مقدس
لائبریرین
ہمارے ایک بڑے بھائی ہیں۔۔ ویسے ہیں تو بڑے لیکن خود کو ابھی جوانوں میں شمار کرتے ہیں۔جبکہ ان کی باتوں اورشاعری کے ذوق سے ایسا لگتا ہے کہ ان کا تعلق کسی بہت ہی پرانے شاعر گھرانے سے ہو۔۔ جب دیکھو سفید ململ کا کرتا، چوڑی دار پاجامہ پہنے ، سر پر ٹوپی جمائےمنہ میں پان رکھے دیوان غالب کو ہاتھ میں تھامے شعر رٹنے میں مصروف رہتے ہیں۔ اور اس انتظار میں کہ کب کوئی ہاتھ آیا اور یہ سرکار شروع۔ اکثر سننے میں آیا ہے کہ لوگ ان سے بات کرتے ہوئے گھبراتے ہیں بہت۔۔ ارے نہیں ۔۔ آپ سمجھے نہیں ۔۔ یہ خود تو اتنے ڈراونے نہیں ہیں لیکن ہاتھ لگنے پر ان کا دیوان غالب کھل جاتا ہے۔
ان کا شکار ہونے والے اس بات پر شکر ادا کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ موصوف ابھی خود صاحب دیوان نہیں ہوئے۔
جناب غالب کے تخلص کے ہم وزن اپنا تخلص رکھتے ہیں اور چچا کے اشعار با حق بھتیجگی ہتھا کر اپنا تخلص چسپاں کر کے سناتے پھرتے ہیں۔ یہ نہیں بلکہ موصوف نے اپنی گرل فرینڈ کا نام بھی چچا کے تخلص کے ہم وزن رکھا ہے تاکہ وہ بھی چچا کے ورثے سے اسی طور پر استفادہ کر سکیں جیسے ذات گرامی کرتی آئی ہے
ایک بار ان سے کسی نے پوچھا کہ بھائی صاحب! آپ تو شاعری کی سوجھ بوجھ رکھتے ہو۔ ایک بات آج تک ہمیں سمجھ میں نہ آئی کہ یہ شاعر حضرات ہر دوسرے شعر میں شراب کو کہاں سے لے آتے ہیں۔
بھائی صاحب نے سر اٹھایا اور کہا
لُطفِ مے تجھ سے کیا کہوں زاہد
ہائے کم بخت تُو نے پی ہی نہیں
لیکن جہاں تک بات ہےکہ شعرا کے اصل شراب پینے کی تو غیر شعرا بھی اسی تناسب سے شرابی ہیں جس قدر تناسب سے شعرا۔ اور وہ صاحب اپنا سا منہ لے کے رہ گئے کہ ہم نے تو بس اپنی تسلی کے لیے ایک سوال کیا تھا پر نہ جی ہمارے بھائی صاحب کو بات کا سیدھا جواب دینا کم ہی آتا ہے۔۔
ایک بار کچھ یوں ہوا کہ ہمارے بڑے بھیا نے ایک شعر پڑھ لیا
وہ کہتے ہیں پرہن گیا کس غضب میں
تسلی مجھے دے کے پچھتا رہے ہیں
پہلے تو ساری ڈکشنریوں کا کھنگالا لیکن "پرہن " کا مطلب سمجھ نہ آیا اور لگے پوچھنے صاحب پوسٹ سے کہ بھائی شاعری تو اچھی ہے ذرا "پرہن" کا مطلب تو سمجھائیے لیکن محفل میں یہ جو اپنی شاعری کا اتنا رعب جما چکے تھے اس کے باعث ان کی بات ماننے کو کوئی تیار نہ ہوا کہ ان کی سمجھ میں ککھ نہیں آیا ہے۔۔۔ اب جاننے والے کیا جانیں کہ موصوف اکثر اوقات ڈکشنری کا استعمال کرتے ہیں۔۔ بس تھک ہا رکر بولے "قبلہ! یہ آپ کا حسنِ ظن ہے کم از کم میری ذات کے متعلق۔۔۔ اس بار واقعی ہمیں خود معلوم نہیں کہ پرہن کا کیا مطلب ہے۔۔۔ خیر امی کو فون کرتا ہوں اور ان سے معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ "
