::::: قُربانی کرنے اور کروانے والوں کے بارے میں چند اہم مسائل :::::


::::: قُربانی کرنے اور کروانے والوں کے بارے میں چند اہم مسائل :::::
قُربانی کے مسائل کے بعد یہاں قُربانی کرنے اور کروانے والوں کے بارے میں چند اہم مسائل کا ذِکر کرتا ہوں ،
::::: ( ١ ) جِس شخص نے قُربانی کرنے کا اِرادہ کیا ہو ، قُربانی کرنے سے پہلے اُس شخص کا بغیر ضرورت کے اپنے جِسم سے کوئی بال کاٹنا یا اُکھیڑنا ، یا ناخن کاٹنا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حُکم کی خِلاف ورزی ہے ، اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ((( اِذَا دَخَلتِ العَشرُ وَ اَرادَ اَحَدُکُم اَن یُضَحِّیَ ، فَلا یَمَسَّ مِن شَعرِہِ وَ مِن بَشَرِہِ شَیئًا ::: جب دس دِن ( یعنی ذی الحج کے پہلے دِس دِن ) آ جائیں اور تُم میں کوئی قُربانی کرنے کا اِرادہ رکھتا ہو تو وہ اپنے بالوں اور جِسم کو مت چھوئے ))) صحیح مُسلم /حدیث ١٩٧٧ /کتاب الاضاحی /باب ٧،
بالوں اور جِسم کو مت چھوئے کا کیا مطلب ہے ، اِسی حدیث کی دوسری دو روایات جو اِس کے بعد ہی اِمام مُسلم نے نقل کی ہیں ، اِن دو روایات میں اِس حُکم کی تفصیل ملتی ہے ، یہ بھی اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہیں ایک روایت کے الفاظ ہیں ((( اِذا دخل العَشرُ وَعِندَہُ اُضحِیَّۃٌ یُرِیدُ اَن یُضَحِّیَ فلا یَاخُذَنَّ شَعرًا ولا یَقلِمَنَّ ظُفُرًا ::: جب دس دِن ( یعنی ذی الحج کے پہلے دِس دِن ) آ جائیں اور کِسی کے پاس قُربانی کے لئیے جانور ہو اور وہ اُسے قُربان کرنے کا اِرادہ رکھتا ہو تو وہ اپنے بالوں میں سے بالکل کُچھ نہ لے ( یعنی کوئی بال نہ کاٹے ) اور ہر گِز اپنے ناخُن نہ کاٹے ))) اور دوسری کے ((( اِذا رَاَیتُم ہِلَالَ ذِی الحِجَّۃِ وَاَرَادَ اَحدُکُم اَن یُضَحِّیَ فَلیُمسِک عن شَعرِہِ وَاَظفَارِہِ ::: جب تُم لوگ ذی الحج کا چاند دیکھ لو اور تُم میں سے کوئی قُربانی کا اِرادہ رکھتا ہو تو وہ اپنے بالوں اور ناخُنوں سے باز رہے )))
اِن تمام احکام کی موجودگی میں قُربانی کرنے والے کِسی بھی شخص کے لئیے اِس بات کی کوئی گُنجائش نہیں رہتی کہ وہ قُربانی کرنے سے پہلے بغیر ضرورت کے اپنے جِسم سے کوئی بال لے یا ناخُن کاٹے ، ہاں کِسی ضرورت کی صُورت میں ایسا کیا جا سکتا ہے ، ماہِ ذی الحج کے مضامین کے سلسلے کے پہلے مضمون میں ، میں نے دِین کے بُنیادی احکام میں سے جِس حُکم کی تفصیل بیان کی تھی یہ اجازت بھی اُسی قاعدے اور قانون کی بُنیاد پر ہے ، تفصیل کے لئیے اُس مضمون کو ملاحظہ فرمائیے ۔
