دوست
محفلین
بہت دنوں بعد آج کچھ لکھنے کو دل کیا توپچھلے دنوں کی ایک خبر یاد آگئی۔ کچھ یوں تھی کہ "پاکستان میں گدھوں کی آبادی میں اضافہ ہوگیا ہے"۔
ہم نے اپنے دوست حاسد سے اس بارے میں استفسار کیا تو منہ بنا کر بولے " پھر کیا ہوا۔اگر غربت بڑھی سکتی ہے، بے روزگاری بڑھ سکتی ہے، مہنگائی بڑھ سکتی ہے تو گدھوں کی آبادی کیوں نہیں بڑھ سکتی۔کونسا قیامت آجائے گی اس سے"
اور ہم سر ہلا کر رہ گئے بات ان کی بھی غلط نہیں تھی۔ بھلا گدھوں کی آبادی بڑھنے سے کیا ہوجائے گا۔ صاحبو گدھا بڑا ہی شریف جانور ہے۔ اتنا شریف کہ نہ جانے کتنے عرصے سے اس کو زندگی کے ہر شعبے میں بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے مگر مجال ہے اس نے کبھی چوں چاں کی ہو۔
گدھا ایک کثیر المقاصد قسم کی چیز ہے۔ اس کے نام سے لے کر اس کی ذات تک ہر چیز قابل استعمال ہے۔
مثلًا "گدھا" ایک عمومی لقب ہے جو اکثر پاکستانی عوام و خواص کے منہ سے پھولوں کی طرح جھڑتا ہے اور مخالف کے کپڑوں پر کیچڑ کی طرح داغ لگا جاتا ہے۔گدھا آپ کسی کو غصے سے بھی کہہ سکتے ہیں اور پیار سے بھی۔
غصے میں کہیں گے تو اگلا بندہ یہ سوچ کر چپ رہے گا چلو گدھا ہی کہا ہے کچھ اور نہیں کہہ دیا۔
اگر پیار سے کہیں گے تو پھر تو مسئلہ ہی کوئی نہیں۔ کون مائی کا لال ہے جو آپ کو کچھ کہہ سکے۔
گدھے سے ہمیں اپنے استاد محترم یاد آگئے۔ میٹرک میں ہمارے فزکس کے استاد تھے۔ بڑے باشرع اور عملی انسان تھے۔بات منہ میں ہوتی تھی اور ہاتھ مصروف عمل ہو بھی چکتے تھے۔ہمیں گدھا اور ایک مزید نحس جانور کے القابات سے بڑی بے تکلفی سے نوازا کرتے ساتھ میں ان کا ہاتھ چلتا تو یقین آجاتا کہ ہم گدھے ہی ہیں۔بس فرق اتنا ہوتا کہ بوجھ کی بجائے وہ ہم پر فزکس کے عجیب و غریب کے قسم کے فارمولے لادنے کی کوشش کرتے۔خیر اللہ ان پر اپنی رحمت نازل کرے انھی کے ڈنڈے اور گالیوں کی برکت ہے کہ ہم ابھی تک یہ نہیں بھولے کہ فزکس میں حرکت کی تین مساواتیں ہوا کرتی تھیں۔(کرتی تھیں اس لیے کہا ہوسکتا ہے جب لوگوں نے دیکھا کہ نیوٹن خود بھی مرمرا گیا ہے اور اس کا کوئی عزیز رشتہ دار بھی نہیں تو انھوں نے سوچا ان مساواتوں کو تو بنّے لگاؤ۔ خیر ہمارے ہاں تو یہ کام پٹواری جائیداد کے کاغذوں کے ساتھ اس احسن اور فنکارانہ طریقے سے کرتے ہیں کہ اصل وارث بیچارہ ساری عمر مقدمہ لڑتے لڑتے مر جاتا ہے مگر کاغذات کی تبدیلی غلط ثابت نہیں کرپاتا۔لیجیے بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔۔)
گدھا باربرداری کے کام آتا ہے۔ اس پر جتنا مرضی وزن لاد لو اس کا کام ہے بس چلتے جانا۔ بس اس کی ذرا سی تفریح یہ ہے کہ کسی دوسرے گدھے یا گدھی کو دیکھ کر اسے ڈھینچوں ڈھینچوں کرنے کی اجازت دے دی جائے۔ گدھا ون مین شو کے طور پر بھی کام کرتا ہے اور مالک کے ساتھ گدھا گاڑی بھی چلاتا ہے۔ گدھا گاڑی کو کچھ ستم ظریف چاند گاڑی بھی کہتے ہیں مگر آفرین ہے جو کبھی گدھے نے برا منایا ہو ہمیشہ ڈھینچوں کرکے اپنی رضامندی کا اعلان ہی کیا ہے۔
