ہے سانس سانس میں اب بیکرانیِ مقتل ۔۔۔۔۔۔

اسد قریشی

محفلین
ایک فورم پر ایک غزل نظر سے گُزری ترکیب کچھ انوکھی سی تھی سوچا دوستوں سے اور اہلِ سخن سے دریافت کیا جائے کہ شاعری کے تجربات اس بات کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں۔کیا قوافی کا اس طرح استعمال درست ہے؟

ہے سانس سانس میں اب بیکرانیِ مقتل​
سو زندگی کو فقط آپ جانیے مقتل​
سجی ہےچہروں پہ پژ مردگی قیامت کی​
کفن کفن ہے عیاں کامرانی ِمقتل​
کہیں سےاترے نہ امید کی کرن بھی کوئی​
تمام شہرپہ کچھ ایسے تانیے مقتل​
بدل رہےہیں جو آئینِ زندگی ہر جا​
کچھ ایسےلوگوں کی سوچوں کو مانیے مقتل​
گلی گلی میں جو خوں سے ہیں کھیلتے ھولی​
انہی سے پوچھیے جا کر کے معنی ِ مقتل​
بلا کےقتل کریں پہلے حق شعاروں کو​
پھر اسکے بعد بدل دیں کہانی ِمقتل​
کٹا گیا تھا جو سر اپنا کوئی سجدے میں​
تب ہی توسجدوں کو حاصل نشانی ِمقتل​
صلیب ِجاں پہ فگاراں وجود کو لیکر​
گزرتے لمحوں کا فرخ کیا چھانیے مقتل​
 
خوب سوال ہے محترم۔۔۔ ویسے ہماری ناقص عقل میں یہ بات آتی ہے کہ یہ ٹھیک ہی ہونی چاہئے کہ ضوابط عروض کا تعلق تلفظ سے ہے نہ املا سے
 

الف عین

لائبریرین
اسد اس قسم کے قوافی تجرباتی طور پر ہی قبول کئے جانے چاہئے۔ شاعر مصر ہوگا کہ یہ سوتی قوافی ہیں، جو یقیناً ہیں۔ مہدی کی یہ بات غلط ہے کہ عروض کا تعلق املا سے قطعی نہیں، قوافی بھی عروض میں شامل ہیں، جن کا تعلق املا سے بہر حال ہے۔نشاط، بات اور ہاتھ قوافی صوتی طور پر باندھے جا سکتے ہیں، لیکن کیا یہ سو فی صد درست ہیں؟؟؟؟
 
اسد اس قسم کے قوافی تجرباتی طور پر ہی قبول کئے جانے چاہئے۔ شاعر مصر ہوگا کہ یہ سوتی قوافی ہیں، جو یقیناً ہیں۔ مہدی کی یہ بات غلط ہے کہ عروض کا تعلق املا سے قطعی نہیں، قوافی بھی عروض میں شامل ہیں، جن کا تعلق املا سے بہر حال ہے۔نشاط، بات اور ہاتھ قوافی صوتی طور پر باندھے جا سکتے ہیں، لیکن کیا یہ سو فی صد درست ہیں؟؟؟؟
جی استاد گرامی۔ میں اس طرف متوجہ نہیں تھا۔ یاد دہانی کا شکریہ البتہ آپ کی رائے سے مجھے اتفاقِ کامل ہے
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اسی طرز کی ایک غزل احمد فراز نے بھی لکھی تھی جو "اے عشق جنوں پیشہ" میں شامل ہے۔

کس نے کہا تھا کہ وحشت میں چھانیے صحرا
کڑی ہے دھوپ تو اب سر پہ تانیے صحرا

بس اک ذرا سے اُجڑنے پہ زعم کتنا ہے
یہ دل بضد ہے کہ اب اس کو مانیے صحرا

کسی کی آبلہ پائی عنایتِ رہِ دوست
کسی کی چاک قبائی نشانیِ صحرا

یہ زندگی کہ خیاباں بھی ہے خرابہ بھی
اب اس کو خلد سمجھیے کہ جانیے صحرا

ہوس کے واسے سو در کھُلے ہیں شہروں میں
اگر جنونِ وفا ہے تو چھانیے صحرا

ستم تو یہ ہے کہ اب خانہ زادگانِ چمن
ہمیں بتانے لگے ہیں معانیِ صحرا

ہمیں ملی نہ کہیں خیمہ زن نگارِ بہار
لئے پھری ہے عبث بیکرانیِ صحرا

فرازؔ و قیس ہیں دونوں ہی کشتگانِ وفا
یہ جانِ شہرِ ملامت وہ جانیِ صحرا
٭٭٭
 
قوافی یقیناً درست ہیں۔
اصول آسان سا ہے۔
اگر روی میں کوئی اختلاف نہیں تو قافیہ پر انگلی اٹھانا قطعاً مناسب نہیں۔ استاد محترم الف عین نے جو نشاط اور بات کا قافیہ کہا تو اس میں عیب ہے۔ اور وجہ حرف روی ہے کے حرف روی کا اختلاف جب جب ہوگا قافیہ غلط ہوجائے گا۔
نشاط اور بات میں ”ط“ اور ”ت“ حرف روی ہیں یہ اختلاف ناجائز ہے گو کہ پہلے جرات کے دور میں یہ چیز رائج رہی مگر اب مکمل طور پر متروک و ممنوع ہے۔

چھانیے اور تانیے میں روی ”نون“ ہے۔ اور یہ حرف زائد میں وصل اور خروج ترتیب وار ہے۔
جب یہ طے ہوگیا کے کچھ بھی ہوجائے مگر روی کا اختلاف جائز نہیں اب نون کو دیکھیں۔ اگر نون کہیں غائب ہو تو یہ غزل بھی معیوب ہوجائے گی۔ مگر نون ہر قافیہ میں روی کے طور پر موجود ہے۔
جیسے نشان سے زوائد کہ خلط سے نشانی بنا۔ اس میں زیر کو حرف زائد کا قائم مقام بنا لیا گیا جو کسی لحاظ سے بھی غلط نہیں۔ ہاں اگر درستیِ، خشکیِ، تشنگیِ، لالیِ وغیرہ ہوتے تو غلط ہوتا۔
امید ہے سمجھ آیا ہو۔



 

الف عین

لائبریرین
میں متفق ہوں اگر قوافی محض نشانیِ، روانیِ، وغیرہ ہوتے۔لیکن یہاں کسرہ کا مساوی ’ئے‘ کا استعمال بھی ہے، جو پھر صوتی ہونے کی وجہ سے ہی قابل قبول ہو سکتے ہیں۔
 
Top