مغزل
محفلین
محترم احباب
آداب و سلام ِ مسنون
میں آج تک صرف عروسِ غزل کی زلفوں سے کھیلتا رہا، موصوفہ کبھی ناراض ہوجاتی ہیں تو کبھی ملتفت، خیر۔۔ کلپنا دیوی پچھلے کئی دنوں سے مفقود الخبر تھیں اسی فرقت میں ایک نظم سرزد ہوگئی، جسے آپ کی اعلیٰ ادبی بصارتوں کی نذر کررہا ہوں، اس امید کہ ساتھ کہ آپ احباب اپنی گراں قدر رائے سے سرفراز فرمائیںگے۔
منتظر: محمد محمود مغل (م۔م۔مغل )
’’ خوا ب سفر‘‘
میں کسی گود میں محوِ خوابیدگی
جانے کب تک رہا
دفعتاً اک صدا
العطش العطش، الاماں الاماں
میری نیندوں کے خیمے اڑا لے گئی
و ہ صدا جیسے نقّارے کی چوب تھی
میں نے آنکھیں ملیں
دھند چھٹنے لگی
چار جانب سفر ، ابتدا، ابتلا
گردنوں کو جھکائے کھڑے با ادب
میری جانب کنکھیوں سے دیکھا کیے
ابتلا مجھ سے آکر ملی اور میں
ابتدا سے ملا ،پھر سفر سے ملا
حکم سا کچھ ہُوا،اب چلو !
میں نے پوچھا، کہاں؟
زادِ راہ ساتھ لوں؟
حکم صادر ہو ا ،بس چلو!
خیر میں چل پڑا
کچھ قدم ہی چلا تھا کہ اک آئینہ
راہ میں مل گیا
تھا شباہت گزیدہ ، تحیّر فروش
ایک بے چہرگی کے سفر میں مگن
ہم قدم ہوگیا
راستے میں کئی مقبرے بھی ملے
نارسائی کسی روح کے بھیس میں
بے یقینی، گماں بھی ملے راہ میں
میں ، کہ چلتا رہا۔ وہ بھی چلتے رہے
پھول ، قوسِ قزح،تتلیاں بھی ملیں
ایک ظلمت کدہ بھی سرِ رہ ملا
میرے قدموں پہ سر رکھ کے رونے لگا
اس سے پہلے کہ میں اس سے کچھ پوچھتا
مجھ سے کہنے لگا ،مجھ کو بھی لے چلو
خیر! ہم چل پڑے اور چلتے رہے
تین ہمجولیاں ایک برگد کی ڈالی پہ پینگیں بڑھاتی ملیں
کچھ شکستہ حروف اور لہجے ملے
پارسائی ، تعرض ، وفا ، تمکنت
رتجگے، نیم خوابی، فغاںدر فغاں
اک ادھوری خوشی ،وصل بھی ، ہجر بھی
ایک سونی کلائی ، حنا بھی ملی
دسترس بھی ملی اور اماں بھی ملی
ایک سہما ہوا لمس بھی مل گیا
بھوک ، غربت کی اٹھکیلیاں بھی ملیں
راستے میں مجھے ریگزار ِجنوں بھی ملا
ایک دمساز اور اک خرد آشنا
فہم و دانش ملے اور پندار بھی
چاکِ دامن کا موسم،رفو کے ببول
اک چمن بھی ملا ، باغباں بھی ملا
راہبر ، راہزن، نقدِ جاں اور نشاط
سیم و زر بھی ملے ، بے دلی سے ملے
ساتھ دینے کو بس ساتھ چلتے رہے
میں بھی چلتا رہا
دفعتاً ایک جانب سے آئی صدا
زندگی آگئی زندگی آگئی
زندگی کیا تھی جیسے ہو کوئی دلہن
جیسے رنگین موسم کی کوئی پھبن
جانے کیوں میرے سینے میں اٹھی چبھن
میری قسمت میںچلنا لکھا تھا میں چلتا رہا
دن ڈھلا رات کروٹ بدلنے لگی
سب تھکے ہارے ، پژمردہ چہروں کے ساتھ
اپنی اپنی تھکن اوڑھے چلتے رہے
میں بھی چلتا رہا
چاند بدلی کی چلمن میں تاروں کے ساتھ
رات بھر منہمک گفتگو میں رہا
میں بھی سرگوشیاں ان کی سنتا رہا
رات ڈھلنے لگی،’’ہم‘‘ بھی تھکنے لگے
تارے سونے لگے
ایک تارہ میرا ہمسفر رہ گیا
دور افق سے کوئی آ رہا تھا ادھر (وہ کدھر رہ گیا)
اک کرن اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئے
میں بھی جلدی سے آگے بڑھا اس طرف
اس طرف روشنی تھی ۔۔ مگر روشنی
صرف خوش خواب آنکھوں کی زینت بنی
(م۔م۔مغل)
آداب و سلام ِ مسنون
میں آج تک صرف عروسِ غزل کی زلفوں سے کھیلتا رہا، موصوفہ کبھی ناراض ہوجاتی ہیں تو کبھی ملتفت، خیر۔۔ کلپنا دیوی پچھلے کئی دنوں سے مفقود الخبر تھیں اسی فرقت میں ایک نظم سرزد ہوگئی، جسے آپ کی اعلیٰ ادبی بصارتوں کی نذر کررہا ہوں، اس امید کہ ساتھ کہ آپ احباب اپنی گراں قدر رائے سے سرفراز فرمائیںگے۔
منتظر: محمد محمود مغل (م۔م۔مغل )
’’ خوا ب سفر‘‘
میں کسی گود میں محوِ خوابیدگی
جانے کب تک رہا
دفعتاً اک صدا
العطش العطش، الاماں الاماں
میری نیندوں کے خیمے اڑا لے گئی
و ہ صدا جیسے نقّارے کی چوب تھی
میں نے آنکھیں ملیں
دھند چھٹنے لگی
چار جانب سفر ، ابتدا، ابتلا
گردنوں کو جھکائے کھڑے با ادب
میری جانب کنکھیوں سے دیکھا کیے
ابتلا مجھ سے آکر ملی اور میں
ابتدا سے ملا ،پھر سفر سے ملا
حکم سا کچھ ہُوا،اب چلو !
