نیرنگ خیال
لائبریرین
خود کو کردار سے اوجھل نہیں ہونے دیتا
وہ کہانی کو مکمل نہیں ہونے دیتا
سنگ بھی پھینکتا رہتا ہے کہیں ساحل سے
اور پانی میں بھی ہلچل نہیں ہونے دیتا
کاسہء خواب سے تعبیر اُٹھا لیتا ہے
پھر بھی آبادی کو جنگل نہیں ہونے دیتا
دھوپ میں چھاؤں بھی رکھتا ہے سروں پر ، لیکن
آسماں پر کہیں بادل نہیں ہونے دیتا
ابر بھی بھیجتا رہتا ہے سدا بستی میں
گلی کوچوں میں بھی جل تھل نہیں ہونے دیتا
روز اک لہر اُٹھا لاتا ہے بے خوابی کی
اور پلکوں کو بھی بوجھل نہیں ہونے دیتا
پھول ہی پھول کھلاتا ہے سرِ شاخِِ وُجود
اور خوشبو کو مسلسل نہیں ہونے دیتا
عالمِ ذات میں درویش بنا دیتا ہے
عشق انسان کو پاگل نہیں ہونے دیتا