منصور مکرم
محفلین
سُنا تو ہم نے کئی لوگوں سے تھا لیکن جیسا کہ عربی مقولہ ہے کہ (لیس الخبر کالمعاینہ) یعنی خبر معاینہ کا قائم مقام نہیں ہوسکتا ،اسی لئے ہم بھی اسکی صحیح خوبصورتی کا ادراک نہ کرسکے۔
لیکن اس موسم گرما میں ساتھیوں نے پروگرام بنایا کہ کیوں نا ہم بھی اسکی خوبصورتی کے عینی شاہدین بن جائیں،اس لئے اس جانب سفر کا پروگرام بنایا۔
چنانچہ ایک ساتھ ساتھی کی گاڑی میں جانے کی ترتیب بنائی تو اچانک اسکی طرف سے اطلاع ملی کہ جناب آج سہ پہر تین بجے اسکی خوبصورتی دیکھنے کیلئے نکلنا ہے۔
چلتے چلتے مجھے خیال آیا کہ سفر بھی ہو اور کیمرہ بھی نا ہو تو پھر مزہ ہی کیا ہے، چانچہ جلدی جلدی کیمرہ ریڈی کردیا،اور اسکو بھی اپنا ہمسفر بنا لیا۔
لوجی تعریفیں تو اتنی کردی اور نام تک بتانا بھول گئے ،تو ہاں ہم وادی ناران کی بات کر رہے ہیں۔
کوشش یہی ہوگی کہ اس بار تحریری مضمون کے بجائے تصویری مضمون ہوجائے تاکہ اگر براہراست نہ ہو تو کم ازکم تصویری دیدار تو آپ بھی کرسکیں۔تو آئیے پہلے اپنے گلی سے شروع کرتے ہیں۔جس دن ہم نکل رہے تھے تو اس سے چند منٹ قبل کافی بارش ہوئی تھی جس کے سبب مطلع صاف تھا۔
جیسے ہی گھر سے باہر نکلا تو دیکھا کہ آم اور خربوزے فروخت کرنے والی گلی کے سرے میں ہی کھڑے تھے،اسلئے انکو بھی کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کیا۔
باہر میں روڈ کی طرف نکلا تو چند منٹ ٹیکسی کا انتظار کرنا پڑا،سامنے دیکھا تو خیبر ایجنسی کے پہاڑ سینہ تھان کر کھڑے نظر آئے ۔جنکو کیمرے کی آنکھ نے دیکھا تو محفوظ کئے بنا صبر نہ ہوسکا۔
پشاور سے اٹک تک جی ٹی روڈ کے دونوں اطراف کافی سرسبز و شاداب درخت ہیں، جنکے سبب نا صرف سفر کافی خوشگوار اور پرلطف ہوتا ہے بلکہ تازہ اور ٹھنڈی ہوا میں سانس لینے سے پھیپڑے بھی تازہ ہوجاتے ہیں۔
پشاور سے باہر نکل کر اٹک تک دریائے کابل اور جی ٹی روڈ ساتھ ساتھ چلتے ہیں،جسکی ایک جھلک اس ویڈیو میں دیکھی جا سکتی ہے۔
اکوڑہ خٹک کے بعد دریائے کابل دو حصوں میں بٹ جاتا ہے اور اسکے درمیان میں ایک جزیرہ سا بن جاتا ہے، اس جزیرے کو حکومت نے ایک تفریحی مقام مین تبدیل کیا ہے اور اسکا نام کُنڈ پارک رکھا ہے۔لیکن اٹک سے ذرا پہلے دریا کے دونوں حصے آپس میں دوبارہ مل جاتے ہیں ۔ہم نے سڑک کنارے گاڑی کھڑی کردی اور قدرتی نظارے سے لطف اندوز ہوئے۔
ایک ساتھی دریا کنارے اُترتے ہوئے
دریائے کابل کا ایک خوبصورت نظارہ اور ذیل میں کنڈ پارک کے چند مناظر
دریائے کابل کی دو حصوں کا ملاپ اور سامنے نظر آنے والے اٹک کے پہاڑ آپ اس ویڈیو میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔
ایبٹ آباد سے پہلے سرسبز پہاڑ کی ایک جھلک صاف نظر آرہی ہے۔چونکہ ہم شام ایبٹ آباد پہنچے اور رات ہم نے بالاکوٹ میں گزارنی تھی اسلئے تاریکی کے سبب یہ علاقے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ نہ ہوسکے۔ہاں ایبٹ اباد سے پہلے آنے والے ایک ندی پر بنے پُل کی ویڈیو یہاں ملاحظہ کرسکتے ہیں
