مغزل
محفلین
یک نہ شُد دوشُد
(احوال ایک ملاقات کا)
آج کوئی دو برس کے بعد بلوچ کالونی کے پل کے نیچے برق رفتاری سے گرزتی گاڑیوں اور سڑک کے درمیان اگائے گئے جنگلے کو عبور کرتے ہوئے ٹھہرتی خلقت کا نظّارہ کرنے کووقت میسر آیا بزم میں جب عمار میاں نے ملاقات پر آمادگی ظاہر کی تو راقم الحروف عجلت روی کا نمونہ بنے دفتر سے باہر نکل آیا چپڑاسی کو دفتر بندکرکے بھاگ جانے کو کہا حواس باختہ باہر بلیلہ کو لات رسید کی کہ چل اے پہیاتی توسن ِبرقی یارآمادہ ہے ملاقات کو ، تو یاد آیا کہ ہیلمٹ اور جوتے دفتر ہی میں رہ گئے ہیں۔ خیر ہم چل پڑے عمار میاں ابھی مزارِ قائد کے سامنے سے گزر رہے تھے، یوپی تک کا لگ بھگ تیس منٹ کا سفر تھا،اس دوران ابا میاں (شامل کے ) سے ہاتفِ مصنوعی کے وسیلے سے ہوامیں اٹھکیلیاں کرتی آوازوں اور سماعت میں رسل گھولتی چہکار کا لطف حاصل ہو ا، موصوف اپنے دفتر سے نکل کر شاراعِ فیصل پر محوِ خرام تھے، طے ہوا کہ بلوچ پُل کے نیچے ملاقات ہوگی، محمود آباد نمبر6 سے کورنگی ایکسپریس وے اخیتار کرتے ہوئے بلوچ کے پُل تک کا سفر کوئی تین سے چار منٹ کا ہے ،ہم بالائی گزرگاہ سے ہوتے ہوئے واپس مڑے اور بلوچ پُل کے نیچے رک کردم لیا، تقریباً دو سال بعد مجھے یہاں آناہوا، میں جب الکوپ سے متصل ایک عمارت میں ایک طبی جریدے (میڈیکل میگزین) میں برسرِ روزگار تھا تو عموماً یہیں کھڑے ہوکر زندگی کو بھاگتے دوڑتے دیکھا کرتا تھا۔۔ خیر۔۔ابھی مجھے یہاں چند ہی منٹ گزرے تھے ایک بھکارن مجھے پہچانتے ہوئے میری جانب بڑھی ۔ ۔۔ ابھی دکھڑا رونے کو تھی کہ اس کی پشت سے کچھ پرے ایک نوجوان دھاری دار فرنگی قمیض اور پتلون میں ملبوس میرے قریب آن رکا اور ”اپنی“ جیب سے ناطقِ ہاتف نکال کر میری جانبمتروک رابطہ جھونکنے کی کوشش کی، نظروں سے نظریں چار پانچ چھ سات ہوئیں اور یوں ہم بغلگیر ہوگئے۔بھکارن مایوس ہوکر رخصت ہوئی تو ہم (شامل کے ابا اور راقم الحروف) شاراعِ فیصل سے خراماں خراما ں براستہ نیپا چورنگی یوپی روانہ ہوئے۔ راستے بھر شناسائی بڑھانے کو لفظوں کی جگالی کرتے ہوئے اور سیاہ تارکول کی سڑک کو پہیوں سے فراٹتے ہوئے یوپی (اتر پردیش کالونی) پہنچ ہی گئے، یہاں عمار میاں سے رابطہ ہو ااور کچھ ہی دیر میں موصوف (معانقے کے بعد) اور ہم دونوں ایک قہوہ خانے کی گدلی کرسیوں پر براجمان تھے۔رسمی گفتگو سے آغاز ہوااور لفظوں کی گاڑی چھک چھک کرتی چلتی رہی ،دوران ِ گفتگو چند خاموشی کے وقفے بھی آئیے جسے عمار اور فہد کی لینکس اور سافٹ وئیر پر چیستاں گفتگو نے پُرکیا ، اس دوران میں سگریٹ ہونٹوں سے لگائے دھوئیں کے مرغولے اڑاتا رہا۔۔ گمان تھا کہ کثیف دھویں کی دھونی سے اندر کا آسیب جان چھوڑدے گا، خیر ۔۔۔ اب میں ان دونوں کا جائزہ لےنے لگا۔۔ اچھی طرح تراشے ہوئے اور سلیقے سے کاڑھے ہوئے بال ، جن میں بیچ کی مانگ ہوا کے تھپیڑوں سے معدوم ہوتی نظر آرہی تھی،کہیں کہیں برف کی سفید ی رقصاں تھی، سانولا سلونا سا رنگ ، گھنی بھنویں اور ان کے نیچے تلواری چمکتی آنکھیں جنہیں (غالباً) متناسب چشمے سے چھپایا گیا تھا، ستواں ناک، ترشی ہوئی مونچھیں اورخشخشی سی داڑھی جس نے کانوں کی لوؤں سے گالوں اور ٹھوڑی کے گرد ہالہ بنا رکھا تھا، قدرے خفیف گردن جس میں اکڑاہٹ عنقا، ڈھلکے ہوئے شانے اور ان سے مربوط مناسب اور مضبوط ہاتھ جن کی فنکارانہ انگلیاں عزم محکم اور مشقت کی چغلی کھارہی تھیں ، قد مناسب ، چال متوازن اور لہجہ رسیلا ہونے کے ساتھ ایک عجیب قسم کا گھمبیرتا لیے ہوئے، عمر قریباً ۲۸ سال ،یہ شامل کے ابا یعنی فہد میاں تھے۔(احوال ایک ملاقات کا)
قدرے گول چہرہ جس میں ٹھوڑی اور چاہِ زنخداں اپنی بہاردکھارے تھے، گندم کے کچے دانوں کی سی دودھیاگندمی رنگت، مستقل مزاج بھنویں، گہری پلکیں، ناک سے متصل علاقے میں عفوانِ شباب کے دانے ، سرخی مائل گال ، ترشیدہ گلابی ہونٹ ، دوروشن چمکدار آنکھیں جو سرعت سے مناظر کو قید کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں،جبڑے کی مضبوط ہڈیاں مستقل مزاجی اور انا کی غمازی کرتی ہوئیں، مونچھوں اور داڑھی کے بالوں سے عاری صفاچٹ چہرہ،سر سیاہ خمیدہ بال جنہیں تیل میں چپڑ کر کھوپڑی سے ہم سطح کیا گیا تھا کانوں کی لوؤں کے قریب پیچدار کاکل کا سا تاثر چھوڑتے ہوئے ، مناسب کسرتی جسامت،اچکتے کندھے اور محض ہونے کے برابر گردن ، لہجے میں بلا کا اعتماد اور ٹھہراؤ۔۔ یہ عمار میاں تھے۔
محفل کے دوستوں پر تبصروں ، فراز پر مبنی چٹکلوں ، لطائف، آئندہ کی حکمت ِ عملی اور پھر کسی ملاقات پر ہم الگ الگ سمتوں کوروانہ ہوئے تو ہمیں بیٹھے ہوئے تقریباً تین گھنٹے ہوچکے تھے۔
آئندہ کی ملاقات تک کیلئے اجازت۔
والسلام
م۔م۔مغل