اِس معاملے میں اور قُربانی کرنے کروانے والوں کے بارے میں چند باتیں ، فتوے عام طور پر سنائی دیتے ہیں ، اور کچھ ایسے کام کیے جاتے ہیں، کروائے جاتے ہیں ، جِن کے کرنے کی شریعت میں کوئی دلیل نہیں ، اور کئی کاموں سے روکا جاتا ہے جن سے روکنے کی شریعت میں کوئی دلیل نہیں ، آئیے ذرا مختصراً اُن کا مطالعہ کرتے چلیں ،
::::: ( ١) اگر کوئی شخص بوجہ ضرورت یا بھول یا غلطی سے بلکہ جان بوجھ کر بھی اپنے جِسم کا کوئی بال کاٹ یا اکھیڑ لے یا ناخن کاٹ لے تو اُس پر فدیہ یا جُرمانہ ہونے کا فتویٰ بلا دلیل ہے، اِیسے فتوے کی کوئی دلیل نہیں ہے ، نہ اللہ کی کتاب میں نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنّت میں ، جی ہاں اگر کِسی سے ایسا ہو گیا یا اُس نے کر لیا تو وہ توبہ کرے اور زیادہ سے زیادہ استغفار کرے اور اپنے معمول سے بڑھ کر نیکیاں کرے ۔ کیونکہ ((( فَاِنَّ الحَسَنَاتِ یُذھَبنَ السِّیاتِ ::: بے شک نیکیاں بُرائیوں کو دُور کر دیتی ہیں))) سورت ھود / آیت 114 ، یعنی اُن کے کفارے کا سبب بن کر یا نامہ اعمال میں زیادہ ہو جانے کی وجہ سے بُرائیوں پر غالب آ جاتی ہیں،
::::: ( ٢) کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص حج کے مہینے کے دوسرے تیسرے یاپہلے دس دِنوں میں سے کِسی بھی دِن قُربانی کا اِرادہ کرتا ہے ، اور اِس ارادے سے پہلے وہ اپنے بال یا ناخن کاٹ چُکا ہوتا ہے ، تو اُسے یہ کہا یا سمجھایا جاتا ہے کہ اب تُم قُربانی نہیں کر سکتے کیونکہ تُم نے چاند نکلنے کے بعد بال یا ناخن کاٹ لیئے ہیں لہذا اب تُم قُربانی نہیں کر سکتے ، یہ بھی اُوپر درج کئی گئی احادیث کے خِلاف ہے ، کیونکہ قُربانی کا ارادہ کرنے والا شخص اِس حُکم کا پابند اُس کے ارادے کے بعد ہو گا پہلے نہیں ۔
::::: ( ٣) کُچھ لوگ اپنی قُربانی کرنے کے لئیے کِسی کو اپنا وکیل بنا دیتے ہیں یا وصیت کر دیتے ہیں ، اور پھر یہ خیال کرتے ہیں کہ اب بال یا ناخن نہ کاٹنے کے حُکم کی پابندی وہ کرے گا ہم نہیں ، اور بڑے آرام سے بال ناخن اور داڑھی وغیرہ کاٹتے یا تراشتے ہیں ، اور ایسا کرنا بالکل غلط ہے کیونکہ بال یا ناخن وغیرہ نہ کاٹنے کا حُکم اُس کے لئیے جو قُربانی کر رہا ہے نہ کہ اُس کے لئیے جو اُس کی طرف سے
جانور ذبح کر رہا یا اُس کا گوشت وغیرہ تقسیم کر رہا ہے ، یہ حیلہ ہے ، جیسا کہ بنی اسرائیل مچھلیاں پکڑنے کے لئیے کیا کرتے تھے ۔
::::: ( ٤) کِسی خاندان کا بڑا جب قُربانی کا ارادہ کرے تو باقی گھر والوں کو بال یا ناخن کاٹنے یا تراشنے سے روک دینا ، یہ خیال کرتے ہوئے کہ گھر والے ہونے کی وجہ سے یہ لوگ بھی قُربانی میں شامل ہیں ، یا یہ سوچ کر کہ یہ لوگ بھی قُربانی کے کاموں میں شامل ہوں گے لہذا یہ بھی اپنے بال اور ناخن نہیں کاٹیں گے ، یہ بھی ایسا فتویٰ ہے جِس کے لئیے دین میں کوئی دلیل نہیں ۔