رات بالاکوٹ میں گزارنے کے بعدصبح تازہ دم ہوکر کیمرے کے کمالات پھر سے شروع ہوگئے۔وہ علاقہ جہاں ہم نے رات گذاری،اور ساتھ میں اسکے اردگرد کے پہاڑی سلسلے۔
لیکن اس موسم گرما میں ساتھیوں نے پروگرام بنایا کہ کیوں نا ہم بھی اسکی خوبصورتی کے عینی شاہدین بن جائیں،اس لئے اس جانب سفر کا پروگرام بنایا۔
چنانچہ ایک ساتھ ساتھی کی گاڑی میں جانے کی ترتیب بنائی تو اچانک اسکی طرف سے اطلاع ملی کہ جناب آج سہ پہر تین بجے اسکی خوبصورتی دیکھنے کیلئے نکلنا ہے۔
چلتے چلتے مجھے خیال آیا کہ سفر بھی ہو اور کیمرہ بھی نا ہو تو پھر مزہ ہی کیا ہے، چانچہ جلدی جلدی کیمرہ ریڈی کردیا،اور اسکو بھی اپنا ہمسفر بنا لیا۔
لوجی تعریفیں تو اتنی کردی اور نام تک بتانا بھول گئے ،تو ہاں ہم وادی ناران کی بات کر رہے ہیں۔
کوشش یہی ہوگی کہ اس بار تحریری مضمون کے بجائے تصویری مضمون ہوجائے تاکہ اگر براہراست نہ ہو تو کم ازکم تصویری دیدار تو آپ بھی کرسکیں۔تو آئیے پہلے اپنے گلی سے شروع کرتے ہیں۔جس دن ہم نکل رہے تھے تو اس سے چند منٹ قبل کافی بارش ہوئی تھی جس کے سبب مطلع صاف تھا۔
جیسے ہی گھر سے باہر نکلا تو دیکھا کہ آم اور خربوزے فروخت کرنے والی گلی کے سرے میں ہی کھڑے تھے،اسلئے انکو بھی کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کیا۔
باہر میں روڈ کی طرف نکلا تو چند منٹ ٹیکسی کا انتظار کرنا پڑا،سامنے دیکھا تو خیبر ایجنسی کے پہاڑ سینہ تھان کر کھڑے نظر آئے ۔جنکو کیمرے کی آنکھ نے دیکھا تو محفوظ کئے بنا صبر نہ ہوسکا۔
پشاور سے اٹک تک جی ٹی روڈ کے دونوں اطراف کافی سرسبز و شاداب درخت ہیں، جنکے سبب نا صرف سفر کافی خوشگوار اور پرلطف ہوتا ہے بلکہ تازہ اور ٹھنڈی ہوا میں سانس لینے سے پھیپڑے بھی تازہ ہوجاتے ہیں۔
پشاور سے باہر نکل کر اٹک تک دریائے کابل اور جی ٹی روڈ ساتھ ساتھ چلتے ہیں،جسکی ایک جھلک اس ویڈیو میں دیکھی جا سکتی ہے۔
اکوڑہ خٹک کے بعد دریائے کابل دو حصوں میں بٹ جاتا ہے اور اسکے درمیان میں ایک جزیرہ سا بن جاتا ہے، اس جزیرے کو حکومت نے ایک تفریحی مقام مین تبدیل کیا ہے اور اسکا نام کُنڈ پارک رکھا ہے۔لیکن اٹک سے ذرا پہلے دریا کے دونوں حصے آپس میں دوبارہ مل جاتے ہیں ۔ہم نے سڑک کنارے گاڑی کھڑی کردی اور قدرتی نظارے سے لطف اندوز ہوئے۔
ایک ساتھی دریا کنارے اُترتے ہوئے
دریائے کابل کا ایک خوبصورت نظارہ اور ذیل میں کنڈ پارک کے چند مناظر
دریائے کابل کی دو حصوں کا ملاپ اور سامنے نظر آنے والے اٹک کے پہاڑ آپ اس ویڈیو میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔
ایبٹ آباد سے پہلے سرسبز پہاڑ کی ایک جھلک صاف نظر آرہی ہے۔چونکہ ہم شام ایبٹ آباد پہنچے اور رات ہم نے بالاکوٹ میں گزارنی تھی اسلئے تاریکی کے سبب یہ علاقے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ نہ ہوسکے۔ہاں ایبٹ اباد سے پہلے آنے والے ایک ندی پر بنے پُل کی ویڈیو یہاں ملاحظہ کرسکتے ہیں
رات بالاکوٹ میں گزارنے کے بعدصبح تازہ دم ہوکر کیمرے کے کمالات پھر سے شروع ہوگئے۔وہ علاقہ جہاں ہم نے رات گذاری،اور ساتھ میں اسکے اردگرد کے پہاڑی سلسلے۔