Rashid Ashraf
محفلین
گوپال متل۔ذات اور صفات
خیر اندیش
راشد اشرف
کراچی سے
مجھے زندگی کی دعا دینے والے
ہنسی آرہی ہے تری سادگی پر
مندرجہ بالا شعر کے خالق اردو کے ایک معروف ادیب و شاعر گوپال متل 15 اپریل 1993 کو راہی ملک عدم ہوئے تھے۔وہ ۱۱ اگست 1906 میں ما لیر کوٹلہ میں پیدا ہوئے تھے۔ مذکورہ شعر کے علاوہ ان کی کتاب یاداشتوں پر مبنی کتاب اردو ادب میں ایک اہم نمایاں مقام رکھتی ہے۔ گوپال متل کی یاداشتیں ابتدا میں دہلی کے ادبی پرچے تحریک میں ’کچھ آپ بیتی ۔کچھ جگ بیتی ‘کے عنوان کے تحت قسط وار اور بعد ازاں۔’لاہور کا جو ذکر کیا‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوئیں۔ ایک طویل عرصے سے گوپال متل پر کسی ٹھوس علمی کام کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔ سال 2012میں آنجہانی گوپال متل کے صاحبزادے پریم گوپال متل نے ’’ گوپال متل۔ذات اور صفات‘ ‘مرتب کرکے اس ضرورت کو بہت حد تک پورا کردیا ہے۔ گرچہ اس سے قبل 1983 میں ’’گوپال متل فن اور شخصیت ‘‘کے عنوان سے ان پر دہلی میں ایک کتاب لکھی جاچکی ہے لیکن زیر تبصرہ کتاب میں کئی ایسی اہم تحریریں شامل ہیں جن کی شمولیت سے گوپال متل کی زندگی کے کئی اہم گوشے بے نقاب ہوتے ہیں۔گوپال متل کی تحریر کردہ کتابوں میں شرار نغمہ(شاعری)، صحرا میں اذان (شاعری) اور لاہور کا جو ذکر کیا شامل ہیں۔
پریم گوپال متل 1962 سے 1981 تک دہلی کے ادبی جریدے ماہنامہ تحریک کے مدیر معاون رہے۔ ان کے والد گوپال متل نے مارچ 1953 میں ماہنامہ تحریک کی اشاعت کا آغاز کیا تھا۔ 29 برس تک اشاعت مسلسل کے بعد جون 1981 میں اس پرچے کی اشاعت مستقل طور پر موقوف ہوئی۔۹ ستمبر 1938 کو پیدا ہونے والے پریم گول متل 1979 سے تادم تحریر (مئی 2012) دہلی کے معروف اشاعتی ادارے موڈرن پبلشنگ ہاؤس سے بحیثیت پروپرائٹر وابستہ ہیں۔ پریم گوپال کے بارے میں ندا فاضلی کا کہنا ہے کہ ’ علی سردار جعفری، کیفی اعظمی، کرشن چندر، مجروح سلطان پوری وغیرہ کی اولادوں میں کسی کو اردو رسم الخط سے واقفیت نہیں ہے جبکہ گوپال متل اپنی دوسری نسل یعنی اپنے صاحبزادے پریم گوپال میں بھی اردو کے دوام کی بشارت ہیں۔‘
کل 400 صفحات پر مشتمل ’’ گوپال متل۔ذات اور صفات‘ ‘ میں گوپال متل کی مختصر خودنوشت اور منتخب شاعرانہ کلام کے علاو ہ ان کے ہم عصر ادبیوں کے اہم مضامین بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ’میرے کچھ معاصرین‘ کے تحت گوپال متل کے مختصر مضامین بھی شامل کتاب ہیں۔گوپال متل نے اپنے معاصرین میں مولانا تاجور نجیب آبادی،ڈاکٹر محمد دین تاثیر،مولانا صلاح الدین احمد،اسرار الحق مجاز، جگر مراد آبادی، حفیظ جالندھری، پنڈت ہری چند اختر، کرشن چندر، ساحر لدھیانو ی اور مخمور سعیدی جیسی یکتا روزگار شخصیات پر ایسے مضامین تحریر کیے ہیں جن سے جہاں ان شخصیات کی نجی زندگی کے کئی گوشے عیاں ہوتے ہیں وہاں کئی مضامین میں لاہور کی ادبی زندگی کی ایک دلنشیں تصویر بھی ابھر کر سامنے آتی ہے۔
زیر تبصرہ کتاب میں گوپال متل پر ان کے معاصرین و احباب کے تحریر کردہ مضامین بھی کتاب میں شامل ہیں۔ دیوندر ستھیارتھی، جگن ناتھ آزاد، ڈاکٹر وزیر آغا،حیات اللہ انصاری، مظفر حنفی، بلراج کومل، ڈاکٹر انور سدید و دیگر مشاہیر ادب کے تحریر کردہ مضامین کے علاوہ مختلف شعراء کے منظوم خراج عقیدت بھی کتاب کا حصہ ہیں۔