گدھا گاڑی سے یاد آیا یہ گاڑیوں کی اس قسم سے تعلق رکھتی ہے جس کا سٹیرنگ اور بریک ایک ہی جگہ ہوتے ہیں۔ ہم نے اپنے دوست حاسد سے پوچھا گدھا گاڑی میں ایکسلریٹر کیوں نہیں ہوتا تو انھوں نے رازدارانہ انداز میں بتایا " ہوتا ہے" ہم حیران رہ گئے یہ کیسے ہوسکتا ہے گدھا گاڑی کا ایکسلریٹر ہو اور نظر نہ آئے۔ ہم نے پھر عرض کیا اگر نشاندہی فرما دیں تو نوازش ہوگی۔ بڑے نخروں کے بعد حاسد نے بتایا گدھے کی "دم" اس کا ایکسلریٹر ہوتی ہے۔ ہم ان کی وسیع العلمی کے قائل ہوگئے۔ اسی بحر حیرت و احترام میں ہم نے جب پوچھا کہ کبھی گدھے کا یہ پرزہ استعمال کرنے کا اتفاق بھی ہوا تو حاسد ناراض ہوگئے کہ اب تم ہمارا مذاق اڑاتے ہو۔ ہم نے بڑی مشکل سے یقین دلایا اس میں بھلا مذاق کی کیا بات ہے۔ تو انھوں نے جوابًا جو واقعہ سنایا اس کا لب لباب یہ تھا کہ ایک بار انھوں نے یہ کوشش کی تھی تاکہ اپنے نظریے کو عوام کے سامنے ہمراہ ثبوت پیش کرسکیں جواب میں انھیں دولتی کھانا پڑی تھی۔
خیر حاسد کے ارشادات تو چلتے رہیں گے کہتے ہیں ہاتھی زندہ لاکھ کا مرے تو سوا لاکھ کا۔ گدھے کے لیے بھی یہی ضرب المثل مشہور ہونی چاہیے تھی ۔ زندہ تو گدھا گاڑی میں مرگیا تو قصاب کی دوکان پر بکرے کے بھاؤ۔
پس ثابت ہوا کہ گدھا واقعی ایک شریف اور کثیر المقاصد جانور ہے جب تک زندہ رہتا ہے خدمت کرتا ہے جب مرجاتا ہے تب بھی کچھ نہ کچھ دے کر ہی جاتا ہے۔
صاحبو چلتے چلتے ایک لطیفہ سناتے چلیں۔
ایک ملک کے سربراہ کو ایک بار ان کے مشیروں نے باتوں ہی باتوں میں کہہ دیا کہ یہ قوم تو ہے ہی گدھی اور بے عقل۔ سربراہ مصر ہوگئے ثبوت پیش کرو۔ مشیران بولے حضور ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ابھی ثبوت مل جاتا ہے آپ بس جیسے ہم کہیں ویسے کرتے جائیں۔ سربراہ نے مشیروں کے کہنے کے مطابق کسی چیز کی قیمت بڑھا دی۔ چند دن گزرے کچھ احتجاج ہوا پھر خاموشی چھا گئی۔ مشیران بولے حضور دیکھا یہ قوم گدھی ہے۔ جتنا وزن ڈال لو کوئی مسئلہ نہیں۔ سربراہ اب بھی ماننے کو تیار نہ تھے۔ انھوں نے نرخ دوگنے کردیے۔ پھر کچھ چوں چاں ہوئی اور بات دب گئی۔
یہ بڑے لوگ بھی عجیب ہوا کرتے ہیں جس چیز کی ضد چڑھ جائے انھیں بس پھر نہ پوچھیں۔ انھوں نے نرخ چار گنا کرنے کا حکم دے دیا۔ بات پھر وہیں کسی کو کوئی فرق نہ پڑا معمولی احتجاج بھی نہ ہوا۔ سربراہ حیران رہ گئے۔ مشیران بولے حضور یہ قوم اس سے بھی زیادہ گدھی ہے۔ سربراہ بولے وہ کیسے۔ مشیروں نے عرض کی حضور ذرا ہمارے مشورے کے مطابق کیجیے ثبوت مل جائے گا۔
