’ایم کیوایم کو بھارتی حکومت سے مالی مدد ملتی رہی‘

’ایم کیوایم کو بھارتی حکومت سے مالی مدد ملتی رہی‘
اوئن بینِٹ جونزبی بی سی نیوز
150624085610_mqm_flags_624x351_afp.jpg

ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین 20 برس سے زائد عرصے سے برطانیہ میں خود اختیار کردہ جلاوطنی گزار رہے ہیں
بی بی سی کو مقتدر پاکستانی ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے سینیئر حکام نے برطانوی حکام کو بتایا ہے کہ جماعت کو بھارتی حکومت سے مالی مدد ملتی رہی تھی۔

برطانوی حکام پہلے ہی ایم کیو ایم کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزامات کے تحت تحقیقات کر رہے ہیں۔

ایک اعلیٰ پاکستانی اہلکار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ایم کیو ایم کے سینکڑوں کارکنوں نے گذشتہ ایک دہائی کے دوران بھارت کے شمالی اور شمال مشرقی علاقوں میں قائم کیمپوں سے گولہ بارود اور ہتھیاروں کے استعمال کی تربیت بھی حاصل کی۔

بھارتی حکام نے ان دعووں کو قطعی طور پر بےبنیاد قرار دیا ہے جبکہ ایم کیو ایم نے کہا ہے کہ وہ افواہوں پر تبصرہ نہیں کرے گی۔

بی بی سی کو بتایا گیا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماؤں نے یہ انکشافات باضابطہ ریکارڈ کیے گئے انٹرویوز میں کیے جو انھوں نے برطانوی حکام کو دیے تھے۔

پاکستانی اہلکار کا کہنا ہے کہ 2006_2005 سے قبل ایم کیو ایم کے چند درمیانی درجے کے ارکان کو تربیت دی گئی جبکہ حالیہ برسوں میں جماعت کے مزید جونیئر ارکان کو تربیت دی گئی ہے۔

یہ دعوے کراچی پولیس کے ایک سینیئر افسر کی جانب سے دو ماہ قبل کی گئی اس پریس کانفرنس کے بعد سامنے آئے ہیں جس میں ایس ایس پی راؤ انوار نے بھارت پر متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنوں کو عسکری تربیت فراہم کرنے کا الزام عائد کیا تھا اور حکومت سے درخواست کی ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ پر پابندی عائد کی جائے۔

150419122236_karachi_mqm_mukka_chowk_karachi_624x351_bbc.jpg

انتخابی طاقت کے علاوہ ایم کیو ایم کی پاس خاصی سٹریٹ پاور بھی موجود ہے
اس پریس کانفرنس میں راؤ انوار نے بتایا تھا کہ کیسے حراست میں لیے جانے والے دو افراد تھائی لینڈ کے راستے بھارت گئے تاکہ انھیں بھارتی خفیہ ادارہ ’را‘ تربیت دے سکے۔

ایم کیو ایم نے اس پریس کانفرنس کو سیاسی ڈرامہ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس کے پیچھے سیاسی مقاصد کارفرما ہیں۔

جب لندن میں بھارت کے ہائی کمیشن سے متحدہ قومی موومنٹ کی مالی امداد اور اس کے کارکنوں کو تربیت فراہم کرنے کے الزامات کے بارے میں سوال کیا گیا تو بھارتی حکام کا کہنا تھا کہ ’ہمسایوں پر الزام تراشی کو حکومت کی انتظامی ناکامی کا جواز نہیں بنایا جا سکتا۔‘

اس سلسلے میں ایم کیو ایم کے ایک عہدے دار نے کہا ہے کہ ان کی جماعت بقول ان کے، افواہوں پر تبصرہ نہیں کرے گی۔ انھوں نے بی بی سی سے مطالبہ کیا کہ وہ ’ہتک آمیز الزامات‘ نشر نہ کرے۔

برطانوی حکام نے ایم کیو ایم کے خلاف سنہ 2010 میں اس وقت تحقیقات شروع کی تھیں جب جماعت کے ایک سینیئر رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کو شمالی لندن میں ان کی رہائش گاہ کے قریب چاقو کے وار کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔

