سید فصیح احمد
لائبریرین
" اوئے بالی! جاتے ہوئے سارا حساب منشی کو دے کر جانا! "
" جی استاد جی ! "
بالی سترہ سال کا نو عمر محنت کش لڑکا تھا ۔ بھلے خدو خال، وضع اور اسلوب رکھنے والا۔ وہ چائے کے ہوٹل میں کام کرتا تھا۔
" منشی جی! پان والے سے وصولی نہیں ہوئی باقی کا حساب یہ رہا ۔۔ "
اس نے اپنے پاجامے کی مخفی جیب سے تمام پونجی نکال کر منشی جی کو دی۔ پھر ہوٹل کے تھڑے پر بیٹھ کر بھبک بھرے سرکاری نل سے ہاتھ منہ دھونے لگا۔ کچھ ہی دیر میں چائے والے استاد نے اسے ایک پیالی میں چائے لا دی۔
" یہ لے! ۔۔۔ اکیس کپ ہو گئے تیرے کھاتے میں! "
اس نے پیالی سنبھالی اور ایک راستے پر چل پڑا۔ مکانوں، چار دیواریوں اور بند دکانوں کے سائے کی پناہ میں قدم ماپتا جلد ہی وہ ایک پرانے، نقش و نگار سے مزین اخروٹی دروازے کے سامنے کھڑا تھا۔ دروازے پر کندہ نقوش زندہ محسوس ہوتے تھے۔ جیسے ان کے کندہ کار ہاتھ اب تک ان کے خم دار بدن پر رواں ہوں۔ اس نے دروازے پر جو دستک دی تو ایک شگفتہ آواز نے اندر آنے کی اجازت دے دی۔ مکان کیا تھا بس برائے نام صحن اور سامنے پلستر شدہ دو کمرے تھے، جن میں سے ایک کو باورچی خانہ بنایا گیا تھا۔ ایک جانب دو بانسوں پر چمڑا چڑھا کر غسل خانہ کھڑا کر رکھا تھا۔ سامنے ہی لکڑی کی مسہری پر نفیس خد و خال والی ایک لڑکی سلائی مشین کی درگت بنانے میں مصروف تھی۔
" یا اللہ! پہیا ابھی کو جام ہونا تھا ! ۔۔۔ ماسی نوراں کے ساتھ زبان ہوئی تھی آج شام کی، بس کناریاں ہی تو باق رہ گئیں! ستیاناس! لگتا ہے بات کل پر ہی پڑ جائے گی ۔۔۔"
کوفت میں وہ خود سے ہی باتیں کرتی جا رہی تھی۔
" السلام علیکم زیبا آپی! "
" وعلیکم السلام! ۔۔ کیسا ہے آپی کا پیارا بھائی؟ "
"ٹھیک ہوں بَجّو !"
مشین ایک طرف کو سرکا کر زیبا اُٹھی اور بکھرے پرزے سمیٹنے لگی۔ سب سامان ٹھکانے لگا کر بالی کے ہاتھ سے چائے کا کپ لیا اور چسکیاں بھرنے لگی۔ زیبا نے ایک نظر بالی کے خالی ہاتھوں پر ڈالی،
" آج کتاب نہیں لائے؟ "
زیبا نے چائے کی چسکی بھرتے مسکرا کر پوچھا۔
" آپی آج میرا پڑھنے کا موڈ نہیں! "
زیبا ورانڈے کے گول پلستر اکھڑے ستون سے کندھے کا سہارا لے کر کھڑی ہوئی تھی۔ وہ بالی کی طرف غور سے دیکھ رہی تھی۔ ایسا آج پہلی بار ہوا تھا جب بالی نے پڑھائی سے بے دلی کا اظہار کیا تھا۔ ورنہ تو بالی بڑے شوق سے دو گھنٹے کا وقفہ لے کر زیبا کے پاس روز درس لینے آتا تھا۔ اس کے حساس ضمیر کا خیال رکھتے ہوئے زیبا نے روز ایک پیالی چائے اس کی فیس مقرر کی تھی۔
زیبا پیروں کے انگوٹھوں سے چپل گھسیٹ کر مسہری پر آن بیٹھی۔ اس نے بالی کو بھی بان سے بُنی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
" کیا ہوا دل کو ؟ "
" آج میں نے کچھ باتیں پوچھنی ہیں ! "