ایک بار غلطی سے ہم ان سے پوچھ بیٹھے کہ "بڑے بھیا! ہم کچھ لکھنا چاہتے ہیں ، کسی کو برا تو نہیں لگے گا۔ آگے سے یہ سننے کے بجائے کہ بیٹا! کوئی ناراض نہیں ہوتا۔۔ ہمیں یہ سننے کو ملا کہ بیٹا جی! آپ غلط بندے سے پوچھ رہے ہو ۔۔ ہم تو آبیل مجھے مار کی آپ مثال ہیں یعنی پنگا لینے والوں سے ہیں۔۔ تب سے ہم نے سوچ لیا تھا کہ ان سے مشورہ نہیں لینا لیکن کیا کریں کہ بھاگتے تب بھی انہی کی طرف ہیں۔۔
کسی نے ان سے سے پوچھا کہ بڑے بھیا! آپ کہاں سے ہیں۔ تو انہوں نے اس کا سادہ لفظوں میں جواب دینے کے بجائے اپنی ازلی غالبانہ اردو میں یہ پتا دے فرمایا "مقامِ ترکِ حجاب و وداعِ تمکیں" تب سے اس کو ڈھونڈنے میں وہ یہاں سے وہاں کے چکر کاٹ رہے ہیں لیکن ابھی تک ان کا اصل ٹھکانہ دریافت نہ کر سکے۔ گمان ہے کہ وہ اپنا اصل پتا بتانے سے ڈرتے ہیں کیونکہ جو حال انہوں نے لوگوں کا شعر سنا سنا کرکیا ہے۔۔ اصل پتا جاننے کے بعد ان کے ساتھ کچھ بھی کیا جائے وہ کم ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
بڑے بھیا اکثر "ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے" کی تفسیر بنے نظر آتے ہیں۔۔ ایک بار ہم نے ان سے پوچھا کہ بڑے بھیا ایسی کون سی خواہشیں ہیں جو پوری نہیں ہوئیں تو آگے سےجواب آیا کہ "حسرت ان غنچوں پہ جو بن کھلے مرجھا گئے" ہم نے پوچھا بھیا ہوا کیا ہے۔۔۔ کچھ تو بتائیے تو گھور کر دیکھا اور جواب آیا ۔۔
ہے کچھ ایسی ہی بات جو ،چُپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی
ہم نے تب بھی ہمت نہیں ہاری اور بولے بھیا آپ ہم سے اپنے دل کی بات کر سکتے ہیں تو ایک آہ بھر کر بولے
جب توقع ہی اٹھ گئی غالب
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی
لیکن جو سوال پوچھا تھا۔۔ اس کا آج تک کوئی جواب نہیں ملا۔۔
ایک بار کسی نے ہمت کرکے ان سے پوچھ ہی لیا کہ بھائی صاحب! عمر کے اس حصے میں بھی جب بالوں میں سفیدی آ چکی ، آپ سرخ رنگ پر فریفتہ ہیں تو بڑے بھیا نے سر اٹھا کر صاحب سوال کی طرف دیکھا اورآہ بھر کر بولے
ظاہر میں ہم فریفتہ حُسنِ بُتاں کے ہیں
پر کیا کہیں نگاہ میں جلوے کہاں کے ہیں؟
میں بارہ محبتیں کر چکا ہوں اور اسی حیاتِ طیبہ میں مزید اٹھارہ عشق فرمانے کا ارادہ ہے۔ ان شاء اللہ
