سید زبیر
محفلین
ہر سال نوجوان نسل ایک سوال پوچھتی ہے کہ آخر پاکستان کیوں بنا تھا ؟ بالکل اسی طرح جیسے ایک صاحب جائداد سے جائداد سنبھلتی نہیں تو وہ اپنے بزرگوں کو برا بھلا کہتا ہے کہ اس سے تو بہتر ہوتا کہ کوئی کاروبار کرلیا ہوتا ، یا کسی اچھے کاروبار میں سرمایہ کاری کر لی ہوتی ، کمائی آتی اور ہم آرام سے کپہیں بھی بہتر مکان کرائے پر لے کر رہ لیتے ۔ اب یہ مکان تو گلے ہی پڑ گیا کبھی دیواروں میں چوہے بل بنا لیتے ہیں اور کبھی دروازے کی چوکھٹ کو دیمک چاٹتی ہے بہتر یہی ہے کہ اس کے دروازے ، کھڑکیاں اور ملبہ بیچ کر سب بھائی اپنا پنا خود دھندہ کریں ۔ لیکن مکان کی اہمیت کیا ہے یہ کوئی مجھ سے پوچھے ، یہ شناخت ہے ، آج جبکہ میری عمر ساٹھ سال ہو چکی ہے میں کرائے کہ مکان میں رہتا ہوں ۔ ایک انچ قطعہ زمین میری نہیں جب میں شناختی کارڈ بنوانے نادرا کے دفتر گیا تو انہوں نے میرا مستقل پتہ پوچھا میں نے انہیں بتایا کہ میرا مستقل پتہ فی الحال یہی عارضی پتہ ہے کیونکہ میرا کوئی گھر نہیں ، وہ مجھے اپنے افسر کے پاس لے گیا کہ جناب ان کا کوئی مستقل پتہ ہی نہیں ۔ دیکھا ، یہ مکان ہی شناخت بنتی ہے ۔
اس بار اس مضمون کی ترغیب اس طرح ہوئی کہ اس دھاگے میں بعض ساتھیوں نے تحریک پاکستان کو ایک سازش قرا ردیا ۔یعنی ایک ایسی سازش جس برصغیر کے مسلمانوں کو ایک علیحدہ ملک مل گیا ۔ کیا یہ ایک سازش تھی یا یہ ملک جس مقصد کے لئے بنا تھا اس سے دور کرنا ایک سازش تھی ۔
کیا دو قومی نظریہ غلط تھا ؟
طالب علموں کو اسکولوں کالجوں میں بتایا جاتا ہے کہ دو قومی نظریے کی بنیاد سرسید احمد خان نے رکھی تو یہ بھی تاریخ کے ساتھ ایک مذاق ہے۔ سرسید سے بہت پہلے لالہ لجپت رائے اور دوسرے بہت سے بھارتی دو قومی نظریہ دے چکے تھے مگر جانے کیا وجہ تھی کہ دو قومی نظریے کا سہرا سرسید کے سر باندھا گیا اس میں کوئی شک نہیں کہ سرسید کی خدمات تحریک پاکستان کے لیے بلاواسطہ کہیں زیادہ ہیں اور یہ انہی کے علی گڑھ کالج کے فیضان کا اثر تھا کہ پاکستان کی تحریک نے زور پکڑ لیا وگرنہ مسلمانوں کے لیے پاکستان کا حصول کم از کم ایک صدی تک ممکن نہ تھا۔
دو قومی نظریے کی بنیاد غیر منقسم ہندوستان میں سب سے پہلے البیرونی نے اپنی کتاب ”کتاب الہند“میں پیش کی۔ اس نے واضح طور پر لکھا کہ مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں بلکہ اس نے تو یہاں تک بتایا کہ ہندو مسلمانوں کو نیچ قوم قرار دیتے ہیں اور ان سے کراہیت کرتے ہیں۔
