فاتح
لائبریرین
فرخ صاحب نے ضرب الامثال کے دھاگے پر "دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے" کا شعر ارسال کیا تھا جس نے مجھے یہ مکمل غزل دھونڈنے پر مہمیز کیا۔ اور انہی کا فرمان تھا کہ اسے فورآ محفل پر شیئر کیا جائے۔ لہٰذا امیر مینائی کی یہ غزل فرخ صاحب کی محبتوں کے نام۔
تند مے اور ایسے کمسِن کے لیے
ساقیا! ہلکی سی لا اِن کے لیے
جب سے بلبل تُو نے دو تنکے لیے
ٹوٹتی ہیں بجلیاں ان کے لیے
ہے جوانی خود جوانی کا سنگھار
سادگی گہنا ہے اس سِن کے لیے
ساری دنیا کے ہیں وہ میرے سوا
میں نے دنیا چھوڑ دی جن کے لیے
وصل کا دن اور اتنا مختصر
دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے
باغباں! کلیاں ہوں ہلکے رنگ کی
بھیجنی ہیں ایک کمسِن کے لیے
کون ویرانے میں دیکھے گا بہار
پھول جنگل میں کھلے کن کے لیے
سب حسیں ہیں زاہدوں کو نا پسند
اب کوئی حور آئے گی اِن کے لئے
صبح کا سونا جو ہاتھ آتا امیرؔ
بھیجتے تحفہ موذِّن کے لیے
(امیر مینائی)
ساقیا! ہلکی سی لا اِن کے لیے
جب سے بلبل تُو نے دو تنکے لیے
ٹوٹتی ہیں بجلیاں ان کے لیے
ہے جوانی خود جوانی کا سنگھار
سادگی گہنا ہے اس سِن کے لیے
ساری دنیا کے ہیں وہ میرے سوا
میں نے دنیا چھوڑ دی جن کے لیے
وصل کا دن اور اتنا مختصر
دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے
باغباں! کلیاں ہوں ہلکے رنگ کی
بھیجنی ہیں ایک کمسِن کے لیے
کون ویرانے میں دیکھے گا بہار
پھول جنگل میں کھلے کن کے لیے
سب حسیں ہیں زاہدوں کو نا پسند
اب کوئی حور آئے گی اِن کے لئے
صبح کا سونا جو ہاتھ آتا امیرؔ
بھیجتے تحفہ موذِّن کے لیے
(امیر مینائی)