"آداب عرض ہے۔"
"۔۔۔" (خاموشی)
"میں نے کہا حضور سلام عرض ہے۔"
"۔۔۔" (خاموشی)
"اچھا تو پھر ٹھیک ہے۔۔۔ اگر سلام قبول نہیں تو ہم جاتے ہیں۔"
"ارے۔۔۔ ارے۔۔۔ آپ۔۔۔؟"
"بھئی آپ کچھ بولی ہی نہیں تو ہم سمجھے۔۔۔؟"
"آپ کیا سمجھے۔۔۔"
"بھئی ہم سمجھے ، شاید آپ ناراض ہوں۔ یا شاید آپ گونگی ہوں۔"
"ہم نہ تو ناراض ہیں اور۔ اب تو آپ کو پتہ چل ہی گیا ہو گا کہ نہ ہی گونگی ہیں۔"
"واللہ کیا بات ہے آپ کے بولنے کی۔ آپ تو خوب بولتی ہیں۔"
"ویسے ایک بات پوچھوں۔"
"کون سی بات؟"
"آپ ناراض تو نہیں ہوں گی؟"
"بھئی پہلے پتہ تو چلے کہ آپ نے کون سی بات پوچھنی ہے؟ ناراض ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ تو بعد میں ہوگا۔"
"دراصل میں میں ایک کہاوت کی بابت جاننا چاہ رہا تھا۔۔۔ تم نے وہ مثل سنی ہے "گربہ کشتن روز اول"۔
"دیکھیں۔۔۔ دیکھیں۔ میں ایک بات صاف صاف کہے دیتی ہوں۔ آئندہ آپ میرے سامنے عربی وربی کا رعب مت جھاڑیئے گا۔"
"لیکن بیگم! یہ تو فارسی کی کہاوت ہے۔۔۔"
"عربی ہو یا فارسی! کان کھول کر سن لیجئے۔ آئندہ آپ مجھ سے سیدھی سادی زبان میں بات چیت کریں گے اور مجھے کم علمی کا طعنہ نہیںدیں گے۔ یہ ٹھیک ہے کہ میں آپ جتنی پڑھی لکھی نہیں ہوں لیکن۔۔۔ سب کچھ سمجھتی ہوں۔ "ہاں"!
"اوہو! تو اس میں لڑنے والی کون سی بات ہے۔ اگر تمہیں نہیں معلوم تو دفع کرو۔
"بس بس! مجھے تو جیسے کچھ معلوم ہی نہیں اور آئندہ مجھے یہ طعنہ بھی مت دینا کہ مجھے کچھ معلوم نہیں ہاں نہیں تو۔"
"بیگم! میں طعنہ تو نہیں دے رہا تھا۔ خیر چھوڑو اس کم بخت کو۔۔۔"
"کم بخت کس کو کہا؟"
"بھئی میں تو اس کہاوت کو کہہ رہا تھا جس نے تمہارا موڈ بگاڑ دیا۔ تمہیں نہیں کہہ رہا تھا۔۔۔ تمہیں تو وہی کچھ کہوں گا جو تم کہو گی۔۔۔ جو تم چاہو گی۔"
"یہ ہوئی نا بات! اگر میری مرضی کے خلاف اس گھر میں آپ نے کچھ کرنے کی کوشش کی تو۔۔۔"
"بیگم! اب میں اتنا بے وقوف بھی نہیں کہ آئندہ ایسی کوئی کوشش بھی کروں۔"
"بس اسے باندھ لینا اپنی گرہ میں۔"
"ہاں اب تو یہی کرنا پڑے گا۔ کہ پچھلی گرہ کو کھول کر اس میں یہ نئی بات باندھ لوں۔۔۔ اچھا آؤ اب۔۔۔ کچھ "دوسری" باتیں۔۔۔ ہو جائیں۔۔۔ ہو جائیں؟"
"۔۔۔۔۔۔" (خاموشی)
***