مدیحہ گیلانی
محفلین
ہجر کرتے یا کوئی وصل گزارا کرتے
ہم بہرحال بسَر خواب تمھارا کرتے
ایک ایسی بھی گھڑی عشق میں آئی تھی کہ ہم
خاک کو ہاتھ لگاتے تو ستارا کرتے
اب تو مل جاؤ ہمیں تم کہ تمھاری خاطر
اتنی دور آ گئے دنیا سے کنارا کرتے
محوِ آرائشِ رُخ ہے وہ قیامت سرِ بام
آنکھ اگر آئینہ ہوتی تو نظارا کرتے
ایک چہرے میں تو ممکن نہیں اتنے چہرے
کس سے کرتے جو کوئی عشق دوبارا کرتے
جب ہے یہ خانۂ دل آپ کی خلوت کے لیے
پھر کوئی آئے یہاں، کیسے گوارا کرتے
کون رکھتا ہے اندھیرے میں دیا، آنکھ میں خواب
تیری جانب ہی ترے لوگ اشارا کرتے
ظرفِ آئینہ کہاں اور ترا حسن کہاں
ہم ترے چہرے سے آئینہ سنوارا کرتے
(عبید اللہ علیم)