مزمل شیخ بسمل
محفلین
کیوں جناب؟ کچھ جانتے ہیں کہ کیا ہے ہندی بحر؟
یقیناً آپ نے یہی سن رکھا ہوگا اس بحر کے بارے میں کے اس بحر کو میرؔ نے ہندی پنگل کی بحور میں سے چن کر استعمال کیا اور اتنا استعمال کیا کہ انہیں کے نام سے منسوب ہوگئی۔ یا اکثر یہ بھی سننے اور پڑھنے کو ملتا ہے کے میرؔ نے اردو میں مروجہ فارسی عروض کو بھی اپنی شاعری میں استعمال کیا اور پنگل کو بھی اپنی شناخت بنایا۔
بحر اور اس کی آزادیوں کے بارے میں بھی آپ نے یقیناً بہت کچھ سن رکھا ہوگا کہ یہ بحر مکمل اسباب خفیف پر مشتمل ہوتی ہے جس میں سے کوئی بھی سبب خفیف سبب ثقیل بنا دیا جاتا ہے۔ یا ایک چھوڑ کر ایک سب خفیف کو سبب ثقیل بنانے کی اجازت ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ۔
بڑے لمبے چوڑے طریقے اور ترتیبیں دیکھنے کو ملتی رہتی ہیں اس بحر کے ارکان کے بارے میں اور بڑے فخر سے اس بحر میں اشعار کہے جاتے ہیں اور بحر کو’ ہندی بحر‘ کہا جاتا ہے۔
اور حد تو یہ ہے کہ علم عروض کے عالم حضرات اور اہلِ علم لوگ بھی اسے ہندی بحر کہنے سے ذرا نہیں چونکتے۔
مجھے تو اس وقت غور کرنے کا موقع ملا جب کلیاتِ میرؔ میرے سامنے کھلی ہوئی رکھی تھی اور سامنے ایک غزل (الٹی ہوگئیں سب تدبیریں) تھی اس غزل کے بارے میں کئی بار پڑھ چکا تھا کہ یہ ہندی بحر میں ہے۔ یہ بھی یاد تھا کے صرف اسباب خفیف و ثقیل کی آمیزش سے یہ بحر تیار کی جاتی ہے۔ اب جب یہ اصول ٹھہر گیا تو ایک مصرع جو آنکھوں کو کھٹکا وہ یوں تھا:
’’کس کا کعبہ، کیسا قبلہ، کون حرم ہے، کیا احرام‘‘
اب مجھ جیسا بیوقوف انسان کیا کرے۔؟؟
رہا نہیں گیا یہ سوچ کر کہ جب پنگل کا قانون یہ ہے کہ سب اسباب ہونگے تو یہ ’’احرام‘‘ میں وتد کیا کر رہا ہے؟ یہ تو عروضی روش ہے کے آخرِ مصرع میں ایک ساکن زائد کو بھی غیر موزوں نہیں جانتے۔
یا ایسا کوئی قانون ہندی پنگل میں بھی موجود ہے ؟
اگر ہے تو اسے اُس قانون کو اصطلاح میں کیا کہا جاتا ہے؟
خیر بات لمبی ہو جائے گی اور ہم بہت دور نکل جائیں گے۔ فی الوقت مجھے آپ سے کچھ سوالات کے جوابات چاہئے ہیں۔ یقناً مضمون کے قارئین اہلِ علم حضرات بھی ہونگے تو بتائیں کیا میرؔ ہندی شاعر تھے؟ اگر تھے تو انکے کتنے ہندی شاعری کے مجموعے شائع ہوئے؟
کیا وہ ہندی سے اتنی محبت رکھتے تھے کے انہوں نے اردو شاعری میں بھی ہندی پنگل کو داخل کر دیا؟
کیونکہ یہ بات تو کھلی کتاب کی طرح ہے کے آج کے اچھے خاصے باعلم عروضی حضرات بھی انکی استعمال شدہ اس بحر کو ہندی پنگل کا نام دیتے ہیں۔
یا پھر یوں کہا جائے کے بس انہوں نے سنی سنائی باتوں کو ہی اپنا کر کبھی غور کرنے کوشش تک نہیں کی؟
بہر حال بات یہ ہے کے میں نے ہندی بحر کے بارے میں جو بھی کچھ پڑھا یا سنا اسے اپنی منطقی سوچ کی وجہ سے ہضم کرنے سے قاصر رہا ہوں۔ اور اتنا ہی اہم یہ ہے مجھے یہ بات کبھی ہضم نہیں ہوئی کے میرؔ جیسا اردو کا استاد شاعر وزن کے معاملے میں ہندی کا نظام اپنائے گا۔
کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کے جرأتؔ نے بھی میر ؔ سے پہلے اسی بحر کو استعمال کیا تھا ۔ اور پنگل کے استعمال کی وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کے اس وقت تک اردو میں ٹھہراؤ نہیں آیا تھا اس لئے ہندی پنگل کو شعرا نے استعمال کیا وغیرہ وغیرہ۔ میرا سوال صرف اتنا ہے کہ کیا اس وقت علمِ عروض میں بھی ٹھہراؤ نہیں آیا تھا ؟ کیا عروض اس وقت ابتدائی مراحل سے گزر رہا تھا؟ ہرگز نہیں۔ علمِ عروض میں اِس وقت جتنے قوانین موجود ہیں وہ سب مکمل طور پر اس وقت بھی موجود تھے۔ اور اس بات کا اندازہ آپ خواجہ محقق طوسی سے منسوب کتاب معیار الاشعار کی اشاعت سے لگا سکتے ہیں کے یہ کتاب کب شائع ہوئی۔
یہ تو ہوئی ایک بات۔
دوسری بات یہ دیکھیں کہ انٹرنیٹ پر ہندی بحر کے بارے میں ایک مشہور ویب سائٹ www.columbia.edu
میں بھی اس بحر کو ہندی بتایا گیا ہے۔ میں قدر کرتا ہوںFrance W. Pritchett کی (جن کا نام انٹر نیٹ کی ادبی دنیا میں بہر حال ایک بڑا نام مانتی ہے) محنت اورشوق کی کہ انہوں نے اس بحر پر کافی تحقیق کی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ بھی کامیابی سے اسے سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اور وجہ یہی ہے کے انہوں نے علمِ عروض کو چھوڑ کر اس بحر کو ہندی بحر سمجھ کر پڑھا جس وجہ سے اس بحر کے اصولوں کے بارے میں کوئی بھی حتمی فیصلہ نہ ہو سکا۔ غور فرمائیں:
"There has been a great deal of controversy over whether this meter was invented by Mir--or rather, as it now appears, by Zatalli--or somehow already exists within the conventional framework, or is a Hindi meter modified and adapted for Urdu. Most prosodists now hold the latter view"
گو یا یہ ہندی بحر ہوئی جس میں ترمیم کر کہ اردو میں استعمال کے قابل بنایا۔ لیکن یہ بات قابلِ تسلیم ہی نہیں کے جب عروض میں سینکڑوں بحریں پہلے ہی موجود تھیں تو میرؔ کو کیا ضرورت تھی اس بحر کو استعمال کرنے کی؟