ڈراؤنے بھیا کی طرح بڑے بھیا کو بھی بال بڑھانے کا شوق شروع سے ہی تھا۔۔ لیکن کیا کریں ان کی قسمت ایک دن جب بڑے بھیا اپنی ہی مستی میں یہ گاتے ہوئے "اڑیں جب جب زلفیں تیری ، کنواریوں کا دل مچلے جند میری اے" اپنے بابا کے ہاتھ لگ گئے جہنوں نے ان کی تب ایک نہ سنی اور کان سے پکڑ کر سیدھا نائی کی دکان پر جا بٹھایا اور بڑے بھیا کے منہ بسوڑنے کے باوجود استرا پھیروا ہی دیا۔
اس لیے آج کل یہ شعر گنگناتے نظر آتے ہیں
زلف دراز مانگ کر لائے تھے چار گز
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
اب پتا نہیں یہ انتظار کس کا تھا کہ ختم ہونے کو ہی نہ آیا۔۔ اور زلفوں کا یہ حال ہو گیا۔۔
موصوف کی بدمزاجی کا یہ عالم ہے کہ سر عام اپنے پروفائل میں اتنا بڑا بدمزاج کا اشتہار لگائے پھرتے ہیں کچھ عرصہ قبل ہم نے کہا بڑے بھیا آپ اور بدمزاج نہیں تو۔۔۔ گویا ہوئے، نہیں بچے یہ لوگوں کو دور رکھنے کا بہترین حربہ ہے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ آپ کہاں کے غالب ہوئے جو عالم بالا سے ملاقات کے لیے تشریف لائے ہیں اور لوگ دھرا دھر ملاقات کا شرف حاصل کرنے کے لیے ہجوم لگائے بیٹھے ہیں۔
ایک بار اچانک بڑے بھیا کی طرف ہمارا جانا ہوا۔۔ تو کیا دیکھتے ہیں کہ بڑے بھیا کلف لگے سفید کرتہ پاجامہ میں سر پر ٹوپی رکھے باورچی خانے میں انڈہ فرائی کرنے پریکٹس کرتے پائے گئے۔۔۔ (پریکٹس اس لئے کیوں کہ شنید ہے کہ جناب کو کچن میں صرف دو ڈشیز پر اتھارٹی ہے، ابلا انڈہ اور نصف ابلا انڈہ) خیر! موصوف ایک دم سے ہمیں دیکھ کر ہکا بکا رہ گئے اور محجوبانہ انداز میں بولے کہ "ہم ذرا دیکھ رہے تھے کہ اگر غالب چاچا ہوتے تو انڈہ کیسے فرائی کرتے" ابھی یہ الفاظ منہ ہی میں تھے کہ پیچھے سے آواز آئی۔۔، بابا! بابا! آپ نے ابھی تک میرے لیے انڈہ فرائی نہیں کیا۔۔ یو چیٹر۔۔۔ ۔۔۔ یو لوزر۔۔۔ ۔۔۔ ہم حیران کہ محفل کی یہ بارعب شخصیت، جن سے بات کرتے ہوئے لوگ گھبراتے ہیں۔۔ جن کی بدمزاجی کے قصے عام ہیں ۔۔ کس طرح بھیگی بلی۔۔۔ نہیں نہیں بھیگے بلے بنے اپنی چھوٹی سی گڑیا کے سامنے کھڑے ہیں ۔۔ اور ایک دم کچن سے باہر یہ کہتے ہوئے نکلے "بابا کی سویٹ ہارٹ، میرا بیٹا! بابا ابھی بناتے ہیں ناں آپ کے لیے انڈہ۔۔۔ واپس آکر مسکین صورت بھیگے بلے نے اپنا ہاتھ فرائنگ پین کی طرف بڑھایا ہی تھا تبھی وہ سوئیٹی گڑیا دوڑ کر اپنے بابا سے لپٹ گئی اور کچن میں صدا گونجنے لگی۔۔۔ "مائی ڈارلنگ بابا آئی لو یو۔۔۔ یو آر دا سوئیٹیسٹ بابا ان دس ورلڈ"