انھی تحقیقات کے دوران پولیس کو لندن میں ایم کیو ایم کے دفتر اور جماعت کے قائد الطاف حسین کے گھر سے پانچ لاکھ پاؤنڈ کی رقم ملی تھی جس کے بعد منی لانڈرنگ کی تحقیقات بھی شروع کر دی گئی تھیں۔

پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق تحقیقات کے دوران برطانوی حکام کو ایم کیو ایم کی ایک عمارت سے ہتھیاروں کی ایک فہرست بھی ملی تھی جس میں مارٹر گولوں اور بموں کا ذکر تھا اور ان کی قیمت بھی درج تھی۔

150228055842_strike_karachi_624x351_epa.jpg

جب ایم کیو ایم ہڑتال کا اعلان کرتی ہے تو کراچی کی سڑکیں سنسان ہو جاتی ہیں اور تمام شہر ایک جگہ تھم کر رہ جاتا ہے
ایم کیو ایم کے حکام سے جب اس فہرست کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انھوں نے اس بارے میں کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔

جیسے جیسے برطانوی پولیس کی تحقیقات آگے بڑھتی گئیں برطانوی عدلیہ نے ایم کیو ایم کے خلاف سخت اقدامات کرنا شروع کر دیے ہیں۔

2011 میں ایک جج نے سیاسی پناہ کے ایک مقدمے کے دوران دریافت کیا کہ ’ایم کیو ایم نے کراچی میں اپنے مخالف 200 سے زائد پولیس افسران کو قتل کیا ہے۔‘

گذشتہ برس ایک اور برطانوی جج نے ایک اور مقدمے کے دوران دریافت کیا: ’اس بات کے وسیع معروضی شواہد موجود ہیں کہ ایم کیو ایم عشروں سے تشدد سے کام لے رہی ہے۔‘

ایم کیو ایم پر پاکستان کے اندر بھی دباؤ ہے۔ مارچ میں ملک کی سکیورٹی فورسز نے کراچی میں ایم کیو ایم کے صدر دفتر پر چھاپہ مارا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہاں سے بڑی مقدار میں اسلحہ برآمد ہوا۔ ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ پولیس اسلحہ چھپا کر وہاں لے گئی تھی اور یہ ظاہر کیا کہ یہ وہاں سے برآمد ہوا ہے۔

پاکستانی پارلیمان میں 24 ارکان کے ساتھ ایم کیو ایم ایک عرصے سے کراچی کی سیاست میں بڑی طاقت کے طور پر موجود ہے۔ اس جماعت کے حامیوں کی بڑی تعداد ان مہاجروں پر مشتمل ہے جو تقسیم کے وقت ہندوستان سے پاکستان منتقل ہوئے تھے۔

140603131754_police_officer__624x351_afp.jpg

پریس کانفرنس میں راؤ انوار نے بتایا تھا کہ کیسے حراست میں لیے جانے والے دو افراد تھائی لینڈ کے راستے بھارت گئے تاکہ انھیں بھارتی خفیہ ادارہ ’را‘ تربیت دے سکے
مہاجروں کو شکایت ہے کہ انھیں پاکستان میں طویل عرصے سے امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ ایم کیو ایم کا اصرار ہے کہ وہ ایک پرامن اور سیکیولر سیاسی جماعت ہے جو پاکستان کے متوسط طبقے کے مفادات کی نمائندگی کرتی ہے۔

انتخابی طاقت کے علاوہ ایم کیو ایم کی پاس خاصی سٹریٹ پاور بھی موجود ہے۔ جب وہ ہڑتال کا اعلان کرتی ہے تو کراچی کی سڑکیں سنسان ہو جاتی ہیں اور تمام شہر ایک جگہ تھم کر رہ جاتا ہے۔

ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین 20 برس سے زائد عرصے سے برطانیہ میں خود اختیار کردہ جلاوطنی گزار رہے ہیں۔ انھیں 2002 میں برطانوی شہریت ملی تھی۔ بہت عرصے سے الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ ایم کیو ایم کراچی پر اپنی مرضی مسلط کرنے کے لیے تشدد کا سہارا لیتی ہے۔

