مولانا روم کی بیٹے کو اپنے شاگرد رشید کے ساتھ حسن سلوک کی ہدایت
فرزند عزیز، مظفر الدین، خدا تمہیں انسانوں اور جنوں میں سے ہر دشمن پر ظفر مند کرے اور تمہاری مدد اور ہدایت فرمائے اور جس شے کو خدا دوست رکھتا ہے اور پسند کرتا ہے اس کی توفیق عنایت فرمائے، میری طرف سے سلام و تحیتہ پڑھو اور یہ جانو کہ میں تمہارا مشتاق ہوں۔
اس کے بعد یہ معلوم کرو کہ فرزند عزیز حسام الدین، جو بڑا وفا شعار ہے، مجھ پر اور تم پر خدمت اور دوستی کا حق رکھتا ہے۔ (نیکی کی ابتدا کرنے والے کو کوئی عوض نہیں دیا جا سکتا) سنا گیا ہے کہ خود غرض لوگوں کے کہنے سننے سے تم اس کے ساتھ جھگڑا کرتے ہو اور بعض امور کو ملحوظ نہیں رکھتے۔ حسام الدین بڑا امانت دار اور معتمد ہے اور ہمارا بیٹا ہے۔ (امانت دار کا قول، قسم کے ساتھ، معتبر ہے) باپ کی خوشی کے لیے اس کی دلجوئی اور عزت افزائی کرو اور اسے اطمینان دلاؤ۔ تم یہ مہربانی اپنے باپ پر کرو گے۔
تمہیں پتا ہے کہ حسام الدین ہماری گود میں پل کر بڑا ہوا ہے، وہ اپنے اچھے برے کو بہتر جانتا ہے، خواہ یہ بدگمانی تمہاری طرف سے ہے یا کسی دوسرے نے تم سے کہا ہے، ہر صورت میں یہ بات اس سے قطعاً بعید ہے کہ اس نے تمہاری نصیحت اور خیر خواہی میں کوئی دریغ کیا ہو۔ ایسا خیال بھی نہ کرو اور اس گمان کو دل میں بھی نہ لاؤ کیونکہ (بے شک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں) اور یہ گمان اس قسم کا ظن ہے جس سے تم بعد میں پشیمان اور گناہ گار ہونگے۔ شعر(ترجمہ)
"میرے سوا کسی اور سے تمہیں سابقہ پڑے گا تو مجھے پہچانو گے ۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ سمجھ لو کہ میں سختی کے ساتھ نصیحت کرنے والا تھا۔"
واللہ باللہ اس کے بارے میں ان نصیحتوں کو تم تکلف اور مبالغہ کی قسم سے نہ سمجھنا بلکہ جو کچھ کہا ہے وہ بہت میں سے تھوڑا اور ہزار میں سے ایک ہے۔ بیٹا اس مطالبے اور مناقشے سے جو نفع تمہیں مطلوب ہے یا جس کا لالچ تمہیں ہو رہا ہے، وہ حقیقتاً تمہارا نقصان ہے، یہ بات تم اچھی طرح ذہن نشین کر لو۔
کہتے ہیں کہ کسی جنگجو سپاہی کا گھوڑا زخمی ہو گیا۔ بادشاہ نے اپنا گھوڑا، جو اصطبل کے عربی النسل گھوڑوں میں سے سب سے اعلیٰ درجہ کا تھا، اسے دے دیا اور اس پر اسے سوار کرا دیا۔ ناگہا یہ گھوڑا بھی زخمی ہو گیا۔ دفعتاً بادشاہ کی زبان سے بے اختیار نکلا کہ افسوس! اسی وقت وہ بہادر جنگجو گھوڑے سے نیچے اتر پڑا۔ بادشاہ نے دوسرا گھوڑا بہترا پیش کیا مگر اس نے قبول نہ کیا اور کہا کہ میں نے تیری فتح کی خواہش میں اپنی جان عزیز سے دریغ نہیں کیا اور کبھی یہ نہیں کہا کہ افسوس! مگر تو نے مجھے جو ایک چوپایہ دیا تھا اس کے لیے افسوس کا نعرہ بلند کیا۔ اب میں جاتا ہوں کسی اور بادشاہ کی خدمت کروں گا جو میری جان کی قدر جانتا ہوگا۔
بہرحال اب خیر و سعادت کی دعائیں لو۔ خدا تمہارے کام ایسی جگہ سے پورے کرے کہ جہاں سے تمہیں امید نہ ہو ( خدا اس جگہ سے رزق پہنچاتا ہے جہاں اس کا گمان بھی نہیں ہوتا) یہ دعا ہماری جانب سے ہے اور اس کا قبول کرنا خدا کے اختیار میں ہے۔
ترجمہ اشعار:
"خدا نے جو کچھ میرے لیے مقرر کر دیا ہے میں اس پر راضی ہوں۔ اور میں نے اپنا کام اپنے خالق کے سپرد کر دیا ہے۔ جس طرح اس نے گزشتہ زندگی میں احسان کیا۔ اسی طرح باقی زندگی میں بھی احسان کرے گا۔ تجھے جو کچھ مشکل درپیش ہے وہ تیرے طرز زندگی کی وجہ سے ہے، ورنہ جو لوگ آسان زندگی بسر کرنے کے عادی ہیں وہ آسانی سے زندگی گزار دیتے ہیں۔"
(تم لوگوں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرو خدا تمہارے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرے گا۔)
والسلام