متلاشی
محفلین
کیسے تصویر کو میں دل کا سہارا کہہ دوں
رنگ و روپ اس میں نہیں ناز اور انداز نہیں
کچھ سماعت نہیں اس میں کوئی آواز نہیں
تیری یادوں کے سوا اس میں کوئی ساز نہیں
جانِ من تیری اداؤں کی یہ غماز نہیں
کیسے تصویر کو میں دل کا سہارا کہہ دوں
جنبشِ لب نہیں آنکھوں کے اشارے بھی نہیں
رخ و رخسار میں شعلوں کے شرارے بھی نہیں
دل پہ چل جائیں جو زلفوں کے وہ آرے بھی نہیں
حسنِ صورت کہ وہ دلکش سے نظارے بھی نہیں
کیسے تصویر کو میں دل کا سہارا کہہ دوں
ہے سکوت اور تحیر کا سراپا تصویر
بانکپن کا ہے جوانی کا نمونہ تصویر
حسن کے ناز و ادا کا ہے یہ خاکہ تصویر
عکس ہے گو ہے مگر اصل کا دھوکہ تصویر
کیسے تصویر کو میں دل کا سہارا کہہ دوں
تیری تصویر سے ماضی مجھے یاد آتی ہے
داستاں عہدِ گذشتہ کی یہ دہراتی ہے
یاد جب عہدِ جوانی کی ہمیں آتی ہے
تیری تصویر میں تصویر نظر آتی ہے
کیسے تصویر کو میں دل کا سہارا کہہ دوں
بھولنے والے کی تصویر مرے ہاتھ میں ہے
میری ماضی کی یہ تقصیر مرے ہاتھ میں ہے
کچھ تمناؤں کی تقدیر مرے ہاتھ میں ہے
کچھ حسیں خوابوں کی تعبیر مرے ہاتھ میں ہے
کیسے تصویر کو میں دل کا سہارا کہہ دوں
ایک افسانہ ہوئی اپنی ملاقاتیں بھی
ہو گئی قصہ ءِ پارینہ وہ سب باتیں بھی
بن گئی خواب وہ سب شامیں بھی وہ راتیں بھی
عارف اب بھول گئے اشکوں کی برساتیں بھی
کیسے تصویر کو میں دل کا سہارا کہہ دوں
(مولانا مشرف علی تھانوی)