" سوال تو کتاب میں بھی ہوتے ہیں بھئی! "
" یہ سوال کتاب میں نہیں ہیں نا بَجّو ! "
تھوڑی دیر خاموشی رہی۔ چائے کی ہلکی چسکیوں کی آواز وقت کو ایک عجب تسلسل سے پھاند رہی تھی۔
" بَجّو ! منہ بولے رشتے کیا ہوتے ہیں؟ ۔۔۔۔ ان کی اہمیت کیا ہوتی ہے؟ "
زیبا اس کے سوال پر خاموش رہی۔ شائد جواب کو اپنے ذہن میں ہی ترتیب دے رہی تھی۔ پھر زیبا نے مسہری پر ہی گاؤ تکیے سے کمر لگائی اور مسکرا کر بولی،
" منہ بولے رشتے عکس ہوتے ہیں۔ ان کی اہمیت تو بس دل میں ہوتی ہے۔ دُنیا کی نظر میں نہیں۔ "
" وہ کیوں؟ "
’’دنیا تو بس اصل کو جانتی ہے، عکس کو نہیں۔‘‘
بالی کے ماتھے پر دو لکیروں کے ابھار کے ساتھ بھنویں بھی سکڑی ہوئی تھیں، شائد وہ کہیں دور گیا ہوا تھا۔
"یعنی عکس کی کوئی اہمیت نہیں!"
" کس نے کہا اہمیت نہیں؟ ۔۔ پیارے بھائی اہمیت ہے لیکن اگر ہمارے پاس شفاف آئینہ ہو۔ کیوں کہ آئینہ نہیں ہو گا تو عکس دیکھو گے کیسے؟ کوئی شے نظر نہیں آئے گی تو اہمیت کا اندازہ کیسے ہو گا ؟ "
" ہمم!! "
ٹھوڑی ہتھیلی پر دھرے بالی پھر کہیں گُم گیا۔
اچھا چلو یہ بتاؤ ایک ہفتہ کے بعد اپنی بَجّو کی شادی پر کیا تحفہ دو گے؟
" بَجّو آپ کی شادی پر پتہ نہیں استاد آنے دے یا نہیں! "
بالی یک دم بہت اداس ہو گیا۔ زیبا نے آگے بڑھ کر اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولی،
"خود نہ آ سکے تو دعا بھیج دینا ، تیری بَجّو کو بہت ہو گی!"
پھر کچھ دیر اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ بالی کے جانے کا وقت ہوا تو چائے کی خالی پیالی اُٹھا کر وہ واپس ہوٹل روانہ ہو گیا۔ سات دن یوں گزرے کہ خبر بھی نہ ہوئی۔ جس دن ڈولی اُٹھنی تھی اس دن بالی ہوٹل والے استاد سے خاص طور پر چھٹی لے کر خوشی والے گھر پہنچ گیا۔ گھر کی دہلیز سے باہر ہی لوگوں کے جھرمٹ میں انتظار کرنے لگا۔ ابھی تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ کسی نے آواز دی،
" ڈولی صحن میں تیار ہے۔"
بالی بھی کچھ لوگوں کے ساتھ اند پہنچ گیا۔ سُرخ کپڑے ، سنہری کناری سے سجی ڈولی کے گرد چند مرد کھڑے تھے، وقت آنے پر جونہی بالی سب کے ساتھ مل کر ڈولی اٹھانے لگا تو ایک کرخت آواز نے اسے جھڑک دیا،
" او لڑکے کون ہے تو! ہمارے ہاں ڈولی صرف محرم اُٹھاتے ہیں۔ یا خدا! کیسا زمانہ آ گیا ہے۔ آنکھوں میں حیا تو رہی ہی نہیں لوگوں کے ۔۔ "
اس نے مڑ کر دیکھا تو محلے کے ایک معتبر بزرگ بھنویں اچکائے اسے جھاڑے جا رہے تھے۔ بالی گھبرا کر ایک طرف ہو گیا۔
پھر اس کے سامنے کچھ لوگوں نے ڈولی اٹھائی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ کاروانِ عروس نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
لیکن بالی اپنی ہی جگہ پر منجمد کھڑا رہا۔ جب تک کہ عکس آئینے سے اوجھل نہ ہو گیا۔