الطاف حسین سمیت ایم کیو ایم کے کئی سینیئر حکام کو کالے دھن کو سفید کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے، لیکن کسی پر فردِ جرم عائد نہیں کی گئی۔ جماعت کا اصرار ہے کہ اس کی رقوم قانونی ہیں اور ان کا بڑا حصہ کراچی کے عطیہ کندگان اور تاجر برادری کی جانب سے وصول ہوتا ہے۔

بھارت ایک عرصے سے الزام لگاتا رہا ہے کہ پاکستانی حکام بھارت میں دہشت گرد حملے کرواتے ہیں۔ مثال کے طور پر بھارت نے مطالبہ کر رکھا ہے کہ پاکستان 2008 میں ممبئی میں حملے کی سازش کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔

ایم کیو ایم کے خلاف مقدمے میں حالیہ پیش رفت سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان بھارت کے ان الزامات کا جواب یہ کہہ کر دے گا بھارت کراچی میں متشدد عناصر کی پشت پناہی سے ہاتھ کھینچ لے۔
 
خود پاکستانی حکومت بھارت سے فنڈز لیتی رہی ہے ۔ فنڈز لینا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
فنڈز کہاں استعمال ہورہے ہیں یہ مسئلہ ہے
 
ایم کیو ایم کا آغاز اے پی ایم ایس او سے ہوا، 84ء میں مہاجر قومی موومنٹ بن گئی

کراچی (سالک مجید) بی بی سی کی دستاویزی رپورٹ کے بعد ایم کیو ایم ایک بار پھر عالمی توجہ کا مرکز بن گئی ہے۔ اس رپورٹ نے پاکستان اور برطانیہ سمیت مختلف ملکوں میں ایم کیو ایم کے ہمدردوں اور سیاسی مخالفین کے درمیان نئی بحث چھیڑ دی ہے ۔ ایم کیو ایم اپنے قیام سے لیکر آج تک کے اعتبار سے منفرد اور مختلف سیاسی جماعت کے طور پر زیر بحث رہی ہے۔ اس نے سخت مشکلات کا بھی سامنا کیا، خوب مقبولیت اور عروج بھی حاصل کیا۔ عام طور پر پاکستان میں سیاسی جماعتوں نے اپنی تشکیل کے بعد سٹوڈنٹ ونگ بنائے لیکن ایم کیو ایم وہ سیاسی تحریک یا جماعت ہے جس کا آغاز سٹوڈنٹ ونگ اے پی ایم ایس او یعنی آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے ہوا۔ اے پی ایم ایس او 1978ء میں کراچی یونیورسٹی کے طلبہ نے الطاف حسین کی قیادت میں قائم کی، پھر یہی اے پی ایم ایس او آگے چل کر 1984ء میں ایم کیو ایم (مہاجر قومی مووومنٹ) بن گئی۔ قیام پاکستان کے وقت بھارت سے آنیوالے اُردو سپیکنگ کی اولاد کی جماعت کا نعرہ لگا کر ایم کیو ایم نے کراچی، حیدر آباد اور دیگر علاقوں میں اپنی پہچان بنائی اور مقبولیت حاصل کی۔ محصورین مشرقی پاکستان کو واپس لانے اور کوٹہ سسٹم کے خاتمے سمیت پُرکشش سیاسی نعرے لگائے گئے۔ سیاسی حلقوں میں یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ بھٹو کو پھانسی دینے کے بعد جنرل ضیاء الحق نے سندھ میں پیپلز پارٹی اور سندھیوں کی مخالفت پر قابو پانے کیلئے منظم طریقے سے اُردو بولنے والوں کی نئی جماعت ایم کیو ایم کو مضبوط کیا تاہم ایم کیو ایم کی قیادت اس الزام کی نفی کرتی رہی ہے۔1987ء کے بلدیاتی الیکشن میں ایم کیو ایم پہلی بار انتخابی عمل میں آگے آئی۔ پھر 1988ئ، 1990ئ، 1993ئ، 1997ئ، 2002ئ، 2008ء اور 2013ء کے الیکشن میں ہر بار ایم کیو ایم نے صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں سے لیکر سینٹ تک خوب کامیابیاں حاصل کیں۔ بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کی دونوں حکومتوں کے دو دو ادوار میں ایم کیو ایم پہلے اتحادی بن کر حکومت میں شامل ہوئی، پھر عتاب کا نشانہ بنی۔ 