مبارکباد یوم کپور

الف عین

لائبریرین
پہلے تو میں سمجھا کہ کوئ راج کپور شمی کپور کے نواسے پوتے یہاں آ گئے ہیں!!
یوم عاشورہ تو آں حضرت ص سے پہلے کی چیز ہے، آپ خود عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے۔ یہ ابراہیمی سنت تھی شاید تو ممکن ہے کہ یہود میں بھی ان کے اصل آبائ مذہب کی کچھ روایات باقی ہوں۔ لیکن یہ کون ساکیلینڈر استعمال کرتے ہیں اب؟
 

زیک

مسافر
بخاری اور کچھ دوسری کتبِ احادیث کے مطابق (ماخذ 1 اور 2) حضرت محمد نے عاشورہ کا روزہ مدینہ کے یہودیوں کی روایات کے مطابق رکھنا شروع کیا۔ ویسے اس بارے میں مسلمانوں میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے۔

یہودی چوتھی صدی عیسوی سے ایک luni-solar calendar استعمال کر رہے ہیں۔ اس کے مہینے چاند کے حساب سے (مگر calculated) ہوتے ہیں اور سال سورج کے گرد ایک چکر کے مطابق۔ اس کے لئے کچھ سالوں میں 12 کی بجائے 13 مہینے ہوتے ہیں۔
 

منقب سید

محفلین
یومِ عاشوراء کے روزے کی فضیلت

1. حضرت ابو قتادہؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: «وصيام يوم عاشوراء احتسب علی الله أن يکفر السنة التي قبله» '' مجھے اللہ تعالیٰ سے اُمید ہے کہ یوم عاشورا کا روزہ گذشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔'' (مسلم : کتاب الصیام، باب استحباب صیام ثلاثۃ ایام؛ ۱۱۶۲)

واضح رہے کہ 'عاشورائ' عشر سے ہے جس کا معنی ہے دس ۱۰ ؛ اور محرم کی دسویں تاریخ کو عاشوراء کہا جاتا ہے۔ البتہ مذکورہ فضیلت دسویں تاریخ کے روزے کی ہے یا نویں کی، اس میں اہل علم کا شروع سے اختلاف چلا آتا ہے۔ مزید تفصیل آگے آرہی ہے...

2. حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ ''قریش کے لوگ دورِ جاہلیت میں عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ روزہ رکھتے تھے۔ پھر جب آپؐ مدینہ تشریف لے آئے تو تب بھی عاشوراء کا روزہ رکھتے اور صحابہ کرام کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا آپؐ نے حکم دے رکھا تھا۔ البتہ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کی فرضیت ختم ہوگئی۔ لہٰذا اب جو چاہے یہ روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔'' (بخاری: کتاب الصیام، باب صوم یوم عاشورا ؛۲۰۰۳/ مسلم: کتاب الصیام، باب صوم یوم عاشوراء ؛۱۱۲۵)

3. حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ دورِ جاہلیت میں لوگ یومِ عاشورا کا روزہ رکھا کرتے تھے اور اللہ کے رسولؐ اور مسلمان بھی اس دن روزہ رکھتے۔ پھر جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

«إن عاشورأ يوم من أيام الله فمن شاء صامه ومن شاء ترکه»

''عاشورا اللہ تعالیٰ کے دنوں میں سے ایک (معزز) دن ہے لہٰذا جو اس دن روزہ رکھنا چاہے، وہ روزہ رکھے اور جونہ رکھنا چاہے وہ نہ رکھے۔'' (مسلم:ایضاً؛ ۱۱۲۶)

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دورِ جاہلیت میں قریش دسویں محرم کا روزہ کیوں رکھتے تھے؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہوسکتا ہے کہ وہ ہر سال ماہِ محرم کی اس تاریخ کو بیت اللہ کو غلاف پہنایا کرتے تھے جیسا کہ صحیح بخاری میںحضرت عائشہؓ ہی سے مروی ایک حدیث میںہے (بخاری؛۱۵۸۲) لیکن اس پر پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قریش غلافِ کعبہ کے لئے یہی دن کیوں خاص کرتے تھے؟ تو اس کا جواب (اور پہلے سوال ہی کا دوسرا جواب) یہ ہوسکتا ہے جو حضرت عکرمہؓ سے مروی ہے کہ