1193 ء میں شہاب الدین غوری نے اُس وقت کے راجہ پرتھوی راج چوہان کے سامنے دو قومی نظریہ پیش کیا اور پرتھوی راج چوہان کو جنگ سے بچنے کے لیے مشورہ دیا کہ دریائے سندھ کا اس طرف والا حصہ (جو اب پاکستان میں شامل ہے) غوری کو دے دیا جائے جبکہ دریائے سندھ کا دوسری طرف والا حصہ (جس میں آج کا بھارت شامل ہے) وہ رکھ لے مگر چوہان نے اس کی بات نہ مانی اور شرمناک شکست سے دوچار ہوا۔
اور بقول ہمارے قائد اعظم ؒ کے کہ برصغیر میں دو قومی نظریہ اسی دن پیدا ہوگیا تھا جب یہاں کے پہلے ہندو نے اسلام قبولکیا اور وہ اپنی برادری سے کٹ کر مسلم قوم کا حصہ بنا۔
یہ بات تو واضح ہے کہ ہندووں ، یہودیوں ، عیسائیوں ،سکھوں ، پارسیوں کی طرح ایک قوم ہیں۔ جن کی اپنی تۃذیب ، و روایات ، رسم و رواج ہیں یعنی قومی نظریہ تو مسلم ہے ۔ اب بحث یہ ہے کہ ہندو مسلم اکٹھے کیوں نہیں رہے ؟ جبکہ سینکڑوں سال سے وہ رہ رہے تھے ۔
بلا شبہ مسلمان اور ہندو سینکڑوں سال سے رہ رہے تھے مگر جیسا کہ البیرونی کی کتاب " کتاب الہند " میں ذکر ہے کہ ہندو مسلمانوں کو نیچ سمجھتے تھے ۔ مسلمان ایک نیچ قوم کی حیثیت سے ذہنی غلام تھے ۔ یا د رہے کہ یہ وہ مسلمان نہیں تھے جو ایران ، ترک یا عرب سے آئے تھے ان سیدوں ،شیرازیوں ، گیلانیوں ، برلاس ، قریشیوں بخاریوں کو مقام حاصل تھا یہ وہ مسلمان تھے جن کا نسلی تعلق ہندووں ہی کی مختلف برادریوں سے تھا جن میں بگٹی ، مینگل ، بھٹو ، بھٹی ، شیخ ، راو ، رانا ،کھوکھر، سبھی شاامل تھے ۔مگر ان کے قبول اسلام ہی سے وہ ہندو قوم سے جدا ہو کر امت مسلمہ میں شامل ہوگئے اور ہندووں کی نظر میں نیچ کہلائے ۔ہندوستان میں انگریزوں کی آمد سے ساڑھے پانچ سو سے زائد ریاستیں تھیں جن کے ماتحت جاگیریں تھٰن۔ تاریخ شاہد ہے کہ جن ریاستوں کے حکمران مسلمان تھے وہاں رواداری ، مساوات عام تھی ، مگر جن کے حکمران ہندو تھے وہاں تعصب عام تھا۔ ہو سکتا ہے مسلمان حکمران ہندووں کی اکثریت اور حیثیت کی وجہ سے مصلحتاً رواداری برتتے ہوں مگر بعض حالات میں ایسا نہیں تھا۔بے شک انگریزوں نے بزور شمشیر اور عیاری و مکاری سے برصغیر پر قبضہ کیا مگر انہوں نے عوامی مفاد کے لئے کام بھی بہت کئے جن میں تعلیمی اداروں ، ہسپتالوں کے قیام کے علاوہ سڑکوں اور ریلوے کا جال بچھانا انہیں کی وجہ سے ممکن ہو سکا ۔انگریزوں کی غلامی کا جو سب سے اہم فائدہ ہوا وہ جذبہ حریت کا پیدا ہونا تھا ۔ ورنہ انگریزوں کی آمد سے قبل یہ ہندو اور مسلمان اپنے جاگیردار یا نواب کی بیگار و خدمت گذاری کے علاوہ کچھ نہیں سوچ سکتے تھے۔ سینکڑوں سال سے مقامی حکمران ان کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک کرتے تھے ۔ یہ غلامی ہماری گھُٹی میں شامل تھی اور ہے آج بھی ہم اپنے محلے ، اپنی بستی کے غنڈے ، جابر و ظالم کے سامنے کھڑے ہونے کی جرات نہیں کرتے ۔