یہ بات مان لینا ظاہری صورت کو دیکھ کر اتنا آسان نہیں لگتا کہ میرؔ نے اردو شاعری میں ہندی کی پنگل کی کسی بحر کا اپنا کر اس میں شاعری کی۔
اور پھر استعمال کی بھی ہوتی تو اس کا کوئی اصول ہوتا ۔ جو حضرات اسے ہندی بحر کہہ کر بحر پر تحقیق کرنے کی کوششیں کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں وہ بھی اس بحر کو سمجھ نہیں سکے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ میرؔ نے اس بحر میں خالصتاً علمِ عروض کا استعمال کیا ہےاور اسے سمجھنے کے لئے بھی علمِ عروض پر محنت اور فکر کی ضرورت ہے۔
آئیے اب ہم اس بحر کا عروضی رخ دیکھیں۔ مگر اس سے پہلے کچھ باتیں یا اس بحر کی ملتی جلتی شکلیں جو عروضی کتابوں میں ملتی ہیں ان کی طرف تھوڑی توجہ کرتے ہیں۔
”بحرالفصاحت“ فی الوقت عروض پر لکھی جانے والی تمام کتابوں میں مستند ترین کتاب مانی جاتی ہے۔۔
اس کتاب میں ”بحر متقارب“ کے بیان میں مزاحف نمبر ۶ ص ۱۶۳ پر ”متقارب مثمن اثرم سالم الآخر“ کا ذکر دیکھیں تو وہاں انہوں نے چار فعولن میں سے دو پر زحاف ”ثرم“ کے استعمال سے فعلُ ( بسکون عین و بضم لام) بنایا ہے۔
اور کل صورت : فعلُ فعولن فعلُ فعولن
یعنی ایک اثرم اور ایک سالم کی تکرار۔
آگے لکھتے ہیں کہ ”اس وزن میں رکن ”فعل“ و ”فعولن“ کے ساتھ رکن اثلم یعنی ”فعلن“ سکون عین بھی آتا ہے اور خلط ان ارکان کا ایک وزن میں روا، بلکہ کثرت سے شائع ہے۔ چناچہ میرؔ کی مثنوی ”جوشِ عشق“ کے ان اشعار میں ۔۔۔“
میر کی مثنوی جوشِ عشق میں فعلن، فعل، فعولن، وغیرہ کا اجتماع ہے۔ یعنی کسی بھی ”فعل فعولن“ کی جگہ دو عدد فعلن استعمال کرنا جائز ہیں۔ اور یہ تین ارکان (فعلن، فعل اور فعولن) ہمیں میر کی ہندی بحر میں کثرت سے نظر آتے ہیں۔
آگے چلیں تو بحر الفصاحت ص ۱۶۵ پر لکھا ہے ”اس وزن میں عروض و ضرب میں ”فعَل“ بفتح عین و سکون لام اور ”فع“ اور ”فعول“ بھی واقع ہوتے ہیں۔ ”فعَل“ محذوف ہے اور ”فع“ ابتر اور ”فعول“ مقصور ہے“
یعنی مصرع کا آخری رکن کہیں فعَل، کہیں فع، اور کہیں فعول بھی آسکتا ہے۔ اور اسے حذف، بتر اور قصر کے زحافات کا اثر بتایا ہے۔
اور یہ ارکان بھی ہمیں میر کی ہندی بحر (جو کہ ہندی بحر نہیں ہے) میں کثرت سے ملتے ہیں۔
یعنی صورتِ حال یوں ہے کہ:
فعلن فعلن فعلن فع
فعل فعولن فعل فعل
فعلن فعل فعولن فع
فعل فعولن فعل فعول
فعلن فعلن فعلن فاع وغیرہ
نوٹ: بحر الفصاحت میں یہ ذکر کہیں نہیں ہے کہ رکن ”فاع“ کونسے زحاف سے بنا۔ لیکن صاحبقراں کےجن اشعار کو مثال کے لئے پیش کیا انکی تقطیع میں یہ رکن یعنی ”فاع“ بھی واقع ہوتا ہے۔
ایک اور بات یہ کہ ”فعول“ مقصور کی آخر مصرع میں کوئی مثال نہیں دی ۔
اس کو ہم آگے کے لئے بچا کر رکھتے ہیں ۔
اس کے آگے لکھتے ہیں ص ۱۶۷ پر کہ”یہ وزن (مضاعف) دو چند بھی مستعمل ہے“
مثال میں میر کا شعر تقطیع کیا ہے:
عشق کیا سر، دین گیا، ایمان گیا، اسلام گیا
دل نے ایسا کام کیا، کچھ جس سے میں ناکام گیا
پہلے مصرعے کا وزن:
فعل فعولن فعل فعولن فعل فعولن فعلُ فعَل
دوسرا مصرع:
فعلن فعلن فعل فعولن فعلن فعلن فعلُ فعَل
ان مثالوں کے بعداب تک آپ اتنا تو جان چکے ہونگے کہ بحر ہندی در اصل ہندی پنگل نہیں بلکہ علمِ عروض ہے۔
عروض کی بڑی کتابوں میں بحرالفصاحت کے علاوہ اس بحر پر اتنی بات کسی دوسری کتاب میں موجود نہیں ہے۔ لیکن بحرالفصاحت سے بھی قابلِ فہم جواب حاصل نہیں ہوتا جس کے حوالے سے میں نے رکن ”فاع“ کا ذکر کیا۔
آئینہ بلاغت از مرزا عسکری ، بحرالفصاحت کے بعد دوسری سب سے بڑی کتاب ہے جس میں مصنف نے میرؔ کے شعر:
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا
کے بارے میں لکھا ہے یہ فعل فعولن چار بار ایک مصرع اور آٹھ بار ایک شعر میں ہے۔ یہ بات غلط ہے۔ تقطیع اس کی انشااللہ آگے پیش کی جائے گی۔
بحرالفصاحت سے اب تک ہم نے جو ارکان حاصل کیے وہ چھ ہیں اور اس طرح ہیں:
۱۔ فعلُ (عین ساکن و لام متحرک)
۲۔ فعولن
۳۔ فعلن (عین ساکن)
۴۔ فعَل(عین متحرک و لام ساکن)
۵۔ فعول (لام ساکن)
۶۔ فع
ان میں ایک رکن ”فاع“ کو شامل نہیں کیا کہ اسکا ذکر نہ ہمیں بحر کے بیان میں نہ رکن فعولن کی فروعات میں کہیں ملتا ہی نہیں ہے اس لئے یہ رکن استعمال کرنے کی اجازت کیسے ہوسکتی ہے؟
لیکن ان چھ ارکان سے بھی مسئلہ کچھ حل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ آئیں اب ہم اس شعر کی تقطیع کر لیتے ہیں:
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا
الٹی (فعلن)، ہوگئیں (فعلن)، سب تد (فعلن)، بیریں (فعلن)، کچھ نہ (فعلُ)، دوا نے (فعولن)، کام (فعلُ)، کیا (فعَل)
یہ ارکان سارے وہی ہیں جو ہم نے بحرالفصاحت سے حاصل کیے تھے۔ لیکن اب دوسرا مصرع دیکھیں:
دیکھا (فعلن)، اس بی(فعلن )، ماریِ دل نے(فعل فعولن) ، آخر( فعلن)، کام(فعلُ)، تمام (فعولُ) کیا (فعَل)
یہاں ساتھواں رکن فعولُ لام متحرک ہے۔ جو ہمیں بحرالفصاحت میں بحر متقارب کے بیان میں کہیں نہیں ملتا۔
لیکن زحافات ِفعولن میں اسے مزاحف مقبوض بتایا ہے۔ تو ممکن ہے کہ اس بحر میں کہیں بھی مقبوض فعولُ کے استعمال کی بھی اجازت ہو!