::::: ( ٥) قُربانی کے جانور کو کِسی میت کے ایصالِ ثواب کے لئیے خاص کرنا ۔
::::: ( ٦) قُربانی کرتے ہوئے جانور کی پیٹھ پر یا جِسم کے کِسی حصے پر ہاتھ رکھ کر یا اِس کے بغیر ہی کہنا کہ یہ قُربانی فُلان کے نام کی ہے ، اے اللہ اِس کا ثواب فُلان کو پہنچا دے اور بسا اوقات تو چھری چلانے والا صِرف اِس بات کا ہی اعلان کرتا ہے اور جانور اللہ کے نام پر ذبح کرنے کی بجائے غیر اللہ کے نام پر کاٹ دِیا جاتا ہے ، اگر بھول سے ایسا ہو تو اِنشاءَ اللہ کوئی حرج نہیں ، لیکن یہ بات آ سانی سے
مانی جانی والی نہیں کہ ذبح سے پہلے بڑے اہتمام کے ساتھ اپنی نیت کا اعلان کرنا یا کروانا تو یاد رہتا ہے مگر اللہ کا نام لینا یاد نہیں رہتا ۔ ثواب اور اجر پُہنچانا اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے ، اور وہ کِسی کے حُکم یا ارادے کا پابند نہیں ، سُبحانہُ و تعالیٰ ، اِس موضوع پر میری ایک کتاب بعنوان ''' اِیصال ثواب اور اُس کی حقیقت''' چَھپ چکی ہے ، اللہ کی عطاء کردہ توفیق سے اُس میں اِس موضوع پر کافی تحقیق موجود ہے۔
::::: ( ٧) حرام مال میں سے قُربانی کرنا ، اللہ تعالیٰ حرام مال سے دی گئی چیز کو قبول نہیں کرتا ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ((( اِنَّ اللَّہَ طیِّبٌ لا یُقبلُ اِلَّا طیِّباً ::: اللہ
پاک ہے اور پاکیزہ کے علاوہ قبول نہیں کرتا )))
صحیح مُسلم /حدیث ، ١٠١٥ /کتاب الزکاۃ /باب ١٩۔
::::: ( ٨ ) قُربانی کرنے کی مالی استطاعت ہونے کے باوجود بھی قُربانی نہ کرنا ۔
::::: ( ٩) پیسے بچانے کی خاطر یا نام کرنے کے لئیے کہ فُلان نے بھی قُربانی کی ہے جیسا تیسا جانور بھی ملے ، لے کر قُربان کر دینا ۔
::::: ( ١٠ ) سارا گوشت بانٹ دینا ، یا سارا ہی اپنے لئیے رکھ لینا ، یا صِرف اپنے خاص لوگوں میں بانٹنا خاص طور پر ایسے لوگوں میں جِنہوں نے خود بھی قُربانی کی ہوتی ہے اور غریبوں کا خیال نہ رکھنا ۔
::::: ( ١١ ) جانور قُربان کرنے کی بجائے اُسکی قیمت ادا کرنا ۔
::::: ( ١٢ ) عید کی نماز سے پہلے قُربانی کرنا ۔
::::: ( ١٣ ) بغیر کِسی شرعی عُذر کے اپنا جانور کِسی اور سے ذبح کروانا ۔
::::: ( ١٤ ) قُربانی کرنے والے کا(ذبح کرنے والے کا نہیں )عید کی نماز پڑہنے سے پہلے کھانا پینا ۔
::::: ( ۱۵ ) عید ملتے ہوئے جو الفاظ صحابہ رضی اللہ عنہم ادا کیا کرتے تھے اُن کو چھوڑ کر ایسے الفاظ ادا کرنا جِن کا نہ سُنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم میں کوئی ثبوت ہے اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی سُنّت میں نہ أئمہ کے أقوال و أفعال میں ۔