بہر حال ہندو اور مسلامانوں نے امل کر انگریزوں سے آزادی کی جنگ لڑی جس میں اگر مینگل پانڈے ،بھگت سنگھ ، جیسے آزادی کے متوالے تھے تو دلا بھٹی ۔ رائے احمد خان کھرل ، عجب خان آفریدی جیسے بھی اس قافلے میں شامل تھے مگر اُس دور کے خوشامد یوں نے انہیں ڈاکو اور لٹیرے کی حیثیت سے متعارف کرایا ۔ آزادی کی جنگ دونوں قوموں نے لڑی ۔ اُس وقت معاشی اور معاشرتی طور پر ہندو مسلمانوں کے مقابل میں بہت مستحکم تھے ۔ مسلمانوں کی اکثریت مقامی طور پر ان کے تابع تھی ۔ جہاں ہندو کم تھے وہاں بھی معاشرتی اور سیاسی طور پر وہ غالب تھے اس لئے یہ یقین کامل تھا کہ مسلمان آزادی کے بعد پھر ماضی کی طرح ہندووں کی غلامی میں آجائیں گے ۔۔ اس موقع پر مسلمانوں کا ایک مفاد پرست طبقے نے جن میں پنجاب کی یونیسسٹ پارٹی اور خیبر پختون خواہ کی کانگریس مذہبی علما سے مل کر پاکستان اور دو قومی نظریہ کی مخالفت کی ۔ آج حالت یہ ہے کہ جو لوگ یا صوبے تحریک پاکستان کی مخالفت میں پیش پیش تھے، آج انہیں کی اولادیں مسندِ اقتدار پر جلوہ افروز ہیں
پنجاب کی یونیسٹ پارٹی اور سر فضل حسین خضر حیات ٹوانہ کی قائداعظم اور ڈاکٹر محمد علامہ اقبال سے دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ پنجاب نے آخر دم تک پاکستان کی مخالفت کی اور کانگریس کی حمایت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ کو پنجاب میں کبھی کامیابی نہ ہو سکی
بلوچستان کی بات جانے دیجیے کہ وہ تو خان آف قلات کی جاگیر تھی۔ آئیے خیبرپختونخواہ کی طرف چلتے ہیں۔ یہ سرزمین اُس شخص کی ہے جس نے پاکستان دشمنی کی مثال قائم کی اور کانگریس کی چاپلوسی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی خیبر پختون خوا میں ریفرنڈم کران پڑا جس میں انہیں منہ کی کھانی پڑی آج اے۔این۔پی جو درحقیقت خان عبدالغفار خان کا لگایا ہوا پودا ہے آج خیبرپختونخواہ کی سیاست پر راج کر رہا ہے۔ کیا یہ تاریخ کا مذاق نہیں؟
جن اسلامی جماعتوں نے قائداعظم کو کافر اعظم کہا۔ اقبال پر کفر کا فتویٰ عائد کیا اور پاکستان کو ایک حرافہ سے تشبیح دی۔ مگر آج وہی پاکستان کی ایک کثیر آبادی پر اپنا تسلط قائم رکھنا چاہتی ہیں کیا یہ تاریخ کا ظلم نہیں؟
محسن بھوپالی نے اسی لئے کہا تھا
نیرنگی سیاست دوراں تو دیکھئے
منزل انہیں ملی، جو شریک سفر نہ تھے
درباری ملاؤں اور مفاد پرست سیاست دانوں نے پاکستان کو جس قدر نقصان پہنچایا ہے اتنا دھچکا کسی نہیں پہنچایا۔ بازاری عورتیں ان سے افضل ہیں کہ جہاں وہ بے چاری اپنا جسم فروخت کرتی ہیں اور یہ یہ چند کھوٹے سکوں کے عوض اپنا ایمان فروخت کرتے ہیں یہ وہی ہیں۔جنہوں نے شیعہ کو سنی کے ہاتھوں اور سنیوں کو شیعوں کے ہاتھ شہید کروایا۔ انہوں ہی نے قوم کو علاقائی ، فرقوں اور مختلق قویتوں میں تقسیم کردیا خدا کی لعنت ہو ایسے لو گوں پر۔ خدا کی مار پڑے ایسے جہنمیوں پر۔وگرنہ میرے آقا محمد ﷺ نے تو سدا امن کا،پیار و محبت کا آشتی اور مذہبی رواداری کا پیغام دیا۔