لیکن عروض کی کتابیں اس پر بات کرنے سے گریز کرتی ہیں۔ گویا میر کی ہندی بحر سے ملتی جلتی ایک بحر تو پیش کر دی لیکن اس بحر کا مکمل طور پر حل نہیں پیش کیا۔
دوسری طرف ہندی بحر پر تحقیق کرنے والے حضرات تحقیق کرتے گئے اور نئے نئے اصول بناتے گئے ۔ اور اسی دوران ایک ایسے مصرعے پر پہنچے جو انکے سب اصولوں سے مختلف تھا:
شہر سے یار سوار ہوا جو سواد میں خوب غبار ہے آج
اس مصرعے کے بارے میں لکھا ہے:
However, both of the above attempts at schematization eventually break down. Mir simply uses this meter in more complex and idiosyncratic ways than can be shown in these or any diagrams. Sometimes he does break the eighth long syllable into two shorts, thus disposing of the "caesura" as a reliable metrical constant; sometimes his word boundaries themselves flow over the "caesura," thus disposing of it as a semantic organizing principle. (And in any case the break in this meter never permits an extra unscanned short syllable before it, as do the more solid caesuras in the regular meters.) It's true that more often than not the break does seem to be there, but it is certainly optional rather than compulsory. Here is an example from Mir's fifth divan [M{1590,1}] which abolishes the caesura on all levels
حقیقت یہ ہے کے ایسے اصول جن میں ایک چیز سما ہی نہ سکے ان سے اگر کسی چیز کو ڈھونڈا جائے تو یہ کام یقیناً نا ممکن ہوتا ہے۔
ہندی بحر والوں کے سارے اصول اس مصرعے پر بیکار بے کار ہوئے۔
چراغِ سخن میں مرزا یاسؔ میرؔ نے ایک شعر متقارب کے بیان میں لکھا ہے :
میر کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا، دیر میں بیٹھا، کب کا ترک اسلام کیا
اس وزن کو متقارب اثرم شنازدہ رکنی کہا ہے جس میں ارکان اس طرح لکھے ہیں:
فعل فعولن فعل فعولن فعل فعولن فعل فعولن/فعل
آگے یہ بھی کہا ہے کے اس وزن میں فعل فعولن کی جگہ فعلن فعلن بھی آسکتے ہیں جہاں چاہیں۔ اور عروض و ضرب میں فعلن فع بھی آسکتا ہے۔
لیکن میر کا یہ شعر جو یاس نے پیش کیا اسی غزل میں جس میں ہمارا ”الٹی تدبیریں“ والا شعر ہے۔ اور رکن ”فعولُ“ کا ذکر بھی نہیں کیا۔
یہی حالت باقی کتابوں کی ہے۔
اب ہم اسی مصرعے پر چلتے ہیں جس پر صاحبانِ ہندی بحر پھنسے تھے:
شہر سے یار سوار ہوا جو سواد میں خوب غبار ہے آج
تقطیع اس کی :
شہر (فعلُ)، سے یار (فعولُ)، سوار(فعولُ)، ہوا ج (فعولُ)، سواد (فعولُ)، مخوب (فعولُ)، غبار (فعولُ)، ہ آج (فعول)
اسی غزل میں ایک مصرع ایسے بھی ہے:
آنکھیں اس کی لال ہوئیں ہیں اور چلے جاتے ہیں سر
اس کے ارکان:
فعلن فعلن فعل فعولن فعل فعولن فعلن فع
پہلے مصرعے میں یہ سارے ارکان کہاں سے آئے؟
یہاں یہ بھی ثابت ہوا کے پہلا والا مصرع جس وزن میں ہے وہ وزن بھی عام ارکان جو دوسرے مصرعے میں واقع ہوئے ہیں انکے ساتھ جمع ہو سکتا ہے۔ یا ان دونوں کو ایک ہی وزن شمار کیا جائے گا۔
تحقیق کرنے والے اگر عروض کے علم کو سمجھ کر تحقیق کرتے تو حل بہت آسان تھا۔ اور جس مصرعے پر وہ آکر پھنس گئے تھے وہی مصرع ایک حل پیش کر دیتا۔ جی ہاں!!! میرؔ کی ہندی بحر کا ایک ہی وزن ہے در اصل۔
آئیں اسکی عروضی کیفیت کو سمجھا جائے۔ یہ بات تو آپ سب جانتے ہی ہیں کہ علم عروض میں مصرعے کے آخری رکن کے آخر میں ایک ساکن بڑھانے سے مصرع بے وزن نہیں ہوتا۔ یعنی اگر رکن فعَل ہو تو ایک ساکن اور بڑھا کر فعول بنا لینا جائز ہے اور ہر بحر میں یہ عمل مستعمل ہے۔
پہلا کام یہ کریں کہ بحرِ متقارب میں رکنِ سالم فعولن پر حذف زحاف لگا ئیں تو لن گر کر ”فعو“ رہ جائے گا جو ”فعَل“ محذوف ہے۔ اور اسی طرح فعولن پر قصر کا زحاف لگائیں تو نون گر کر لام ساکن ہو کر ”فعول“ رہ جائے گا جو مقصور ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کی جگہ استعمال کئے جاسکتے ہیں علمِ عروض کے صدیوں سے مستعمل اصول کے مطابق۔
دوسرا کام یہ کریں کے فعولن سالم پر ثرم کا زحاف لگائیں جس سے ف اور نون گرے اور ”عولُ“ باقی رہا جس کا وزن ”فعلُ“ ہے اور یہ اثرم ہے۔
تیسرا کام یہ کہ فعولن پر قبض کا زحاف لگا کر نون گرا دیں فعولُ مقبوض رہا۔
اب ہم فعلُ اثرم پہلے یعنی صدر و ابتدا میں رکھتے ہیں۔
عروض و ضرب میں فعَل یا فعول یعنی محذوف یا مقصور رکھتے ہیں۔
اور حشو میں فعولُ مقبوض رکھ دیتے ہیں۔
یعنی بحر کا نام بحر متقارب مثمن اثرم مقبوض محذوف۔ یا مثمن اثرم مقبوض مقصور ہوا۔
اور ارکان:
فعلُ فعولُ فعولُ فعل
یا
فعلُ فعولُ فعولُ فعول (آخری فعول لام ساکن سے)
