یہ میرا پاکستان ہے۔۔۔

ماہ نامہ ہمدرد نونہال میں1988 سے 1993 تک ایک سلسلہ آتا تھا "یہ میرا پاکستان ہے"۔ اس میں پاکستان بھر سے نونہال اپنے گاؤں اور شہروں کے بارے میں معلومات بھیجتے تھے۔ پہلے تو کبھی میں نے پڑھا نہیں۔ اب پڑھا تو اچھا لگا۔ سوچا آپ لوگوں کے ساتھ شئیر کروں۔ کافی لمبا سلسلہ ہے اس لیے اس میں پوسٹنگ کرتا رہوں گا۔
 
آخری تدوین:
ارمڑ پایاں
شیر نواز گل​
ارمڑ پایاں تحصیل اور ضلع پشاور میں واقع ہے۔ یہ گاؤں کچھ حصوں میں تقسیم ہے۔ مثلا شن خیل، غازی خیل، عیسی خیل غیرہ۔یہاں لڑکیوں کا ایک پرائمری اسکول اور لڑکوں کا ایک مڈل اسکول ہے۔ یہاں زیادہ تر لوگ زراعت پیشہ ہیں۔ یہاں کی خاص پیداوار گندم، گنا، مکئی، شلجم، ٹماٹر، بینگن اور دوسری سبزیاں ہیں۔یہاں خوبانی اور آلوچہ بھی پیدا ہوتا ہے۔
ارمڑ پایاں کی سڑکیں بہت صاف ہیں۔ یہاں کے لوگ رات کو آٹھ بجے تک سوجاتے ہیں اور صبح پانچ بجے اپنے اپنے کام پر چلے جاتے ہیں۔ گاؤں میں بجلی اور ٹیلیفون کی سہولتیں موجود ہیں۔ یہاں کی علاقائی زبان پشتو ہے۔
 
بیدادی
ساجد الرحمن​
بیدادی، مانسہرہ سے کچھ فاصلے پر ہے اور مانسہرہ کے اہم علاقے شنکیاری کے قریب واقع ہے۔یہاں ہر قسم کی سہولتیں موجود ہیں۔ جن میں بجلی اور پانی اہم ہیں۔ یہاں دو ہائی اسکول ہیں۔ کالج کی کمی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔ یہاں چائے کا بہت بڑا باغ ہے۔ اس گاؤں میں دریائے سرن اور دو چھوٹے چشمے پوری آب و تاب سے بہتے ہیں۔شنکیاری میں بہت بڑا بازار ہے۔ جہاں پر ہر وقت گہما گہمی رہتی ہے۔ بازار کے پاس ہی ایک ہسپتال ہے، ایک پولیس اسٹیشن اور ایک سنیما گھر بھی واقع ہے۔ یہاں چاروں طرف بلند تر پہاڑی سلسلے ہیں، جہاں کھیت بھی ہیں۔یہاں کافی تعداد میں غیرملکی سیاح آتے ہیں اور اس علاقے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہاں موسم پورے سال خوشگوار رہتا ہے۔
 
تاندہ ڈیم
روشان گل بنگش​
تاندہ ڈیم ایک گاؤں کا نام ہے۔ یہ کوہاٹ سے تقریبا تین کلو میٹر کے فاصلے پر مشرق میں واقع ہے۔ اس گاؤں کا پرانا نام تاندہ بانڈہ تھا۔ ١٩٦١ میں جب صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمّد ایوب خان نے تاندہ کے مقام پر ڈیم کا سنگِ بنیاد رکھا تو اس کی وجہ سے اس کا نام تاندہ ڈیم پڑ گیا۔
یہاں صرف ایک پرائمری اسکول ہے، جس میں لڑکے تعلیم حاصل کرنے کے بعد آگے پڑھنے شہر جاتے ہیں۔ تاندہ ڈیم کے لوگ پہلے مویشی پالتے تھے، لیکن جب سے ڈیم کی وجہ سے زمین زرخیز ہوئی ہے تو لوگ زیادہ تر کھیتی باڑی کرنے لگے ۔ تاندہ ڈیم میں جوار، گنا، سبزیاں اور امرود پیدا ہوتے ہیں۔ یہاں کی مچھلی پورے پاکستان میں مشہور ہے۔
 