بڑے بھیا نے ہمیں جلدی جلدی سے باہر نکالا تاکہ جو تھوڑا بہت امپریشن بنا تھا ۔۔ وہ قائم رہے لیکن اب ان کو یہ کون بتاتا کہ ہم بھی آخر ان کے ٹوئن ہونے کا اعزاز رکھتے ہیں۔۔ اور جانتے ہیں کہ چاکلیٹ کا لالچ دے کر انہوں نے اپنی سوئیٹو سے جو کہلوایا تھا۔۔ وہ ہم نے بھی سن لیا تھا۔۔ پر ہم نے بڑے بھیا کا راز فاش نہ کرنے کا ارادہ کیا۔۔۔ اور وہاں سے بھاگ نکلے
ان کا شکار ہونے والے اس بات پر شکر ادا کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ موصوف ابھی خود صاحب دیوان نہیں ہوئے۔
جناب غالب کے تخلص کے ہم وزن اپنا تخلص رکھتے ہیں اور چچا کے اشعار با حق بھتیجگی ہتھا کر اپنا تخلص چسپاں کر کے سناتے پھرتے ہیں۔ یہ نہیں بلکہ موصوف نے اپنی گرل فرینڈ کا نام بھی چچا کے تخلص کے ہم وزن رکھا ہے تاکہ وہ بھی چچا کے ورثے سے اسی طور پر استفادہ کر سکیں جیسے ذات گرامی کرتی آئی ہے
ایک بار ان سے کسی نے پوچھا کہ بھائی صاحب! آپ تو شاعری کی سوجھ بوجھ رکھتے ہو۔ ایک بات آج تک ہمیں سمجھ میں نہ آئی کہ یہ شاعر حضرات ہر دوسرے شعر میں شراب کو کہاں سے لے آتے ہیں۔
بھائی صاحب نے سر اٹھایا اور کہا
لُطفِ مے تجھ سے کیا کہوں زاہد
ہائے کم بخت تُو نے پی ہی نہیں
لیکن جہاں تک بات ہےکہ شعرا کے اصل شراب پینے کی تو غیر شعرا بھی اسی تناسب سے شرابی ہیں جس قدر تناسب سے شعرا۔ اور وہ صاحب اپنا سا منہ لے کے رہ گئے کہ ہم نے تو بس اپنی تسلی کے لیے ایک سوال کیا تھا پر نہ جی ہمارے بھائی صاحب کو بات کا سیدھا جواب دینا کم ہی آتا ہے۔۔
ایک بار کچھ یوں ہوا کہ ہمارے بڑے بھیا نے ایک شعر پڑھ لیا
وہ کہتے ہیں پرہن گیا کس غضب میں
تسلی مجھے دے کے پچھتا رہے ہیں
پہلے تو ساری ڈکشنریوں کا کھنگالا لیکن "پرہن " کا مطلب سمجھ نہ آیا اور لگے پوچھنے صاحب پوسٹ سے کہ بھائی شاعری تو اچھی ہے ذرا "پرہن" کا مطلب تو سمجھائیے لیکن محفل میں یہ جو اپنی شاعری کا اتنا رعب جما چکے تھے اس کے باعث ان کی بات ماننے کو کوئی تیار نہ ہوا کہ ان کی سمجھ میں ککھ نہیں آیا ہے۔۔۔ اب جاننے والے کیا جانیں کہ موصوف اکثر اوقات ڈکشنری کا استعمال کرتے ہیں۔۔ بس تھک ہا رکر بولے "قبلہ! یہ آپ کا حسنِ ظن ہے کم از کم میری ذات کے متعلق۔۔۔ اس بار واقعی ہمیں خود معلوم نہیں کہ پرہن کا کیا مطلب ہے۔۔۔ خیر امی کو فون کرتا ہوں اور ان سے معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ "
ایک بار غلطی سے ہم ان سے پوچھ بیٹھے کہ "بڑے بھیا! ہم کچھ لکھنا چاہتے ہیں ، کسی کو برا تو نہیں لگے گا۔ آگے سے یہ سننے کے بجائے کہ بیٹا! کوئی ناراض نہیں ہوتا۔۔ ہمیں یہ سننے کو ملا کہ بیٹا جی! آپ غلط بندے سے پوچھ رہے ہو ۔۔ ہم تو آبیل مجھے مار کی آپ مثال ہیں یعنی پنگا لینے والوں سے ہیں۔۔ تب سے ہم نے سوچ لیا تھا کہ ان سے مشورہ نہیں لینا لیکن کیا کریں کہ بھاگتے تب بھی انہی کی طرف ہیں۔۔
کسی نے ان سے سے پوچھا کہ بڑے بھیا! آپ کہاں سے ہیں۔ تو انہوں نے اس کا سادہ لفظوں میں جواب دینے کے بجائے اپنی ازلی غالبانہ اردو میں یہ پتا دے فرمایا "مقامِ ترکِ حجاب و وداعِ تمکیں" تب سے اس کو ڈھونڈنے میں وہ یہاں سے وہاں کے چکر کاٹ رہے ہیں لیکن ابھی تک ان کا اصل ٹھکانہ دریافت نہ کر سکے۔ گمان ہے کہ وہ اپنا اصل پتا بتانے سے ڈرتے ہیں کیونکہ جو حال انہوں نے لوگوں کا شعر سنا سنا کرکیا ہے۔۔ اصل پتا جاننے کے بعد ان کے ساتھ کچھ بھی کیا جائے وہ کم ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
بڑے بھیا اکثر "ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے" کی تفسیر بنے نظر آتے ہیں۔۔ ایک بار ہم نے ان سے پوچھا کہ بڑے بھیا ایسی کون سی خواہشیں ہیں جو پوری نہیں ہوئیں تو آگے سےجواب آیا کہ "حسرت ان غنچوں پہ جو بن کھلے مرجھا گئے" ہم نے پوچھا بھیا ہوا کیا ہے۔۔۔ کچھ تو بتائیے تو گھور کر دیکھا اور جواب آیا ۔۔
ہے کچھ ایسی ہی بات جو ،چُپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی
ہم نے تب بھی ہمت نہیں ہاری اور بولے بھیا آپ ہم سے اپنے دل کی بات کر سکتے ہیں تو ایک آہ بھر کر بولے
جب توقع ہی اٹھ گئی غالب
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی
لیکن جو سوال پوچھا تھا۔۔ اس کا آج تک کوئی جواب نہیں ملا۔۔
ایک بار کسی نے ہمت کرکے ان سے پوچھ ہی لیا کہ بھائی صاحب! عمر کے اس حصے میں بھی جب بالوں میں سفیدی آ چکی ، آپ سرخ رنگ پر فریفتہ ہیں تو بڑے بھیا نے سر اٹھا کر صاحب سوال کی طرف دیکھا اورآہ بھر کر بولے
ظاہر میں ہم فریفتہ حُسنِ بُتاں کے ہیں
پر کیا کہیں نگاہ میں جلوے کہاں کے ہیں؟
میں بارہ محبتیں کر چکا ہوں اور اسی حیاتِ طیبہ میں مزید اٹھارہ عشق فرمانے کا ارادہ ہے۔ ان شاء اللہ
ڈراؤنے بھیا کی طرح بڑے بھیا کو بھی بال بڑھانے کا شوق شروع سے ہی تھا۔۔ لیکن کیا کریں ان کی قسمت ایک دن جب بڑے بھیا اپنی ہی مستی میں یہ گاتے ہوئے "اڑیں جب جب زلفیں تیری ، کنواریوں کا دل مچلے جند میری اے" اپنے بابا کے ہاتھ لگ گئے جہنوں نے ان کی تب ایک نہ سنی اور کان سے پکڑ کر سیدھا نائی کی دکان پر جا بٹھایا اور بڑے بھیا کے منہ بسوڑنے کے باوجود استرا پھیروا ہی دیا۔