اسی بحر میں درمیان میں دو کی جگہ چھ فعولُ ہوں اور صدر و ابتدا فعلُ اور عروض و ضرب فعَل یا فعول ہوں تو یہ مثمن مضاعف کہلاتی ہے۔
ارکان:
فعلُ فعولُ فعولُ فعولُ فعولُ فعولُ فعولُ فعَل یا فعول
اور یہی وہ وزن ہے جو میرؔ کی ہندی بحر کا حقیقی وزن ہے۔ اسی سے باقی سارے وزن وجود میں آئے۔ لیکن یہ کیسے ہوا؟
اسکا جواب یہ ہے کے ایک زحاف جسے ”تسکینِ اوسط“ کہا جاتا ہے اس سے یہ سارا کام لیا جائے گا۔ اور اس کی خاصیت یہ ہے کہ جہاں بھی مسلسل تین حروف متحرک ہوں ان میں سے درمیان والا ساکن کردیتا ہے۔ اور یہی واحد زحاف ہے جسے ہم مزاحف رکن پر بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
اب ہم اپنی آسانی کے لئے مثمن کی صورت میں اس بحر کو سمجھتے ہیں۔
فعلُ فعولُ فعولُ فعَل
پہلے رکن کا لام دوسرے میں ف اور عین متحرک ہیں ان میں درمیان والا یعنی دوسرے رکن سے ف کو ساکن کرتے ہیں تو صورتِ حال یوں ہوگی:
فعلف عولُ فعولُ فعَل
جسکا وزن ہوگا:
فعلن فعلُ فعول فعل۔
اب اگر یہی کام ہم دوسرے اور تیسرے ارکان میں کریں تو:
فعل فعولف عول فعَل
جسکا وزن:
فعلُ فعولن فعلُ فعَل
اب یہ کام ہم تیسرے اور چوتھے ارکان میں کرتے ہیں تو:
فعلُ فعولُ فعولف عل
جسکا وزن :
فعلُ فعولُ فعولن فع
اور اگر سب جگہ تسکین اوسط استعمال کردیں تو:
فعلف عولف عولف عل
جسکا وزن :
فعلن فعلن فعلن فع
اور اگر آخری رکن فعول ہو تو:
فعلف عولف عولف عول
یعنی وزن ہوا:
فعلن فعلن فعلن فاع
اب اسی طرح مثمن مضاعف یعنی سولہ رکنی بحر میں یہ اصول اپنائیں:
فعلُ فعولُ فعولُ فعولُ فعولُ فعولُ فعولُ فعَل/فعول
اگر ہم اسے ایسے کردیں:
فعلف عولف عولف عولف عول فعولف عولُ فعَل
غورکیجیے یہ کونسا وزن ہے؟
جی ہاں!! الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا :
فعلن فعلن فعلن فعلن فعل فعولن فعلُ فعَل
اب اگر یوں کردیں:
فعلف عولف عول فعولف عولف عول فعول فعَل
یہ کونسا وزن ہے؟ جی بہت خوب!
دیکھا اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا
فعلن فعلن فعل فعولن فعلن فعلُ فعولُ فعَل
اب شاید مزید وضاحت کی ضرورت نہیں۔ آپ اس بحر میں کہیں بھی تسکینِ اوسط کا زحاف لگاتے جائیں اور نئے وزن بناتے جائیں۔ لیکن بس اتنا یاد رکہیں کے اصل ارکان میں صدر و ابتدا فعلُ حشو فعولُ اور عروض و ضرب فعَل یا فعول ہونگے۔
بحرالفصاحت میں فع ابتر جو بتایا گیا ہے وہ محض غلطی ہے اور فعل فعولن والی بحر کو مثمن اثرم سالم الآخر کہنا بھی غلط ہے۔ وجہ اسکی یہ کہ ثرم کا زحاف کوئی عام زحاف نہیں ہے جو حشو میں آسکے۔ ثلم اور ثرم کے زحافات صدر و ابتدا سے مخصوص ہیں۔ اور انکا حشو میں استعمال کرنا غلط ہے۔ اسی لحاظ سے بحرالفصاحت میں فعلن اثلم اور فعلُ اثرم کا خلط جائز اور کثرت سے شائع بتایا لیکن یہ بات بھی گمراہی کا سبب ہے کیونکہ ثلم کا زحاف بھی مخصوص ہے صدر و ابتدا سے۔
چراغِ سخن میں ثلم و ثرم زحافات کو صدر و ابتدا کے خاص زحافات تو بتایا گیا ہے لیکن اس کا استعمال حشو میں بھی کردیا جو غلط ہے۔ اور گمراہی کی بات یہ کہ کوئی اصول وجود میں نہیں آتا۔ جہاں چاہیں جو بھی زحاف لگادیں اس طرح عروضی قوانین کو توڑنا درست نہیں۔
جو وزن ہم تسکین کے زحاف سے حاصل کرتے ہیں وہ مزاحف مسکن کہلاتا ہے اور اس بحر میں جہاں چاہیں تین متحرک میں درمیان والا ساکن کردیں اور جہاں چاہیں متحرک رہنے دیں۔ چاہیں سب جگہ یہ کام کریں۔ چاہیں تو سب جگہ متحرک رکھیں جس طرح میرؔ نے کیا ہے:
شہر سے یار سوار ہوا جو سواد میں خوب غبار ہے آج
گویا جب تسکین کا عمل ہوگا تو بحر متقارب مثمن اثرم مقبوض محذوف/مقصور مسکن کہلائے گی۔
بس یہی قانون تھا اور اس کو مد نظر رکھتے ہوئے آنکھ بند کرکے بھی آپ تقطیع کرینگے تو درست ہوگی انشا اللہ تعالی۔ ایک بار پھر یاد دلایا جائے کہ میرؔ نے کسی ہندی بحر کو استعمال نہیں کیا بلکہ علمِ عروض کو اور اور زحافات کو استعمال کرتے ہوئے اشعار کہے ہیں۔
مزمل شیخ بسمؔل
یقیناً آپ نے یہی سن رکھا ہوگا اس بحر کے بارے میں کے اس بحر کو میرؔ نے ہندی پنگل کی بحور میں سے چن کر استعمال کیا اور اتنا استعمال کیا کہ انہیں کے نام سے منسوب ہوگئی۔ یا اکثر یہ بھی سننے اور پڑھنے کو ملتا ہے کے میرؔ نے اردو میں مروجہ فارسی عروض کو بھی اپنی شاعری میں استعمال کیا اور پنگل کو بھی اپنی شناخت بنایا۔
بحر اور اس کی آزادیوں کے بارے میں بھی آپ نے یقیناً بہت کچھ سن رکھا ہوگا کہ یہ بحر مکمل اسباب خفیف پر مشتمل ہوتی ہے جس میں سے کوئی بھی سبب خفیف سبب ثقیل بنا دیا جاتا ہے۔ یا ایک چھوڑ کر ایک سب خفیف کو سبب ثقیل بنانے کی اجازت ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ۔