تو عرض یہ ہے کہ یہ ارض پاکستان سازش کا تحفہ نہیں عطیہ خداوندی ہے جو 27 رمضان کو معرض وجود میں آیا ۔ہمارا نظریہ مستحکم ہے ، ہمارا عقیدہ و ایمان ہمیں باہم اور غیر مسلموں سے رواداری ، مساوات ، امن و سلامتی کا درس دیتا ہے ۔ مثبت سوچ سے ہمیں آگے بڑھنا ہے ۔
اس بار اس مضمون کی ترغیب اس طرح ہوئی کہ اس دھاگے میں بعض ساتھیوں نے تحریک پاکستان کو ایک سازش قرا ردیا ۔یعنی ایک ایسی سازش جس برصغیر کے مسلمانوں کو ایک علیحدہ ملک مل گیا ۔ کیا یہ ایک سازش تھی یا یہ ملک جس مقصد کے لئے بنا تھا اس سے دور کرنا ایک سازش تھی ۔
کیا دو قومی نظریہ غلط تھا ؟
طالب علموں کو اسکولوں کالجوں میں بتایا جاتا ہے کہ دو قومی نظریے کی بنیاد سرسید احمد خان نے رکھی تو یہ بھی تاریخ کے ساتھ ایک مذاق ہے۔ سرسید سے بہت پہلے لالہ لجپت رائے اور دوسرے بہت سے بھارتی دو قومی نظریہ دے چکے تھے مگر جانے کیا وجہ تھی کہ دو قومی نظریے کا سہرا سرسید کے سر باندھا گیا اس میں کوئی شک نہیں کہ سرسید کی خدمات تحریک پاکستان کے لیے بلاواسطہ کہیں زیادہ ہیں اور یہ انہی کے علی گڑھ کالج کے فیضان کا اثر تھا کہ پاکستان کی تحریک نے زور پکڑ لیا وگرنہ مسلمانوں کے لیے پاکستان کا حصول کم از کم ایک صدی تک ممکن نہ تھا۔
دو قومی نظریے کی بنیاد غیر منقسم ہندوستان میں سب سے پہلے البیرونی نے اپنی کتاب ”کتاب الہند“میں پیش کی۔ اس نے واضح طور پر لکھا کہ مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں بلکہ اس نے تو یہاں تک بتایا کہ ہندو مسلمانوں کو نیچ قوم قرار دیتے ہیں اور ان سے کراہیت کرتے ہیں۔
1193 ء میں شہاب الدین غوری نے اُس وقت کے راجہ پرتھوی راج چوہان کے سامنے دو قومی نظریہ پیش کیا اور پرتھوی راج چوہان کو جنگ سے بچنے کے لیے مشورہ دیا کہ دریائے سندھ کا اس طرف والا حصہ (جو اب پاکستان میں شامل ہے) غوری کو دے دیا جائے جبکہ دریائے سندھ کا دوسری طرف والا حصہ (جس میں آج کا بھارت شامل ہے) وہ رکھ لے مگر چوہان نے اس کی بات نہ مانی اور شرمناک شکست سے دوچار ہوا۔
اور بقول ہمارے قائد اعظم ؒ کے کہ برصغیر میں دو قومی نظریہ اسی دن پیدا ہوگیا تھا جب یہاں کے پہلے ہندو نے اسلام قبولکیا اور وہ اپنی برادری سے کٹ کر مسلم قوم کا حصہ بنا۔