1992ء میں سندھ میں ڈاکوئوں اور 72 بڑی مچھلیوں کیخلاف نوازشریف حکومت میں فوجی آپریشن شروع ہوا جس کا رُخ پھر ایم کیو ایم کی طرف مڑ گیا لیکن ایم کیو ایم کے قائد آپریشن سے قبل لندن چلے گئے تھے اور 1992ء سے آج تک وہ لندن میں ہی جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ 1992ء کے آپریشن کے دوران ایم کیو ایم کی پوری قیادت روپوش ہوگئی، شہر میں آفاق احمد اور عامر خان کی سربراہی میں (حقیقی) گروپ نے انٹری لی ۔ ایم کیو ایم 1994-95ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں وزیر داخلہ میجر جنرل (ر) نصیر اللہ بابر نے بھی ایم کیو ایم کے خلاف بھرپور آپریشن کیا اور ماورائے عدالت قتل کے واقعات پر شور مچا۔ 1997ء میں نوازشریف دوسری بار وزیراعظم بنے تو ایم کیو ایم پھر انکی اتحادی بن گئی لیکن 1998ء میں سابق گورنر سندھ حکیم محمد سعید کے قتل کے بعد ایم کیو ایم کییخلاف آپریشن شروع کردیا گیا۔ 1999ء میں جنرل مشرف برسراقتدار آگئے تو 2002ء سے مشرف اور ایم کیو ایم کا اتحاد شروع ہوا، ایم کیو ایم کے عشرت العباد خان کو گورنر سندھ بنادیا گیا، صوبائی، وفاقی حکومت میں ایم کیو ایم شامل ہوگئی۔ ایم کیو ایم حقیقی کے مرکزی دفتر بیت الحمزہ وہائٹ ہائوس کی عمارت کو غیر قانونی قرار دیکر مسمار کرا دیا گیا۔ 2005ء میں ایم کیو ایم کے نامزد سید مصطفی کمال ناظم اعلیٰ کراچی بنے۔ حکومت سندھ میں ایم کیو ایم کو داخلہ، بلدیات سمیت اہم قلمدان سونپے گئے۔ اس دور میں ایم کیو ایم نے سیاسی عروج حاصل کیا۔ ایم کیو ایم پر نوازشریف کے دور میں جناح پور بنانے کا الزام لگا، پھر مشرف دور میں 12 مئی کا سانحہ پیش آیا۔ پیپلز پارٹی کے ادوار میں اس کے کارکنوں کو ٹی وی پر پیش کیاجاتا رہا جنہوں نے بھارت میں ٹریننگ کا اعتراف کیا۔ ایم کیو ایم کے سیاسی مخالفین ہر دور میں ایم کیو ایم کو دہشت گرد، بھتہ خور، ٹارگٹ کلر، ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث جماعت ہونے کا الزام لگاتے رہے لیکن ہر الیکشن میں کراچی حیدرآباد اور دیگر علاقوں کے عوام نے ان الزامات کو مسترد کرکے ایم کیو ایم کے نمائندوں کو اعلیٰ ایوانوں میں پہنچایا۔ ایم کیو ایم نے کشمیر اسمبلی اور گلگت بلتستان میں بھی اپنا وجود تسلیم کرایا۔ مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی ، ق لیگ سمیت سیاسی و فوجی حکومتوں کا حصہ بنی رہی۔ 2005ء کے زلزلے 2008ء کے سیلاب سمیت قدرتی آفات میں ایم کیو ایم نے نمایاں خدمات انجام دیں۔ ڈاکٹر عمران فاروق کے لندن میں قتل کے بعد ایم کیو ایم اور اس کے قائد الطاف حسین کے لئے ایک اور مشکل دور کا آغاز ہوگیا اس کے بعد رواں سال ایم کیو ایم کے خلاف رینجرز کے چھاپے، گرفتاریوں ، صولت مرزا کے ویڈیو، بیان ، الزامات، اور لندن میں منی لا نڈرنگ کی تحقیقات جیسے واقعات کے باعث بی بی سی سمیت مختلف میڈیا رپورٹس میں ایم کیو ایم کی سیاست اور اس پر لگائے گئے الزامات زیر بحث آگئے ہیں۔ یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ اب ایم کیو ایم کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا اور بی بی سی کی رپورٹ کا پاکستان میں ایم کیو ایم کی سیاست او رلندن میں اس کی قیادت پر کیا اثر پڑیگا، اسکا صحیح اندازہ آنیوالے چند ہفتو ںمیں ہوجائیگا۔
 
