رضوان
محفلین
منصور قیصرانی نے ضیاء محی الدین کے ربط دیکر میری ایک پرانی خواہش کو پھر زندہ کر دیا ہے۔ وہ ہے شاہد احمد دہلوی کے مضامین سے محفل کی سجاوٹ بڑھانا۔ اسی سلسلے میں کچھ اقتباسات پیش ہیں۔ باقی مضامین بھی اسی طرح لیکن لائبریری میں نزرِ قارئین کرتا رہوں گا۔
اس وقت زبان کے چٹخارے اور ساتھ ساتھ لفظی رعایتیں اور سارے میں پھیلی نہاری کی خوشبو۔۔۔۔۔۔
“دلی کے چٹخارے“ سے ایک اقتباس
شابو بھٹیارے کے ہاں کا شوربہ مشہور تھا۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ:
“ ہمارے ہاں بادشاہی وقت کا شوربہ ہے“
“ ارے بھائی بادشاہی وقت کا؟ یہ کیسے؟“
“ اجی حضت! یہ ایسے کہ ہم شوربے میں سے روزانہ ایک پیالہ بچالیتے ہیں اور اگلے دن کے شوربے میں ملا لیتے ہیں۔ یہ دستور ہمارے ہاں سات پیڑھی سے چلا آرہا ہے۔ یوں ہمارا شوربہ شاہی زمانے سے چلا آتا ہے۔“
1947 میں دلی اجڑنے سے پہلے تقریباً ہر محلے میں ایک نہاری والا موجود تھا،
لیکن اب سے 40 ---- 50 سال پہلے صرف چار نہاری والے مشہور تھے۔ انھوں نے شہر کے چاروں کھونٹ داب رکھے تھے، گنجے کی دکان چاندنی چوک میں نیل کے کڑے کے پاس تھی اور شہر میں اس کی نہاری سب سے مشہور تھی۔
دلی سے باہر اکثر لوگ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ نہاری کیا ہوتی ہے۔ بعض شہروں میں یہ لفظ کچھ اور معنوں مین مستعمل ہے۔ مثلاً چوپایوں کو ، خصوصاً گھوڑوں کو تقویت دینے کے لیے ایک گھولوا پلایا جاتا ہے جسے نہاری کہتے ہیں۔ بعض جگہ پایوں کو نہاری کہا جاتا ہے۔
دلی میں یہ ایک خاص قسم کا سالن ہوتا تھا جو بڑے اہتمام سے تیار کیا جاتا تھا اور بازار میں فروخت ہوتا تھا۔ اس کے پکانے کا ایک خاص طریقہ ہے اور اس کے پکانے والے خاص ہوتے ہیں۔ نہاری کو آج سے نہیں 57 ء کے پہلے سے دلی کے مسلمانوں میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ یوں تو گھر میں بھی اور باہر بھی سینکڑوں قسم کے قورمے پکتے ہیں مگر نہاری ایک مخصوص قسم کا قورمہ ہے جس کا پکانا سوائے نہاری والوں کے اور کسی کو نہیں آتا اس کے پُخت و پز کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اسے ساری رات پکایا جاتا ہے، اور پکنے کی حالت میں ہمہ وقت اس کا تاؤ مساوی رکھا جاتا ہے۔ اس کام کے لیے بڑی مشق و مہارت کی ضرورت ہے۔ تیسرے پہر سے اس کی تیاری شروع ہوتی ہے۔ دکان کی دہلیز کے پاس زمین میں ایک گڑھا کھود کر ایک گہرا چولہا یا بھٹی بنائی جاتی ہے اور اس میں ایک بڑی سی دیگ اتار کر اس طرح جمادی جاتی ہے کہ صرف اس کا گلا باہر نکلا رہ جاتا ہے۔ چولھے کی کھڑکی باہر کے رُخ کُھلتی ہے۔ اس میں سے ایندھن ڈالا جاتا ہے جو دیگ کے نیچے پہنچ جاتا ہے۔ آگ جلانے کے بعد جیسے قورمے کا مسالا بھونا جاتا ہے۔ گھی میں پیاز داغ کرنے کے بعد دھنیا۔ مرچیں، لہسن، ادرک اور نمک ڈال کر نہاری کا مسالا بھونا جاتا ہے جب مسالے میں جالی پڑ جاتی ہے تو گوشت کے پارچے، خصوصاً ادلے ڈآل کر انہیں بھونا جاتا ہے اس کے بعد اندازے سے پانی ڈال کر دیگ کا منھ بند کردیا جاتا ہے۔
پکانے والے کو جب آدھ گلے گوشت کا اندازہ ہوجاتا ہے تو دیگ کا منھ کھول کر اس میں پچیس تیس بھیجے اور اتنی ہی نلیاں یعنی گودے دار ہڈیاں ڈال دی جاتی ہیں۔ شوربے کو لبدھڑا بنانے کے لیے آلن ڈالا جاتا ہے۔ پانی میں آٹا گھول کر آلن بنایا جاتا ہے۔ اب دیگ کے منھ پر آٹا لگا کر کونڈے سے بندکردیا جاتا ہے۔ یہ دیگ ساری رات پکتی رہتی ہے اور اس کا تاؤ دھیما رکھا جاتا ہے۔ بارہ چودہ گھنٹے پکنے کے بعد جب علیٰ الصبح دیگ پر سے کونڈا ہٹایا جاتا ہے تو دور دور تک اس کی اشتہا انگیز خوشبو پھیل جاتی ہے۔