اس لیے آج کل یہ شعر گنگناتے نظر آتے ہیں
زلف دراز مانگ کر لائے تھے چار گز
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
اب پتا نہیں یہ انتظار کس کا تھا کہ ختم ہونے کو ہی نہ آیا۔۔ اور زلفوں کا یہ حال ہو گیا۔۔
موصوف کی بدمزاجی کا یہ عالم ہے کہ سر عام اپنے پروفائل میں اتنا بڑا بدمزاج کا اشتہار لگائے پھرتے ہیں کچھ عرصہ قبل ہم نے کہا بڑے بھیا آپ اور بدمزاج نہیں تو۔۔۔ گویا ہوئے، نہیں بچے یہ لوگوں کو دور رکھنے کا بہترین حربہ ہے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ آپ کہاں کے غالب ہوئے جو عالم بالا سے ملاقات کے لیے تشریف لائے ہیں اور لوگ دھرا دھر ملاقات کا شرف حاصل کرنے کے لیے ہجوم لگائے بیٹھے ہیں۔
ایک بار اچانک بڑے بھیا کی طرف ہمارا جانا ہوا۔۔ تو کیا دیکھتے ہیں کہ بڑے بھیا کلف لگے سفید کرتہ پاجامہ میں سر پر ٹوپی رکھے باورچی خانے میں انڈہ فرائی کرنے پریکٹس کرتے پائے گئے۔۔۔ (پریکٹس اس لئے کیوں کہ شنید ہے کہ جناب کو کچن میں صرف دو ڈشیز پر اتھارٹی ہے، ابلا انڈہ اور نصف ابلا انڈہ) خیر! موصوف ایک دم سے ہمیں دیکھ کر ہکا بکا رہ گئے اور محجوبانہ انداز میں بولے کہ "ہم ذرا دیکھ رہے تھے کہ اگر غالب چاچا ہوتے تو انڈہ کیسے فرائی کرتے" ابھی یہ الفاظ منہ ہی میں تھے کہ پیچھے سے آواز آئی۔۔، بابا! بابا! آپ نے ابھی تک میرے لیے انڈہ فرائی نہیں کیا۔۔ یو چیٹر۔۔۔ ۔۔۔ یو لوزر۔۔۔ ۔۔۔ ہم حیران کہ محفل کی یہ بارعب شخصیت، جن سے بات کرتے ہوئے لوگ گھبراتے ہیں۔۔ جن کی بدمزاجی کے قصے عام ہیں ۔۔ کس طرح بھیگی بلی۔۔۔ نہیں نہیں بھیگے بلے بنے اپنی چھوٹی سی گڑیا کے سامنے کھڑے ہیں ۔۔ اور ایک دم کچن سے باہر یہ کہتے ہوئے نکلے "بابا کی سویٹ ہارٹ، میرا بیٹا! بابا ابھی بناتے ہیں ناں آپ کے لیے انڈہ۔۔۔ واپس آکر مسکین صورت بھیگے بلے نے اپنا ہاتھ فرائنگ پین کی طرف بڑھایا ہی تھا تبھی وہ سوئیٹی گڑیا دوڑ کر اپنے بابا سے لپٹ گئی اور کچن میں صدا گونجنے لگی۔۔۔ "مائی ڈارلنگ بابا آئی لو یو۔۔۔ یو آر دا سوئیٹیسٹ بابا ان دس ورلڈ"
بڑے بھیا نے ہمیں جلدی جلدی سے باہر نکالا تاکہ جو تھوڑا بہت امپریشن بنا تھا ۔۔ وہ قائم رہے لیکن اب ان کو یہ کون بتاتا کہ ہم بھی آخر ان کے ٹوئن ہونے کا اعزاز رکھتے ہیں۔۔ اور جانتے ہیں کہ چاکلیٹ کا لالچ دے کر انہوں نے اپنی سوئیٹو سے جو کہلوایا تھا۔۔ وہ ہم نے بھی سن لیا تھا۔۔ پر ہم نے بڑے بھیا کا راز فاش نہ کرنے کا ارادہ کیا۔۔۔ اور وہاں سے بھاگ نکلے