امیر مینائی دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے - امیر مینائی

فاتح

لائبریرین
فرخ صاحب نے ضرب الامثال کے دھاگے پر "دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے" کا شعر ارسال کیا تھا جس نے مجھے یہ مکمل غزل دھونڈنے پر مہمیز کیا۔ اور انہی کا فرمان تھا کہ اسے فورآ محفل پر شیئر کیا جائے۔ لہٰذا امیر مینائی کی یہ غزل فرخ صاحب کی محبتوں کے نام۔


تند مے اور ایسے کمسِن کے لیے
ساقیا! ہلکی سی لا اِن کے لیے

جب سے بلبل تُو نے دو تنکے لیے
ٹوٹتی ہیں بجلیاں ان کے لیے

ہے جوانی خود جوانی کا سنگھار
سادگی گہنا ہے اس سِن کے لیے

ساری دنیا کے ہیں وہ میرے سوا
میں نے دنیا چھوڑ دی جن کے لیے

وصل کا دن اور اتنا مختصر
دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے

باغباں! کلیاں ہوں ہلکے رنگ کی
بھیجنی ہیں ایک کمسِن کے لیے

کون ویرانے میں دیکھے گا بہار
پھول جنگل میں کھلے کن کے لیے

سب حسیں ہیں زاہدوں کو نا پسند
اب کوئی حور آئے گی اِن کے لئے

صبح کا سونا جو ہاتھ آتا امیرؔ
بھیجتے تحفہ موذِّن کے لیے

(امیر مینائی)
 

فرخ منظور

لائبریرین
واہ واہ فاتح صاحب کیا خوب غزل ارسال کی ہے - بہت زیادہ شکریہ! آج پورا دن بہت اچھا گزرے گا یہ غزل پڑھ کر :)
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت شکریہ فاتح صاحب، اس غزل کیلیئے۔

فرخ صاحب نے جب شعر پوسٹ کیا تھا تو میں نے بھی اس 'کنفرم' کیا تھا :)

بہرحال اب فرخ صاحب کا دن تو اچھا گزرے گا اور میرا انتہائی برا، کس کافر کا دل کرتا ہے کام کرنے کو ایسی غزلیں پڑھ کر اور وہ بھی سوموار کی منحوس صبح۔ :(
 

فرخ منظور

لائبریرین
ہا ہا خوب کہا وارث صاحب لیکن عجیب بات ہے کہ میں اگر کوئی اچھا کلام پڑھ لوں تو مجھ میں‌ ایک عجیب توانائی آ جاتی ہے اور سب کام بہت جلد نمٹ جاتے ہیں ;)
 

فاتح

لائبریرین
وارث صاحب! میں ابھی فرخ‌صاحب سے یہی بات کر رہا تھا کہ آپ نے وہ شعر کیا پوسٹ کیا اس قدر خوبصورت غزل ہاتھ آ گئی۔ اور غزل بھی ایسی جو ابھی ابھی عمرِ بلوغت کو پہنچی ہے (اتنی بار کمسن کمسن لکھا گیا ہے);)

درست فرمایا کہ سوموار کی صبح واقعی دل نہیں چاہتا کام کا لیکن بھلا ہو اس بخار کا کہ میں نے آج چھٹی کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ محفل پر آنلائن ہوں۔ لیکن صاحب آپ نے سلیمانی ٹوپی کس چکر میں پہنی ہوئی ہے؟
 

محمد وارث

لائبریرین
ہا ہا خوب کہا وارث صاحب لیکن عجیب بات ہے کہ میں اگر کوئی اچھا کلام پڑھ لوں تو مجھ میں‌ ایک عجیب توانائی آ جاتی ہے اور سب کام بہت جلد نمٹ جاتے ہیں ;)

اور میں منٹ گننے شروع کر دیتا ہونکہ کہ چھٹی میں کتنا وقت رہ گیا ہے :)


وارث صاحب! میں ابھی فرخ‌صاحب سے یہی بات کر رہا تھا کہ آپ نے وہ شعر کیا پوسٹ کیا اس قدر خوبصورت غزل ہاتھ آ گئی۔ اور غزل بھی ایسی جو ابھی ابھی عمرِ بلوغت کو پہنچی ہے (اتنی بار کمسن کمسن لکھا گیا ہے);)

درست فرمایا کہ سوموار کی صبح واقعی دل نہیں چاہتا کام کا لیکن بھلا ہو اس بخار کا کہ میں نے آج چھٹی کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ محفل پر آنلائن ہوں۔ لیکن صاحب آپ نے سلیمانی ٹوپی کس چکر میں پہنی ہوئی ہے؟