خود پاکستانی حکومت بھارت سے فنڈز لیتی رہی ہے ۔ فنڈز لینا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
فنڈز کہاں استعمال ہورہے ہیں یہ مسئلہ ہے
سیاسی جماعت کو کسی دوسرے ملک سے فنڈ نہیں لینے چاہیں خاص طور پر جب وہ آپ کا روائیتی دشمن ملک ہو۔ جب آپ کسی سے فنڈ لیتے ہیں تو اس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ آپ فنڈ دینے والے کے مفادات کا بھی خیال رکھیں گے۔ اور اگر فنڈ خفیہ طور پر لئے گئے تو یہ چیز آپ کو اور بھی مشکوک بنا دیتی ہے۔ عوام قدرتی طور پر فنڈ دینے والے کا ایجنٹ سمجھیں گے۔
 

تہذیب

محفلین
بی بی سی کے کل کے پروگرام کے خلاف ایم کیو ایم کا زبردست احتجاج۔ لنڈن میں شٹرڈاؤن ہڑتال۔
 
سیاسی جماعت کو کسی دوسرے ملک سے فنڈ نہیں لینے چاہیں خاص طور پر جب وہ آپ کا روائیتی دشمن ملک ہو۔ جب آپ کسی سے فنڈ لیتے ہیں تو اس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ آپ فنڈ دینے والے کے مفادات کا بھی خیال رکھیں گے۔ اور اگر فنڈ خفیہ طور پر لئے گئے تو یہ چیز آپ کو اور بھی مشکوک بنا دیتی ہے۔ عوام قدرتی طور پر فنڈ دینے والے کا ایجنٹ سمجھیں گے۔
اس حساب سے تو پاکستان امریکی ایجنٹ ہے اور اس کے حساس و دفاعی ادارے بھی
 
اس حساب سے تو پاکستان امریکی ایجنٹ ہے اور اس کے حساس و دفاعی ادارے بھی
میں نے سیاسی جماعتوں کی بات کی ہے ۔ حکومتوں کی نہیں :)
البتہ یہ بات درست ہے کہ حکومتیں بھی جب امداد لیتی ہیں تو دینے والے ملک کے خلاف قدم نہیں اٹھا پاتیں
 

محمداحمد

لائبریرین
ایک زمانے کے مستند ترین نشریاتی ادارے بی بی سی کی بھی بہت سی خبریں ایک خاص بہاؤ کا شکار نظر آتی ہیں۔

ایم کیو ایم جیسی بھی ہے سب کو پتہ ہے لیکن ایم کیو ایم کا اس طرح اچانک بھارت سے ڈانڈے جوڑ دینا سمجھ نہیں آتا۔

سچی بات یہ ہے کہ بی بی سی کی خبریں بھی اب صرف خبریں نہیں ہوتیں۔
 
ایک زمانے کے مستند ترین نشریاتی ادارے بی بی سی کی بھی بہت سی خبریں ایک خاص بہاؤ کا شکار نظر آتی ہیں۔

ایم کیو ایم جیسی بھی ہے سب کو پتہ ہے لیکن ایم کیو ایم کا اس طرح اچانک بھارت سے ڈانڈے جوڑ دینا سمجھ نہیں آتا۔

سچی بات یہ ہے کہ بی بی سی کی خبریں بھی اب صرف خبریں نہیں ہوتیں۔
سر جی یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ایم کیو ایم پر اس طرح کے الزامات لگے ہوں۔ اس سے پہلے بھی ایم کیو ایم کو بھارتی تعاون کی خبریں چلتی رہی ہیں۔ البتہ بی بی سی نے یہ خبر پہلی مرتبہ دی ہے غالباً۔
 
Top