیم ہے ، یہی اشرف المخلوقات ہے ۔۔۔میرا پیغام محبت ہے ،جہاں تک پہنچے
 
بظاہر تو جو حالات و واقعات چل رہے ہیں اپنی مستعارزندگی میں جو جو کچھ دیکھا ہے اور ہر آنے والے حکمران نے پہلے کو بخشوانے والا جو سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اسکو دیکھ کر یہ سوچتاہوں کہ کیا پاکستان اسی لیئے حاصل کیا گیا تھا کہ ادھر کسی شریف بندے کی عزت محفوظ نہ ہو ادھر انصاف بکتا ہو ادھر صرف چند بااثر خاندانوں کی ہی حکومت ہو۔۔۔۔۔ تو قائداعظم کو اور مسلم لیگ کو ایک ایک لاکھ گالی دینے کو جی چاہتا ہے۔
لیکن پھر پاک استھان کے بارے اؤلیاء کرام کی پیشن گوئیان سنتاہوں کہ اس سے ایک سپرپاوربنے گا اور یہ انصاف اورامن کا گہوراہ ہوگا تو پھر خاموش ہوجاتا ہوں اور دل کو تسلی دیتا ہوں کہ چلو اگر میں نہیں تو میری آنے والی نسل اس سحر کو دیکھیں گی کبھی تو یہ اماوس کی کالی رات ختم ہوگی۔
اس ملک خداداد میں فیض اور جالب مرگئے یہ کہتے ہوئے کہ
اے خاک نشینو اٹھ بیٹھو، وہ وقت قریب آ پہنچا ہے
جب تخت گرائے جائیں گے، جب تاج اچھالے جائیں گے

جب کٹا پھٹا پاکستان ملا تو فیض نے صبح آزادی کے نام سے یہ کلام پیش کیا تھا

یہ داغ‌ داغ اجالا، یہ شب گریدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں، جس کہ آرزو لے کر
چلے تھے کہ یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہو گا شب ست موج کا ساحل
کہیں تو رکے گا سفینہء غم کا دل
جواں لہو کی پر اسرار شاہراہوں سے
چلے یار تو دامن پر کتنے ہاتھ پڑے
دیار حسن کی بے صبر خواب گاہوں سے
پکارتی رہیں بانہیں، دن لاتے رہے
بہت عزیز تھی لیکن سحر کی لگن
بہت قریں تھا لیکن حسینان نور کا دامن
سبک سبک تھی تمنا، دبی دبی تھکن

سنا ہو بھی چکا ہے فراق ظلمت و نور
سنا ہے ہو بھی چکا ہے وصال منزل و گام
دل چکا ہے بہت اہل درد کا سوتر
نشاط وصل حلال و عذاب ہجر حرام
جگر کہ آگ، نظر کی امنگ، دل کی جلن
کسی پہ چارہ ہجراں کا کچھ اثر ہی نہیں
کہاں سے آئی نگار صبا، کدھر کو گئ

ابھی چراغ سر رہ کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی گرانی شب میں کمی نہیں آئی
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں‌ آئی
 

دوست

محفلین
اس قوم کی تاریخ میں اتنے بڑے بڑے ہاسے ہیں کہ ہس ہس کر وکھیاں ٹوٹ جائیں لیکن ہاسے مخول ختم نہیں ہوتے۔ مثلاً یہ دو قومی نظریہ ہی لے لیں۔ ایک وقت تھا جب ابو الکلام آزاد وغیرہ کے خیال میں دو قومی نظریہ کچھ نہیں تھا۔ آج کل کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ابوالکلام بعد میں اپنے خیال پر پچھتائے۔ کچھ اور لوگوں کا خیال ہے کہ ابوالکلام نے کوئی پیشن گوئیاں کر دی ہوئی تھیں کہ بنگال اور مغربی پاکستان وغیرہ کے ٹوٹنے کے امکانات پائے جاتے ہیں۔ لیکن یہ خیال چونکہ دو قومی نظریے کی جانب پچھواڑا کر کے چلتا چلا جاتا ہے اس لیے اس کے پچھواڑے پر ہی حتی المقدور لات رسید کر کے اسے دفع دور کیا جاتا ہے اور دو قومی نظریے کی جی جان سے حفاظت کی جاتی ہے۔
ربط
 
روحانی بابا صاحب پاکستان بنانے والوں میں غزالیءِ دوراں احمد سعید کاظمی شاہ صاحب جیسی جلیل القدر ہستیاں بھی تھیں۔ صرف مسلم لیگ اور قائداعظم ہی نہیں تھے۔
"گالی دینے کو جی چاہتا ہے" جیسے الفاظ آپ کے زیب نہیں دیتے۔
 
Top