بڑے لمبے چوڑے طریقے اور ترتیبیں دیکھنے کو ملتی رہتی ہیں اس بحر کے ارکان کے بارے میں اور بڑے فخر سے اس بحر میں اشعار کہے جاتے ہیں اور بحر کو’ ہندی بحر‘ کہا جاتا ہے۔
اور حد تو یہ ہے کہ علم عروض کے عالم حضرات اور اہلِ علم لوگ بھی اسے ہندی بحر کہنے سے ذرا نہیں چونکتے۔
مجھے تو اس وقت غور کرنے کا موقع ملا جب کلیاتِ میرؔ میرے سامنے کھلی ہوئی رکھی تھی اور سامنے ایک غزل (الٹی ہوگئیں سب تدبیریں) تھی اس غزل کے بارے میں کئی بار پڑھ چکا تھا کہ یہ ہندی بحر میں ہے۔ یہ بھی یاد تھا کے صرف اسباب خفیف و ثقیل کی آمیزش سے یہ بحر تیار کی جاتی ہے۔ اب جب یہ اصول ٹھہر گیا تو ایک مصرع جو آنکھوں کو کھٹکا وہ یوں تھا:
’’کس کا کعبہ، کیسا قبلہ، کون حرم ہے، کیا احرام‘‘
اب مجھ جیسا بیوقوف انسان کیا کرے۔؟؟
رہا نہیں گیا یہ سوچ کر کہ جب پنگل کا قانون یہ ہے کہ سب اسباب ہونگے تو یہ ’’احرام‘‘ میں وتد کیا کر رہا ہے؟ یہ تو عروضی روش ہے کے آخرِ مصرع میں ایک ساکن زائد کو بھی غیر موزوں نہیں جانتے۔
یا ایسا کوئی قانون ہندی پنگل میں بھی موجود ہے ؟
اگر ہے تو اسے اُس قانون کو اصطلاح میں کیا کہا جاتا ہے؟
خیر بات لمبی ہو جائے گی اور ہم بہت دور نکل جائیں گے۔ فی الوقت مجھے آپ سے کچھ سوالات کے جوابات چاہئے ہیں۔ یقناً مضمون کے قارئین اہلِ علم حضرات بھی ہونگے تو بتائیں کیا میرؔ ہندی شاعر تھے؟ اگر تھے تو انکے کتنے ہندی شاعری کے مجموعے شائع ہوئے؟
کیا وہ ہندی سے اتنی محبت رکھتے تھے کے انہوں نے اردو شاعری میں بھی ہندی پنگل کو داخل کر دیا؟
کیونکہ یہ بات تو کھلی کتاب کی طرح ہے کے آج کے اچھے خاصے باعلم عروضی حضرات بھی انکی استعمال شدہ اس بحر کو ہندی پنگل کا نام دیتے ہیں۔
یا پھر یوں کہا جائے کے بس انہوں نے سنی سنائی باتوں کو ہی اپنا کر کبھی غور کرنے کوشش تک نہیں کی؟
بہر حال بات یہ ہے کے میں نے ہندی بحر کے بارے میں جو بھی کچھ پڑھا یا سنا اسے اپنی منطقی سوچ کی وجہ سے ہضم کرنے سے قاصر رہا ہوں۔ اور اتنا ہی اہم یہ ہے مجھے یہ بات کبھی ہضم نہیں ہوئی کے میرؔ جیسا اردو کا استاد شاعر وزن کے معاملے میں ہندی کا نظام اپنائے گا۔
کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کے جرأتؔ نے بھی میر ؔ سے پہلے اسی بحر کو استعمال کیا تھا ۔ اور پنگل کے استعمال کی وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کے اس وقت تک اردو میں ٹھہراؤ نہیں آیا تھا اس لئے ہندی پنگل کو شعرا نے استعمال کیا وغیرہ وغیرہ۔ میرا سوال صرف اتنا ہے کہ کیا اس وقت علمِ عروض میں بھی ٹھہراؤ نہیں آیا تھا ؟ کیا عروض اس وقت ابتدائی مراحل سے گزر رہا تھا؟ ہرگز نہیں۔ علمِ عروض میں اِس وقت جتنے قوانین موجود ہیں وہ سب مکمل طور پر اس وقت بھی موجود تھے۔ اور اس بات کا اندازہ آپ خواجہ محقق طوسی سے منسوب کتاب معیار الاشعار کی اشاعت سے لگا سکتے ہیں کے یہ کتاب کب شائع ہوئی۔
یہ تو ہوئی ایک بات۔
دوسری بات یہ دیکھیں کہ انٹرنیٹ پر ہندی بحر کے بارے میں ایک مشہور ویب سائٹ www.columbia.edu
میں بھی اس بحر کو ہندی بتایا گیا ہے۔ میں قدر کرتا ہوںFrance W. Pritchett کی (جن کا نام انٹر نیٹ کی ادبی دنیا میں بہر حال ایک بڑا نام مانتی ہے) محنت اورشوق کی کہ انہوں نے اس بحر پر کافی تحقیق کی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ بھی کامیابی سے اسے سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اور وجہ یہی ہے کے انہوں نے علمِ عروض کو چھوڑ کر اس بحر کو ہندی بحر سمجھ کر پڑھا جس وجہ سے اس بحر کے اصولوں کے بارے میں کوئی بھی حتمی فیصلہ نہ ہو سکا۔ غور فرمائیں:
"There has been a great deal of controversy over whether this meter was invented by Mir--or rather, as it now appears, by Zatalli--or somehow already exists within the conventional framework, or is a Hindi meter modified and adapted for Urdu. Most prosodists now hold the latter view"
گو یا یہ ہندی بحر ہوئی جس میں ترمیم کر کہ اردو میں استعمال کے قابل بنایا۔ لیکن یہ بات قابلِ تسلیم ہی نہیں کے جب عروض میں سینکڑوں بحریں پہلے ہی موجود تھیں تو میرؔ کو کیا ضرورت تھی اس بحر کو استعمال کرنے کی؟
یہ بات مان لینا ظاہری صورت کو دیکھ کر اتنا آسان نہیں لگتا کہ میرؔ نے اردو شاعری میں ہندی کی پنگل کی کسی بحر کا اپنا کر اس میں شاعری کی۔
اور پھر استعمال کی بھی ہوتی تو اس کا کوئی اصول ہوتا ۔ جو حضرات اسے ہندی بحر کہہ کر بحر پر تحقیق کرنے کی کوششیں کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں وہ بھی اس بحر کو سمجھ نہیں سکے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ میرؔ نے اس بحر میں خالصتاً علمِ عروض کا استعمال کیا ہےاور اسے سمجھنے کے لئے بھی علمِ عروض پر محنت اور فکر کی ضرورت ہے۔