گوپال متل کا تعلق ریاست مالیر کوٹلہ سے تھا۔ روایت ہے کہ جب سرہند کے صوبہ دار نے گورو گوربند سنگھ کے بیٹوں کو دیوار میں چنوانے کا حکم صادر کیا تھا تو اس وقت ریاست مالیر کوٹلہ کے اس وقت کے حکمران نے احتجاجا ’آہ‘ کا نعرہ بلند کیا تھا۔یہی وجہ تھی کہ سکھ ریاستوں میں گھرا ہونے کے باوجود برصغیر کی تقسیم کے دنوں ریاست کی سرحدوں پر کبھی کوئی ہنگامہ نہیں ہوا۔ گوپال متل کے والد نے بچپن میں انہیں یہ واقعہ سنایا تھا کہ ایک مرتبہ مالیر کوٹلہ کا کوئی ہندو اہلکار مہاراجا کے عتاب سے بچنے کے لیے مالیر کوٹلہ بھاگ آیا۔پٹیالے کی پولیس نے اسے گرفتارکرلیا ، رستے میں اس اہلکار کی زبان سے نکلا ’ افسوس! مالیر کوٹلہ والوں نے بھی پناہ نہیں دی۔‘ یہ الفاط کسی مسلمان لکڑ ہارے نے سن لیے اور کلہاڑی لے کر پولیس والوں کے سامنے تن کر کھڑا ہوگیا اور ہندو اہلکار سے کہا ’ لالہ! بیٹھ جا۔‘۔۔بات نواب صاحب تک پہنچی اور حل اس مسئلے کا یہ نکلا کہ ان لالہ جی کی بقیہ عمر مالیر کوٹلہ ہی میں گزری۔
مالیر کو ٹلہ میں منقدہ ایک مشاعرے میں داغ کے رنگ میں شعر کہنے والے شیخ بشیر حسین بشیر کا پڑھا ہوا شعر گوپال متل کو آخری عمر تک یاد رہا:
جو بظاہر کشتگان ِ شیوہ ّ تسلیم میں ہیں
ایک چنگاری نہاں ان کے بھی آب و گل میں ہے
گوپال متل مالیر کوٹلہ میں نویں جماعت میں تھے کہ ایک روز دل اچاٹ ہوا اور لاہور پہنچ گئے، متلون مزاجی نے وہاں بھی پیچھا نہ چھوڑا اور کچھ عرصے کے بعد دوبارہ مالیر کوٹلہ کا رخ کیا جہاں سے ایف اے کرنے کے بعد دوبارہ لاہور چلے آئے، لاہور سے بی اے کیا ، فکر معاش میں مبتلا ہوئے اور لدھیانہ جا پہنچے جہاں سے صبح امید کے نام سے ایک ادبی رسالہ شروع کیا۔لدھیانہ ان پر مہربان ہوا۔یہ ہونہیں سکتا تھا کہ تقسیم ہند سے قبل کے لدھیانہ شہر میں ادبی ذوق رکھنے والا کوئی شخص پہنچتا اور م حسن لطیفی سے ملاقات نہ ہوتی۔ گوپال متل کو لطیفی صاحب اس وجہ سے یاد رہے کہ وہ اس بات پر پختہ یقین رکھتے تھے کہ مہدی کا ظہور لدھیانہ ،جسے وہ ارض لد کہتے تھے، سے ہوگا۔
صبح نو کی شام جلد ہی ہوگئی ۔ایک شمارہ ہی نکل سکا اور گوپال متل لاہور واپس چلے آئے۔ سوال تھا اب کیا کیا جائے۔ حفیظ جالندھری اور احسان دانش داد رسی کو آئے اور گوپال متل نے تیس روپے ماہوار پر مولانا تاجور نجیب آبادی کے ادبی پرچے ’شاہکار‘ کی ادارت سنبھال لی۔ بقول گوپال متل ’ مولانا دھڑلے کے آدمی تھے ، ان کی حفیظ جالندھری سے چپلقش رہی۔لاہور کے تقریبا سبھی ادیب اور شاعر ان میں سے کسی ایک کے دوست اور دوسرے کے دشمن تھے۔جب میں نے شاہکار کی ملازمت اختیار کی تو پہلی ہی ملاقات میں حفیظ نے مجھ سے پوچھا: تم وہاں بیٹھ کر میری برائی کرتے ہو گے ؟ جواب میں میں نے کہا تھا: کیا کبھی میں تمہارے سامنے تاجور کی برائی کی ہے ؟ میرے اس جواب نے حفیظ کو مطمعن کردیا۔‘
گوپال متل کو مسلمانوں کی سیاست میں سرگرمی سے حصہ لیتے دیکھ کر عاشق حسین بٹالوی نے کہا تھا ’’ بھئی گوپال متل تو آنریری مسلمان ہے۔‘‘