چناچہ اگلے دن سے متعلقہ چیز کی منڈیوں میں سرکاری اہلکار بیٹھ گئے۔ جو بھی چیز لینے آتا پہلے اسے دس چھتر کھانا پڑتے پھر چار گنا نرخوں پر چیز لے کر گھر جاتا۔لوگ کچھ پریشان ہوئے پھر عادی ہوگئے۔سربراہ پھر غصے میں آگئے۔ انھوں نے چھتروں کی تعداد دس سے بیس کردی۔بات پھر وہیں۔ چیز استعمال ہورہی تھی چھتر لگ رہے تھے اور یہ سب یونہی تھا جیسے عام سی بات ہو۔ آخر تنگ آکر انھوں نے چھتروں کی تعداد پچاس کردی۔ ایک کلو چیز ساتھ پچاس چھتر۔
اب تو ہر طرف رش۔ جہاں دیکھو لوگ لائن میں لگے چھتر کھارہے ہیں۔ چند دن لوگوں نے برداشت کیا پھر انھوں نے سوچا یہ تو بہت ہوگیا ایسے تو نہیں چلے گا۔ سب ایک وفد کی صورت میں سربراہ مملکت کی خدمت میں پیش ہوئے۔ سربراہ خوش ہوئے چلو میری قوم میں ابھی عقل والے موجود ہیں مگر انھوں نے جو درخواست کی ملاحظہ ہو۔
“عالی جناب کے حکم کے مطابق ہم چھتر تو کھا لیتے ہیں مگر اس سے ہمارا بہت سارا وقت ضائع ہوجاتا ہے اس لیے درخواست ہے کہ چھتر مارنے والے سرکاری اہلکاروں کی تعداد معقول حد تک بڑھائی جائے تاکہ عوام کو چھتر کھانے میں تکلیف نہ اٹھانا پڑے۔"
وفد کے جانے کے بعد سربراہ مملکت محو حیرت تھے کہ مشیران بولے حضور ہم نہ کہتے تھے یہ قوم ہی گدھی اور بے عقل ہے۔
خیر یہ تو لطیفہ تھا ہم اس کا ذکر حاسد سے کر بیٹھے تو بڑے تلخ ہوکر بولے" وہ قوم کوئی اور نہیں پاکستانی قوم تھی۔" ہم حیران و پریشان وہ کیسے۔ تو جواب ملا " خود دیکھ لو کیا حالات ہیں اور ان کے لچھن کیا ہیں۔"
تو صاحبو ہم نے تو جائزہ لے لیا اب آپ بھی جائزہ لیں اور سوچیں کہیں حاسد نے ٹھیک ہی تو نہیں کہا۔
ہم نے اپنے دوست حاسد سے اس بارے میں استفسار کیا تو منہ بنا کر بولے " پھر کیا ہوا۔اگر غربت بڑھی سکتی ہے، بے روزگاری بڑھ سکتی ہے، مہنگائی بڑھ سکتی ہے تو گدھوں کی آبادی کیوں نہیں بڑھ سکتی۔کونسا قیامت آجائے گی اس سے"
اور ہم سر ہلا کر رہ گئے بات ان کی بھی غلط نہیں تھی۔ بھلا گدھوں کی آبادی بڑھنے سے کیا ہوجائے گا۔ صاحبو گدھا بڑا ہی شریف جانور ہے۔ اتنا شریف کہ نہ جانے کتنے عرصے سے اس کو زندگی کے ہر شعبے میں بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے مگر مجال ہے اس نے کبھی چوں چاں کی ہو۔
گدھا ایک کثیر المقاصد قسم کی چیز ہے۔ اس کے نام سے لے کر اس کی ذات تک ہر چیز قابل استعمال ہے۔
مثلًا "گدھا" ایک عمومی لقب ہے جو اکثر پاکستانی عوام و خواص کے منہ سے پھولوں کی طرح جھڑتا ہے اور مخالف کے کپڑوں پر کیچڑ کی طرح داغ لگا جاتا ہے۔گدھا آپ کسی کو غصے سے بھی کہہ سکتے ہیں اور پیار سے بھی۔
غصے میں کہیں گے تو اگلا بندہ یہ سوچ کر چپ رہے گا چلو گدھا ہی کہا ہے کچھ اور نہیں کہہ دیا۔
اگر پیار سے کہیں گے تو پھر تو مسئلہ ہی کوئی نہیں۔ کون مائی کا لال ہے جو آپ کو کچھ کہہ سکے۔