آئیے اب ہم اس بحر کا عروضی رخ دیکھیں۔ مگر اس سے پہلے کچھ باتیں یا اس بحر کی ملتی جلتی شکلیں جو عروضی کتابوں میں ملتی ہیں ان کی طرف تھوڑی توجہ کرتے ہیں۔
”بحرالفصاحت“ فی الوقت عروض پر لکھی جانے والی تمام کتابوں میں مستند ترین کتاب مانی جاتی ہے۔۔
اس کتاب میں ”بحر متقارب“ کے بیان میں مزاحف نمبر ۶ ص ۱۶۳ پر ”متقارب مثمن اثرم سالم الآخر“ کا ذکر دیکھیں تو وہاں انہوں نے چار فعولن میں سے دو پر زحاف ”ثرم“ کے استعمال سے فعلُ ( بسکون عین و بضم لام) بنایا ہے۔
اور کل صورت : فعلُ فعولن فعلُ فعولن
یعنی ایک اثرم اور ایک سالم کی تکرار۔
آگے لکھتے ہیں کہ ”اس وزن میں رکن ”فعل“ و ”فعولن“ کے ساتھ رکن اثلم یعنی ”فعلن“ سکون عین بھی آتا ہے اور خلط ان ارکان کا ایک وزن میں روا، بلکہ کثرت سے شائع ہے۔ چناچہ میرؔ کی مثنوی ”جوشِ عشق“ کے ان اشعار میں ۔۔۔“
میر کی مثنوی جوشِ عشق میں فعلن، فعل، فعولن، وغیرہ کا اجتماع ہے۔ یعنی کسی بھی ”فعل فعولن“ کی جگہ دو عدد فعلن استعمال کرنا جائز ہیں۔ اور یہ تین ارکان (فعلن، فعل اور فعولن) ہمیں میر کی ہندی بحر میں کثرت سے نظر آتے ہیں۔
آگے چلیں تو بحر الفصاحت ص ۱۶۵ پر لکھا ہے ”اس وزن میں عروض و ضرب میں ”فعَل“ بفتح عین و سکون لام اور ”فع“ اور ”فعول“ بھی واقع ہوتے ہیں۔ ”فعَل“ محذوف ہے اور ”فع“ ابتر اور ”فعول“ مقصور ہے“
یعنی مصرع کا آخری رکن کہیں فعَل، کہیں فع، اور کہیں فعول بھی آسکتا ہے۔ اور اسے حذف، بتر اور قصر کے زحافات کا اثر بتایا ہے۔
اور یہ ارکان بھی ہمیں میر کی ہندی بحر (جو کہ ہندی بحر نہیں ہے) میں کثرت سے ملتے ہیں۔
یعنی صورتِ حال یوں ہے کہ:
فعلن فعلن فعلن فع
فعل فعولن فعل فعل
فعلن فعل فعولن فع
فعل فعولن فعل فعول
فعلن فعلن فعلن فاع وغیرہ
نوٹ: بحر الفصاحت میں یہ ذکر کہیں نہیں ہے کہ رکن ”فاع“ کونسے زحاف سے بنا۔ لیکن صاحبقراں کےجن اشعار کو مثال کے لئے پیش کیا انکی تقطیع میں یہ رکن یعنی ”فاع“ بھی واقع ہوتا ہے۔
ایک اور بات یہ کہ ”فعول“ مقصور کی آخر مصرع میں کوئی مثال نہیں دی ۔
اس کو ہم آگے کے لئے بچا کر رکھتے ہیں ۔
اس کے آگے لکھتے ہیں ص ۱۶۷ پر کہ”یہ وزن (مضاعف) دو چند بھی مستعمل ہے“
مثال میں میر کا شعر تقطیع کیا ہے:
عشق کیا سر، دین گیا، ایمان گیا، اسلام گیا
دل نے ایسا کام کیا، کچھ جس سے میں ناکام گیا
پہلے مصرعے کا وزن:
فعل فعولن فعل فعولن فعل فعولن فعلُ فعَل
دوسرا مصرع:
فعلن فعلن فعل فعولن فعلن فعلن فعلُ فعَل
ان مثالوں کے بعداب تک آپ اتنا تو جان چکے ہونگے کہ بحر ہندی در اصل ہندی پنگل نہیں بلکہ علمِ عروض ہے۔
عروض کی بڑی کتابوں میں بحرالفصاحت کے علاوہ اس بحر پر اتنی بات کسی دوسری کتاب میں موجود نہیں ہے۔ لیکن بحرالفصاحت سے بھی قابلِ فہم جواب حاصل نہیں ہوتا جس کے حوالے سے میں نے رکن ”فاع“ کا ذکر کیا۔
آئینہ بلاغت از مرزا عسکری ، بحرالفصاحت کے بعد دوسری سب سے بڑی کتاب ہے جس میں مصنف نے میرؔ کے شعر:
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا
کے بارے میں لکھا ہے یہ فعل فعولن چار بار ایک مصرع اور آٹھ بار ایک شعر میں ہے۔ یہ بات غلط ہے۔ تقطیع اس کی انشااللہ آگے پیش کی جائے گی۔
بحرالفصاحت سے اب تک ہم نے جو ارکان حاصل کیے وہ چھ ہیں اور اس طرح ہیں:
۱۔ فعلُ (عین ساکن و لام متحرک)
۲۔ فعولن
۳۔ فعلن (عین ساکن)
۴۔ فعَل(عین متحرک و لام ساکن)
۵۔ فعول (لام ساکن)
۶۔ فع
ان میں ایک رکن ”فاع“ کو شامل نہیں کیا کہ اسکا ذکر نہ ہمیں بحر کے بیان میں نہ رکن فعولن کی فروعات میں کہیں ملتا ہی نہیں ہے اس لئے یہ رکن استعمال کرنے کی اجازت کیسے ہوسکتی ہے؟
لیکن ان چھ ارکان سے بھی مسئلہ کچھ حل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ آئیں اب ہم اس شعر کی تقطیع کر لیتے ہیں:
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا
الٹی (فعلن)، ہوگئیں (فعلن)، سب تد (فعلن)، بیریں (فعلن)، کچھ نہ (فعلُ)، دوا نے (فعولن)، کام (فعلُ)، کیا (فعَل)
یہ ارکان سارے وہی ہیں جو ہم نے بحرالفصاحت سے حاصل کیے تھے۔ لیکن اب دوسرا مصرع دیکھیں:
دیکھا (فعلن)، اس بی(فعلن )، ماریِ دل نے(فعل فعولن) ، آخر( فعلن)، کام(فعلُ)، تمام (فعولُ) کیا (فعَل)
یہاں ساتھواں رکن فعولُ لام متحرک ہے۔ جو ہمیں بحرالفصاحت میں بحر متقارب کے بیان میں کہیں نہیں ملتا۔
لیکن زحافات ِفعولن میں اسے مزاحف مقبوض بتایا ہے۔ تو ممکن ہے کہ اس بحر میں کہیں بھی مقبوض فعولُ کے استعمال کی بھی اجازت ہو!