" جی استاد جی ! "
بالی سترہ سال کا نو عمر محنت کش لڑکا تھا ۔ بھلے خدو خال، وضع اور اسلوب رکھنے والا۔ وہ چائے کے ہوٹل میں کام کرتا تھا۔
" منشی جی! پان والے سے وصولی نہیں ہوئی باقی کا حساب یہ رہا ۔۔ "
اس نے اپنے پاجامے کی مخفی جیب سے تمام پونجی نکال کر منشی جی کو دی۔ پھر ہوٹل کے تھڑے پر بیٹھ کر بھبک بھرے سرکاری نل سے ہاتھ منہ دھونے لگا۔ کچھ ہی دیر میں چائے والے استاد نے اسے ایک پیالی میں چائے لا دی۔
" یہ لے! ۔۔۔ اکیس کپ ہو گئے تیرے کھاتے میں! "
اس نے پیالی سنبھالی اور ایک راستے پر چل پڑا۔ مکانوں، چار دیواریوں اور بند دکانوں کے سائے کی پناہ میں قدم ماپتا جلد ہی وہ ایک پرانے، نقش و نگار سے مزین اخروٹی دروازے کے سامنے کھڑا تھا۔ دروازے پر کندہ نقوش زندہ محسوس ہوتے تھے۔ جیسے ان کے کندہ کار ہاتھ اب تک ان کے خم دار بدن پر رواں ہوں۔ اس نے دروازے پر جو دستک دی تو ایک شگفتہ آواز نے اندر آنے کی اجازت دے دی۔ مکان کیا تھا بس برائے نام صحن اور سامنے پلستر شدہ دو کمرے تھے، جن میں سے ایک کو باورچی خانہ بنایا گیا تھا۔ ایک جانب دو بانسوں پر چمڑا چڑھا کر غسل خانہ کھڑا کر رکھا تھا۔ سامنے ہی لکڑی کی مسہری پر نفیس خد و خال والی ایک لڑکی سلائی مشین کی درگت بنانے میں مصروف تھی۔
" یا اللہ! پہیا ابھی کو جام ہونا تھا ! ۔۔۔ ماسی نوراں کے ساتھ زبان ہوئی تھی آج شام کی، بس کناریاں ہی تو باق رہ گئیں! ستیاناس! لگتا ہے بات کل پر ہی پڑ جائے گی ۔۔۔"
کوفت میں وہ خود سے ہی باتیں کرتی جا رہی تھی۔
" السلام علیکم زیبا آپی! "
" وعلیکم السلام! ۔۔ کیسا ہے آپی کا پیارا بھائی؟ "
"ٹھیک ہوں بَجّو !"
مشین ایک طرف کو سرکا کر زیبا اُٹھی اور بکھرے پرزے سمیٹنے لگی۔ سب سامان ٹھکانے لگا کر بالی کے ہاتھ سے چائے کا کپ لیا اور چسکیاں بھرنے لگی۔ زیبا نے ایک نظر بالی کے خالی ہاتھوں پر ڈالی،
" آج کتاب نہیں لائے؟ "
زیبا نے چائے کی چسکی بھرتے مسکرا کر پوچھا۔
" آپی آج میرا پڑھنے کا موڈ نہیں! "
زیبا ورانڈے کے گول پلستر اکھڑے ستون سے کندھے کا سہارا لے کر کھڑی ہوئی تھی۔ وہ بالی کی طرف غور سے دیکھ رہی تھی۔ ایسا آج پہلی بار ہوا تھا جب بالی نے پڑھائی سے بے دلی کا اظہار کیا تھا۔ ورنہ تو بالی بڑے شوق سے دو گھنٹے کا وقفہ لے کر زیبا کے پاس روز درس لینے آتا تھا۔ اس کے حساس ضمیر کا خیال رکھتے ہوئے زیبا نے روز ایک پیالی چائے اس کی فیس مقرر کی تھی۔
زیبا پیروں کے انگوٹھوں سے چپل گھسیٹ کر مسہری پر آن بیٹھی۔ اس نے بالی کو بھی بان سے بُنی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
" کیا ہوا دل کو ؟ "
" آج میں نے کچھ باتیں پوچھنی ہیں ! "
" سوال تو کتاب میں بھی ہوتے ہیں بھئی! "