میرا بھی دل للچانے لگا 'بخار' کیلیے، لیکن ابھی پچھلے ہی ہفتے 'بیمار' ہوا تھا چھٹی کیلیے ;)

سلیمانی ٹوپی ظفری صاحب سے ادھار لی ہوئی ہے۔ :) خیر، وہ دراصل پچھلے دنوں واپڈا والوں نے ایسی برق پاشیاں کیں کہ لاگ آؤٹ ہونے کا بھی موقع نہیں ملتا تھا سو یہ حل سوچا۔
 

فاتح

لائبریرین
اس غزل کے اکثر اشعار کے ساتھ کھلواڑ خدا جانے کس ظالم نے کیا ہے مگر بیڑہ غرق کی ہوئی غزل بھی جگجیت کی آواز میں اچھی لگ رہی ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
وصل کا دن اور اتنا مختصر
دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے

کون ویرانے میں دیکھے گا بہار
پھول جنگل میں کھلے کن کے لیے

واہ صاحب بہت ہی عمدہ غزل ہے دل خوش ہو گیا پڑھ کر۔ ویسے یہ پوری غزل آج ہی پڑھنا نصیب ہوئی ہے ورنہ اب تک تو جگجیت کی گائی ہوئی غزل پر ہی اکتفا تھا۔
 

فاتح

لائبریرین
شکریہ فاتح صاحب یہ غزل محفل میں شامل کرنے کیلئے
شکریہ ملائکہ صاحبہ! اچھا لگا یہ پڑھ کر کہ آپ کو بھی امیر مینائی کی غزل نے لطف دیا۔:)

وصل کا دن اور اتنا مختصر
دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے

کون ویرانے میں دیکھے گا بہار
پھول جنگل میں کھلے کن کے لیے

واہ صاحب بہت ہی عمدہ غزل ہے دل خوش ہو گیا پڑھ کر۔ ویسے یہ پوری غزل آج ہی پڑھنا نصیب ہوئی ہے ورنہ اب تک تو جگجیت کی گائی ہوئی غزل پر ہی اکتفا تھا۔
بہت شکریہ محمد احمد صاحب۔ جگجیت کو تو کسی نے اس غزل کے ہاتھ پاؤں توڑ کر گانے کو تھمائی ہے۔ اصل غزل کا لطف ہی الگ ہے۔
 

طارق شاہ

محفلین
غزلِ
امیرمینائی

جب سے بُلبُل نے ہیں دو تِنکے لئے
ٹوٹتی ہیں بِجلیاں اِن کے لئے

ہے جوانی خود جوانی کا سنگھار
سادگی گہنہ ہے اس سِن کے لئے

کون ویرانے میں دیکھے گا بہار
پھول جنگل میں کِھلے کن کے لئے

ساری دنیا کے ہیں وہ، میرے سوا
میں نے دُنیا چھوڑدی جن کے لئے

باغباں کلیاں ہوں ہلکے رنگ کی
بھیجنی ہے ایک کمسِن کے لئے

وصْل کا دن اور اِتنا مُختصر
دن گِنے جاتے تھے اِس دن کے لئے

صبح کا سونا، جو ہاتھ آتا امیر
بھیجتے تحفہ مُؤذّن کے لئے

امیرمینائی
 
شکریہ فاتح صاحب۔
جانے کیوں اس غزل کا مطلع سن کر ہمارے ذہن میں اعجاز حسین حضروی کی آواز (یا ان جیسی بھاری بیس والی آواز، جیسی حبیب ولی محمد ) تو گونجتی ہے لیکن دھن ذرا مختلف ہے۔ کیا ممکن ہے کہ ریڈیو پر کسی اور نے بھی یہ غزل گائی ہے؟
 

فاتح

لائبریرین
شکریہ فاتح صاحب۔
جانے کیوں اس غزل کا مطلع سن کر ہمارے ذہن میں اعجاز حسین حضروی کی آواز (یا ان جیسی بھاری بیس والی آواز، جیسی حبیب ولی محمد ) تو گونجتی ہے لیکن دھن ذرا مختلف ہے۔ کیا ممکن ہے کہ ریڈیو پر کسی اور نے بھی یہ غزل گائی ہے؟
شاید غلام علی کی آواز میں سن رکھی ہو آپ نے۔۔۔ کہیں یہ تو نہ تھی؟
 
Top