لیکن عروض کی کتابیں اس پر بات کرنے سے گریز کرتی ہیں۔ گویا میر کی ہندی بحر سے ملتی جلتی ایک بحر تو پیش کر دی لیکن اس بحر کا مکمل طور پر حل نہیں پیش کیا۔
دوسری طرف ہندی بحر پر تحقیق کرنے والے حضرات تحقیق کرتے گئے اور نئے نئے اصول بناتے گئے ۔ اور اسی دوران ایک ایسے مصرعے پر پہنچے جو انکے سب اصولوں سے مختلف تھا:
شہر سے یار سوار ہوا جو سواد میں خوب غبار ہے آج
اس مصرعے کے بارے میں لکھا ہے:
However, both of the above attempts at schematization eventually break down. Mir simply uses this meter in more complex and idiosyncratic ways than can be shown in these or any diagrams. Sometimes he does break the eighth long syllable into two shorts, thus disposing of the "caesura" as a reliable metrical constant; sometimes his word boundaries themselves flow over the "caesura," thus disposing of it as a semantic organizing principle. (And in any case the break in this meter never permits an extra unscanned short syllable before it, as do the more solid caesuras in the regular meters.) It's true that more often than not the break does seem to be there, but it is certainly optional rather than compulsory. Here is an example from Mir's fifth divan [M{1590,1}] which abolishes the caesura on all levels
حقیقت یہ ہے کے ایسے اصول جن میں ایک چیز سما ہی نہ سکے ان سے اگر کسی چیز کو ڈھونڈا جائے تو یہ کام یقیناً نا ممکن ہوتا ہے۔
ہندی بحر والوں کے سارے اصول اس مصرعے پر بیکار بے کار ہوئے۔
چراغِ سخن میں مرزا یاسؔ میرؔ نے ایک شعر متقارب کے بیان میں لکھا ہے :
میر کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا، دیر میں بیٹھا، کب کا ترک اسلام کیا
اس وزن کو متقارب اثرم شنازدہ رکنی کہا ہے جس میں ارکان اس طرح لکھے ہیں:
فعل فعولن فعل فعولن فعل فعولن فعل فعولن/فعل
آگے یہ بھی کہا ہے کے اس وزن میں فعل فعولن کی جگہ فعلن فعلن بھی آسکتے ہیں جہاں چاہیں۔ اور عروض و ضرب میں فعلن فع بھی آسکتا ہے۔
لیکن میر کا یہ شعر جو یاس نے پیش کیا اسی غزل میں جس میں ہمارا ”الٹی تدبیریں“ والا شعر ہے۔ اور رکن ”فعولُ“ کا ذکر بھی نہیں کیا۔
یہی حالت باقی کتابوں کی ہے۔
اب ہم اسی مصرعے پر چلتے ہیں جس پر صاحبانِ ہندی بحر پھنسے تھے:
شہر سے یار سوار ہوا جو سواد میں خوب غبار ہے آج
تقطیع اس کی :
شہر (فعلُ)، سے یار (فعولُ)، سوار(فعولُ)، ہوا ج (فعولُ)، سواد (فعولُ)، مخوب (فعولُ)، غبار (فعولُ)، ہ آج (فعول)
اسی غزل میں ایک مصرع ایسے بھی ہے:
آنکھیں اس کی لال ہوئیں ہیں اور چلے جاتے ہیں سر
اس کے ارکان:
فعلن فعلن فعل فعولن فعل فعولن فعلن فع
پہلے مصرعے میں یہ سارے ارکان کہاں سے آئے؟
یہاں یہ بھی ثابت ہوا کے پہلا والا مصرع جس وزن میں ہے وہ وزن بھی عام ارکان جو دوسرے مصرعے میں واقع ہوئے ہیں انکے ساتھ جمع ہو سکتا ہے۔ یا ان دونوں کو ایک ہی وزن شمار کیا جائے گا۔
تحقیق کرنے والے اگر عروض کے علم کو سمجھ کر تحقیق کرتے تو حل بہت آسان تھا۔ اور جس مصرعے پر وہ آکر پھنس گئے تھے وہی مصرع ایک حل پیش کر دیتا۔ جی ہاں!!! میرؔ کی ہندی بحر کا ایک ہی وزن ہے در اصل۔
آئیں اسکی عروضی کیفیت کو سمجھا جائے۔ یہ بات تو آپ سب جانتے ہی ہیں کہ علم عروض میں مصرعے کے آخری رکن کے آخر میں ایک ساکن بڑھانے سے مصرع بے وزن نہیں ہوتا۔ یعنی اگر رکن فعَل ہو تو ایک ساکن اور بڑھا کر فعول بنا لینا جائز ہے اور ہر بحر میں یہ عمل مستعمل ہے۔
پہلا کام یہ کریں کہ بحرِ متقارب میں رکنِ سالم فعولن پر حذف زحاف لگا ئیں تو لن گر کر ”فعو“ رہ جائے گا جو ”فعَل“ محذوف ہے۔ اور اسی طرح فعولن پر قصر کا زحاف لگائیں تو نون گر کر لام ساکن ہو کر ”فعول“ رہ جائے گا جو مقصور ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کی جگہ استعمال کئے جاسکتے ہیں علمِ عروض کے صدیوں سے مستعمل اصول کے مطابق۔
دوسرا کام یہ کریں کے فعولن سالم پر ثرم کا زحاف لگائیں جس سے ف اور نون گرے اور ”عولُ“ باقی رہا جس کا وزن ”فعلُ“ ہے اور یہ اثرم ہے۔
تیسرا کام یہ کہ فعولن پر قبض کا زحاف لگا کر نون گرا دیں فعولُ مقبوض رہا۔
