فاتح
لائبریرین
ڈال دیا تھا میں نے بھی اک خواب سوالی جھولی میں
اپنے ہاتھوں میں پھیلی رہ جانے والی جھولی میں
آگ اچانک بھڑک اٹھی تھی رات کی کالی جھولی میں
فاتحِ عالم! پڑی ہوئی تھی ہوس بھی سالی جھولی میں
کس کی دعاؤں کا تھا ثمر وہ شعلہ جوالہ شہوت کا
ہائے کہاں سے آئی اتنی سندر گالی جھولی میں
دونوں جہاں کی مالک و ملکہ! بس میں اتنا جانتا ہوں
تیرا خالی پن ہی بھرا ہے میری خالی جھولی میں
سینے کے تکیے پر سر تھا قدموں میں تہوار بِچھے
ہولی کے سب رنگ تھے من میں اور دیوالی جھولی میں
سانسیں لے کر جانے والا جاتے جاتے چھوڑ گیا
چند اک بال مرے کالر پر اور اک بالی جھولی میں
ہفت افلاک نگوں تھے اس شب، دو اجسام زمیں پر خلط
قطب جنوبی جیب میں تھا اور قطب شمالی جھولی میں
یہ تو دیکھ خدا نے تجھ کو دوست دیے ہیں کیسے کیسے
ایک محبت چھینی تجھ سے کتنی ڈالی جھولی میں
فاتح الدین بشیر