''دورِ جاہلیت میں قریش نے ایک ایسے گناہ کا ارتکاب کیا جو ان پر بڑا گراں گزرا تو ان سے کہا گیا کہ تم لوگ عاشورا کا روزہ رکھو یہ تمہارے گناہ کا کفارہ ہوجائے گا۔ پھر اس وقت سے قریش عاشوراء کا روزہ رکھنے لگے۔'' (فتح الباری: ۴؍۷۷۳، کتاب الصوم، باب صوم یوم عاشورائ)

4. حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ ''جب اللہ کے رسولؐ مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہودی عاشوراء کے دن کا روزہ رکھتے ہیں۔ آپؐ نے ان سے پوچھا کہ اس دن روزہ کیوں رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ یہ ایک اچھا (افضل) دن ہے اور یہی وہ دن ہے جب اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن (فرعون) سے نجات بخشی (اور فرعون کو اس کے لشکر سمیت بحیرئہ قلزم میں غرقاب کیا) تو حضرت موسیٰ ؑ نے (بطورِ شکرانہ) اس دن روزہ رکھا (اور ہم بھی روزہ رکھتے ہیں) تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہم حضرت موسیٰ ؑ کے (شریک ِمسرت ہونے میں) تم سے زیادہ مستحق ہیں۔ چنانچہ آپؐ نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔'' (بخاری: ایضاً ؛ ۲۰۰۴/مسلم؛۱۱۳۰)

5. حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ ''میں نے نہیں دیکھا کہ اللہ کے رسولؐ دنوں میں سے دسویں محرم (یوم عاشورائ) کے اور مہینوں میں سے ماہِ رمضان کے روزوں کے سوا کسی اور روزے کو افضل سمجھ کر اس کا اہتمام کرتے ہوں۔'' (بخاری، ایضاً؛۲۰۰۶/ مسلم ایضاً؛۱۱۳۲)

6. حضرت ابوموسیٰ ؓ سے مروی ہے کہ ''عاشورا کے روز یہودی عید مناتے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ تم اس دن روزہ رکھا کرو۔'' (بخاری ؛۲۰۰۵/ مسلم ؛۱۱۳۱)

7. ابوموسیٰ ؓ سے مروی مسلم ہی کی دوسری روایت میں ہے کہ ''اہل خیبر عاشوراء کے روز، روزہ رکھتے اور ا س دن عید مناتے اور اپنی عورتوں کو اچھے اچھے لباس اور زیورات پہناتے مگر اللہ کے رسولؐ نے صحابہؓ سے فرمایا کہ تم اس دن روزہ رکھو۔'' (مسلم؛۲۶۶۱)

8. حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ بنواسلم کے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں میں جاکر یہ اعلان کرے کہ

''جس نے کچھ پی لیا ہے، وہ اب باقی دن کھانے پینے سے رکا رہے اور جس نے کچھ نہیں کھایا، وہ روزہ رکھے کیونکہ آج عاشوراء کا دن ہے۔'' (بخاری؛۲۰۰۷/ مسلم؛۱۱۳۵)

9. حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے جب دسویں محرم کا روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا تو لوگوں نے عرض کیا کہ

''اے اللہ کے رسولؐ! اس دن کو یہود و نصاریٰ بڑی تعظیم و اہمیت دیتے ہیں۔ (یعنی ان کی مراد یہ تھی کہ آپؐ تو ہمیں یہود و نصاریٰ کی مخالفت کا حکم دیتے ہیں اور یوم عاشوراء کے معاملہ میں تو ان کی موافقت ہورہی ہے۔) تو آپؐ نے فرمایا کہ «فاذا کان العام المقبل إن شاء الله صمنا اليوم التاسع» آئندہ سال اگر اللہ نے چاہا تو ہم نویں تاریخ کو روزہ رکھیں گے۔ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ اگلا سال آنے سے پہلے اللہ کے رسولؐ انتقال فرما گئے۔'' (مسلم؛۱۱۳۴)

10. مسلم کی ایک روایت کے لفظ یہ ہیں کہ «لئن بقيت إلی قابل لأصومن التاسع»

''اگر آئندہ سال میں زندہ رہا تو ضرور نو کا روزہ رکھوں گا۔'' (مسلم: ایضاً)
 

زیک

مسافر
4. حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ ''جب اللہ کے رسولؐ مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہودی عاشوراء کے دن کا روزہ رکھتے ہیں۔ آپؐ نے ان سے پوچھا کہ اس دن روزہ کیوں رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ یہ ایک اچھا (افضل) دن ہے اور یہی وہ دن ہے جب اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن (فرعون) سے نجات بخشی (اور فرعون کو اس کے لشکر سمیت بحیرئہ قلزم میں غرقاب کیا) تو حضرت موسیٰ ؑ نے (بطورِ شکرانہ) اس دن روزہ رکھا (اور ہم بھی روزہ رکھتے ہیں) تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہم حضرت موسیٰ ؑ کے (شریک ِمسرت ہونے میں) تم سے زیادہ مستحق ہیں۔ چنانچہ آپؐ نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔'' (بخاری: ایضاً ؛ ۲۰۰۴/مسلم؛۱۱۳۰)
یہ پاس اوور کا ذکر ہے
 

arifkarim

معطل
یہ پاس اوور کا ذکر ہے
درست اور اسکا اس تہوار سے کوئی تعلق نہیں۔

یہودی ماہ تشری کے دسویں دن یوم کِپور مانایا جاتا ہے۔ یہ عموماً ستمبر یا اکتوبر میں آتا ہے۔ عشرۃ التوبہ کے اختتام پر ایک لمبا روزہ ہوتا ہے جو یوم کِپور کی شام سورج ڈوبنے پر شروع ہوتا ہے اور اگلے دن سورج غروب پر کھولا جاتا ہے۔
اس تہوار کا مقصد سال بھر کی توبہ کرنا ہوتا ہے۔ چونکہ عشرۃ التوبہ کے دوران انسان انسان سے معافی مانگتا ہے، یوم کِپور توبہ کا آخری موقع ہے جس میں یہودی باجماعت خدا سے معافی مانگتے ہیں، اپنے اعمال کی توبہ کرتے ہیں اور آئندہ سال میں نیکیاں کرنے اور گناہ سے پرہیز کرنے کا ارادہ کرتے ہیں ۔
یوم کِپور کے روزہ میں کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے پرہیز کِیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کام سے بھی پرہیز کِیا جاتا ہے چونکہ انسان کا تمام وقت شول (یہودی معبد) میں گزرتا ہے یا پھر گھر میں بیٹھ کر فرداً یا خاندان کے ساتھ عبادت میں ۔

یوم کِپور کی شام شُول میں گزرتی ہے جہاں خازان (دعا خواں) "کول نِیدرے" نامی ایک دعا تلاوت سے پڑھتا ہے۔ اس شام میں دوست عزیزوں سے معافی مانگنے کا بھی آخرے موقع ملتا ہے۔

یوم کِپور کی صبح ایک فرد صبح سے شام تک شُول میں گزارتا ہےجس دوران تورات کے کچھ حصے پڑھے جاتے ہیں اور مزید توبہ کی باجماعت دعائیں کی جاتی ہیں ۔ اس کے علاوہ اس موقع پرجن دوست عزیزوںکا انتقال ہو چکا ہوتا ہے، ان کی فلاح کی دعا کی جاتے ہے، جس کو کادش کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد کھر آکر خاندان کے ساتھ یا پھر شُول ہی میں یوم کِپور کا روزہ کھولا جاتا ہے۔
http://ur.wikipedia.org/wiki/یوم_کِپور
 
Top