آتش دہن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے - آتش

محمد وارث

لائبریرین
خواجہ حیدر علی آتش کی ایک خوبصورت اور نمائندہ غزل پیشِ خدمت ہے۔


دہن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے
کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے

زمینِ چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

تمھارے شہیدوں میں داخل ہوئے ہیں
گل و لالہ و ارغواں کیسے کیسے

بہار آئی ہے، نشّہ میں جھومتے ہیں
مریدانِ پیرِ مغاں کیسے کیسے

نہ مڑ کر بھی بے درد قاتل نے دیکھا
تڑپتے رہے نیم جاں کیسے کیسے

نہ گورِ سکندر، نہ ہے قبرِ دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے

غم و غصہ و رنج و اندوہ و حرماں
ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے

تری کلکِ قدرت کے قربان آنکھیں
دکھائے ہیں خوش رو جواں کیسے کیسے

کرے جس قدر شکرِ نعمت، وہ کم ہے
مزے لوٹتی ہے، زباں کیسے کیسے
 

فاتح

لائبریرین
زبردست جناب۔ بہت شکریہ! آتش کی اس غزل کے مندرجہ ذیل دو اشعار تو ضرب المثل بن چکے ہیں

زمینِ چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

نہ گورِ سکندر، نہ ہے قبرِ دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
 

فرخ منظور

لائبریرین
دہن پر ہيں ان کے گماں کیسے کیسے - آتش

دہن پر ہيں ان کے گماں کیسے کیسے
کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے

زمین چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

تمہارے شہیدوں میں داخل ہوئے ہیں
گل و لالہ و ارغواں کیسے کیسے

بہار آئی ہے نشّہ میں جھومتے ہیں
مریدانِ پیرِ مغاں کیسے کیسے

تپِ ہجر کی کاہشوں نے کیے ہیں
جُدا پوست سے استخواں کیسے کیسے

نہ مڑ کر بھی بے درد قاتل نے دیکھا
تڑپتے رہے نیم جاں کیسے کیسے

نہ گورِ سکندر نہ ہے قبرِ دارا
مٹے نامیوں کے نشان کیسے کیسے

بہارِ گلستاں کی ہے آمد آمد
خوش پھرتے ہیں باغباں کیسے کیسے

دل و دیدہِ اہلِ عالم میں گھر ہے
تمہارے لئے ہیں مکاں کیسے کیسے

توجہ نے تیری ہمارے مسیحا
توانا کیے ناتواں کیسے کیسے

غم و غصہ و رنج و اندوہ و حرماں
ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے

تِری کلکِ قدرت کے قربان آنکھیں
دکھائے ہيں خوش رو جواں کیسے کیسے

کرے جس قدر شکرِ نعمت وہ کم ہے
مزے لوٹتی ہے زباں کیسے کیسے

-------- خواجہ حیدر علی آتش
 

فرخ منظور

لائبریرین
عجیب بات ہے وارث صاحب مجھے لگ رہا تھا کہ یہ غزل پوسٹ ہو چکی ہے لیکن جب میں نے گوگل پر تلاش کیا تو ملی نہیں‌ ویسے میری پوسٹ میں‌ کچھ اضافی اشعار بھی ملیں گے آپ کو - ;)
 

فاتح

لائبریرین
آج سید مرتضیٰ حسین فاضل لکھنوی کی مرتبہ کلیاتِ آتش پڑھ رہا تھا تو اس غزل کا ایک ایسا شعر نظر سے گزرا جو اب تک یہاں پوسٹ نہیں ہوا تھا:
عجب کیا چھُٹا روح سے جامۂ تن​
لُٹے راہ میں کارواں کیسے کیسے​
اور یوں یہ غزل مکمل ہوتی ہے۔ :)
 

مہ جبین

محفلین
دہن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے
کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے

زمینِ چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

بہت عمدہ
 
خواجہ حیدر علی آتش کی ایک خوبصورت اور نمائندہ غزل پیشِ خدمت ہے۔


دہن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے
کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے

زمینِ چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

تمھارے شہیدوں میں داخل ہوئے ہیں
گل و لالہ و ارغواں کیسے کیسے

بہار آئی ہے، نشّہ میں جھومتے ہیں
مریدانِ پیرِ مغاں کیسے کیسے

نہ مڑ کر بھی بے درد قاتل نے دیکھا
تڑپتے رہے نیم جاں کیسے کیسے

نہ گورِ سکندر، نہ ہے قبرِ دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے

غم و غصہ و رنج و اندوہ و حرماں
ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے

تری کلکِ قدرت کے قربان آنکھیں
دکھائے ہیں خوش رو جواں کیسے کیسے

کرے جس قدر شکرِ نعمت، وہ کم ہے
مزے لوٹتی ہے، زباں کیسے کیسے
بہت خوبصورت انتخاب
شاد رہیں
 

محمد وارث

لائبریرین
آج سید مرتضیٰ حسین فاضل لکھنوی کی مرتبہ کلیاتِ آتش پڑھ رہا تھا تو اس غزل کا ایک ایسا شعر نظر سے گزرا جو اب تک یہاں پوسٹ نہیں ہوا تھا:
عجب کیا چھُٹا روح سے جامۂ تن​
لُٹے راہ میں کارواں کیسے کیسے​
اور یوں یہ غزل مکمل ہوتی ہے۔ :)

شکریہ فاتح صاحب
 
Top