اب ہم فعلُ اثرم پہلے یعنی صدر و ابتدا میں رکھتے ہیں۔
عروض و ضرب میں فعَل یا فعول یعنی محذوف یا مقصور رکھتے ہیں۔
اور حشو میں فعولُ مقبوض رکھ دیتے ہیں۔
یعنی بحر کا نام بحر متقارب مثمن اثرم مقبوض محذوف۔ یا مثمن اثرم مقبوض مقصور ہوا۔
اور ارکان:
فعلُ فعولُ فعولُ فعل
یا
فعلُ فعولُ فعولُ فعول (آخری فعول لام ساکن سے)
اسی بحر میں درمیان میں دو کی جگہ چھ فعولُ ہوں اور صدر و ابتدا فعلُ اور عروض و ضرب فعَل یا فعول ہوں تو یہ مثمن مضاعف کہلاتی ہے۔
ارکان:
فعلُ فعولُ فعولُ فعولُ فعولُ فعولُ فعولُ فعَل یا فعول
اور یہی وہ وزن ہے جو میرؔ کی ہندی بحر کا حقیقی وزن ہے۔ اسی سے باقی سارے وزن وجود میں آئے۔ لیکن یہ کیسے ہوا؟
اسکا جواب یہ ہے کے ایک زحاف جسے ”تسکینِ اوسط“ کہا جاتا ہے اس سے یہ سارا کام لیا جائے گا۔ اور اس کی خاصیت یہ ہے کہ جہاں بھی مسلسل تین حروف متحرک ہوں ان میں سے درمیان والا ساکن کردیتا ہے۔ اور یہی واحد زحاف ہے جسے ہم مزاحف رکن پر بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
اب ہم اپنی آسانی کے لئے مثمن کی صورت میں اس بحر کو سمجھتے ہیں۔
فعلُ فعولُ فعولُ فعَل
پہلے رکن کا لام دوسرے میں ف اور عین متحرک ہیں ان میں درمیان والا یعنی دوسرے رکن سے ف کو ساکن کرتے ہیں تو صورتِ حال یوں ہوگی:
فعلف عولُ فعولُ فعَل
جسکا وزن ہوگا:
فعلن فعلُ فعول فعل۔
اب اگر یہی کام ہم دوسرے اور تیسرے ارکان میں کریں تو:
فعل فعولف عول فعَل
جسکا وزن:
فعلُ فعولن فعلُ فعَل
اب یہ کام ہم تیسرے اور چوتھے ارکان میں کرتے ہیں تو:
فعلُ فعولُ فعولف عل
جسکا وزن :
فعلُ فعولُ فعولن فع
اور اگر سب جگہ تسکین اوسط استعمال کردیں تو:
فعلف عولف عولف عل
جسکا وزن :
فعلن فعلن فعلن فع
اور اگر آخری رکن فعول ہو تو:
فعلف عولف عولف عول
یعنی وزن ہوا:
فعلن فعلن فعلن فاع
اب اسی طرح مثمن مضاعف یعنی سولہ رکنی بحر میں یہ اصول اپنائیں:
فعلُ فعولُ فعولُ فعولُ فعولُ فعولُ فعولُ فعَل/فعول
اگر ہم اسے ایسے کردیں:
فعلف عولف عولف عولف عول فعولف عولُ فعَل
غورکیجیے یہ کونسا وزن ہے؟
جی ہاں!! الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا :
فعلن فعلن فعلن فعلن فعل فعولن فعلُ فعَل
اب اگر یوں کردیں:
فعلف عولف عول فعولف عولف عول فعول فعَل
یہ کونسا وزن ہے؟ جی بہت خوب!
دیکھا اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا
فعلن فعلن فعل فعولن فعلن فعلُ فعولُ فعَل
اب شاید مزید وضاحت کی ضرورت نہیں۔ آپ اس بحر میں کہیں بھی تسکینِ اوسط کا زحاف لگاتے جائیں اور نئے وزن بناتے جائیں۔ لیکن بس اتنا یاد رکہیں کے اصل ارکان میں صدر و ابتدا فعلُ حشو فعولُ اور عروض و ضرب فعَل یا فعول ہونگے۔
بحرالفصاحت میں فع ابتر جو بتایا گیا ہے وہ محض غلطی ہے اور فعل فعولن والی بحر کو مثمن اثرم سالم الآخر کہنا بھی غلط ہے۔ وجہ اسکی یہ کہ ثرم کا زحاف کوئی عام زحاف نہیں ہے جو حشو میں آسکے۔ ثلم اور ثرم کے زحافات صدر و ابتدا سے مخصوص ہیں۔ اور انکا حشو میں استعمال کرنا غلط ہے۔ اسی لحاظ سے بحرالفصاحت میں فعلن اثلم اور فعلُ اثرم کا خلط جائز اور کثرت سے شائع بتایا لیکن یہ بات بھی گمراہی کا سبب ہے کیونکہ ثلم کا زحاف بھی مخصوص ہے صدر و ابتدا سے۔
چراغِ سخن میں ثلم و ثرم زحافات کو صدر و ابتدا کے خاص زحافات تو بتایا گیا ہے لیکن اس کا استعمال حشو میں بھی کردیا جو غلط ہے۔ اور گمراہی کی بات یہ کہ کوئی اصول وجود میں نہیں آتا۔ جہاں چاہیں جو بھی زحاف لگادیں اس طرح عروضی قوانین کو توڑنا درست نہیں۔
جو وزن ہم تسکین کے زحاف سے حاصل کرتے ہیں وہ مزاحف مسکن کہلاتا ہے اور اس بحر میں جہاں چاہیں تین متحرک میں درمیان والا ساکن کردیں اور جہاں چاہیں متحرک رہنے دیں۔ چاہیں سب جگہ یہ کام کریں۔ چاہیں تو سب جگہ متحرک رکھیں جس طرح میرؔ نے کیا ہے:
شہر سے یار سوار ہوا جو سواد میں خوب غبار ہے آج
گویا جب تسکین کا عمل ہوگا تو بحر متقارب مثمن اثرم مقبوض محذوف/مقصور مسکن کہلائے گی۔
بس یہی قانون تھا اور اس کو مد نظر رکھتے ہوئے آنکھ بند کرکے بھی آپ تقطیع کرینگے تو درست ہوگی انشا اللہ تعالی۔ ایک بار پھر یاد دلایا جائے کہ میرؔ نے کسی ہندی بحر کو استعمال نہیں کیا بلکہ علمِ عروض کو اور اور زحافات کو استعمال کرتے ہوئے اشعار کہے ہیں۔
مزمل شیخ بسمؔل