گدھے سے ہمیں اپنے استاد محترم یاد آگئے۔ میٹرک میں ہمارے فزکس کے استاد تھے۔ بڑے باشرع اور عملی انسان تھے۔بات منہ میں ہوتی تھی اور ہاتھ مصروف عمل ہو بھی چکتے تھے۔ہمیں گدھا اور ایک مزید نحس جانور کے القابات سے بڑی بے تکلفی سے نوازا کرتے ساتھ میں ان کا ہاتھ چلتا تو یقین آجاتا کہ ہم گدھے ہی ہیں۔بس فرق اتنا ہوتا کہ بوجھ کی بجائے وہ ہم پر فزکس کے عجیب و غریب کے قسم کے فارمولے لادنے کی کوشش کرتے۔خیر اللہ ان پر اپنی رحمت نازل کرے انھی کے ڈنڈے اور گالیوں کی برکت ہے کہ ہم ابھی تک یہ نہیں بھولے کہ فزکس میں حرکت کی تین مساواتیں ہوا کرتی تھیں۔(کرتی تھیں اس لیے کہا ہوسکتا ہے جب لوگوں نے دیکھا کہ نیوٹن خود بھی مرمرا گیا ہے اور اس کا کوئی عزیز رشتہ دار بھی نہیں تو انھوں نے سوچا ان مساواتوں کو تو بنّے لگاؤ۔ خیر ہمارے ہاں تو یہ کام پٹواری جائیداد کے کاغذوں کے ساتھ اس احسن اور فنکارانہ طریقے سے کرتے ہیں کہ اصل وارث بیچارہ ساری عمر مقدمہ لڑتے لڑتے مر جاتا ہے مگر کاغذات کی تبدیلی غلط ثابت نہیں کرپاتا۔لیجیے بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔۔)
گدھا باربرداری کے کام آتا ہے۔ اس پر جتنا مرضی وزن لاد لو اس کا کام ہے بس چلتے جانا۔ بس اس کی ذرا سی تفریح یہ ہے کہ کسی دوسرے گدھے یا گدھی کو دیکھ کر اسے ڈھینچوں ڈھینچوں کرنے کی اجازت دے دی جائے۔ گدھا ون مین شو کے طور پر بھی کام کرتا ہے اور مالک کے ساتھ گدھا گاڑی بھی چلاتا ہے۔ گدھا گاڑی کو کچھ ستم ظریف چاند گاڑی بھی کہتے ہیں مگر آفرین ہے جو کبھی گدھے نے برا منایا ہو ہمیشہ ڈھینچوں کرکے اپنی رضامندی کا اعلان ہی کیا ہے۔
گدھا گاڑی سے یاد آیا یہ گاڑیوں کی اس قسم سے تعلق رکھتی ہے جس کا سٹیرنگ اور بریک ایک ہی جگہ ہوتے ہیں۔ ہم نے اپنے دوست حاسد سے پوچھا گدھا گاڑی میں ایکسلریٹر کیوں نہیں ہوتا تو انھوں نے رازدارانہ انداز میں بتایا " ہوتا ہے" ہم حیران رہ گئے یہ کیسے ہوسکتا ہے گدھا گاڑی کا ایکسلریٹر ہو اور نظر نہ آئے۔ ہم نے پھر عرض کیا اگر نشاندہی فرما دیں تو نوازش ہوگی۔ بڑے نخروں کے بعد حاسد نے بتایا گدھے کی "دم" اس کا ایکسلریٹر ہوتی ہے۔ ہم ان کی وسیع العلمی کے قائل ہوگئے۔ اسی بحر حیرت و احترام میں ہم نے جب پوچھا کہ کبھی گدھے کا یہ پرزہ استعمال کرنے کا اتفاق بھی ہوا تو حاسد ناراض ہوگئے کہ اب تم ہمارا مذاق اڑاتے ہو۔ ہم نے بڑی مشکل سے یقین دلایا اس میں بھلا مذاق کی کیا بات ہے۔ تو انھوں نے جوابًا جو واقعہ سنایا اس کا لب لباب یہ تھا کہ ایک بار انھوں نے یہ کوشش کی تھی تاکہ اپنے نظریے کو عوام کے سامنے ہمراہ ثبوت پیش کرسکیں جواب میں انھیں دولتی کھانا پڑی تھی۔
خیر حاسد کے ارشادات تو چلتے رہیں گے کہتے ہیں ہاتھی زندہ لاکھ کا مرے تو سوا لاکھ کا۔ گدھے کے لیے بھی یہی ضرب المثل مشہور ہونی چاہیے تھی ۔ زندہ تو گدھا گاڑی میں مرگیا تو قصاب کی دوکان پر بکرے کے بھاؤ۔