کندیاں
اظہر اقبال کندی​
کندیاں پاکستان کا غیرمعروف علاقہ ہے۔یہ ضلع میانوالی میں ہے۔ اس کے اردگرد گھنڈی، علو والی اور میانوالی شہر ہیں۔ یہاں پنجابی اور سرائیکی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ یہ ملتان سے میانوالی جانے والی اور میانوالی سے سرگودھا جانے والی ریلوے لائن اپر ایک جنکشن ہے۔ کندیاں کے لوگ مہمانوں کی بہت قدر کرتے ہیں۔ یہاں دو ہائی اسکول بھی ہیں۔ ایک لڑکوں کے لیے اور ایک لڑکیوں کے لیے۔ اس کے علاوہ کئی مڈل اور پرائمری اسکول بھی ہیں۔ یہاں کے لوگوں میں اب تعلیم کی قدر بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔
کندیاں کے لوگوں کی ایک اچھی بات یہ ہے کہ یہاں دینی تعلیم کا بہت رجحان ہے۔ چھوٹے اور بڑے بچے دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے مسجدوں اور مدرسوں میں جاتے ہیں۔ کندیاں کی مسجد بہت خوبصورت ہے۔
یہاں ایک پولیس اسٹیشن، ایک اچھا بک اسٹال اور دو بڑے بازار ہیں۔ یہاں کے لوگ زیادہ تر کرکٹ اور ایک کھیل جو بیس بال سے ملتا جلتا ہے کھیلتے ہیں۔ مقامی زبان میں اس کو گیند بلا کہتے ہیں۔ پتنگ بازی اور گلی ڈنڈا بہت مشہور کھیل ہیں۔ یہاں کے زیادہ تر لوگوں کا پیشہ کھیتی باڑی ہے۔ کچھ لوگ ملازمت پیشہ ہیں۔ یہاں کے لوگوں کی پسندیدہ خوراک گوشت، روٹی اور سبزیاں ہیں۔ یہاں دو بڑی پبلک لائبریریاں بھی ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
انیس بھائی بہت اچھا سلسلہ ہے لیکن یہ تو 20 سے 25 سال پرانی باتیں ہیں ناں۔ اب تو ان شہروں میں خاصی تبدیلیاں آ چکی ہوں گی۔
 
انیس بھائی بہت اچھا سلسلہ ہے لیکن یہ تو 20 سے 25 سال پرانی باتیں ہیں ناں۔ اب تو ان شہروں میں خاصی تبدیلیاں آ چکی ہوں گی۔
جی بالکل شمشاد بھائی۔۔
ہوسکتا ہے کسی نہ کسی محفلین کا تعلق کسی گاؤں اور شہر سے نکل آئے اور وہ وہاں کی ترقی کی صورتحال بیان کردے۔
ابھی تو کافی لمبی فہرست ہے۔
 
گاڑھی موری
عرفان احمد خان انصاری​
گاڑھی موری ضلع خیر پور میں واقع ہے۔ یہاں کی مشہور فصلیں گندم، چاول، کپاس اور گنا ہیں۔ یہاں لڑکے اور لڑکیوں کے لیے پرائمری اور ہائی اسکول ہیں۔ گاڑھی موری میں بجلی، گیس، ٹیلی فون، سرکاری اور نجی ہسپتالوں اور پینے کی صاف پانی کی سہولتیں میسر ہیں۔گاؤں میں ایک بینک اور واپڈا کا شکایتی دفتر ہے۔ ایک جامع مسجد، چھے چھوٹی مسجدیں اور ایک مدرسہ بھی ہے جہاں حفظ، ناظرہ اور ترجمے کی تعلیم دی جاتی ہے۔ گاڑھی موری میں ایک نہر ہے۔ گاڑھی موری کے لوگ سچے، مہمان نواز، ملنسار، محنتی اور جفا کش ہیں۔ گاؤں میں گندے پانی کی نکاسی کے لیے پکی نالیاں بنی ہوئی ہیں۔ یہاں کرکٹ، والی بال، بیڈمنٹن اور دوسرے بہت سے کھیل کھیلے جاتے ہیں۔
 