::::: ( ۱6) اِس دِن کو یا اِن دِنوں میں کِسی اور دِن کو ( یا اِن کے علاوہ سال کے کِسی بھی دِن کو ) قبرستان یا کِسی خاص قبر کی زیارت کے خاص کرنا ۔
:::: ( ۱۷ ) عید ملنے کے نام پر حلال و حرام کی تمیز ختم کر کے ، محرم نا محرم کا فرق مٹا کر ، شرم و حیا کو رُخصت کر کے ، غیرت و حمیت کا جنازہ نکال کر ، عید ملن أجتماع کرنا ، ایسی ملن پارٹیاں جِن میں سب بھائی ، بہہنیں ، دیور ، بھابھبیاں ، انکل ، آنٹیاں اور کزنز موجود ہوتے ہیں اور کِسی شرعی حد کا خیال اور لحاظ کیے بغیر ہوتے ہیں ، اور کہتے ہیں ''' پردہ تو نظروں کا ہوتا
ہے ''' گویا اِن کی نظریں پاک ہیں اور جِن پر سب سے پہلے پردہ کا حُکم نازل ہوا تھا اُن کی نظریں پاک نہ تھیں ، کُچھ اِن سے بھی زیادہ مضبوط دلیل رکھتے ہیں اور یہ کہتے ہوئے سُنائی دیتے ہیں کہ ''' دِل صاف ہونے چا ہِیں ''' گویا اِن کے دِل تو صاف ہیں اور جِن پر سب سے پہلے پردہ کا حُکم نازل ہوا تھا اُن کے دِل صاف نہ تھے ، اِنِّا لِلِّہِ و اِنَّا اِلیہِ راجِعُونَ ، و اللَّہُ المُستعَانُ ۔

قارئینِ محترم مندرجہ بالا غلطیاں بہت میں سے چند ہیں صرف اِن کا ذِکر اِس لیے کیا گیا ہے یہ بہت عام نظر آتی ہیں ، اِن کو سمجھ کر اِن کی اصلاح کیجیے اگر کِسی کو اِن باتوں کے بارے میں کوئی مزید وضاحت درکار ہو تو بِلا تردد طلب فرمائیے ، مُجھے کِسی بھی مُسلمان کی راہنمائی کر کے بہت خوشی ہوتی ہے ، اور بہت کُچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے ، اور یہ سب اللہ تبارک و تعالیٰ کی عطاءَ کردہ توفیق سے ہے ، اللہ تعالیٰ ہمارے نیک أعمال قبول فرمائے اور ہمارے گُناہ معاف فرمائے ۔
کتاب ’’’’ عمرہ اور حج رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے طریقے پر ‘‘‘‘ سے ماخوذ،
کتاب کا برقی نُسخہ یہاں سے اتارا جا سکتا ہے ،
4shared.com - document sharing - download
umra and haj _V_2_Col_stmpd.pdf
http://s2.orbitfiles.com/index.php? link=3649844243&sid=35f314fd4c1f893665aa39602445ab30&force=1
قُربانی کرنے اور کروانے کے بارے میں یہ چند عام مسائل تھے جِن کی طرف توجہ کروانا ضروری محسوس ہوا تھا ، اِس کے بعد عید ، اور نمازِ عید کے بارے میں کچھ بینادی مسائل بیان کروں گا ،
نمازِ عید اور عید کے بارے میں کافی معلومات اور مسائل رمضان کے آخری دِنوں میں ارسال کر چکا ہوں ، جو مندرجہ ذیل راوبط پر مُیسر ہیں ،
http://forums.com.pk/showthread.php?t=6010
السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ، طلبگارِ دُعاء ، عادِل سُہیل ظفر ۔
 
Top