گوپال متل عرب ہوٹل میں بھی جایا کرتے تھے۔عرب ہوٹل غریب نواز ہوٹل تھا۔دوکبابوں، نصف نان اور چائے کی پیالی میں صبح کا ناشتہ ہوجاتا تھا اور بھنے ہوئے گوشت کی نصف پلیٹ اور ایک نان میں ایک وقت کا کھانا۔ عرب ہوٹل کی محفلوں کے سرخیل چراغ حسن حسرت تھے۔ گوپال متل مولانا چراغ حسن حسرت کی علمیت سے متاثر تھے۔ بیان کرتے ہیں کہ حسرت اپنے سوا کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے، ادب اور سیاست میں ان کی معلومات وافر تھیں۔یہ ان کا عام شیوہ تھا کہ رمضان کے دنوں میں عرب ہوٹل میں چائے کی پیالی سامنے رکھ لیتے، چسکیاں لیتے رہتے اور روزے کے فضائل بیان کرتے جاتے۔حسرت سے گوپال متل کی پہلی ملاقات بھی دلچسپ رہی تھی۔ ان دنوں گوپال متل دائمی نزلے کا شکار تھے، کسی نے ان کو مشورہ دیا کہ اس مرض میں آدمی کو چاہیے کہ سر پر پگڑی باندھے۔ گوپال متل نے اس پر عمل کرنا شروع کردیا، ایک روز اسی ہیت کذائی میں عرب ہوٹل میں داخل ہوئے، حسرت نے انہیں دیکھا تو اپنا ہاتھ ان کی جانب بڑھا کر بولے: جوتشی جی! ذرا میرا ہاتھ تو دیکھ لیجیے۔‘ گوپال متل حسرت کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھاما، چند منٹ غور کرنے کے بعد بولے: حسرت صاحب! میں مجبور ہوں، آپ نے تو کثرت استعمال سے اپنے ہاتھ کی لکیریں ہی مٹا ڈالی ہیں۔
عرب ہوٹل کی چھت قلندروں کے قہقہوں سے ہل گئی۔
تقسیم ہند کے دوران گوپال متل لاہور میں تھے ۔ خوش فہم تھے لہذا کوشش یہی رہی کہ لاہور میں ہی مقیم رہا جائے، اس شتر مرغ کی طرح جو ریت میں گردن ڈالے سمجھتا ہے کہ اسے کوئی نہیں دیکھ رہا۔ 14 اگست 1947 کا دن گزر چکا تھا، گوپال متل ایک روز نگینہ بیکری میں ناشتہ کررہے تھے کہ کچھ غنڈہ صورت لوگ اندر داخل ہوئے، میز سنبھالی اور قتل و غارت کے کارنامے بیان کرنے لگے۔ گوپال متل نجانے کس ترنگ میں آئے کہ ان لوگوں کے سامنے اپنے ہندو ہونے کا انکشاف کربیٹھے۔ اس پر ان لوگوں کے تیور بدل گئے، ایک بولا ’ اگر تم سے پرسوں ملاقات ہوئی ہوتی تو میں تمہیں ضرور قتل کردیتا لیکن کل پاکستان قائم ہوگیا ، اب تم میرے مہمان ہو۔میرے گھر چلو، میں تمہاری تواضع کروں گا اور اگر کوئی تم پر انگلی اٹھائے گا تو اس کا سر کاٹ کر پھینک دوں گا۔‘ یہ کہہ کر اس شخص نے گوپال متل کو پستول کی کچھ گولیاں دکھائیں اور گویا ہوا ’ یہ ان میں سے چند گولیاں ہیں جو تمہارے بھائی بند ہم پر چلاتے رہے ہیں۔‘
گوپال متل ہر جانب ہونے والی غارت گری کے سامنے کچھ دن تک تو ڈٹے رہے لیکن بلاآخر ان کے قدم بھی ڈگمگا ہی گئے۔امرتسر جانے والی لاریوں کے آخری قافلے میں وہ بھی شامل ہوگئے۔ ان کو الوداع کہنے والے دوستوں میں سے کچھ کی آنکھیں نم تھیں۔گوپال متل کے ایک ہمسفر نے ان کے کان میں سرگوشی کی ’ سالے پہلے مار مار کر بھگاتے ہیں، پھر روتے ہیں۔‘۔۔ گوپال متل کو غصہ آگیا، اپنے ہمسفر کو جواب دیا۔’ بکو مت۔‘ اس گوپال متل کے دل کی اندورنی کیفیت یہ تھی کہ گویا ’ قلندروں کو جل دے کر جارہے ہوں۔‘۔ ان قلندروں کو جن میں ایک باری علیگ تھے جن پر فسادات کا صرف اتنا اثر ہوا تھا کہ گوپال متل کی آمد پر ہر مرتبہ ’ کافر آیا، چھری نکالو‘ کا نعرہ بلند کرتے تھے۔
شاعر گوپال متل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں
مفلسی اور مزاج عاشقانہ
دینے والے یہ کیا دیا تو نے
ہے دھوپ مرے سر پہ مگر تو بھی مری جاں
گری ہوئی دیوار کے سائے میں کھڑا ہے
سر یہ کہتا ہے گوارا نہیں اب بارش سنگ
دل یہ کہتا ہے اسی کوچے میں جایا جائے
ناز کر اپنے فلک سیر تخیل پہ مگر
جو ترے پانو سے لپٹی ہے وہ زنجیر بھی دیکھ
شاعری میں نہ رہا جذبہ و احساس کو دخل
اب اسے قوم کی خدمت پہ لگایا جائے