سب سے پہلے دیگ میں سے بھیجے اور نلیاں نکال کر الگ لگن میں رکھ لی جاتی ہیں۔ پھر گاہکوں کا بھگتاں شروع ہوتا ہے یہ کھانا کیونکہ دن کےشروع ہوتے ہی کھا لیا جاتا ہے اس لیے اس کا نام نہار کی رعایت سے نہاری پڑ گیا۔
اس وقت زبان کے چٹخارے اور ساتھ ساتھ لفظی رعایتیں اور سارے میں پھیلی نہاری کی خوشبو۔۔۔۔۔۔
“دلی کے چٹخارے“ سے ایک اقتباس
شابو بھٹیارے کے ہاں کا شوربہ مشہور تھا۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ:
“ ہمارے ہاں بادشاہی وقت کا شوربہ ہے“
“ ارے بھائی بادشاہی وقت کا؟ یہ کیسے؟“
“ اجی حضت! یہ ایسے کہ ہم شوربے میں سے روزانہ ایک پیالہ بچالیتے ہیں اور اگلے دن کے شوربے میں ملا لیتے ہیں۔ یہ دستور ہمارے ہاں سات پیڑھی سے چلا آرہا ہے۔ یوں ہمارا شوربہ شاہی زمانے سے چلا آتا ہے۔“
1947 میں دلی اجڑنے سے پہلے تقریباً ہر محلے میں ایک نہاری والا موجود تھا،
لیکن اب سے 40 ---- 50 سال پہلے صرف چار نہاری والے مشہور تھے۔ انھوں نے شہر کے چاروں کھونٹ داب رکھے تھے، گنجے کی دکان چاندنی چوک میں نیل کے کڑے کے پاس تھی اور شہر میں اس کی نہاری سب سے مشہور تھی۔
دلی سے باہر اکثر لوگ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ نہاری کیا ہوتی ہے۔ بعض شہروں میں یہ لفظ کچھ اور معنوں مین مستعمل ہے۔ مثلاً چوپایوں کو ، خصوصاً گھوڑوں کو تقویت دینے کے لیے ایک گھولوا پلایا جاتا ہے جسے نہاری کہتے ہیں۔ بعض جگہ پایوں کو نہاری کہا جاتا ہے۔
دلی میں یہ ایک خاص قسم کا سالن ہوتا تھا جو بڑے اہتمام سے تیار کیا جاتا تھا اور بازار میں فروخت ہوتا تھا۔ اس کے پکانے کا ایک خاص طریقہ ہے اور اس کے پکانے والے خاص ہوتے ہیں۔ نہاری کو آج سے نہیں 57 ء کے پہلے سے دلی کے مسلمانوں میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ یوں تو گھر میں بھی اور باہر بھی سینکڑوں قسم کے قورمے پکتے ہیں مگر نہاری ایک مخصوص قسم کا قورمہ ہے جس کا پکانا سوائے نہاری والوں کے اور کسی کو نہیں آتا اس کے پُخت و پز کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اسے ساری رات پکایا جاتا ہے، اور پکنے کی حالت میں ہمہ وقت اس کا تاؤ مساوی رکھا جاتا ہے۔ اس کام کے لیے بڑی مشق و مہارت کی ضرورت ہے۔ تیسرے پہر سے اس کی تیاری شروع ہوتی ہے۔ دکان کی دہلیز کے پاس زمین میں ایک گڑھا کھود کر ایک گہرا چولہا یا بھٹی بنائی جاتی ہے اور اس میں ایک بڑی سی دیگ اتار کر اس طرح جمادی جاتی ہے کہ صرف اس کا گلا باہر نکلا رہ جاتا ہے۔ چولھے کی کھڑکی باہر کے رُخ کُھلتی ہے۔ اس میں سے ایندھن ڈالا جاتا ہے جو دیگ کے نیچے پہنچ جاتا ہے۔ آگ جلانے کے بعد جیسے قورمے کا مسالا بھونا جاتا ہے۔ گھی میں پیاز داغ کرنے کے بعد دھنیا۔ مرچیں، لہسن، ادرک اور نمک ڈال کر نہاری کا مسالا بھونا جاتا ہے جب مسالے میں جالی پڑ جاتی ہے تو گوشت کے پارچے، خصوصاً ادلے ڈآل کر انہیں بھونا جاتا ہے اس کے بعد اندازے سے پانی ڈال کر دیگ کا منھ بند کردیا جاتا ہے۔
پکانے والے کو جب آدھ گلے گوشت کا اندازہ ہوجاتا ہے تو دیگ کا منھ کھول کر اس میں پچیس تیس بھیجے اور اتنی ہی نلیاں یعنی گودے دار ہڈیاں ڈال دی جاتی ہیں۔ شوربے کو لبدھڑا بنانے کے لیے آلن ڈالا جاتا ہے۔ پانی میں آٹا گھول کر آلن بنایا جاتا ہے۔ اب دیگ کے منھ پر آٹا لگا کر کونڈے سے بندکردیا جاتا ہے۔ یہ دیگ ساری رات پکتی رہتی ہے اور اس کا تاؤ دھیما رکھا جاتا ہے۔ بارہ چودہ گھنٹے پکنے کے بعد جب علیٰ الصبح دیگ پر سے کونڈا ہٹایا جاتا ہے تو دور دور تک اس کی اشتہا انگیز خوشبو پھیل جاتی ہے۔
سب سے پہلے دیگ میں سے بھیجے اور نلیاں نکال کر الگ لگن میں رکھ لی جاتی ہیں۔ پھر گاہکوں کا بھگتاں شروع ہوتا ہے یہ کھانا کیونکہ دن کےشروع ہوتے ہی کھا لیا جاتا ہے اس لیے اس کا نام نہار کی رعایت سے نہاری پڑ گیا۔