یہ بات تو واضح ہے کہ ہندووں ، یہودیوں ، عیسائیوں ،سکھوں ، پارسیوں کی طرح ایک قوم ہیں۔ جن کی اپنی تۃذیب ، و روایات ، رسم و رواج ہیں یعنی قومی نظریہ تو مسلم ہے ۔ اب بحث یہ ہے کہ ہندو مسلم اکٹھے کیوں نہیں رہے ؟ جبکہ سینکڑوں سال سے وہ رہ رہے تھے ۔
بلا شبہ مسلمان اور ہندو سینکڑوں سال سے رہ رہے تھے مگر جیسا کہ البیرونی کی کتاب " کتاب الہند " میں ذکر ہے کہ ہندو مسلمانوں کو نیچ سمجھتے تھے ۔ مسلمان ایک نیچ قوم کی حیثیت سے ذہنی غلام تھے ۔ یا د رہے کہ یہ وہ مسلمان نہیں تھے جو ایران ، ترک یا عرب سے آئے تھے ان سیدوں ،شیرازیوں ، گیلانیوں ، برلاس ، قریشیوں بخاریوں کو مقام حاصل تھا یہ وہ مسلمان تھے جن کا نسلی تعلق ہندووں ہی کی مختلف برادریوں سے تھا جن میں بگٹی ، مینگل ، بھٹو ، بھٹی ، شیخ ، راو ، رانا ،کھوکھر، سبھی شاامل تھے ۔مگر ان کے قبول اسلام ہی سے وہ ہندو قوم سے جدا ہو کر امت مسلمہ میں شامل ہوگئے اور ہندووں کی نظر میں نیچ کہلائے ۔ہندوستان میں انگریزوں کی آمد سے ساڑھے پانچ سو سے زائد ریاستیں تھیں جن کے ماتحت جاگیریں تھٰن۔ تاریخ شاہد ہے کہ جن ریاستوں کے حکمران مسلمان تھے وہاں رواداری ، مساوات عام تھی ، مگر جن کے حکمران ہندو تھے وہاں تعصب عام تھا۔ ہو سکتا ہے مسلمان حکمران ہندووں کی اکثریت اور حیثیت کی وجہ سے مصلحتاً رواداری برتتے ہوں مگر بعض حالات میں ایسا نہیں تھا۔بے شک انگریزوں نے بزور شمشیر اور عیاری و مکاری سے برصغیر پر قبضہ کیا مگر انہوں نے عوامی مفاد کے لئے کام بھی بہت کئے جن میں تعلیمی اداروں ، ہسپتالوں کے قیام کے علاوہ سڑکوں اور ریلوے کا جال بچھانا انہیں کی وجہ سے ممکن ہو سکا ۔انگریزوں کی غلامی کا جو سب سے اہم فائدہ ہوا وہ جذبہ حریت کا پیدا ہونا تھا ۔ ورنہ انگریزوں کی آمد سے قبل یہ ہندو اور مسلمان اپنے جاگیردار یا نواب کی بیگار و خدمت گذاری کے علاوہ کچھ نہیں سوچ سکتے تھے۔ سینکڑوں سال سے مقامی حکمران ان کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک کرتے تھے ۔ یہ غلامی ہماری گھُٹی میں شامل تھی اور ہے آج بھی ہم اپنے محلے ، اپنی بستی کے غنڈے ، جابر و ظالم کے سامنے کھڑے ہونے کی جرات نہیں کرتے ۔بہر حال ہندو اور مسلامانوں نے امل کر انگریزوں سے آزادی کی جنگ لڑی جس میں اگر مینگل پانڈے ،بھگت سنگھ ، جیسے آزادی کے متوالے تھے تو دلا بھٹی ۔ رائے احمد خان کھرل ، عجب خان آفریدی جیسے بھی اس قافلے میں شامل تھے مگر اُس دور کے خوشامد یوں نے انہیں ڈاکو اور لٹیرے کی حیثیت سے متعارف کرایا ۔ آزادی کی جنگ دونوں قوموں نے لڑی ۔ اُس وقت معاشی اور معاشرتی طور پر ہندو مسلمانوں کے مقابل میں بہت مستحکم تھے ۔ مسلمانوں کی اکثریت مقامی طور پر ان کے تابع تھی ۔ جہاں ہندو کم تھے وہاں بھی معاشرتی اور سیاسی طور پر وہ غالب تھے اس لئے یہ یقین کامل تھا کہ مسلمان آزادی کے بعد پھر ماضی کی طرح ہندووں کی غلامی میں آجائیں گے ۔۔ اس موقع پر مسلمانوں کا ایک مفاد پرست طبقے نے جن میں پنجاب کی یونیسسٹ پارٹی اور خیبر پختون خواہ کی کانگریس مذہبی علما سے مل کر پاکستان اور دو قومی نظریہ کی مخالفت کی ۔ آج حالت یہ ہے کہ جو لوگ یا صوبے تحریک پاکستان کی مخالفت میں پیش پیش تھے، آج انہیں کی اولادیں مسندِ اقتدار پر جلوہ افروز ہیں
پنجاب کی یونیسٹ پارٹی اور سر فضل حسین خضر حیات ٹوانہ کی قائداعظم اور ڈاکٹر محمد علامہ اقبال سے دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ پنجاب نے آخر دم تک پاکستان کی مخالفت کی اور کانگریس کی حمایت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ کو پنجاب میں کبھی کامیابی نہ ہو سکی
بلوچستان کی بات جانے دیجیے کہ وہ تو خان آف قلات کی جاگیر تھی۔ آئیے خیبرپختونخواہ کی طرف چلتے ہیں۔ یہ سرزمین اُس شخص کی ہے جس نے پاکستان دشمنی کی مثال قائم کی اور کانگریس کی چاپلوسی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی خیبر پختون خوا میں ریفرنڈم کران پڑا جس میں انہیں منہ کی کھانی پڑی آج اے۔این۔پی جو درحقیقت خان عبدالغفار خان کا لگایا ہوا پودا ہے آج خیبرپختونخواہ کی سیاست پر راج کر رہا ہے۔ کیا یہ تاریخ کا مذاق نہیں؟
جن اسلامی جماعتوں نے قائداعظم کو کافر اعظم کہا۔ اقبال پر کفر کا فتویٰ عائد کیا اور پاکستان کو ایک حرافہ سے تشبیح دی۔ مگر آج وہی پاکستان کی ایک کثیر آبادی پر اپنا تسلط قائم رکھنا چاہتی ہیں کیا یہ تاریخ کا ظلم نہیں؟
محسن بھوپالی نے اسی لئے کہا تھا
نیرنگی سیاست دوراں تو دیکھئے
منزل انہیں ملی، جو شریک سفر نہ تھے
درباری ملاؤں اور مفاد پرست سیاست دانوں نے پاکستان کو جس قدر نقصان پہنچایا ہے اتنا دھچکا کسی نہیں پہنچایا۔ بازاری عورتیں ان سے افضل ہیں کہ جہاں وہ بے چاری اپنا جسم فروخت کرتی ہیں اور یہ یہ چند کھوٹے سکوں کے عوض اپنا ایمان فروخت کرتے ہیں یہ وہی ہیں۔جنہوں نے شیعہ کو سنی کے ہاتھوں اور سنیوں کو شیعوں کے ہاتھ شہید کروایا۔ انہوں ہی نے قوم کو علاقائی ، فرقوں اور مختلق قویتوں میں تقسیم کردیا خدا کی لعنت ہو ایسے لو گوں پر۔ خدا کی مار پڑے ایسے جہنمیوں پر۔وگرنہ میرے آقا محمد ﷺ نے تو سدا امن کا،پیار و محبت کا آشتی اور مذہبی رواداری کا پیغام دیا۔
تو عرض یہ ہے کہ یہ ارض پاکستان سازش کا تحفہ نہیں عطیہ خداوندی ہے جو 27 رمضان کو معرض وجود میں آیا ۔ہمارا نظریہ مستحکم ہے ، ہمارا عقیدہ و ایمان ہمیں باہم اور غیر مسلموں سے رواداری ، مساوات ، امن و سلامتی کا درس دیتا ہے ۔ مثبت سوچ سے ہمیں آگے بڑھنا ہے ۔