" یہ سوال کتاب میں نہیں ہیں نا بَجّو ! "
تھوڑی دیر خاموشی رہی۔ چائے کی ہلکی چسکیوں کی آواز وقت کو ایک عجب تسلسل سے پھاند رہی تھی۔
" بَجّو ! منہ بولے رشتے کیا ہوتے ہیں؟ ۔۔۔۔ ان کی اہمیت کیا ہوتی ہے؟ "
زیبا اس کے سوال پر خاموش رہی۔ شائد جواب کو اپنے ذہن میں ہی ترتیب دے رہی تھی۔ پھر زیبا نے مسہری پر ہی گاؤ تکیے سے کمر لگائی اور مسکرا کر بولی،
" منہ بولے رشتے عکس ہوتے ہیں۔ ان کی اہمیت تو بس دل میں ہوتی ہے۔ دُنیا کی نظر میں نہیں۔ "
" وہ کیوں؟ "
’’دنیا تو بس اصل کو جانتی ہے، عکس کو نہیں۔‘‘
بالی کے ماتھے پر دو لکیروں کے ابھار کے ساتھ بھنویں بھی سکڑی ہوئی تھیں، شائد وہ کہیں دور گیا ہوا تھا۔
"یعنی عکس کی کوئی اہمیت نہیں!"
" کس نے کہا اہمیت نہیں؟ ۔۔ پیارے بھائی اہمیت ہے لیکن اگر ہمارے پاس شفاف آئینہ ہو۔ کیوں کہ آئینہ نہیں ہو گا تو عکس دیکھو گے کیسے؟ کوئی شے نظر نہیں آئے گی تو اہمیت کا اندازہ کیسے ہو گا ؟ "
" ہمم!! "
ٹھوڑی ہتھیلی پر دھرے بالی پھر کہیں گُم گیا۔
اچھا چلو یہ بتاؤ ایک ہفتہ کے بعد اپنی بَجّو کی شادی پر کیا تحفہ دو گے؟
" بَجّو آپ کی شادی پر پتہ نہیں استاد آنے دے یا نہیں! "
بالی یک دم بہت اداس ہو گیا۔ زیبا نے آگے بڑھ کر اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولی،
"خود نہ آ سکے تو دعا بھیج دینا ، تیری بَجّو کو بہت ہو گی!"
پھر کچھ دیر اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ بالی کے جانے کا وقت ہوا تو چائے کی خالی پیالی اُٹھا کر وہ واپس ہوٹل روانہ ہو گیا۔ سات دن یوں گزرے کہ خبر بھی نہ ہوئی۔ جس دن ڈولی اُٹھنی تھی اس دن بالی ہوٹل والے استاد سے خاص طور پر چھٹی لے کر خوشی والے گھر پہنچ گیا۔ گھر کی دہلیز سے باہر ہی لوگوں کے جھرمٹ میں انتظار کرنے لگا۔ ابھی تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ کسی نے آواز دی،
" ڈولی صحن میں تیار ہے۔"
بالی بھی کچھ لوگوں کے ساتھ اند پہنچ گیا۔ سُرخ کپڑے ، سنہری کناری سے سجی ڈولی کے گرد چند مرد کھڑے تھے، وقت آنے پر جونہی بالی سب کے ساتھ مل کر ڈولی اٹھانے لگا تو ایک کرخت آواز نے اسے جھڑک دیا،
" او لڑکے کون ہے تو! ہمارے ہاں ڈولی صرف محرم اُٹھاتے ہیں۔ یا خدا! کیسا زمانہ آ گیا ہے۔ آنکھوں میں حیا تو رہی ہی نہیں لوگوں کے ۔۔ "
اس نے مڑ کر دیکھا تو محلے کے ایک معتبر بزرگ بھنویں اچکائے اسے جھاڑے جا رہے تھے۔ بالی گھبرا کر ایک طرف ہو گیا۔
پھر اس کے سامنے کچھ لوگوں نے ڈولی اٹھائی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ کاروانِ عروس نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
لیکن بالی اپنی ہی جگہ پر منجمد کھڑا رہا۔ جب تک کہ عکس آئینے سے اوجھل نہ ہو گیا۔
آخری تدوین: