فاتح
لائبریرین
خاکسار کے متعلق ایک دھاگے میں سارہ خان نے اپنے تبصرے میں لکھا تھا کہ یہ غزل فاتح بھائی نے مکمل نہیں پڑھوائی۔۔۔ لہٰذا اسے یہاں ارسال کر رہا ہوں۔
عادتاً وحشتوں میں جیتا ہوں
یاد کی تُربتوں میں جیتا ہوں
میں غریب الوطن، غریب مزاج
کیا عجب غربتوں میں جیتا ہوں
بھولنا تجھ کو میرے بس میں نہیں
کہنے کو جرّاتوں میں جیتا ہوں
شام کنجِ قفس میں، صبح بہ دار
جبر کی ہجرتوں میں جیتا ہوں
جان کر تیرے نقشِ پا منزل
خاک ہوں، راستوں میں جیتا ہوں
ضربِ نفیِ وجود و عشق ہوں میں
گویا میں مثبتوں میں جیتا ہوں
کھینچے جاتا ہوں میں عدم کا وجود
عارضی حالتوں میں جیتا ہوں
موت ہے انتہائے ہجر مگر
جینے کی ذلّتوں میں جیتا ہوں
یاد کی تُربتوں میں جیتا ہوں
میں غریب الوطن، غریب مزاج
کیا عجب غربتوں میں جیتا ہوں
بھولنا تجھ کو میرے بس میں نہیں
کہنے کو جرّاتوں میں جیتا ہوں
شام کنجِ قفس میں، صبح بہ دار
جبر کی ہجرتوں میں جیتا ہوں
جان کر تیرے نقشِ پا منزل
خاک ہوں، راستوں میں جیتا ہوں
ضربِ نفیِ وجود و عشق ہوں میں
گویا میں مثبتوں میں جیتا ہوں
کھینچے جاتا ہوں میں عدم کا وجود
عارضی حالتوں میں جیتا ہوں
موت ہے انتہائے ہجر مگر
جینے کی ذلّتوں میں جیتا ہوں
فاتح الدین بشیرؔ