پس ثابت ہوا کہ گدھا واقعی ایک شریف اور کثیر المقاصد جانور ہے جب تک زندہ رہتا ہے خدمت کرتا ہے جب مرجاتا ہے تب بھی کچھ نہ کچھ دے کر ہی جاتا ہے۔
صاحبو چلتے چلتے ایک لطیفہ سناتے چلیں۔
ایک ملک کے سربراہ کو ایک بار ان کے مشیروں نے باتوں ہی باتوں میں کہہ دیا کہ یہ قوم تو ہے ہی گدھی اور بے عقل۔ سربراہ مصر ہوگئے ثبوت پیش کرو۔ مشیران بولے حضور ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ابھی ثبوت مل جاتا ہے آپ بس جیسے ہم کہیں ویسے کرتے جائیں۔ سربراہ نے مشیروں کے کہنے کے مطابق کسی چیز کی قیمت بڑھا دی۔ چند دن گزرے کچھ احتجاج ہوا پھر خاموشی چھا گئی۔ مشیران بولے حضور دیکھا یہ قوم گدھی ہے۔ جتنا وزن ڈال لو کوئی مسئلہ نہیں۔ سربراہ اب بھی ماننے کو تیار نہ تھے۔ انھوں نے نرخ دوگنے کردیے۔ پھر کچھ چوں چاں ہوئی اور بات دب گئی۔
یہ بڑے لوگ بھی عجیب ہوا کرتے ہیں جس چیز کی ضد چڑھ جائے انھیں بس پھر نہ پوچھیں۔ انھوں نے نرخ چار گنا کرنے کا حکم دے دیا۔ بات پھر وہیں کسی کو کوئی فرق نہ پڑا معمولی احتجاج بھی نہ ہوا۔ سربراہ حیران رہ گئے۔ مشیران بولے حضور یہ قوم اس سے بھی زیادہ گدھی ہے۔ سربراہ بولے وہ کیسے۔ مشیروں نے عرض کی حضور ذرا ہمارے مشورے کے مطابق کیجیے ثبوت مل جائے گا۔
چناچہ اگلے دن سے متعلقہ چیز کی منڈیوں میں سرکاری اہلکار بیٹھ گئے۔ جو بھی چیز لینے آتا پہلے اسے دس چھتر کھانا پڑتے پھر چار گنا نرخوں پر چیز لے کر گھر جاتا۔لوگ کچھ پریشان ہوئے پھر عادی ہوگئے۔سربراہ پھر غصے میں آگئے۔ انھوں نے چھتروں کی تعداد دس سے بیس کردی۔بات پھر وہیں۔ چیز استعمال ہورہی تھی چھتر لگ رہے تھے اور یہ سب یونہی تھا جیسے عام سی بات ہو۔ آخر تنگ آکر انھوں نے چھتروں کی تعداد پچاس کردی۔ ایک کلو چیز ساتھ پچاس چھتر۔
اب تو ہر طرف رش۔ جہاں دیکھو لوگ لائن میں لگے چھتر کھارہے ہیں۔ چند دن لوگوں نے برداشت کیا پھر انھوں نے سوچا یہ تو بہت ہوگیا ایسے تو نہیں چلے گا۔ سب ایک وفد کی صورت میں سربراہ مملکت کی خدمت میں پیش ہوئے۔ سربراہ خوش ہوئے چلو میری قوم میں ابھی عقل والے موجود ہیں مگر انھوں نے جو درخواست کی ملاحظہ ہو۔
“عالی جناب کے حکم کے مطابق ہم چھتر تو کھا لیتے ہیں مگر اس سے ہمارا بہت سارا وقت ضائع ہوجاتا ہے اس لیے درخواست ہے کہ چھتر مارنے والے سرکاری اہلکاروں کی تعداد معقول حد تک بڑھائی جائے تاکہ عوام کو چھتر کھانے میں تکلیف نہ اٹھانا پڑے۔"
وفد کے جانے کے بعد سربراہ مملکت محو حیرت تھے کہ مشیران بولے حضور ہم نہ کہتے تھے یہ قوم ہی گدھی اور بے عقل ہے۔
خیر یہ تو لطیفہ تھا ہم اس کا ذکر حاسد سے کر بیٹھے تو بڑے تلخ ہوکر بولے" وہ قوم کوئی اور نہیں پاکستانی قوم تھی۔" ہم حیران و پریشان وہ کیسے۔ تو جواب ملا " خود دیکھ لو کیا حالات ہیں اور ان کے لچھن کیا ہیں۔"
تو صاحبو ہم نے تو جائزہ لے لیا اب آپ بھی جائزہ لیں اور سوچیں کہیں حاسد نے ٹھیک ہی تو نہیں کہا۔