میں نے پوچھا، کہاں؟
زادِ راہ ساتھ لوں؟
حکم صادر ہو ا ،بس چلو!
خیر میں چل پڑا
کچھ قدم ہی چلا تھا کہ اک آئینہ
راہ میں مل گیا
تھا شباہت گزیدہ ، تحیّر فروش
ایک بے چہرگی کے سفر میں مگن
ہم قدم ہوگیا
راستے میں کئی مقبرے بھی ملے
نارسائی کسی روح کے بھیس میں
بے یقینی، گماں بھی ملے راہ میں
میں ، کہ چلتا رہا۔ وہ بھی چلتے رہے
پھول ، قوسِ قزح،تتلیاں بھی ملیں
ایک ظلمت کدہ بھی سرِ رہ ملا
میرے قدموں پہ سر رکھ کے رونے لگا
اس سے پہلے کہ میں اس سے کچھ پوچھتا
مجھ سے کہنے لگا ،مجھ کو بھی لے چلو
خیر! ہم چل پڑے اور چلتے رہے
تین ہمجولیاں ایک برگد کی ڈالی پہ پینگیں بڑھاتی ملیں
کچھ شکستہ حروف اور لہجے ملے
پارسائی ، تعرض ، وفا ، تمکنت
رتجگے، نیم خوابی، فغاںدر فغاں
اک ادھوری خوشی ،وصل بھی ، ہجر بھی
ایک سونی کلائی ، حنا بھی ملی
دسترس بھی ملی اور اماں بھی ملی
ایک سہما ہوا لمس بھی مل گیا
بھوک ، غربت کی اٹھکیلیاں بھی ملیں
راستے میں مجھے ریگزار ِجنوں بھی ملا
ایک دمساز اور اک خرد آشنا
فہم و دانش ملے اور پندار بھی
چاکِ دامن کا موسم،رفو کے ببول
اک چمن بھی ملا ، باغباں بھی ملا
راہبر ، راہزن، نقدِ جاں اور نشاط
سیم و زر بھی ملے ، بے دلی سے ملے
ساتھ دینے کو بس ساتھ چلتے رہے
میں بھی چلتا رہا
دفعتاً ایک جانب سے آئی صدا
زندگی آگئی زندگی آگئی
زندگی کیا تھی جیسے ہو کوئی دلہن
جیسے رنگین موسم کی کوئی پھبن
جانے کیوں میرے سینے میں اٹھی چبھن
میری قسمت میںچلنا لکھا تھا میں چلتا رہا
دن ڈھلا رات کروٹ بدلنے لگی
سب تھکے ہارے ، پژمردہ چہروں کے ساتھ
اپنی اپنی تھکن اوڑھے چلتے رہے
میں بھی چلتا رہا
چاند بدلی کی چلمن میں تاروں کے ساتھ
رات بھر منہمک گفتگو میں رہا
میں بھی سرگوشیاں ان کی سنتا رہا
رات ڈھلنے لگی،’’ہم‘‘ بھی تھکنے لگے
تارے سونے لگے
ایک تارہ میرا ہمسفر رہ گیا
دور افق سے کوئی آ رہا تھا ادھر (وہ کدھر رہ گیا)
اک کرن اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئے
میں بھی جلدی سے آگے بڑھا اس طرف
اس طرف روشنی تھی ۔۔ مگر روشنی
صرف خوش خواب آنکھوں کی زینت بنی
(م۔م۔مغل)