کلرسیداں
محمّد مجید اعوان​
کلرسیداں ضلع راولپنڈی میں واقع ہے۔ کلرسیداں قدرتی حسن و جمال سے مالا مال ہے۔ یہاں کے لوگ محنتی اور مہمان نواز ہیں۔ یہاں کے زیادہ تر لوگ فوج میں ہیں۔ گاؤں کی تقریبا تیس فیصد آبادی پڑھی لکھی ہے۔ یہاں لڑکے اور لڑکیوں کے لیے ہائی اسکول بھی قائم ہے۔ لڑکیوں کے لیے دستکاری کا اسکول بھی قائم ہے۔ یہاں ایک ڈاک خانہ بھی ہے۔ بجلی کی سہولت موجود ہے۔ گاؤں کے لوگ کنوؤں سے پانی بھرتے ہیں۔ کلرسیداں دو حصّوں میں تقسیم ہے۔ ایک ڈھوک صادق آباد اور ایک ڈھوک اعوان آباد۔ گاؤں میں سے ایک نہر گزرتی ہے جس کا پانی بارشوں کی وجہ سے بہت چڑھ جاتا ہے۔ نہری پل بھی بہت کمزور ہو گیا ہے۔ یہاں پوٹوہاری زبان بولی جاتی ہے۔
 
فتح پور
امیر خرم رشید​
گاؤں فتح پور ضلع لیہ کی تحصیل کروڑ میں واقع ہے۔ چند برس پہلے یہ ایم ایم روڈ پر واقع چند دکانوں اور مکانوں پر مشتمل چھوٹا سا گاؤں تھا، مگر آج یہاں زندگی کی تمام سہولتیں میسر ہیں۔ یہاں کے لوگ نہایت محنتی اور خوش حال ہیں۔ عام پیشہ ذراعت ہے۔ یہاں ایک ہسپتال اور لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے اسکول بھی ہیں۔ اب فتح پور کا رابطہ بذریعہ "اٹھارہ ہزاری سڑک" لاہور سے ہو چکا ہے۔ یہاں مختصر عرصے میں بوائز اور گرلز کالج تعمیر ہو چکے ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
کلرسیداں
محمّد مجید اعوان​
کلرسیداں ضلع راولپنڈی میں واقع ہے۔ کلرسیداں قدرتی حسن و جمال سے مالا مال ہے۔ یہاں کے لوگ محنتی اور مہمان نواز ہیں۔ یہاں کے زیادہ تر لوگ فوج میں ہیں۔ گاؤں کی تقریبا تیس فیصد آبادی پڑھی لکھی ہے۔ یہاں لڑکے اور لڑکیوں کے لیے ہائی اسکول بھی قائم ہے۔ لڑکیوں کے لیے دستکاری کا اسکول بھی قائم ہے۔ یہاں ایک ڈاک خانہ بھی ہے۔ بجلی کی سہولت موجود ہے۔ گاؤں کے لوگ کنوؤں سے پانی بھرتے ہیں۔ کلرسیداں دو حصّوں میں تقسیم ہے۔ ایک ڈھوک صادق آباد اور ایک ڈھوک اعوان آباد۔ گاؤں میں سے ایک نہر گزرتی ہے جس کا پانی بارشوں کی وجہ سے بہت چڑھ جاتا ہے۔ نہری پل بھی بہت کمزور ہو گیا ہے۔ یہاں پوٹوہاری زبان بولی جاتی ہے۔
کلرسیداں میں اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے ایک لائبریری قائم ہے جس کے منتظم فاران نظامی ہیں۔
 
Top